جدید شکوہ + جواب شکوہ (2022)

رباب واسطی

محفلین
شکوہ
ایک سونے کے انڈے دینے والی مرغی روزانہ سونے کا ایک انڈا دیا کرتی تھی تو اس کے مالک نے سوچا کیوں نہ پوری مرغی ہی ایک ساتھ ذبح کرڈالوں تو بہت سارے سونے کے انڈے ایک ساتھ ہی مل جائیں گے مگر جب اس نے مرغی ذبح کی تو وہ مرغی اسے اندر سے خالی ملی۔۔کچھ ایسا ہی عمران خان کے اقتدار کے ساتھ کیا گیا۔۔جب عمران خان کو اقتدار سونپا گیا تھا تو قومی خزانہ اس قدر خالی تھا کہ تین مہینے بھی مشکل سے چل پاتا۔۔سارے چور لٹیرے خوش تھے کہ ہم نے تو پورا خزانہ ہی چاٹ لیا ہے، اب عمران خان کیسے اقتدار چلائے گا، اگر اس نے کوشش بھی کی تو مشکل سے چند ماہ ہی نکال پائے گا۔۔مگر حیرت انگیز طور پر تین مہینے تو کیا عمران خان اسی خالی خزانے کے ساتھ تین سال نکال گیا۔۔ جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد پر لے گیا جو پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ جی ڈی پی چھ فی صد تک جائے۔بلکہ عمران خان نے ستر ارب قرضے میں سے پانچ ارب قرضہ بھی چکادیا تھا مزید وقت ملتا تو قرضہ پچاس فی صد تک ادا کرجانا تھا ۔۔معیشت کی اس ترقی کو دیکھتے ہوئے لومڑی اور گیدڑوں کو شک گزرا کہ کہیں خزانہ وہ آدھا بھرا تو نہیں چھوڑ گئے تھے جو عمران خان نے خالی خزانے کے ساتھ اتنی معیشت بہتر بھی کرلی۔۔ان کو شک گزرا کہ قومی خزانہ مکمل سونے کے انڈوں سے بھرا ہوا ہے توکیوں نہ اسے ذبح کریں اور ایک ساتھ سارے سونے کے انڈے ایک ساتھ حاصل کر لیں۔۔ اور پھر یہی کیا گیا سونے کے انڈے دینے والی مرغی ملی بھگت کرکے ذبح کردی گئی۔۔خزانہ دیکھا تو بائیس ارب ڈالر موجود تھے، جسے ایک ماہ میں ہی اڑا دیاگیا اور ملک کو ڈیفالٹ کی جانب آہستہ آہستہ دھکیلا جانے لگا۔۔سوال یہ ہے کہ عمران خان نے خالی خزانے کے ساتھ تین سال اس ملک کو کیسے چلایا؟؟؟تو جناب عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں سے مدد مانگی تھی پاکستان کے لئے اس بندے نے ہاتھ پھیلایا تھا اور بیرون ملک پاکستانیوں نے لبیک کہتے ہوئے خان کو مایوس نہیں کیا اور وطن کی محبت میں پیسے بھیج کر ملک کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔۔پھر خان نے بڑے ممالک کے دورے کئے جس سے بڑے دوست ممالک نے بھی خان کی مدد کی کہ وہ پاکستان کو مستحکم کرپائے ۔اس بندے نے ایمانداری سے پاکستان کا قرضہ چکانے میں وہ پیسہ لگایا اور درپردہ بہت سارے پروجیکٹس شروع کئے جس میں ۔۔مصنوعی جنگلات کیلئے درخت لگائے گئے۔۔زیتون کی کاشت کاری کی گئی اور اسے انٹر نیشنل مارکیٹ میں سیل کیا گیا جو باہر بہت پسند کیا گیا۔۔خان نے کسانوں کو ڈائریکٹ مارکیٹ ریٹ والی رقم ان کی فصلوں پر دلوائی۔۔صحت کارڈ شروع کئے۔۔راشن دینے والاکام شروع کیا۔۔لنگر خانہ شروع کیا۔۔جدید شہر بنانے والے پروجیکٹس پر سائن کئے جس میں بیرون ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ۔۔سیاحت کے شعبے کو ابھارا ۔۔کرونا لاک ڈائون کے دوران بھارت و بنگلہ دیش بیرون ممالک کپڑوں کے کئی پراڈکٹس سیل کرتے تھے جن میں تولیے چادریں ڈریس وغیرہ کے کئی آئٹمز تھے مگر لاک ڈائون کی وجہ سے ان کے کارخانے وقت پر مال تیار نا کرپائے تو خان نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ان ممالک سے بات کرکے کہ کم وقت میں یہی مال پاکستان اپنے کارخانوں میں تیار کرکے دے گا۔۔چنانچہ انڈیا بنگلہ دیش کے بڑے آرڈرز چھین کر پاکستان میں رات دن فیکٹری کارخانوں میں ارجنٹ بنیادوں پر جلد سارا مال تیار کرا کر انٹرنیشنل مارکیٹ میں سیل کرادیا۔۔وہ مال باہر بہت پسند آیا اور پاکستان کی کپڑوں کی صنعت کو انٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی جگہ مل گئی۔۔اسی کرونا لاک ڈائون میں خان نے قومی خزانہ میں بائیس ارب ڈالر اکٹھے کئے۔۔پانچ ارب ڈالر کا قرضہ اتارا۔۔معیشت کی حالت بہتر کردی۔۔ عالمی مہنگائی میں بھی عام پاکستانیوں پر اتنا بوجھ نہیں ڈالا کہ گھر چلانا ممکن نہ رہے۔۔اس کے علاوہ اس وقت سب نے نوٹ بھی کیا ہوگا کہ عالمی لحاظ سے پاکستان کی عزت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا تھا مودی کو خان نے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں کسی کی لاج نہ رکھی سارے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیئے مسلم ممالک اور دوست ممالک خان سے بہت خوش تھے۔۔بھارت اور اسرائیل کی نیندیں اڑادیں۔۔ خان کا رہنا ان کی موت تھی کیونکہ چین و روس اور اردوان بھی خان سے بہت خوش تھے اور ملکر وسط ایشیا تک سی پیک کو لے جانا چاہتے تھے مگر سب کچھ ہوتے دیکھ کر۔۔کچھ لٹیروں کو یہ ترقی ہضم نہ ہوپائی اور انہوں نے سونے کاانڈا دینے والی مرغی کو ذبح کرڈالا۔۔

جواب شکوہ
عمران خان نے واقعی اپنے دور حکومت میں وہ کام کئے جو ستر سال میں کوئی اور نہیں کرسکا۔۔ پیٹرول 70 سال میں 80 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 150 روپے پر پہنچ گیا۔۔ قرضہ 70 سال میں 25 ہزار ارب روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 45 ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا۔۔ ڈالر 70 سال میں 105 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 175 روپے پر پہنچ گیا۔۔ چینی فی کلو 70 سال میں 55 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 125 روپے پر پہنچ گئی۔۔ گھی فی کلو 70 سال میں 170 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 360 روپے پر پہنچ گیا۔۔ آٹا فی کلو 70 سال میں 35 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 70 روپے پر پہنچ گیا۔۔ سونا فی تولہ 70 سال میں 50 ہزار روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں ایک لاکھ 40 ہزار روپے پر پہنچ گیا۔۔ کشمیر 70 سال متنازع رہا لیکن 3 سال میں بھارتی ریاست بن گیا۔۔ ڈی اے پی کھاد فی بوری 70 سال میں 3500 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 7000 روپے پر پہنچ گئی۔۔ جو دوائی 70 سال میں 110 روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں 330 روپے پر پہنچ گئی۔۔ بجلی فی یونٹ 70 سال میں 8 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 21 روپے پر پہنچ گئی۔۔ گیس کا جو بل 70 سال میں 300 روپے پر پہنچا وہ 3 سال میں 4800 روپے پر پہنچ گیا۔۔ جو گاڑی 70 سال میں 10 لاکھ پر پہنچی وہ 3 سال میں 20 لاکھ پر پہنچ چکی ہے ۔۔ جو موٹرسائیکل 70 سال میں 95 ہزار روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں ایک لاکھ 50 ہزار روپے پر پہنچ گئی۔۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری 3 فیصد تھی اب 16 فیصد پر آ گئی ہے۔۔

نوٹ
درج بالا شکوہ اور جواب شکوہ میں مذکور اعداد و شمار اور حقائق و شواہد انتہائی غیر سرکاری و غیر حتمی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی خوشامدانہ و چاپلوسانہ ہیں۔ لہذا صرف پڑھیں اور لطف اٹھائیں نہ کہ انہیں سیاسی نکتہ نظر سے دیکھتے ہوئے تنقید کی جائے


(علی عمران جونیئر کے بلاگز ٍٍٍٍ [کچھ علاج اس کا بھی] اور [ایک کہانی کچھ پرانی] سے ماخوذ
 
Top