جب قدم سوئے یار اٹھتا ہے برائے اصلاح

صابرہ امین

لائبریرین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیراحمدظہیر

محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔


جب قدم سوئے یار اٹھتا ہے
پاؤں دیوانہ وار اٹھتا ہے

سوچتے ہم ہیں بارہا اس کو
درد بھی بار بار اٹھتا ہے

آس بڑھتی ہے اس کے آنے کی
راہ سے جب غبار اٹھتا ہے

کوئی ہم کو بتائے کیوں آخر
اس طرح دل میں پیار اٹھتا ہے

جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
دیدہِ اشک بار اٹھتا ہے

کیا کہیں اس کی خوش کلامی کا
آدمی زیرِ بار اٹھتا ہے

باز آئے ہم اس کی چاہت سے
اب نہ ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

میرے دل سے وہ اس طرح نکلے
جس طرح اعتبار اٹھتا ہے

آنکھ سے اٹھتی ہے حیا پہلے
بعد اس کے وقار اٹھتا ہے

باپ کی آنکھ بند ہونے پر
شجرِ سایہ دار اٹھتا ہے

ہو کے مایوس آدمی رب سے
ہر کسی کو پکار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے بیٹا صابرہ امین مجھے بس ان دو اشعار میں درست محاورہ نہیں لگا
کوئی ہم کو بتائے کیوں آخر
اس طرح دل میں پیار اٹھتا ہے
... پیار اٹھنا سے مراد اٹھ کر چلا جانا ہے یا پیدا ہونا ہے؟ جیسے پیار امڈ آنا بھی کہتے ہیں؟ اس شعر کو نکال ہی دو یا پھر واضح کر کے پھر کہو
جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
دیدہِ اشک بار اٹھتا ہے
... دیدۂ اشکبار سے مراد؟ محل کے اعتبار سے تو پر از دیدۂ اشکبار کہنا تھا، ورنہ محض اشک بار کہا جائے
ہو کے وہ اشکبار....
 

صابرہ امین

لائبریرین
اچھی غزل ہے بیٹا صابرہ امین مجھے بس ان دو اشعار میں درست محاورہ نہیں لگا
کوئی ہم کو بتائے کیوں آخر
اس طرح دل میں پیار اٹھتا ہے
... پیار اٹھنا سے مراد اٹھ کر چلا جانا ہے یا پیدا ہونا ہے؟ جیسے پیار امڈ آنا بھی کہتے ہیں؟ اس شعر کو نکال ہی دو یا پھر واضح کر کے پھر کہو
جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
دیدہِ اشک بار اٹھتا ہے
... دیدۂ اشکبار سے مراد؟ محل کے اعتبار سے تو پر از دیدۂ اشکبار کہنا تھا، ورنہ محض اشک بار کہا جائے
ہو کے وہ اشکبار....
استادِ محترم، پذیرائی کا بے حد شکریہ ۔ ۔
جی میں نے ٖ غلط طور پر اسے پیار امڈ آنے کے ملاحظہ کیجیے۔

دل میں اک ہوک سی یوں اٹھتی ہے
جب کسی دل سے پیار اٹھتا ہے
یا

دل کی روداد دل لگی ہو جب
پیار سے اعتبار اٹھتا ہے

جی چشم اشک بار وزن میں پورا نہ تھا تو اسے دیدہ کر دیا تھا۔ لغت سے رہنمائی کا خیال نہیں آیا ۔ اب دیکھیے ۔ ۔


جو بھی اٹھتا ہے تیری محفل سے
چشمِ نم ، بے قرار اٹھتا ہے
یا

ہو کے وہ اشک بار اٹھتا ہے ۔ ۔

جو متبادل آپ کو مناسب معلوم ہوں رہنمائی کیجیے ۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
یہی دونوں باتیں تو ہم لکھنا چاہ رہے تھے! یہی آپ نے بھی لکھ دیں، خیر!!!

ماشاءاللہ اچھی غزل ہے۔

کہاں غائب ہو بٹیا؟؟؟
جی ہم نے کہاں جانا ہے سر۔ بس کچھ پریشان کن مصروفیتیں رہیں کہ دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔ اب اللہ کریم نے کرم فرمایا ہے۔ آپ کا شکریہ :)
 

اشرف علی

محفلین
محترم اساتذہ الف عین ، ظہیر احمد ظہیر

محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
السلام علیکم،
آپ سب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے ۔ آپ سے اصلاح کی درخواست ہے۔


جب قدم سوئے یار اٹھتا ہے
پاؤں دیوانہ وار اٹھتا ہے

سوچتے ہم ہیں بارہا اس کو
درد بھی بار بار اٹھتا ہے

آس بڑھتی ہے اس کے آنے کی
راہ سے جب غبار اٹھتا ہے

کوئی ہم کو بتائے کیوں آخر
اس طرح دل میں پیار اٹھتا ہے

جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
دیدہِ اشک بار اٹھتا ہے

کیا کہیں اس کی خوش کلامی کا
آدمی زیرِ بار اٹھتا ہے

باز آئے ہم اس کی چاہت سے
اب نہ ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

میرے دل سے وہ اس طرح نکلے
جس طرح اعتبار اٹھتا ہے

آنکھ سے اٹھتی ہے حیا پہلے
بعد اس کے وقار اٹھتا ہے

باپ کی آنکھ بند ہونے پر
شجرِ سایہ دار اٹھتا ہے

ہو کے مایوس آدمی رب سے
ہر کسی کو پکار اٹھتا ہے
و علیکم السلام و رحمتہ اللّٰہ و برکاتہ

ماشاء اللّٰہ
بہت خوووب
 

الف عین

لائبریرین
ان دونوں میں
دل میں اک ہوک سی یوں اٹھتی ہے
جب کسی دل سے پیار اٹھتا ہے
یا

دل کی روداد دل لگی ہو جب
پیار سے اعتبار اٹھتا ہے
دوسرا متبادل بہتر ہے،

چشمِ نم ، بے قرار اٹھتا ہے
یا

ہو کے وہ اشک بار اٹھتا ہے ۔ ۔
.. خود تمہیں جو پسند ہو، وہی رکھ لو۔ مجھے تو دونوں قبول ہیں
 

صابرہ امین

لائبریرین
ان دونوں میں
دل میں اک ہوک سی یوں اٹھتی ہے
جب کسی دل سے پیار اٹھتا ہے
یا

دل کی روداد دل لگی ہو جب
پیار سے اعتبار اٹھتا ہے
دوسرا متبادل بہتر ہے،

چشمِ نم ، بے قرار اٹھتا ہے
یا

ہو کے وہ اشک بار اٹھتا ہے ۔ ۔
.. خود تمہیں جو پسند ہو، وہی رکھ لو۔ مجھے تو دونوں قبول ہیں

بہت شکریہ۔ فلو کے باعث طبیعت ناساز تھی۔ اب بہتر ہے، الحمدللہ۔ تاخیر کی معذرت استاد محترم۔
آپ سے نظر ثانی کی درخواست ہے۔

جب قدم سوئے یار اٹھتا ہے
پاؤں دیوانہ وار اٹھتا ہے

سوچتے ہم ہیں بارہا اس کو
درد بھی بار بار اٹھتا ہے

آس بڑھتی ہے اس کے آنے کی
راہ سے جب غبار اٹھتا ہے

دل کی روداد دل لگی ہو جب
پیار سے اعتبار اٹھتا ہے

جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے
ہو کے وہ اشک بار اٹھتا ہے

کیا کہیں اس کی خوش کلامی کا
آدمی زیرِ بار اٹھتا ہے

باز آئے ہم اس کی چاہت سے
اب نہ ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

میرے دل سے وہ اس طرح نکلے
جس طرح اعتبار اٹھتا ہے

آنکھ سے اٹھتی ہے حیا پہلے
بعد اس کے وقار اٹھتا ہے

باپ کی آنکھ بند ہونے پر
شجرِ سایہ دار اٹھتا ہے

ہو کے مایوس آدمی رب سے
ہر کسی کو پکار اٹھتا ہے
 
آخری تدوین:
Top