جدائی ۔۔۔۔ از ۔۔۔ وسیم ۔۔۔

وسیم

محفلین
لکڑی کے بنے اس بدرنگے بینچ پہ بیٹھے بیٹھے میں نے پہلو بدلا۔ میرے ہاتھ میں تھامے کپ میں موجود چائے بھاپ اڑاتے اڑاتے بہت دیر ہوئے ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ میں نے بے چینی سے چاروں سمت کا جائزہ لیا، ماتھے سے اپنے بال ہٹائے، چائے کا کپ بینچ پہ رکھ کر دونوں ہتھیلیوں کو آپس میں ملا کر تیزی سے رگڑا اور پھر ان میں پھونک مارنے لگا۔ ہوا میں بڑھتی ہوئی خُنکی سے مجھے ٹھنڈمحسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے پھر سے چائے کا کپ اٹھایا اور گردن گھما کر اپنے بائیں جانب خالی بینچ کو تکنے لگا۔ آنکھوں کی خالی کھڑکیوں سے جھانکتی پتلیوں نے پھر سے اس کے ویران ہونے کا یقین دلایا۔ ہلکی ہلکی سرد ہوا، ملجگے سے اندھیرے اور بڑھتی ہوئی آمد و رفت پتہ دینے لگی تھی کہ شام اپنے جوبن پہ آ چُکی ہے۔


تیزی سے اندھیرے میں مدغم ہوتی سُرخی نے سرگوشی کہ کہ اب مجھے اٹھ جانا چاہیے لیکن ذرا سے مزید انتظار کی اک سوچ نے مجھے پھر سے بٹھا دیا۔ یہاں بیٹھے اور اُن کو دیکھتے ہوئے مجھے سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ ہو گیا تھا۔ شاز و نادر ہی یوں ہوا تھا کہ میں یہاں موجود ہوں اور وہ نہ آئے ہوں۔ جیسے مجھے ان سے انسیت ہو چلی تھی ویسے ہی مجھے یقین تھا کہ وہ بھی میرے ساتھ ایک تعلق میں بندھ چکے ہیں۔


کائنات میں ہے ہی کیا؟ تعلق۔ مخلوق کا خالق سے، زمین کا سورج سے، ستاروں کا کہکشاں سے، اندھیرے کا اجالے سے، پھول کاخوشبو سے، ساون کا برسات سے، جسم کا روح سے، دل کا دھڑکن سے اور۔۔۔ اور چاند کا چکور سے۔

تعلق بنتے ہیں۔۔۔

پروان چڑھتے ہیں۔۔۔

بدلتے ہیں۔۔۔

چلتے ہیں۔۔۔

بگڑتے ہیں۔۔۔

اور، اور تعلق ختم ہو جاتے ہیں۔۔


ایک عرصے سے سورج کے ڈھلتے ہی میں بھی چائے یا کبھی کبھار کافی کے ساتھ اس بینچ پہ براجمان ہو جاتا ہوں۔ شروع میں تو گزرنے والے مجھ پہ اک نگاہ غلط ڈال کر گزرتے رہے لیکن رفتہ رفتہ وہ مجھے بھی اس ماحول کا ایک حصہ سمجھ کر نظر انداز کے چکے تھے۔ بھاپ اڑاتی چائے کا کپ اپنی ہتھیلی پہ رکھے گھنٹوں اکیلے بیٹھنا اور گرد و پیش کے بدلتے منظر کا نظارہ کرنا میری روٹین تھی اور اسی دوران میں ان دونوں سے آشنا ہو گیا۔


سفید کبوتروں کے اس جوڑے کا نام میں نے ٹوئن وائٹیس رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے یہاں آنا شروع کیا تھا تو میں تنہا، اکیلا، اپنے خیالات میں گم، سوچوں کو دماغ اور نگاہوں کو روڈ پہ جمائے آنے جانے والوں پہ اُچٹتی نگاہیں ڈالتا رہتا تھا لیکن پھر یہ دونوں سڑک پار میرے بینچ کے سامنے گزرتی ٹیلی فون لائین پہ آ کر بیٹھنے لگے۔


چند ہفتوں بعد مجھے محسوس ہوا جیسے میں اور وہ ایک دوسرے کو جاننے لگے ہیں۔ جب کبھی میں نے اپنی نگاہیں ان پہ مرکوز کیں تو لگا کہ وہ بھی مجھے اسی محویت، اور اپنائیت سے تک رہے ہیں جیسے میں ان کو۔


اکثر وہ ایک دوسرے سے چونچ لڑاتے تھے لیکن ایسے ہی جیسے دو محبت کرنے والے ایک دوسرے کو ستا رہے ہوں۔ کبھی کبھار ان میں فاصلہ بڑھ جاتا تھا، جیسے وہ ایک دوسرے سے ناراض ہوں، اور ایسے عالم میں وہ اپنی آنکھیں گھماتے میری جانب یوں دیکھتے جیسے مجھے ایک دوسری کی شکایتیں لگا رہے ہوں۔ بھائی دیکھ لیں، یہ میری بات نہیں مانتی۔۔

آپ کو تو پتہ ہے یہ کتنا غیر ذمہ دار ہے۔۔

آپ میری طرف ہیں۔۔

نہیں آپ میری سائیڈ لیں۔۔

پہلے آپ میرے دوست بنے تھے۔۔

لیکن میں آپ کو زیادہ عزیز ہوں۔۔

میں ہوں۔۔

نہیں میں۔۔

جاؤ میں تم سے بات ہی نہیں کروں گی۔۔

تو تم سے بات کرتا ہی کون ہے۔۔۔

دیکھ لیں بھائی۔۔


میں مسکرا دیتا، کبھی اپنے کپ کو دائیں سے بائیں طرف حرکت دیتا اور کبھی لبوں پہ انگلیاں رکھ کر اپنی ہنسی کو دبانے کی کوششکرتا۔ کبھی کبھار اشاروں کی زبان میں انہیں سمجھانا شروع کر دیتا کہ بچوں کی طرح لڑنے کے بجائے اس ساتھ کا لطف لو، زندگی کے دن تھوڑے ہوتے ہیں، تعلق کی عمر کم ہوتی ہے اور وہی لمحے یاد رہتے ہیں جو حسین یادوں سے سجے ہوں۔ تب مجھے یوں لگتاجیسے انہوں نے میری بات سمجھ لی ہو اور میرے اٹھتے ساتھ ہی وہ بھی اڑ جاتے۔ الوداع دوست، اب کل ملیں گے۔ اگلے دن وہ یوں باہم شیر و شکر ہوتے جیسے گزرا کل کبھی آیا ہی نا ہو۔ کبھی کبھار میں ان کے لیے ڈبل روٹی کے بچے ہوئے ٹکڑے لے آتااور وہ ڈرتے،جھجھکتے میرے بینچ تک آتے اور ان ٹکڑوں کو اپنی چونچ میں دبا کر پھر اپنی جگہ جا بیٹھتے۔


بسا اوقات ان میں سے ایک کبوتر اڑ کر میرے ساتھ بینچ پہ آ بیٹھتا اور اپنی چونچ سے بینچ کی لکڑی کو ٹک ٹک بجانے لگتا۔ بھائی آپ یہاں اکیلے کیوں بیٹھتے ہیں؟ آپ کو کسی کا انتظار ہے؟ آپ چائے کیوں نہیں پیتے؟ آپ کی آنکھوں میں اداسی کیسی ہے؟ آپ کچھ بولتے کیوں نہیں؟ آپ کے ہاتھ میں کبھی موبائل نہیں دیکھا، آخر اس بینچ میں ایسی کیا بات ہے؟ آپ تنہا ہیں؟


میں بھی جواباً اپنی انگلی سے بینچ کو ٹک ٹک کرنے لگتا۔ نہیں دوست، میں اکیلا نہیں، مجھے کسی کا انتظار نہیں، میں چائے اکیلے نہیں پی سکتا، میرے پاس الفاظ ختم ہو چکے ہیں اور میرے ہاتھ اب کسی موبائل پہ ٹائپ نہیں کر سکتے، یہ تنہائی میری زندگی ہے، اس بینچ سے میری یادیں جُڑی ہیں، اس بدرنگے بینچ پہ بیٹھنے سے میں زمان و مکان کی قید سے آزاد ہو جاتا ہوں، اور اب تو تم بھی میرے ساتھ ہو، میرے اپنے، میرے دوست۔ اب ہم ساتھ ہیں، زبان کی محتاجی سے آزاد، ایک تعلق میں بندھے، ایک ڈال پہ لگے، ایک رشتے میں بندھے، اب ہم ایک ہیں، دوستی کے احساس کے اسیر، ایک روح لیے، ایک دھڑکن سے جُڑے۔ ہاں ایک ہی ہیں، اور ساتھ رہیں گے۔ میرا جواب سن کر وہ چونچ سے ٹک ٹک کی مہر ثبت کرتا اور پُھر سے اڑ جاتا۔


انہی سوچوں میں الجھے دفعتاً میری بے قرار نظروں نے آخرِ کار انہیں دیکھ ہی لیا، لیکن یہ کیا؟ مجھے اپنے دیکھے پہ اعتبار نا آیا۔ سامنے تار پہ صرف ایک ہی کبوتر بیٹھا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو ایسے محسوس ہوا جیسے وہ اداس، تنہا،دل گرفتہ، دل شکستہ،میرے کاندھے کا منتظر ہو۔ میں نے آہستگی سے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے، وہ رونے لگا،اور اس کی ہچکیوں میں اٹکے الفاظ نے مجھے دکھی کر دیا۔ اس کا سنگی، اس کا ساتھی اسے بھری دنیا میں تنہا چھوڑ کر جا چکا تھا۔اِس دنیا میں، جس کے بام و در میں اس کی یادیں تھیں، جس کی ہواؤں میں اس کی خوشبو اور جس کی فضاؤں میں اس کی مہک اور قدم قدم پہ اس کے رنگ بکھرے تھے، اس دنیا میں اب وہ تنہا تھا، وہ بلکنے لگا۔ میں اسے تسلیاں دینے لگا، اسے سمجھانے لگا، لیکن وہ برابر اپنی گردن گھماتارہا جیسے کہہ رہا ہوں تم مجھے دلاسے نا دو، میں ان سے بے نیاز ہوں، یہ الفاظ میرے دل پہ مرہم نہیں رکھ سکتے، یہ مجھے تسلی نہیں دےسکتے، یہ میرا گھاؤ نہیں بھر سکتے۔۔۔


اچانک سے اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور میرے بینچ کا رُخ کر لیا، میں بھی اضطراری کیفیت میں بینچ سے اٹھ کھڑا ہوا، وہ میرے قریب آیا، اور میرے گرد ایک چکر لگا کر اپنے پر تیزی
سے ہلاتے بلندی پہ جانے لگا، اوپر، اور اوپر، مزید اوپر۔ جیسے وہ بادلوں میں اسے ڈھونڈنے، اسے روکنے جا رہا ہو، اس کی دل شکستہ صداؤں نے جیسے میرا گھیراؤ کر لیا

تم مجھے چھوڑ کے کیوں جا رہے ہو؟
تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟
میرا اس دنیا میں تمہارے علاوہ ہے ہی کون؟
رکو، نا جاؤ، سنو،

یکایک اس نے اپنے پر سمیٹے اور اپنے گرد لپیٹ لیے، میرے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ گیا۔ جتنی تیز رفتاری سے اس نےبلندی کی جانب سفر کیا تھا اس سے زیادہ تیزی سے وہ زمین کی طرف گرنے لگا اور چشم زدن میں سڑک کے بیچ آن گرا۔ میں ٹریفک کی پروا کیے بغیر تیزی سے بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا تو سانس کی ایک رمق اس میں باقی تھی۔


میں نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اسے اٹھایا تو اس نے اپنی آنکھوں کو آخری مرتبہ گھمایا اور میرے ہاتھوں میں دم توڑ دیا۔ میری سانس حلق میں اٹک گئی اور آنسوؤں نے آنکھوں کے سامنے جالا بنا لیا، میں نے اس جالے میں اپنے بینچ کی طرف دیکھا اورہچکیاں لینے لگا۔ آج بھری دُنیا میں، میں پھر سے تنہا ہو گیا تھا۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

وسیم

محفلین
بہت خوب، اچھا افسانہ ہے
میں اس قابل تو نہیں کہ تنقید کر سکوں لیکن مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ افسانہ کچھ تمہید اور کچھ بیچ میں مختصر کیا جانا چاہیے

محتاجی
میں اس کو ٹھیک کر دوں گا۔ آپ کی تنقید سر آنکھوں پہ، میں بہتر کرنے کی کوشش کروں گا۔
 
آخری تدوین:

وسیم

محفلین
مجھے تو اتنا بتادو کہ یہ کون سی چائے ہے جو گھنٹوں بھاپ اڑاتی ہے. اتنا کیوں چھوڑ رہے ہو بھائی. تھوڑا کم کرلو
یہ وہ چائے ہے جو آپ کو تیلی لگا کر بنتی ہے۔ :LOL:

اب غصہ نا ہو جائیے گا، اگر تھوڑا سا دھیان سے پڑھ لیتے تو بھاپ اڑاتی چائے شروع کے حوالے سے اور گھنٹوں بیٹھنا بعد کے حوالے سے ہے۔ کہیں یہ لکھا ہے کہ "چائے گھنٹوں بھاپ اڑاتی رہتی"؟:sneaky::rolleyes:

اور
اگر چولہا گرم ہو گیا ہے تو گھنٹوں بھاپ اڑانی والی چائے بنا لوں؟ :LOL::LOL:
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
میرے خیال میں "محتاجگی" غلط العام ہے
اچھا بزرگانِ محفل سے رابطہ کر لیتے ہیں
محمد تابش صدیقی ، سید عاطف علی ، سید عمران
مجھے تو یہ غلط العام نہیں غلط العوام لگ رہا ہے ۔ گی کے جتنے لاحقے ہیں عموما فارسی کلمات پر لاحق ہوتے ہیں ۔
محتاجگی فوتگی کی طرح بے ہنگم سا محسوس ہو رہا ہے ۔
دیگر لغات کیا کہتی ہیں اس بارے میں ۔
 

وسیم

محفلین
مجھے تو یہ غلط العام نہیں غلط العوام لگ رہا ہے ۔ گی کے جتنے لاحقے ہیں عموما فارسی کلمات پر لاحق ہوتے ہیں ۔
محتاجگی فوتگی کی طرح بے ہنگم سا محسوس ہو رہا ہے ۔
دیگر لغات کیا کہتی ہیں اس بارے میں ۔

یہ ربط آپ کی بات کی تائید کر رہا ہے۔
 

وسیم

محفلین
فرہنگِ آصفیہ میں تو "محتاجگی یا محتاجی" اس طرح سے درج ہے لیکن باقی لغات خاص طور پاکستان گورنمنٹ کی لغت میں صرف "محتاجی" ہی درج ہے

میرا خیال ہے آپ اور عاطف صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں نے غلط لفظ ہی پڑھا ہو گا اور اسی کو استعمال کر ڈالا۔

یہ ربط آپ کی بات کی تائید میں ملا ہے۔
 
Top