ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ابلیس کی سازش کا پردہ ان الفاظ میں چاک کیا تھا کہ وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روح محمد اس کے بدن سے نکال دو اغیار ایک زمانے سے شیطان کی اس ناپاک خواہش کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کوشش میں وہ کیا کچھ نہیں کر بیٹھے لیکن امت محمدی کے بدن سے روح محمد کو نکالنے کا یہ خواب ، خواب ہی رہا اور وہ اس میں قیامت تک کامیاب نہیں ہو سکیں گے ان شاءاللہ عزوجل۔ دشمنوں کی اس ناکامی کی بنیادی وجہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی وہ محبت ہے جو اس امت کی گُھٹی میں ڈال دی گئی ہے۔ اور چونکہ ذکر سے محبت پیدا ہوتی ہے تو لائق صد تحسین و مبارک باد ہیں وہ لوگ کہ جو آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے لے کر اب تک اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھاتے رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ان شاءاللہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا کیونکہ اس کو "ورفعنا لک ذکرک" کی خدائی تائید حاصل ہے۔۔۔ اگرچہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ذکر مبارک اور آپ سے جُڑے حالات و واقعات پر ہمارے پاس متقدمین اور متاخرین علماء کرام کی تحریروں کا ایک بحر ذخار موجود ہے لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کے پاس مطالعہ کتب کے لیے وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ خاص طور پر اس موضوع پر کتب بینی تو کافی عدم توجہی کا شکار ہے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ مطالعہ کتب کے دوران جب آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا ذکر خیر ہماری آنکھوں کو طراوٹ اور دل کو ٹھنڈک و فرحت عطا کرے تو ان اقتباسات کو اس دھاگے کے ذریعے آپ احباب کے ساتھ شیئر کر کے آپ کو بھی ان رحمتوں اور برکتوں میں حصہ دار بنایا جائے کہ جب عندالذکرالصالحین تنزل الرحمۃ (جہاں صالحین کا ذکر ہوتا ہے وہاں اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے) کی خوشخبری موجود ہے تو جہاں ذکر سیدالمرسلین و رحمۃ للعالمین کا ہو گا وہاں رحمتوں اور برکتوں کے نزول کا عالم کیا ہو گا۔ اور کشتگان جمال مصطفٰے ﷺ کے نزدیک تو معاملہ یوں ہے کہ جس میں ہو ترا ذکر وہی بزم ہے رنگیں جس میں ہو ترا نام وہی بات حسیں ہے ۔۔۔ (س سلسلے کا آغاز امام عبدالرحمٰن ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الوفا باحوال المصطفٰے ﷺ سے کرنے کا ارادہ ہے۔۔۔ وباللہ التوفیق۔)
حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ہم رسالتمآب علیہ افضل الصلوٰۃ کے ساتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ میرے پاس ایک چھوٹی سی بکری تھی جو اچھی موٹی تازی تھی ، میں نے سوچا کہ کتنا ہی اچھا ہو اگر ہم اس کو ذبح کر کے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کریں۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر میں جو تھوڑے بہت جو پڑے ہیں ان کو پیس کر روٹیاں تیار کرے ۔ چنانچہ اس نے روٹیاں تیار کیں اور میں نے اس بکری کو ذبح کیا اور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھُونا۔ جب شام ہوئی اور سید عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھر لوٹنے کا ارادہ فرمایا اور ہمارا معمول یہی تھا کہ دن کو خندق کھودتے اور شام ہوتی تو گھروں کو لوٹتے۔ الغرض میں نے اس وقت نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ، یا رسول اللہ! میں نے آپ کے لیے ایک چھوٹی سی بکری ذبح کر کے اس کا سالن تیار کیا ہے اور تھوڑے جو تھے جن کی روٹی بھی پکائی ہے۔ لہٰذا اس امر کا متمنی اور آرزو مند ہوں کہ رسول خدا علیہ التحیۃ والثنا میرے ہاں قدم رنجہ فرمائیں اور دل میں خیال یہی تھا کہ آپ اکیلے تشریف لائیں ۔ بہرحال آپ نے میری درخواست قبول فرما لی اور تشریف آوری کا وعدہ فرما لیا۔ پھر ایک شخص کو حکم دیا کہ بلند آواز سے اعلان کرے کہ تمام لوگ حضرت جابر کے گھر رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلیں ۔ میں نے وہ اعلان سنا تو کہا ، انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان تشریف لائے اور آپ بیٹھ گئے تو جو کچھ پکا تھا حاضر خدمت کر دیا گیا۔ آپ نے دعائے برکت فرمائی، بسم اللہ پڑھی اور تناول فرمایا اور دوسرے حضرات گروہ در گروہ آتے گئے ۔ جب ایک جماعت فارغ ہو جاتی تو دوسری جماعت آ جاتی حتٰی کہ سب اہل خندق کھا کر اور سیر ہو کر وہاں سے لوٹے۔۔۔ (الوفا باحوال المصطفٰے ، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
مسجد نبوی کا ستون۔۔۔ حبیب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی شریف میں جمعہ کے دن کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب لوگ زیادہ ہو گئے تو عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ اس امر کو پسند فرمائیں گے کہ آپ کے لیے ایک منبر تیار کیا جائے جس پر جمعہ کے دن آپ خطبہ دیں تاکہ سبھی حاضرین آپ کے دیدار سے مشرف ہو سکیں اور آپ کا خطبہ سنیں۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی تو آپ کے لیے تین درجات پر مشتمل منبر تیار کر کے مسجد نبوی شریف میں نصب کیا گیا۔ جب رحمت عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر شریف پر کھڑے ہونے کا اراداہ فرمایا اور جونہی آپ منبر کی طرف چلے تو کھجور کے اس تنے نے جس پر پہلے آپ ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے اس زور سے رونا اور چلانا شروع کیا کہ قریب تھا کہ فرط غم و اندوہ سے پھٹ جائے گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں خود مسجد میں موجود تھا، میں نے لکڑی کے اس تنے سے ایسی آہ و زاری سنی جیسے کوئی محبت میں والہ و شیدا ہو اور فراق محبوب کی وجہ سے درد و غم کا اظہار کر رہا ہو۔ وہ ستون اسی طرح آہ و بکا میں مصروف رہا یہاں تک کہ محبوب خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کو اپنی بغل مبارک میں لے لیا تب اس کو سکون و قرار نصیب ہوا۔ ابن بریدہ نے اپنے والد گرامی حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ستون کے رونے اور چیخنے چلانے کی آواز سنی تو اس کی طرف رجوع فرمایا اور اس پر دست کرم رکھ کر کہا کہ دو باتوں میں سے جو چاہے اختیار کر لے ، یا تو میں تجھے اسی جگہ لگا دوں جہاں تو پہلے تھا اور تو اسی طرح سرسبز و شاداب ہو جائے جیسے کہ پہلے تھا، یا چاہے تو تجھے جنت میں لگا دوں تاکہ تو اس کی نہروں سے سیراب ہو اور اس کے جانفزا چشموں سے تیری نشو و نما عمدہ ہو جائے اور تو پھل دار ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے لوگ تیرا پھل کھائیں۔ حضرت بریدہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : نعم قد فعلت، مرتین۔ کہ ہاں میں نے کر دیا، ہاں میں نے کر دیا۔ آپ سے عرض کیا گیا کہ آپ کے ارشاد کا اس تنے نے کیا جواب دیا اور کون سا امر اختیار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس نے جنت میں کاشت کیے جانے کو پسند کیا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب یہ واقعہ بیان فرماتے تو رو دیتے اور پھر فرماتے کہ اے اللہ کے بندو! ایک خشک لکڑی اپنے شوق و ذوق اور محبت و عقیدت کا اس انداز میں اظہار کرے اور اُن کے قرب خداوندی اور منصب محبوبیت کی قدر کرے تو تم لوگ اس امر کے زیادہ حقدار ہو کہ حضور کی ملاقات سے مشرف ہونے اور آپ کے جمال جہاں آراء کے دیکھنے کی تمنا کرو اور اگر قسمت یاوری نہ کرے اور بخت مدد نہ کرے تو اس حسرت میں آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہاؤ۔۔۔ (الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
آہ و بکاء۔۔۔ علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ ہم نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت پر شفقت کے تحت بیان کیا ہے کہ آپ نے امت کے حق میں اللہ تعالیٰ سے التجا کی اور روئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی نازل فرمائی کہ میں ضرور آپ کو امت کے معاملے میں راضی کروں گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پاک پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت میں کیسے پڑھنے کی لیاقت رکھتا ہوں حالانکہ وہ آپ پر نازل ہوا (اور جیسے قراءت و تجوید کا حق ہے وہ آپ ہی ادا فرما سکتے ہیں) آپ نے فرمایا ، ضرور پڑھیے کیونکہ مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ میں دوسروں کی زبانی (حدیث محبوب) اور تلاوت کلام پاک سنوں۔ میں نے سورۃ نساء تلاوت کی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچا: فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علیٰ ھٰؤلاء شھیدا۔ یعنی وہ کیسا منظر ہوگا اور کیسی حالت ہو گی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ (نبی امت) لائیں گے اور آپ کو ان سب پر شہید اور گواہ بنائیں گے۔ تو آپ نے فرمایا بس کافی ہےتجھے۔ میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر اور عبید بن عمیر رضی اللہ عنہم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو حضرت عبداللہ نے عرض کیا اے ام المؤمنین مجھے وہ عجیب ترین امر بتلائیں جو آپ نے رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دیکھا ہو۔ تو آپ رو پڑیں اور فرمایا کہ آپ کے جملہ امور و افعال اور اعمال و اخلاق عجیب تھے۔ آپ ایک رات میرے ہاں تشریف لائے یہاں تک کہ جب میرے ساتھ لحاف میں لیٹے اور آپ کا جسد اطہر میرے جسم سے مس ہوا تا فرمایا، اے عائشہ! کیا مجھے اپنے رب تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہو، تو میں نے عرض کیا ، مجھے آپ کا قرب خدا وندی پسند ہے اور جو آپ کو پسند ہے وہی مجھے بھی پسند اور محبوب ہے۔ آپ گھر میں پڑے ایک مشکیزہ کی طرف متوجہ ہوئے (اور وضو فرمایا) مگر زیادہ پانی استعمال نہ فرمایا۔ پھر کھڑے ہو کر قرآن مجید کی تلاوت فرمانے لگے اور رونے لگے حتٰی کہ آنسو مبارک اس فراوانی سے بہنے لگے کہ آپ کے ۔۔۔۔ کو تر فرما دیا۔ پھر آپ نے دائیں پہلو اور جانب کا سہارا لیا اور دایاں ہاتھ مبارک دائیں رخسار کے نیچے رکھا اور روتے رہے حتٰی کہ آپ کے آنسوؤں زمین تر ہو گئی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تاکہ نماز کے وقت اور جماعت کے متعلق عرض کریں۔ آپ کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا ، آپ رو رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب سے پہلوں اور پچھلوں کے گناہ کی مغفرت کا دنیا میں اعلان فرما دیا ہے اور بخشش کی خوشخبری سنا دی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (اور جتنا اس کا احسان عظیم مجھ پر ہے اس کے مطابق شکر ادا نہ کروں)۔۔۔ (الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)
ہرنی ، بارگاہ رسالت میں۔۔۔ ایک دن رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کسی کام کے لیے تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک ہرنی پر پڑی جو ایک قوم کی قیام گاہ میں بندھی ہوئی تھی۔ اس نے آپ کو دیکھا تو پکارا: یا رسول اللہ! آپ ٹھہر گئے اور دریافت فرمایا کہ کیا معاملہ ہے ، مجھے کیوں پکارا ہے۔ ہرنی نے عرض کیا کہ میرے دو شیر خوار بچے ہیں جو کہ بھوکے ہیں۔ آپ مجھے کھول دیں تاکہ میں ان کو دودھ پلا آؤں ، پھر حاضر ہو جاؤں گی اور آپ مجھے اسی طرح یہاں باندھ دینا۔ آپ نے فرمایا ، کیا واقعی تو لوٹ آئے گی۔ اس نے عرض کیا کہ ضرور لوٹ آؤں گی اور اگر نہ لوٹوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب میں مبتلا کرے جس میں عشار یعنی جبراً لوگوں سے عشر وصول کرنے والے کو مبتلا کرے گا۔ نبی کریم رؤف رحیم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے اس کو کھول دیا اور آپ اسی جگہ بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی گزری تھی کہ وہ ہرنی لوٹ کر آ گئی اور اس کے پستان دودھ سے خالی ہو چکے تھے۔نبی رحمت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل اقدس اس ہرنی کے لیے پسیج گیا اور آپ کو اس پر ترس آیا۔ اتنے میں وہ اعرابی جس نے اسے قید کر رکھا تھا بیدار ہو گیا۔ آپ کو وہاں تشریف فرما دیکھ کر عرض کیا ، یا رسول اللہ! کوئی کام ہو تو حکم فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں کام یہ ہے کہ اس ہرنی کو آزاد کر دے۔ اس نے ہرنی کی رسی کھول دی اور وہ چوکڑیاں بھرتی جا رہی تھی اور کہتی جاتی تھی! اشھد ان لا الٰہ الا اللہ وانک رسول اللہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (الوفا باحوال المصطفٰے، امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)