امیر مینائی جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق

ماہی احمد

لائبریرین
جادۂ راہِ عدم ہے رہِ کاشانۂ عشق
ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
مرکزِ خاک ہے دُردِ تہِ پیمانۂ عشق
آسماں ظرف بر آوردۂ میخانۂ عشق
کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصرع درِ خانۂ عشق
ہے جو واللیل سرا پردۂ کاشانۂ عشق
سورۂ شمس ہے قندیل درِ خانۂ عشق
دل مرا شیشہ ہے آنکھیں مری پیمانۂ عشق
جسم با جوشِ محبت سے ہے میخانۂ عشق
ہم تھے اور پیشِ نظر جلوۂ مستانۂ عشق
جس زمانے میں نہ محرم تھا نہ بیگانہ عشق
ہم وہ فرہاد تھے کاٹا نئی صورت سے پہاڑ
حُسن کا گنج لیا کھود کے ویرانۂ عشق
کچھ گِرہ میں نہیں گرمی کے سوا مثلِ سپند
برگ و بر دود و شرر ہوں جو اُگے دانۂ عشق
عین مستی میں ملے ہیں مجھے گوشِ شنوا
سُن رہا ہوں میں صدائے لبِ پیمانۂ عشق
ؑآ رہے باغِ جناں سے جو زمیں پر آدم
فی الحقیقت تھی وہ اِک لغزشِ مستانۂ عشق
معتقد کون نہیں کون نہیں اس کا مرید
پیر ہفتاد و دو ملت کا ہے دیوانۂ عشق
دل نے تسبیح بنا کر وہ کئے زیبِ گُلو
ہاتھ آئے جو کوئی گوہرِ یک دانۂ عشق
زُلفِ معشُوق نہ گھٹ جائے ادب کا ہے مقام
بڑھ چلیں اتنے نہ مُوئے سرِ دیوانۂ عشق
سُننے والوں کے یہ ڈر ہے نہ جلیں پردۂ گوش
کیا سناؤں کہ بہت گر ہے افسانۂ عشق
خاکِ درکار ہے وہ لوثِ خطا سے جو ہو پاک
ورنہ ہر خاک سے اُگتا ہے کوئی دانۂ عشق؟
کہتے ہیں مرگِ جوانی جسے سب اہلِ جہاں
اپنے نزدیک ہے وہ بازئ طفلانۂ عشق
آہ! عاشق سے ہوئی غفلتِ معشوق نہ کم
خواب تھا حُسنِ فسُوں ساز کو افسانۂ عشق
بختِ برگشتہ ہوں تب بھی نہیں جاتا یہ مزہ
نہ گرے بادہ جو واژوں بھی ہو پیمانۂ عشق
طور پر کہتی ہے یہ شمع تجلّی کی زباں
سُرمۂ حُسن ہے خاکسترِ پروانۂ عشق
طالبِ درد ہے اس درجہ مرا طائرِ دل
ٹُوٹ پڑتا ہے یہ جس دام میں ہو دانۂ عشق
ہوں وہ دیوانہ کہ قدموں سے لگا ہے مرے حُسن
ہے مرے پانوں میں زنجیر پری خانۂ عشق
مر کے دے روح کو میری یہ الٰہی قدرت
ہنس بن بن کے چُگے گوہرِ یک دانۂ عشق
کیا فلاطوں کو ہے نِسبت ترے دیوانے سے
آشنا ہے یہ محبت کا وہ بے گانۂ عشق
ہم تھے اور چہرۂ محبوب کا نظارہ امیرؔ
شعلۂ حُسن تھا جس روز نہ پروانۂ عشق

امیرؔ مینائی
 

طارق شاہ

محفلین
معتقد کون نہیں، کون نہیں اِس کا مُرید
پیر ہفتاد و دو ملت کا ہے دیوانۂ عشق

کم بلندی میں نہیں عرش سے کاشانۂ عشق
دونوں عالم ہیں دو مصرع درِ خانۂ عشق


کیا کہنے
بہت خوب انتخاب ، تشکّر شیئر کرنے پر صاحبہ !
بہت خوش رہیں :)
 
کیا حسن انتخاب ہے
بلاشبہ اردو ادب کی چند بہترین غزلوں میں سے ایک
اس غزل کے چند اشعار پڑھے ہوئے تھے آج مکمل غزل بھی پڑھ لی
ویسے یہ گنج ہائے گراں مایہ آپ کے ہاتھ کیسے لگا :)
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
واہ ۔واہ۔ واہ ۔ بہت ہی پر لطف انتخاب ہے۔۔۔ ساتھ ہی ۔اقبال کی " دل " بے اختیار زبان پہ آگئی۔
جادہء ملک بقا ہے خط پیمانہء دل۔
 

کاشفی

محفلین
عمدہ انتخاب کے لیئے بہت شکریہ ماہی احمد۔ خوش رہیئے ہمیشہ اور اسی طرح ہم سے مزید شیئر کرتی رہیں۔۔
 
Top