جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے

آصف شفیع

محفلین
غزل:
جذبہء عشق جوانی سے نکلتا کب ہے
ایسا کردار کہانی سے نکلتا کب ہے
موجِ خود سر بھی اُسے مات نہیں دے سکتی
چاند اُجلے ہوئے پانی سے نکلتا کب ہے
بعد مرنے کے بھی دنیا نہیں جینے دیتی
آدمی عالمِ فانی سے نکلتا کب ہے
آنکھ بھی محو ہے اُس قرب کی سرشاری میں
دل بھی اُس شامِ سہانی سے نکلتا کب ہے
موج در موج نہاں ہے غمِ ہستی دل میں
درد اشکوں کی روانی سے نکلتا کب ہے
عشق اظہار تک آ جاتا ہے ورنہ، آصف
شعر ترتیبِ معانی سے نکلتا کب ہے
 
کیا کہنے، بہت خوب۔ ایک ایک مصرع نپا تلا اور لا جواب۔ خاص کر وہ شعر جس میں انسان کو فنا کی ازلی و ابدی قید میں ڈال دیا ہے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
بہت خواب، اچھی غزل ہے آصف، لیکن ۔۔۔۔ اب تم یہی کہو گے کہ اعجاز عبید کو خامیاں ہی نظر آتی ہیں، لیکن کیا کیا جائے، اپنے لوگوں کی تخلیقات کی بہتری ہی تو پیش نظر ہوتی ہے۔
یہاں ’شامَ سہانی‘ کی ترکیب محل نظر ہے۔ سہانی ہندی لفظ ہے، اس کے ساتھ فارسی اضافت نہیں آ سکتی۔
اس کے علاوہ مقطع بھی تفہیم میں کمزور ہے۔
 

آصف شفیع

محفلین
عبید صاحب، میں آپ کا بے حد ممنون ہوتا ہوں جب آپ کسی خامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اور کوئی تخلیق پوسٹ کرنے کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کی خامیاں سامنے آ جائیں۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ جیسے سینیئرز کی رہنمائی حاصل ہے۔ آپ کی نشان کردہ خامیوں پر ضرور نظر ثانی کروں گا۔ آپ سے استدعا ہے کہ جب کو ئی کمی نظر آئے ضرور نشان دہی کریں۔ اس سے تخلیق کا معیار بھی بہتر ہو گا اور سیکھنے کا بھی موقع ملے گا۔
 
Top