جرائد میں مضامین اشاعت کے ورک فلو کے بارے میں معلومات اکٹھی کریں!

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

جیسا کہ میں ایک پوسٹ میں عرض کر چکا ہوں، میں اس زمرے کو ایک مرتبہ پھر سے فعال کرنا چاہتا ہوں۔ کسی زمانے میں ہمارا ایک ٹیکنالوجی جریدہ ویب سائٹ کے اجراء کا ارادہ تھا جس پر ہم بوجوہ عمل نہیں کر پائے تھے۔ اب جبکہ اردو جرائد اور اخبارات کو آن لائن لانے کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے تو اس کے تکنیکی انفراسٹرکچر کے بارے میں بھی بہت سے سوالات کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر لوگ کسی عام بلاگنگ سوفٹویر یا کونٹینٹ منیجمنٹ سسٹم کی ڈیفالٹ انسٹالیشن کو ہی جریدہ کی پریزنٹیشن کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کہ غیرتسلی بخش نتائج فراہم کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مرتبہ ہم پھر سے آن لائن جریدہ یا نیوز ویب پبلش کرنے کی ضروریات کا جائزہ لیں تاکہ ان کا دستیاب تکنیکی ممکنات سے تقابل کیا جا سکے۔ میں آن لائن جریدہ کی شاعت کے لیے مختلف کونٹینٹ منیجمنٹ سسٹمز کا جائزہ لینے کی بجائے اس مرتبہ صرف ورڈپریس سوفٹویر کی کسٹمائزیشن پر توجہ دوں گا۔ اب کسٹم فیلڈز کے استعمال کے ذریعے ورڈپریس کو ایک جریدے یا نیوز ویب سائٹ کے طور پر استعمال کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ اس سے متعلقہ تفصیلی معلومات میں بعد میں پوسٹ کروں گا۔

اس تھریڈ میں میں جرائد اور اخبارات میں مضامین کی اشاعت کے ورک فلو کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا چاہتا ہوں۔ جو دوست اس بارے میں عملی تجربہ رکھتے ہوں ان سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات فراہم کریں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نامہ نگار یا مضمون نویس کے مضمون ارسال کرنے سے لے کر اس کے بالآخر طبع و اشاعت تک کون کون سے مراحل ہوتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم،
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ نامہ نگار یا مضمون نویس کے مضمون ارسال کرنے سے لے کر اس کے بالآخر طبع و اشاعت تک کون کون سے مراحل ہوتے ہیں؟

بہت اچھا سلسلہ شروع کیا آپ نے :)
نامہ نگار یا مضمون نویس کا مضمون جب ادارے کو ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے اسکی کوالٹی دیکھتے ہیں کہ آیا یہ اشاعت کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ اشاعت کے قابل ہو تو سب سے پہلے اسکے ریفرینسز دیکھے جاتے ہیں کہ یہ خالق کی اپنی تخلیق ہے یا کہیں سے چرایا شدہ متن ۔ اسکے بعد مضمون کو ڈیپ پروف ریڈنگ کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور املاء کی پڑتال وغیرہ کی جاتی ہے۔ ۔۔۔ اگر مضمون کیساتھ تصاویر بھی ہوں تو انکو شائع کرنے سے پہلے تصاویر کے کاپی رائٹس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بی بی سی کے سائنس سیکشن میں تصاویر بہت کم ہوتی ہیں۔ اسکی اہم وجہ یہی کاپی رائٹ کا مسئلہ ہے۔
اگر مضمون کوئی افسانچہ و ناول وغیرہ ہو تو اکثر کرداروں کے نام اور مقامات تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ اسکے بعد اسے پبلشنگ کیلئے کمپوذر یا لے آؤٹ ڈیزائنر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ اور پھر پرنٹنگ کیلئے پریس یا ویب پر آن لائن کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں‌اکثر جریدے پہلے پرنٹ ہوتے ہیں، اور اسکے بعد ویب کیلئے آن لائن کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اردو کے کسی بھی جریدے کا ربط فراہم کرے کوئی جو کوئی سی ایم ایس استعمال کرتا رہا ہے۔ مجھ کو تو آج تک کوئی جریدہ نظر نہیں آیا۔ یوں بھی اردو کے سارے جریدے تصویروں پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ سارے ہر شمارے کا ایک الگ سسٹم شروع کرتے ہیں۔ میں نبیل سے پھر کہوں گا کہ جریدہ اور نیوز لیتر کو خلط ملط نہ کریں۔ اردو کا کوئی جریدہ نیوز لیٹرس کے فارمیٹ میں نہ نکلتا ہے اور شاید نہ نکل سکتا ہے۔ اردو ٹیک نیوز یا اس قسم کی ویب سائٹس سب نیوز لیٹرس ہیں۔ اس لئے اگر جریدہ کا معاملہ لیا جائے تو نیوز لیٹرس کو قطعی اس سے الگ رکھا جائے۔ نیوز لیٹر کا ایک الگ سے فورم شروع کریں، یا اس فورم کا نام تبدیل کر کے نیوز لیٹر کر دیا جائے۔ اس کا جریدے سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس طرح اردو کے رسائل کو جریدہ کہا جاتا ہے، اس Concept سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر میری اس بات کو برا لگا ہے کسی کو تو بہت معذرت۔ مگر میں نے سوچا کہ دو ٹوک بات کر دی جائے تاکہ سلسلہ صحیح سمت میں سفر کرے۔ بنیوز لیٹر کی بات ہو تو نیوز لیٹر، جریدے کی بات ہو تو جریدے کے حوالے سے بات کی جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اعجاز اختر صاحب، میرا مقصد اس تھریڈ میں صرف مضامین کی اشاعت کے ورک فلو کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا ہے، اس کا کسی سی ایم ایس یا سکرپٹ سے تعلق نہیں ہے۔ اسی لیے میں نے درخواست کی تھی کہ جو دوست (پرنٹ میں) جرائد کی اشاعت کا تجربہ رکھتے وہ یہاں اپنی معلومات سے آگاہ کریں۔

اعجاز اختر صاحب جن سائٹس کو نیوز لیٹر کہہ رہے ہیں وہ نیوز لیٹر نہیں ہیں بلکہ بلاگ نما نیوز ویب سائٹس ہیں۔ میں انشاءاللہ ایک نیوز لیٹر جاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن اس کا جریدہ کی اشاعت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس کے بارے میں تفصیل بعد میں بیان کروں گا۔

میں ایک مرتبہ پھر دہرا دیتا ہوں کہ اس تحقیق کا مقصد ورڈپریس کا بطور جریدہ یا نیوز ویب سائٹ استعمال کا جائزہ لینا ہے۔ نیوز اور میگزین سائٹس پر اپڈیٹ کا سائیکل مختلف ہوتا ہے اور آرکائیو کو بھی مختلف طریقے سے ہینڈل کیا جاتا ہے، لیکن صرف اس فرق کے لیے الگ الگ زمرہ جات تشکیل دینا مناسب نہیں ہوگا۔ بہرحال ہم اس فرق کا خیال رکھیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ نبیل۔ میرا زور اس پر تھا کہ ایک ہی ٹمپلیٹ دونوں قسم کے ’جرائد‘ کے لئے کار‌آمد نہیں ہو سکتا، اس کا خیال رکھا جائے۔ جریدے۔۔ بلکہ اسے میں رسالہ ہی کہوں، کا مکمل کام مدیر کرتا ہے، اس میں نہ لوگوں کی آرا کی ضرورت ہے اور نہ کسی کو اپنی تخلیقات اپ لووڈ کرنے کی۔ یہ سب نیز لیٹر میں ہو ممکن بلکہ احسن ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ اعجاز اختر صاحب۔ جریدہ اور بلاگ یا فورم میں یہ ایک نمایاں فرق ہے کہ جریدہ یا اخبار میں مدیر کو کسی بھی مضمون یا خبر کی شائع کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ نامہ نگار یا مضمون نگار کا کام صرف اپنی تحریر ارسال کرنا ہے۔ اس کے بعد کا کام ادارتی سٹاف کا ہوتا ہے۔

جہاں تک ٹیمپلیٹ کا تعلق ہے تو ایک میگزین اور نیوزسائٹ کی پریزنٹیشن میں کچھ فرق ہوتا ہے، لیکن دونوں میں کئی چیزیں ایک جیسی بھی ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں میگزین اور نیوز سائٹ کے فرنٹ پیج کے کئی اجزاء ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر میگزین اور نیوز سائٹ دونوں میں لیڈ سٹوری/آرٹیکل کا بلاک ہوتا ہے، دونوں میں ہی فیچر سٹوریز/آرٹیکلز کا بلاک ہوتا ہے اور اسی طرح دوسرے کئی بلاک دونوں سائٹس میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جو چیز میگزین اور نیوز سائٹ میں فرق ہے وہ آرکائیو کی منیجمنٹ ہے۔ نیوز سائٹ ‌مستقل اپڈیٹ ہوتی ہے اور اس میں منتخب گزشتہ خبریں ایک لسٹ میں دکھائی جا سکتی ہیں۔ دوسری جانب میگزین سائٹ واضح طور پر شماروں کی شکل میں منظم کی جاتی ہے اور اس میں آرکائیو کسی لسٹ کی بجائے پرانے شماروں کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔

ابھی تک میں نے میگزین یا نیوز سائٹ کے صفحہ اول کی تشکیل سے متعلق بات کی ہے۔ ان سائٹس کا دوسرا اہم ترین جزو اس صفحے کی تشکیل ہے جس پر کسی ایک مضمون/نیوز کا مکمل متن ڈسپلے کیا جاتا ہے۔ اس سے متعلق میں بعد میں بات کروں گا۔
 

خاورچودھری

محفلین
بہت اچھا سلسلہ شروع کیا آپ نے :)
نامہ نگار یا مضمون نویس کا مضمون جب ادارے کو ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے اسکی کوالٹی دیکھتے ہیں کہ آیا یہ اشاعت کے قابل بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ اشاعت کے قابل ہو تو سب سے پہلے اسکے ریفرینسز دیکھے جاتے ہیں کہ یہ خالق کی اپنی تخلیق ہے یا کہیں سے چرایا شدہ متن ۔ اسکے بعد مضمون کو ڈیپ پروف ریڈنگ کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور املاء کی پڑتال وغیرہ کی جاتی ہے۔ ۔۔۔ اگر مضمون کیساتھ تصاویر بھی ہوں تو انکو شائع کرنے سے پہلے تصاویر کے کاپی رائٹس کا جائزہ لینا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بی بی سی کے سائنس سیکشن میں تصاویر بہت کم ہوتی ہیں۔ اسکی اہم وجہ یہی کاپی رائٹ کا مسئلہ ہے۔
اگر مضمون کوئی افسانچہ و ناول وغیرہ ہو تو اکثر کرداروں کے نام اور مقامات تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ اسکے بعد اسے پبلشنگ کیلئے کمپوذر یا لے آؤٹ ڈیزائنر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ اور پھر پرنٹنگ کیلئے پریس یا ویب پر آن لائن کر دیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں‌اکثر جریدے پہلے پرنٹ ہوتے ہیں، اور اسکے بعد ویب کیلئے آن لائن کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔

بہت شکریہ آپ نے معلوماتی گفتگو کی۔۔ میں‌اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرتا ہوں۔
 

خاورچودھری

محفلین
اخبار کے حوالے سے حالات اب کافی مختلف ہیں۔، پہلے اخبارات کے اپنے رپورٹرز ہوا کرتے تھے(اب بھی محدود تعداد میں‌ہوتے ہیں) جو ملک بھر سے خبریں فیکس یا پھر ڈاک سے ارسال کرتے تھے۔ متعلقہ ایڈیشن کے سب ایڈیٹرز خبر کا جائزہ لینے کے بعد نوک پلک سنوارتے اور کتابت کے لیے دے دیتے۔ اب یہ سارا کام نیوز ایجنسیاں کرتی ہیں۔ ایجنسیوں کے نمائندے خبریں ارسال کرتے ہیں‌اور پھر یہ ایجنسیاں خبریں فروخت کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر تیسرارُخ بھی ایک ایجنسی کا خریدار ہے۔ اب اسے کسی زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں۔ کم ازکم بارہ صفحات کے اخبار کا مواد صرف ایک ایجنسی بھیج دیتی ہے جس میں پچاس کے قریب تصاویر بھی ہوتی ہیں۔ اخبار صرف سرخیاں بناتا ہے یا پھر لے آوٹ۔ البتہ ادارتی صفحے کے معاملہ ایسا ہے کہ ہر اخبار کے اپنے لکھنے والے ہوتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا تمام اخبارات میں عموما ایک سی اور ایک ہی انداز سے لکھی ہوئی خبریں‌ہوتی ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ ان اخبارات کو خبریں فراہم کرنے والی ایجنسی ایک ہی ہوتی ہے۔

نبیل خبروں کا حصول کوئی مشکل نہیں‌اور نہ ہی تصاویر کا۔ ایجنسیاں خبریں فروخت کرتی ہیں۔ روزانہ کے حساب سے چار سو کے قریب خبریں‌ایک ایجنسی دیتی ہے۔ اخبارات کئی ایجنسیوں‌سے خبریں خریدتے ہیں‌البتہ ان سے انتخاب خود کرتے ہیں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ موجودہ صحافت میں‌انتخاب پر بھی صرف چند اخبار توجہ دیتے ہیں‌باقی سب بھرتی کرتے ہیں۔
 

hakimkhalid

محفلین
نبیل بھائی!
اخبارات کی اشاعت میں نیوز ایجنسیز کا انتہائی اہم کردار ہے ۔لیکن کوئی بھی اخبار یا جریدہ صرف ان پر انحصار کر کے کسی طور کامیاب نہیں ہو سکتا۔کسی دور میں ایجنسی کی خبر شائع کرنا بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا اور نمائندگان کی خبر کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی یہ صورتحال کم و بیش اب بھی موجود ہے ۔اور صرف ایجنسی کی نیوز شائع کرنے والے اخبار یا جریدے کو ڈمی سمجھا جاتا ہے۔

بیشتر بڑے اخبارات کے نمائندوں ‘رپورٹرز‘کالم نگاروں کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی تحریریں ان پیج میں تحریر کریں ۔اس وقت اخبارات کی دنیا میں قلم کی جگہ کی بورڈ لے چکا ہے۔بیشتر اخبارات خبروں و مضامین کے حصول کےلئے نیٹ کا رخ کرتے ہیں ۔پردیسی بھائی نے ورڈپریس کی Cutline تھیم اردوانے کے بعد اس میں مختلف(فیڈ و دیگر( پلگ انز کا اضافہ کر کے اسے آن لائن نیوز پیپر کی شکل دی ہے ۔جہاں سے روزنامہ دن سمیت بیشتر اخبارات بھی مواد حاصل کر رہے ہیں۔
لہذا نبیل بھائی نیوز ویب سائٹ کے اجراء حوالے سے ورڈپریس یا کسی اور سوفٹویر کی کسٹمائزیشن وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔اور اس حوالے سے آپ کی طرف سے کسی اردو پیکج کا اجراء نہ صرف اردو کی خدمت ہوگی بلکہ اردو صحافت پر بھی احسان عظیم ہو گا۔یہ ایک اچھی سوچ ہے جس پر ضرور بہ ضرور عملدرآمد ہونا چاہئے۔

باقی رہا یہ سوال کہ نامہ نگار یا مضمون نویس کے مضمون ارسال کرنے سے لے کر اس کے بالآخر طبع و اشاعت تک کون کون سے مراحل ہوتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اخبارات و جرائد کے تمام شعبے اب تمام تحریریں ان پیج فائل میں قبول کرتے ہیں ۔متعلقہ شعبے کا انچارج ایڈیٹنگ کے بعد اسے پیج میکنگ کے شعبے میں sendکر دیتا ہے۔اور وہاں وہ اشاعت کےلئے تیار ہوجاتاہے۔دنوں کا کام اب منٹوں میں ہوتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
خالد، بہت شکریہ معلومات فراہم کرنے کا۔ میں نے نیوز اردو کی سائٹ کافی دنوں بعد دیکھی ہے اور اس میں کافی بہتری نظر آ رہی ہے۔
خبروں یا مضامین کی اشاعت کے ورک فلو کے حوالے سے ابھی تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا متن کسی بھی فارمیٹ میں وصول ہونے کے بعد اسے پروف ریڈنگ یا ایڈیٹنگ سے گزارا جاتا ہے یا نہیں؟ یا آج کل اس کا تکلف گوارا نہیں کیا جاتا؟ ;)

میں میگزین یا نیوز ویب سائٹ کے لیے ورڈپریس کے استعمال پر تحقیق ضرور کر رہا ہوں لیکن اس مقصد کے لیے ورڈپریس کا کوئی سپیشل پیکج بنانے کا میرا ابھی تک کوئی ارادہ نہیں ہے۔ فی الحال میں کچھ گائیڈلائنز اکٹھی کرنا چاہ رہا ہوں جس کے ذریعے ورڈپریس کی ڈیفالٹ انسٹالیشن کو مخصوص پلگ انز اور تھیمز کے ذریعے نیوز ویب سائٹ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ دراصل ورڈپریس کی میگزین تھیمز میں کسٹم فیلڈز کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہر تھیم کے لیے اس کا استعمال قدرے مختلف ہے۔ دوسرے یہ ورڈپریس کی ہر میگزین تھیم میں لیڈ سٹوری اور فیچر سٹوری وغیرہ کے امیجز کے لیے مختلف سٹینڈرڈ سائز مقرر ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ایک میگزین تھیم کی جگہ دوسری میگزین تھیم کا استعمال ممکن نہیں ہوگا۔

میں بی بی سی اور دوسری کچھ نیوز ویب سائٹس کا جائزہ لے رہا ہوں اور اپنے طور پر ایک نیوز ویب سائٹ کی ضروریات کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ اصل مرحلہ ان requirements کو ورڈپریس کی فیچرز پر میپ کرنے کا ہوگا۔
 

خاورچودھری

محفلین
نبیل بڑے اخبارات میں‌پروف ریڈنگ کا باقاعدہ شعبہ ہے۔ وہ ایجنسی کی خبروں کو اپنے انداز سے ایڈٹ کر کے چھاپتے ہیں مگر راولپنڈی اسلام آباد سے شائع ہونے والے کئی روزنامے اس تکلف کے عادی نہیں ہیں۔ میں کئی دن تک اس بات کا جائزہ لیتے رہا۔ جنگ،نوائے وقت اور بعض چھوٹے اخبارات میں ضمنی مواد ایک ہی ہوتا ہے۔ البتہ بعض اخبارات کریڈٹ لائن سے ایجنسی کا نام ہٹا کر اپنے کھاتے میں‌ڈال لیتے ہیں۔ میں خود روزناموں سے منسلک رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ ان کے دفاتر میں‌ہوتے ہوئے کام سے واقف ہوں۔
یقینا زیادہ مواد ان پیج میں‌ہی آتا ہے۔ سب ایڈیٹرز اپنے مزاج کی خبریں‌اتار کر انھیں‌سرخیاں لگا دیتے ہیں‌اور پھر پیج مکر انھیں صفحے پر منتقل کر دیتا ہے۔
آپ چھوٹے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے وہ کمپوزنگ کی اغلاط سے بھرے ہوئے ملیں گے آپ کو۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ وہاں پروف پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جنگ اور نوائے وقت اس ضمن میں خصوصی توجہ دیتے ہیں‌مگر ان کی علاقائی ڈاک میں‌بھی پروف کی غلطیاں ہوتی ہیں۔
 

hakimkhalid

محفلین
خالد، بہت شکریہ معلومات فراہم کرنے کا۔ میں نے نیوز اردو کی سائٹ کافی دنوں بعد دیکھی ہے اور اس میں کافی بہتری نظر آ رہی ہے۔
خبروں یا مضامین کی اشاعت کے ورک فلو کے حوالے سے ابھی تک کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا متن کسی بھی فارمیٹ میں وصول ہونے کے بعد اسے پروف ریڈنگ یا ایڈیٹنگ سے گزارا جاتا ہے یا نہیں؟ یا آج کل اس کا تکلف گوارا نہیں کیا جاتا؟ ;)

میں میگزین یا نیوز ویب سائٹ کے لیے ورڈپریس کے استعمال پر تحقیق ضرور کر رہا ہوں لیکن اس مقصد کے لیے ورڈپریس کا کوئی سپیشل پیکج بنانے کا میرا ابھی تک کوئی ارادہ نہیں ہے۔ فی الحال میں کچھ گائیڈلائنز اکٹھی کرنا چاہ رہا ہوں جس کے ذریعے ورڈپریس کی ڈیفالٹ انسٹالیشن کو مخصوص پلگ انز اور تھیمز کے ذریعے نیوز ویب سائٹ کی شکل دی جا سکتی ہے۔ دراصل ورڈپریس کی میگزین تھیمز میں کسٹم فیلڈز کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہر تھیم کے لیے اس کا استعمال قدرے مختلف ہے۔ دوسرے یہ ورڈپریس کی ہر میگزین تھیم میں لیڈ سٹوری اور فیچر سٹوری وغیرہ کے امیجز کے لیے مختلف سٹینڈرڈ سائز مقرر ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ایک میگزین تھیم کی جگہ دوسری میگزین تھیم کا استعمال ممکن نہیں ہوگا۔

میں بی بی سی اور دوسری کچھ نیوز ویب سائٹس کا جائزہ لے رہا ہوں اور اپنے طور پر ایک نیوز ویب سائٹ کی ضروریات کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ اصل مرحلہ ان Requirements کو ورڈپریس کی فیچرز پر میپ کرنے کا ہوگا۔

نبیل بھائی !

ایک اور اہم بات کاپی رائٹ کا خیال نہ رکھنا ہے۔چھوٹے بڑے تمام اخبار و جرائد میں تحریری سرقہ بلکہ تحریری قذاقی عام سی بات ہے اور اسے کسی طور جرم خیال نہیں کیا جاتا۔ معمولی پریس ریلیز کی تحریر سے لےکر پورے پورے مضامین ڈکار لئے جاتے ہیں ۔
ابھی حال ہی میں روزنامہ دن ‘روزنامہ انصاف‘روزنامہ وقت نے میرے چار سے زائد مضامین سرقہ کر کے کسی اور نام سے شائع کر دیے ۔ایڈیٹران سے بات ہوئی تو انہوں نے ”اعتذار“ شائع کیا لیکن اس سرقہ کو ”غلطی “قرار دیا۔

پروف ریڈنگ کے حوالے سے خاور چودھری کا کہنا درست ہے۔
کیا اس سلسلے میں کرلپ یا کسی اور ادارے کا کوئی سوفٹ وئر استعمال کر سکتے ہیں۔ یونیکوڈ میں شاید استعمال میں زیادہ آسانی ہو؟؟؟

نبیل بھائی ! آپ اس حوالے سے کوئی پیکج نہیں بھی بنا رہے تو بھی آپ کی اس تحقیق کا بالواسطہ فائدہ اردو اور فن صحافت ہی کو پہنچنے والا ہے۔
اس لئے میں تعریفی الفاظ واپس نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔۔۔:)

جریدہ کا اجراء جوملہ سے کیا گیا تھا ۔اور اب بیشتر احباب اردو محفل کی وجہ سے اردو جملہ سے مستفید ہو رہے ہیں۔اسی طرح ایک اچھی نیوز ویب سائٹ کے اجراء سے دیگر متعلقہ افراد و اداروں کے لئے نئی راہیں متعین ہوں گی۔

اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترم خاور چودھری صاحب!

کریڈٹ لائن سے ایجنسی کا نام بعض اخبارات حذف کر دیتے ہیں اور وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اس کا معاوضہ ادا کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح بڑے بڑے کالم نگار غیر معروف صحافیوں سے معمولی معاوضے پر کالم لکھواتے ہیں اور اپنے نام سے شائع کرتے ہیں ۔

میں ڈیڑھ سو سے زائد ملکی و غیر ملکی اخبار و رسائل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے اداروں کی نمائندگی کر چکا ہوں جو ایک ریکارڈ ہے۔ این این آئی‘پی پی اے ‘این آئی این‘پی این این‘ٹی این این سمیت بیشتر نیوز ایجنسیز سے منسلک رہا ہوں۔میری فائل کردہ سو سے زائد خبریں سپر لیڈ سات سے آٹھ کالمی شائع ہو چکی ہیں ۔جو کسی بھی صحافی کے لئے متاع حیات ہے۔اس وقت ایک ایکٹو نیوز ایجنسی کا چیف ایگزیکٹو اور گیارہ کے قریب اخبار و جرائد میری زیر ادارت شائع ہو رہے ہیں۔ صدر ایوب کے زیر عتاب کوہستان اخبار‘ جہاں سے روزنامہ مشرق اوردیگر صحافت پروان چڑھی۔ بڑے بھائی نکالا کرتے تھے۔اس حوالے سے فن صحافت کی تھوڑی بہت شد بد ہمیں بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے فن صحافت میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ اب اخبار و جرائد خبروں کے لئے نہیں بلکہ تجزیوں‘کالموں اور مضامین کےلئے خریدے جاتے ہیں ۔یہ عجیب سی بات ہے کہ ”نیوز پیپرز“ میں اب ”نیوز“ اہم نہیں رہیں بلکہ بھرتی کا مواد ہو گیا ہے۔اور ادارتی صفحے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top