عرفان سعید
محفلین
جناب محمداحمد صاحب کی ایک خوبصورت غزل کے پوسٹ مارٹم کی جسارت (پیشگی معذرت کے ساتھ)
جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا
جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا
آپ جاتے ہیں وہاں، اچھا! چلے جائیے گا
یہ وہ جملہ ہے جو ہر پاکستانی والدین اپنے بچوں کو کہتے ہیں جب وہ شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہیں۔ کہتے ہیں:"جائیے، خوش رہیے، پر پچھتانا ضرور!" جانے کی اجازت بھی دی، پر اتنی "محبت" سے کہ قربان جائیے۔ یہ وہ کلاسک پاکستانی ٹریجڈی ہے جہاں ماں کہتی ہے: "جاؤ! جا کے دیکھ لو سسرال کی محبت! "جانے کے بعد: "ہاں ہاں، اب وہیں رہو!" اور جانے سے پہلے: "جاوٴ! مگر ناشتہ کرکے جانا، نجانے دوبارہ کب ملے!"جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا
جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا
آپ جاتے ہیں وہاں، اچھا! چلے جائیے گا
میں کئی دن ہوئے خود سے ہی جھگڑ بیٹھا ہوں
آپ فرصت سے کسی دن مجھے سمجھائیے گا
اب حالت یہ ہے کہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو ڈانٹتا ہوں، کبھی کبھی ہلکی سی چپت بھی لگا لیتا ہوں!آپ جب فرصت میں ہوں تو اپنی "ٹیڈ ٹاک" لے کر آئیے گا، میں پاپ کارن لے کر بیٹھ جاؤں گا۔خود سے جھگڑا کرنے والا انسان یا تو فلسفی ہوتا ہے یا ناپختہ عاشق۔ شاعر اب خود کو قائل نہیں کر پا رہا، اور دوسروں سے لیکچر مانگ رہا ہے۔بس اتنا یاد رکھیں کہ جب انسان خود سے لڑنے لگے تو یا تو اسے چاکلیٹ دیں یا فوراً آئینہ چھپا دیں۔
میں خیالوں میں بھٹک جاتا ہوں بیٹھے بیٹھے
بھیج آہٹ کا سندیسہ مجھے بلوائیے گا
یہ وہ بے خودی کی کیفیت ہے کہ شاعر صاحب اتنے فری ہو گئے ہیں کہ خالی بیٹھے بیٹھے دماغ نے ٹرین پکڑ لی ، وہ بھی بغیر ٹکٹ!اب ان کا خیالوں میں بھٹکنا ایسا ہے جیسے کراچی سے نکلے اور خیالات انہیں کوہِ قاف لے گئے۔اور سونے پہ سہاگہ کہ کوئی ہلکی سی آہٹ ہو جائے ، جیسے خالہ کی بلی کھڑکی سے کود جائے ، تو حضرت فوراً کپڑے بدلنے لگتے ہیں کہ "بلایا ہے مجھے،اب مجھے جانا ہوگا!" ارے بھائی! یہ بلاوا نہیں، بس بلی تھی!اتنی حساسیت ہے کہ لگتا ہے اگر پنکھا ذرا زور سے گھوم جائے تو یہ اسے بھی روحانی پیغام سمجھ لیں!
میں نے ظلمت میں گزارے ہیں کئی قرن سو آپ
روشنی سے جو میں ڈر جاؤں، نہ گھبرائیے گا
فرماتے ہیں کہ اتنی دیر تک اندھیرے میں بیٹھے رہے ہیں، کہ اب اگر اچانک لائٹ آن ہو جائے تو آنکھیں چندھیا جاتی ہیں ، جیسے واپڈا کی بجائے خلائی مخلوق نے بجلی بحال کی ہو!یہ وہی حضرات ہیں جو اکثر لائٹ جانے پر "اب سکون آیا" کہتے ہیں، اور واپس آنے پر آنکھ پر ہاتھ رکھ کر شور مچاتے ہیں:"ارے بھائی! یہ کیا آفت آ گئی؟"
اب اگر محبوب اچانک زندگی میں نمودار ہو جائے، یا کوئی ہمدردی کی "روشن مسکراہٹ" دے دے، تو فوراً پیچھے ہٹ جاتے ہیں ، جیسے کہہ رہے ہوں،" ذرا آہستہ چمکیے، میں صرف مدہم سی شمع کی روشنی کا عادی ہوں!" صاحب اتنے عادی ہو چکے ہیں اندھیرے کے، کہ موبائل ٹارچ بھی آن ہو جائے تو گھبرا کر کمبل اوڑھ لیتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں مجھے لوگ سمجھتے ہی نہیں
میں کسی روز نہ سمجھوں تو سمجھ جائیے گا
شاعر فرماتے ہیں کہ دنیا انہیں نہیں سمجھتی... اور ہمیں شک ہے کہ شاید وہ خود بھی خود کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے۔اب حال یہ ہے کہ دن رات "کوئی نہیں سمجھتا مجھے" کا راگ چھیڑا ہوا ہے — اور کبھی کسی نے سمجھانے کی کوشش کی، تو فوراً خفا ہو گئے: اوہ! آپ نے مجھے سمجھنے کی جسارت کیسے کی؟"اب وہ آگاہ کر رہے ہیں اور خبردار کر رہے ہیں۔کہ اگر ایک دن میں خود بھی خود کو نہ سمجھوں، یعنی صبح اٹھ کر آئینے میں خود سے پوچھ لوں:"تو ہے کون بھائی؟"تو آپ بس خاموشی سے سمجھ جانا کہ دال میں کچھ نہیں، پوری دیگ ہی کچی ہے!
گاہ ہو جاتا ہوں میں اپنی انا کا قیدی
میں نہ آؤں تو پھر آ کر مجھے چُھڑوائیے گا
"انا کا قیدی" مطلب: جناب بغیر وارننگ کے اچانک جذباتی لاک ڈاؤن میں چلے جاتے ہیں ،جیسے وائی فائی بند ہو گیاہو!اور اب فرماتے ہیں کہ اگر میں نہ آؤں — یعنی خود ہی خاموش ہو جاؤں، پیغام کا جواب نہ دوں، یا محفل سے غائب ہو جاؤں — تو خود آ کر مجھے قید سے چھڑوا لو۔یعنی ایک طرف قیدی خود بنے، تالے خود لگائے، اور اب چاہتے ہیں کوئی محفلین آ کر فلمی انداز میں کہے:"چلو بھائی بہت ہو گئی انا... واپس آ جاؤ! آپ کے لیے باردگر خوش آمدید کی لڑی بناتے ہیں"