فلک شیر
محفلین
جج صاحبہ عشق سے زیادہ خرد کی روایت کی نمائندہ ہیں۔ اقبال کی حساب کتاب کی ڈائریاں تو ہم نے دیکھی ہیں، مگر دنیا ان کا "مسئلہ" نہیں تھا۔ جج صاحبہ ان کی بہو ہیں اور فیروز سنز والوں کی صاحبزادی۔ جاوید اقبال صاحب فرزندِ اقبال ہونے کے سبب عمر بھر محبتیں ہی محبتیں سمیٹا کیے، بیرون ملک سے پڑھے تھے، اقبال کے نظریات کی شرح اور اس پہ اپنے حواشی کی وجہ سے قدرے متنازع بھی ہوئے، مگر درویش صفت باپ کے تتبع میں دنیا شاید ان کا بھی "پہلا مسئلہ" نہیں تھی.... مگر جج صاحبہ، یعنی ناصرہ جاوید اقبال پوری پکی منتظم اور تحریک و تحرک کی تجسیم ہیں۔ وہ ایک رومانویت جو جاوید اقبال صاحب کے مزاج میں تھی، اس سے شاید گاڑی چلنی مشکل ہو جاتی، مگر عملیت پسندی کا پہیہ انہیں جج صاحبہ کی صورت میں میسر آیا۔ جاوید صاحب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں اس کے بہت سے شواہد و تذکار جمع کر دیے ہیں۔
ہم جیسے "اقبالیے" ...یعنی عامی عوامی ،ناموں تک کے شیدائی... کچھ کچھ مثالیہ پرست تو ہوتے ہیں...دل ہی دل میں سوچتے ہیں کہ شاعر شعر میں درویشی کے فضائل کہتا ہے تو لازماً نانِ جو کی سنت پہ عمل تو کرتا ہی ہو گا، عالم "کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل" کی روایت پہ وعظ کہہ رہا ہے تو اس کا اپنا سامانِ سفر ہلکا پھلکا ہی ہو گا....سو اس گھرانے سے بھی ایسی ہی توقعات دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں رہی ہوں گی بچپن لڑکپن میں، شاید اسی لیے جب جج صاحبہ کی مالی امور میں مستعدی اور کیریر میکنگ کی طرف توجہ دیکھی، تو ایسے ہی.... ایسے ہی امام بی ، اقبال کی والدہ یعنی بے جی کی تصویر اور ان سے تقابل ہوتا رہا۔ خیر ، یہ ایک اور قصہ ہے،جس کا سامنا صدیوں کے سفر میں مسافروں کو کرنا ہی پڑتا ہے۔
پرانی بات ہے، لاہور ایوان اقبال کمپلیکس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جج صاحبہ نظر آئیں، آگے بڑھ کر سلام کیا، ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی طبیعت بارے پوچھا کہ علیل تھے۔ شفقت سے مسکرائیں، فرمانے لگیں، بس اس عمر میں کچھ نہ کچھ تو چلتا ہی رہتا ہے۔ دعا دی اور چل دیں۔
لائق عورت ہیں، گھرداری سے کبھی غافل نہ رہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا اور خود بھی متحرک رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ منیب اقبال ہوں یا ولید، جج صاحبہ ہوں یا محمد اقبال کا کوئی شعر.... کہیں بھی نظر پڑے تو اس عبقری کی یاد آ جاتی ہے، جس کے ہاں جلال و جمال کو پینٹ کرنے کے لیے ایک مو قلم تھا، مگر دونوں کے اظہار کے لیے مشاق ترین گویے کی طرح اوپر نیچے گانے کی یکساں صلاحیت... جس نے فلسفہ کو اپنی فکر پاؤں تلے کچلنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اسے برتنے کی خلاقانہ عظمت کا اظہار کیا ....انسان کی اٹھان اس کے لیے بہت اہم تھی اور اس کے لیے راز کن فکاں کو وہ پا چکا تھا، آزما چکا تھا اور اب پورے قد اور قلم سے اس پہ پہرہ دیتا داعی تھا۔
سالگرہ کبھی اپنی نہیں منائی، مگر آج نیٹ گردی کے ہنگام جج صاحبہ کی سالگرہ کا پڑھا تو اس خاندان کو یاد کرنے کا بہانہ نکل آیا شاید۔ ڈاکٹر صاحبہ سلامت رہیں، باعافیت رہیں۔ اس تصویر میں جناب منیب اقبال جج صاحبہ کی گود میں ہیں، موقع ان کی تیسری سالگرہ کا ہے۔ بائیس طرف اقبال کی صاحب زادی منیرہ ہیں اور دائیں جانب خود جاوید اقبال۔ تصویر منیب صاحب کی دیوار سے لی گئی ہے۔
فلک شیر چیمہ
اکیس نومبر 2021ء
ہم جیسے "اقبالیے" ...یعنی عامی عوامی ،ناموں تک کے شیدائی... کچھ کچھ مثالیہ پرست تو ہوتے ہیں...دل ہی دل میں سوچتے ہیں کہ شاعر شعر میں درویشی کے فضائل کہتا ہے تو لازماً نانِ جو کی سنت پہ عمل تو کرتا ہی ہو گا، عالم "کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل" کی روایت پہ وعظ کہہ رہا ہے تو اس کا اپنا سامانِ سفر ہلکا پھلکا ہی ہو گا....سو اس گھرانے سے بھی ایسی ہی توقعات دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں رہی ہوں گی بچپن لڑکپن میں، شاید اسی لیے جب جج صاحبہ کی مالی امور میں مستعدی اور کیریر میکنگ کی طرف توجہ دیکھی، تو ایسے ہی.... ایسے ہی امام بی ، اقبال کی والدہ یعنی بے جی کی تصویر اور ان سے تقابل ہوتا رہا۔ خیر ، یہ ایک اور قصہ ہے،جس کا سامنا صدیوں کے سفر میں مسافروں کو کرنا ہی پڑتا ہے۔
پرانی بات ہے، لاہور ایوان اقبال کمپلیکس کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جج صاحبہ نظر آئیں، آگے بڑھ کر سلام کیا، ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی طبیعت بارے پوچھا کہ علیل تھے۔ شفقت سے مسکرائیں، فرمانے لگیں، بس اس عمر میں کچھ نہ کچھ تو چلتا ہی رہتا ہے۔ دعا دی اور چل دیں۔
لائق عورت ہیں، گھرداری سے کبھی غافل نہ رہیں، بچوں کو پڑھایا لکھایا اور خود بھی متحرک رہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ منیب اقبال ہوں یا ولید، جج صاحبہ ہوں یا محمد اقبال کا کوئی شعر.... کہیں بھی نظر پڑے تو اس عبقری کی یاد آ جاتی ہے، جس کے ہاں جلال و جمال کو پینٹ کرنے کے لیے ایک مو قلم تھا، مگر دونوں کے اظہار کے لیے مشاق ترین گویے کی طرح اوپر نیچے گانے کی یکساں صلاحیت... جس نے فلسفہ کو اپنی فکر پاؤں تلے کچلنے کی اجازت نہیں دی، بلکہ اسے برتنے کی خلاقانہ عظمت کا اظہار کیا ....انسان کی اٹھان اس کے لیے بہت اہم تھی اور اس کے لیے راز کن فکاں کو وہ پا چکا تھا، آزما چکا تھا اور اب پورے قد اور قلم سے اس پہ پہرہ دیتا داعی تھا۔
سالگرہ کبھی اپنی نہیں منائی، مگر آج نیٹ گردی کے ہنگام جج صاحبہ کی سالگرہ کا پڑھا تو اس خاندان کو یاد کرنے کا بہانہ نکل آیا شاید۔ ڈاکٹر صاحبہ سلامت رہیں، باعافیت رہیں۔ اس تصویر میں جناب منیب اقبال جج صاحبہ کی گود میں ہیں، موقع ان کی تیسری سالگرہ کا ہے۔ بائیس طرف اقبال کی صاحب زادی منیرہ ہیں اور دائیں جانب خود جاوید اقبال۔ تصویر منیب صاحب کی دیوار سے لی گئی ہے۔
فلک شیر چیمہ
اکیس نومبر 2021ء
آخری تدوین: