جادہ و منزل از سید قطب شہید صفحہ 101 تا 200

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
کیا اسلام " دفاعی تحریک " ہے؟

جو شخص دین کے اس مخصوص مزاج کو، جس کی تشریح ہم اوپر کر آئے ہیں، اچھی طرح سمجھ لیتا ہے، وہ خود بخود اس نتیجہ پر پہنچ جائے گا کہ اسلامی تحریک کا آغاز دونوں صورتوں میں ہونا ناگزیر ہے، یعنی جہاد بالسیف کی صورت میں بھی اور جہاد بالقول کی صورت میں بھی۔ اور یہ حقیقیت بھی اُس پر عیاں ہو جائے گی کہ اسلام ان محدود معنی میں " دفاعی تحریک " نہیں ہے جو عہد حاضر کی مروجہ اصطلاح " مدافعانہ جنگ " سے متبادر ہوتے ہیں۔ یہ تنگ اور غلط مفہوم دراصل ان حضرات کا تجویز کردہ ہے جو حالات کے دباؤ اور مستشرقین کے عیارانہ حملوں سے شکست کھا کر اسلام کی تحریک جہاد کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اسلام ایک سیلِ رواں تھا جو اس لیے اُمدا کہ دنیا کے اندر انسان کو حقیقی آزادی سے ہمکنار کرے۔ وہ انسان کی عملی زندگی کے ایک ایک پہلو سے نبرد آزما ہوا۔ اور ہر پہلو کی اصلاح کے لیے اُس نے وہ وسائل اختیار کیے جو اُس کے لیے مناسب اور موزوں تھے۔ اس کی تحریک جہاد متعین مرحلوں سے گزری اس نے ہر مرحلے میں نئے اور کارگر وسائل سے کام لیا۔

بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اسلام کی تحریک جہاد ایک دفاعی تحریک ہے تو پھر ہمیں خود لفظ " دفاع " کے مفہوم کو بدلنا ہو گا اور " دفاع " سے مراد انسانوں کا دفاع لینا ہو گا۔ یعنی ان تمام محرکات و اسباب کے مقابلے میں انسان کی مدافعت کرنا جو انسان کی آزادی کو مامال کرتے ہیں یا اس کی حقیقی آزادی کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ یہ محرکات جس طرح تصورات اور اعتقادات کی صورت میں پائے جاتے ہیں اسی طرح یہ ایسے سیاسی نظاموں کی شکل میں بھی پائے جا سکتے ہیں جو اقتصادی، طبقاتی اور نسلی حد بندیوں اور امتیازات پر قائم ہوتے ہیں۔ جب اسلام دنیا میں آیا تھا تو اس وقت بھی روئے زمین پر ان محرکات کا دور دورہ تھا اور عہد حاضر کی تازہ جاہلیت میں بھی ان کی بعض شکلیں دنیا میں رائج ہیں۔ لفظ " دفاع " کا یہ وسیع مفہوم اختیار کر کے ہم بآسانی اُن ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا ادراک کر سکتے ہیں جن کی بدولت دنیا میں اسلامی تحریک کا طلوع جہاد کے جلو میں ہوا۔ بلکہ اس طرح ہمارے سامنے خود اسلام کا صحیح مزاج بھی آئینہ ہو جائیگا اور ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی کہ اسلام کا مطلب ہے انسان کی بندگی انسان سے آزادی، ربوبیت الہٰی اور تعلیمات ربانی کے سامنے سرافگندگی ۔۔۔۔۔۔ میں خواہشاتِ انسانی کی خود سری اور سرکشی کا خاتمہ اور صرف شریعتِ الہٰی اور خدا کی حکومت !!

رہی وہ کوششیں جو ایسے دلائل اور وجوہ جواز گھڑنے میں صرف کی جا رہی ہیں، جن سے اسلامی جہاد کو اُسی محدود اور تنگ مفہوم کا جامہ پہنایا جا سکے جو " مدافعانہ جنگ " کی رائج الوقت اصطلاح میں پایا جاتا ہے اور وہ دیدہ ریزی جو اس غرض کے لیے ایسی روایات و اسناد کا کھوج لگانے میں کی جاتی ہے، جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ جہاد اسلامی کےجتنے وقائے پیش آئے ہیں وہ محض " وطنِ اسلام " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے بعض کے نزدیک وطن اسلام سے مراد جزیرۃ العرب ہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ہمسایہ طاقتوں کی جارحیت کے سدِ باب کے سلسلے میں پیش آئے ہیں۔ ایسی تمام کوششیں دراصل اس امر کی غماز ہیں کہ یا تو دین کے مزاج کو اور دنیا کے اندر اس کے اصل رول کو اسلام کے ان کرم فرماؤں نے سمجھا ہی نہیں اور یا حالات کی سنگینی کے سامنے اور جہادِ اسلامی پر مستشرقین کے عیارانہ حملوں کے مقابلے میں انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔

کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اگر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو یہ اطمینان ہو جاتا کہ رومی اور فارسی طاقتیں جزیرۃ العرب پر حملہ آور نہ ہوں گی تو وہ اسلام کے سیلِ رواں کو دنیا کے اطراف و اکناف تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دعوت کو آگے بڑھایا ہی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ اُس کے راہ میں متعدد مادی مشکلات حائل تھیں : مثلاً ریاست کی سیاسی نظام، معاشرے کے نسلی اور طبقاتی امتیازات، اور پھر ان نسلی اور طبقاتی نظریوں کی کوکھ سے جنم لینے والے اقتصادی نظام اور ان کی محافظت اور پُشت پناہی کرنے والے ریاست کے مادی وسائل۔ یہ سب عوامل راستے کے سنگ ہائے گراں تھے۔

یہ تصور کرنا کتنی بڑی سادہ لوحی ہے کہ ایک دعوت روئے زمین پر بسنے والی پوری نوعِ انسانی کی آزادی کا اعلان بھی کرے اور پھر وہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کا سامنا محض زبان و بیان کے جہاد سے کرتی پھرے۔ بے شک یہ دعوت زبان و بیان سے بھی جہاد کرتی ہے۔ مگر کب؟ اس وقت جب انسان اس دعوت کو قبول کرنے میں آزاد ہوں۔ چنانچہ یہ دعوت تمام اثرات و موانع سے انسانوں کو آزاد کر دینے کے بعد آزادی کی فضا میں اُن سے اپیل کرتی ہے۔ اور " لا اکراہ فی الدین " کے ضابطے کی پابندی کرتی ہے۔ لیکن جب وہ مذکورہ بالا مادی اثرات اور رکاوٹوں کی عمل داری ہو تو اس کے بغیر چارہ نہیں ہے کہ پہلے انہیں بذریعہ قوت دُور کیا جائے۔ تا کہ جب یہ دعوت انسان کے دل و دماغ سے اپیل کرے تو وہ ایسی تمام زنجیروں اور بیڑیوں سے آزاد ہوں اور کُھلے دل سے اس اپیل کے بارے میں اپنا فیصلہ دے سکیں۔

دعوتِ اسلامی کا نصب العین اگر انسان کی آزادی کا فیصلہ کُن اعلان ہے، اور پھر یہ اعلان محض فلسفیانہ اور نظریاتی تشریحات تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ عملہ حالات سے نبرد آزما ہونا چاہتا ہے۔ اور ہر ہر پہلوکا ۔۔۔۔۔۔۔ وسائل سے توڑ کرنا چاہتا ہے جو اس کے لیے موزوں و موثر ہوں تو ایسی انقلابی دعوت کے لیے جہاد کا راستہ بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ اور اس کا جہاد سے وہی تعلق ہے جو چولی کا دامن سے ہے چاہے ۔۔۔۔۔ اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صحیح اسلامی اصطلاح میں دارالاسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امن کی حالت میں ہو اور چاہے اس کے پر ہمسایہ طاقتوں کا خطرہ منڈلا رہا ہو۔ اسلام جب امن کے لیے تگ و دو کرتا ہے تو اس کے پیش نظر وہ " سستا امن " نہیں ہوتا جس کی تان صرف اس بات پر آ کر ٹوٹ جائے کہ اسلام کے نام لیوا جس مخصوص خطہ ارض میں رہتے ہیں وہ خطرات سے محفوظ و معون ہو جائے۔ اسلام جس امن کا خواہاں ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے اندر دین پورے کا پورا قائم ہو جائے۔ تمام انسان صرف خدائے واحد کی عبودیت بجا لائیں اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے جیسے انسانوں کو رب نہ ٹھہرائیں۔ عہد نبوت کے بعد اصل اختیار ان آخری مراحل کا ہے جن تک اسلام کی تحریک جہاد بحکم خداوندی پہنچی ہے۔ دعوت کے ابتدائی مراحل یا درمیانی مراحل اب معتبر نہیں ہوں گے۔ ابتدائی اور درمیانی مراحل گزر چکے ہیں اور جیسا کہ امام قیم نے بیان کیا ہے کہ بالآخر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ برات کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ جو رویہ اختیار فرمایا، اُس کی تین شکلیں ہوئیں : وہ کفار جو برسر جنگ ہیں، دوسرے وہ جو معاہدین ہیں اور تیسرے اہل ذمہ۔ معاہدین اور اہل صلح بھی جب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے تو صرف دو ہی قسم کے کفار آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں رہ گئے۔ ایک محاربین اور دوسرے اہل ذمہ۔ محاربین وہ لوگ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خائف ہیں (اس لیے ان کے ساتھ ہر جنگ کی حالت رہتی ہے۔) یہ گویا تمام اہلِ جہان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی رُو سے تین قسموں میں منقسم ہو گئے۔ ایک وہ مسلمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، دوسرے وہ صلح جُو جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن ملا (اور ان سے مراد اہل ذمہ ہیں جیسا کہ اوپر کی عبارت سے واضح ہے) اور تیسرے محاربین جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف تھے۔

اس بحث میں کفار کے ساتھ دعوت اسلامی کے رویے کی جو شکلیں بیان کی گئی ہیں منطقی طور پر یہی شکلیں اس دین کے مزاج اور مقاصد کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں۔ حالات سے شکست خوردہ ذہنیت اور مستشرقین کے حملوں سے بوکھلا جانے والی فکر جہاد کی جو تشریح کرتی ہے منطق و عقل کو رُو سے وہ اس دین کے مزاج سے کوسوں دور ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جہاد کے تدریجی احکام

مسلمان جب شروع شروع میں مدینہ میں ہجرت کر کے گئے تو اللہ تعالٰی نے انہیں قتال سے باز رہنے کا حکم دیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ : کُفوُا اَیدِیَکُم وَ اَقِیمُوا الصَلٰوۃ وَ اَتَو الزَکٰوۃَ (اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو) بعد میں انہیں قتال کی اجازت دی گئی اور ارشاد ہوا کہ :

اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوا وَانَّ اللَّہَ عَلَى نَصْرِھِمْ لَقَدِيرٌ ۔ الَّذِينَ اُخْرِجُوا مِن دِيَارِھِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّا اَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللّہ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَھُم بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيھَا اسْمُ اللَّہِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن يَنصُرُہُ اِنَّ اللَّہَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔ الَّذِينَ اِن مَّكَّنَّاھُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّكَاۃَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُورِ ۔ (الحج : 39 – 41)

اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ ہماری ہے کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے، صرف اس قصور میں کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر اللہ ان لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا تو خانقاہیں اور گرجے اور معابد اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر ڈالی جاتیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد اگلا مرحلہ آیا جس میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ جو لوگ ان کے خلاف تلوار اٹھائیں وہ بھی اُن سے قتال کریں۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّہِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ (بقرہ 190)

اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔

اور آخر میں تمام مشرکین کے خلاف عمومی طور پر قتال کو فرض کیا گیا۔ اور حکم ملا کہ :

و قاتلو المشرکین کانہ کما یُقاتِلونکُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں۔

قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ اُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَۃَ عَن يَدٍ وَھُمْ صَاغِرُونَ ۔ (توبہ : 29)

جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں مانتے۔ ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

یوں امام ابن قیم رحمہ اللہ کی تشریح کے مطابق پہلے مسلمانوں کو مشرکین اور کفار کے خلاف قتال کرنے سے منع کیا گیا پھر اُس کی اجازت نال ہوئی، اس کے بعد ان لوگوں کے خلاف قتال کر فرض کیا گیا جو تقال کی ابتدا کریں اور آخر میں تمام مشرکین اور کفار کے خلاف قتال فرض کر دیا گیا۔ جہاد کے بارے میں قرآن کی واضح نصوص، جہاد پر برانگیجتہ کرنے والی احادیثِ رسول، صدر اسلام کی اسلامی جنگیں، بلکہ پوری اسلامی تاریخ کا سرگزشتِ جہاد سے لبریز دفتر یہ تمام ایسے واضح اور روشن دلائل ہیں کہ ان کی موجودگی میں مسلمان کا دل جہاد کی وہ تفسیر قبول کرنے سے سخت اِبا کرتا ہے جو ان حضرات کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے جن کا ذہن درحقیقت نامساعد حالات کے دباؤ اور مشرقین کے مکارانہ پروپیگنڈے سے مات کھا چکا ہے۔ ایسا کون عقل کا دھنی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالٰی کے واضح احکام بھی سُنے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح اقوال پر بھی اس کی نظر ہو اور اسلامی فتوحات سے لبریز تاریخ کا دفتر بھی اُس کے سامنے ہو اور پھر وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہو جائے کہ جہاد کی پوری اسکیم ایک عارضی ہدایت تھی اور تخیر پذیر حالات اور اسباب کے ساتھ اُس کا تعلق تھا اور اس اسکیم کا صرف وہ پہلو دائمی حیثیت رکھتا ہے جو سرحدوں کی حفاظت سے تعلق رکھتا ہے۔

اِذن قتال کے سلسلے میں اللہ تعالٰی کی طرف سے جو ابتدائی احکام نازل ہوئے اُن میں اللہ تعالٰی نے اہل ایمان کو اس امر سے آگاہ کر دیا تھا کہ دنیاوی زندگی میں اللہ تعالٰی کا یہ ابدی اور مسلسل اصول جاری ہے کہ وہ انسانوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع کرتا رہتا ہے تا کہ خدا کی زمین میں فساد کا قلع قمع ہوتا رہے۔ ارشاد ہوتا ہے :

اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوا وَاِنَّ اللَّہَ عَلَى نَصْرِھِمْ لَقَدِيرٌ۔ الَّذِينَ اخْرِجُوا مِن دِيَارِھِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّا اَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَھُم بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيھَا اسْمُ اللَّہِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن يَنصُرُہُ اِنَّ اللَّہَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ۔ (الحج 22:39،40)

ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے ۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)۔

لہٰذا یہ کشمکش ایک عارضی حالت نہیں ہے بلکہ ابدی اور مستقل جنگ ہے۔ یہ جنگ اس ابدی فیصلے کا لازمی تقاضا ہے کہ روئے زمین پر حق و باطل دوش بدوش رہ سکتے۔ اسلام نے جب کبھی دنیا میں اللہ کی ربوبیت پر مبنی نظام قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور انسان کو بندگیِ انسان کی لعنت سے نجات دینے کی تحریک کی ہے تو اللہ کی حاکمیت پر غاصبانہ قبضہ رکھنے والی طاقتیں اس کے خلاف شمشیر برہنہ بن کر کھڑی ہو گئیں اور اُس کے وجود کو کسی قیمت پر بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ خود اسلام بھی ان باغیوں کے قلع قمع پر کمر بستہ رہا اور انسانوں کی گردنوں پر سوار ان کے طاغوتی نظام کو مٹاتا رہا۔ چراغ مصطفوی اور شرار بو لہبی کے درمیان یہ ستیزہ کاری ازل سے جاری ہے اور جہاد آزادی کا سیلِ رواں بھی اس وقت تک نہیں تھم سکتا جب تک بو لہبی ختم نہ ہو اور دین پورے کا پورا اللہ کےلیے خالص نہ ہو جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مکی دور میں جہاد بالسیف کیوں منع تھا؟

مکی زندگی میں قتال سے ہاتھ روک رکھنے کا حکم طویل المیعاد منصوبہ بندی کا محض ایک عارضی مرحلہ تھا۔ یہی حکمت ہجرت کے ابتدائی ایام میں کارفرما تھی۔ لیکن ابتدائی ایام کے بعد جب مسلہ جماعت جہاد کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تو اس کا محرک محض مدینہ منورہ کے تحفظ اور دفاع کا احساس نہ تھا۔ بلا شبہ یہ تحفظ بھی ناگزیر تھا لیکن یہ اسلامی تحریک کا ایک ابتدائی مقصد یا حیلہ تھا۔ منتہائے مقصود نہ تھا۔ اور اس کی روح یہ تھی کہ تحریک کے " مرکز طلوع " کو خطرات سے محفوظ رکھا جائے تا کہ کاروانِ تحریک رواں دواں رہے اور انسان کی آزادی کا فریضہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے برابر پیش قدمی کرتا رہے۔ اور اُن تمام دیواروں کو ڈھا دے جو آزادی انسان کی راہ میں حائل ہوں۔ مکی زندگی میں مسلمانوں کا جہاد بالسیف سے دست کش رہنا قابلِ فہم اور قرینِ عقل معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ مکہ میں حریت تبلیغ کا انتظام موجود تھا۔ صاحب دعوت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم بنو ہاشم کی تلواروں کی حمایت میں تھے۔ اور اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوتِ حق کا کُھل کر اعلان کرنے کے مواقع مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعوت کو انسانوں کے گوش گزار کر سکتے تھے، ان کے دل و دماغ سے اپیل کر سکتے تھے اور فردا فردا ہر شخص سے مخاطب ہو سکتے تھے۔ وہاں کوئی ایسی منظم سیاسی طاقت موجود نہ تھی جو تبلیغ و دعوت کی آواز کے سامنے ایسی دیواریں کھڑی کر سکتی کہ افراد اُسے سننے سے قطعی محروم ہو جاتے، لہٰذا اس مرحلہ میں تحریک کے لیے طاقت کے استعمال کی کوئی حاجت نہ تھی۔ علاوہ ازیں اور بھی متعدد ایسے اسباب موجود تھے جو اس مرحلہ میں دعوت کو قتال کے بغیر ہی جاری و ساری رکھنے کے متقاضی تھے۔ ان تمام اسباب کو میں نے بالاختصار اپنی تفسیر " فی ظلال القرآن" میں آیت : اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَھُمْ كُفُّواْ اَيْدِيَكُمْ (النساء : 77) کی تشریح کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اس تفسیر کے بعض حصوں کو یہاں نقل کر دینا غیر مفید نہ ہو گا۔

اس دور میں جہاد بالسیف کی ممانعت کی دوسری وجہ

اس مرحلہ میں جہاد بالسیف کی ممانعت اس وجہ سے بھی ہو سکتی ہے کہ دعوت اسلامی کا یہ مرحلہ ایک مخصوص ماحول، مخصوص قوم اور مخصوص حالات کے اندر تربیت اور فراہمی استعداد کا مرحلہ تھا۔ اس طرح کے ماحول میں تربیت اور استعدار کی فراہمی جن مختلف النوع مقاصد کے تحت ضروری تھی، اُن میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ ایک عرب انسان کو ان باتون کے گوارا کرنے کی تربیت دی جائے جنہیں وہ گوارا کرنے کا عادی نہیں ہے۔ مثلا اپنی ذات پر یا ان لوگوں پر جو اس کی پناہ میں ہوں، ظلم و زیادتی کو صبر سے برداشت کرنا۔ تا کہ وہ اپنی شخصیت کی پرستش اور اپنے منہ زور نفس کے غلبہ سے آزاد ہو۔ اور صرف ذات کا دفاع اور حلیفوں کا تحفظ ہی اُس کی پوری زندگی کا محور اور اُس کی تمام سرگرمیوں کا محرک بن کر نہ رہ جائے۔ نیز اُسے ضبطِ نفس کی مشق ہو تا کہ وہ ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ اُس کی فطرت ہے ۔۔۔۔۔۔ ناگوار بات سنتے ہی بے قابو نہ ہو جایا کرے اور کسی بھی ہیجان خیز واقعہ کا سامنا کرتے ہی کف و روہن نہ ہو جائے، بلکہ اُس کے مزاج اور تمام حرکات و سکنات میں اعتدال اور وقار کی شان جلوہ گر ہو۔ اُسے یہ تربیت بھی دی جائے کہ وہ ایک ایسی جماعت کے ڈسپلن کی پابندی کرے جو نہایت منظم ہے اور جسے ایک اعلٰی قائد کی سرپرستی حاصل ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں وہ اس قائد کی طرف رجوع کرے، اُس کا ہر فعل قائد کے حکم کا آئینہ دار ہو بلا لحاظ اس کے کہ وہ حکم اُس کی عادت یا ذوق کے خلاف ہے یا موافق۔ مکی زندگی میں ایک عرب کی سیرت کی تعمیر و اصلاح کے لیے یہی امور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور مدعا یہ تھا کہ اعلٰی سیرت و کردار کے حامل افراد سے ایک ایسا مسلم معاشرہ تشکیل کیا جائے جو قائد کے اشارہ ابرو پر حرکت کرتا ہو، ترقی یافتہ اور مہذب ہو، وحشیانہ خصائل اور قبائلی مفاسد سے پاک اور مُنزہ ہو۔

تیسری وجہ

موافق - مکی زندگی میں ایک عرب کی سیرت کی تعمیر و اصلاح کے لیے یہی امور بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے تھے۔ اور مدعا یہ تھا کہ اعلٰی سیرت و کردار کے حامل افراد سے ایک ایسا مسلم معاشرہ تشکیل کیا جائے جو قائد کے اشارہ ابرو پر حرکت کرتا ہو، ترقی یافتہ اور مہذب ہو، وحشیانہ خصائل اور قبائلی مفاسد سے پاک اور مُنزہ ہو۔

تیسری وجہ

اس دور میں جہاد بالسیف کے امتناع کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ قریش کا ماحول تفاخر اور نسبی شرافت و برتری کے احساسات سے بھرپور ماحول تھا۔ اس طرح کے ماحول میں اُر امن دعوت زیادہ مؤثر اور کارگر ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس مرحلے میں قتال کا طریقہ اختیار کرنا عناد اور عداوت کو مزیڈ بھڑکانے کا باعث بن سکتا تھا اور خونی انتقام کے نئے جذبات اور محرکات کو جنم دے سکتا تھا۔ عربوں کے اندر پہلے سے خونی انتقام کے چکر چل رہے تھے جنہوں نے واحس اور غبرا اور بسوس کی جنگوں کو برس ہا برس تک جاری رکھا اور آخر قبیلوں کے قبیلے مٹا کر رکھ دیے۔ خونی انتقام کے نئے جذبات اُن کے ذہنوں اور دلوں میں اسلام کے ساتھ منسوب ہو کر اُترتے تو پھر وہ کبھی فرو نہ ہو پاتے۔ تنیجتہ اسلام ایک دعوت اور ایک دین کے بجائے خونی انتقام کے جھگڑوں کے سلسلہ لامتناہی میں تبدیل ہو جاتا اور یوں اس کی بنیادی تعلیمات مرحلہ آغاز ہی میں زینتِ طاقِ نسیاں ہو کر رہ جاتیں اور آئندہ کبھی اُن کو زندہ کرنے کی نوبت نہ آ پاتی۔

چوتھی وجہ

یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ وسیع پیمانے پر خانہ جنگی کی صورتِ حال پیدا کرنے سے اجتناب مقصود تھا۔ اس وقت کسی باضابطہ حکومت کا کوئی وجود نہ تھا جو اہلِ ایمان کو تعذیب اور ایذا رسانی کا نشانہ بناتی، بلکہ تعذیب و تادیب کی خدمت ہر مومن کے اپنے ہی رشتہ دار اور سرپرست انجام دے رہے تھے۔ اس طرھ کی فضا میں اذن قتال کے صاف معنی تھے کہ گھر گھر میں معرکہ برپا ہو جاتا اور خانہ جنگی کا طویل اور لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ : " یہ ہے اسلام "۔ بلکہ فی الواقع اسلام کے بارے میں ایسا کہا بھی گیا تھا، باوجودیکہ اسلام نے قتال کی ممانعت کا حکم دے رکھا تھا۔ مگر قریش کے لوگ حج کے موسم میں حج اور تجارت کی خاطر دور دراز سے آنے والے عرب قافلوں میں جا جا کر ان سے یہ کہتے تھے کہ " محمد نہ صرف اپنی قوم اور اپنے قبیلے میں تفریق ڈال رہا ہے، بلکہ باپ اور بیٹے میں جدائی پیدا کر رہا ہے۔" قریش یہ اعتراض ایسی صورت میں کر رہے تھے جب کہ اہل ایمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن اگر فی الواقع بیٹے کو باپ کی گردن اُڑانے اور غلام کو دلی کے قتل کرنے کا حکم دے دیا جاتا اور ہر گھر اور ہر محلہ میں یہ محاذ کھول دیا جاتا تو معترضین کیا کہتے اور عملا کیا صورت حال پیدا ہوتی؟

پانچویں وجہ

یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ اسلام کےمخالفین کی اکثریت جنہوں نے آغاز کار میں مسلمانوں کو طرح طرح کی دینی آزمائشوں میں ڈالا، زہرہ گداز اذیتیں دیں اور اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، خود ایک نہ ایک دن اسلام کے مخلص اور وفا شعار شپاہی بلکہ قائد تک بننے والے ہیں ۔۔۔۔۔ کیا عمر ابن خطاب انہی لوگوں میں سے نہیں تھے؟ مگر اسلام لانے کے بعد اُن کو جو مرتبہ ملا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔

چٹھی وجہ

یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ عربوں کی نخوت و حمیت بالخصوص قبائلی ماحول میں فطرۃ ایسے ستم رسیدہ انسان کی حمایت پر تُل جاتی ہے جو ظلم و اذیت تو برداشت کر لیتا ہے مگر پسپا ہونا نہیں جانتا۔ یہ حمیت اس وقت اور زیادہ جوش میں آتی ہے جب ظلم و ستم کا ہدف اُن کے اشراف اور اخیار بن رہے ہوں۔ مکہ کے ماحول میں ایسے بکثرت واقعات پیش آئے جو اس نظریہ کی صحت کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثلا جب ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔۔۔۔۔۔۔ ایک انتہائی شریف اور کریم النفس انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکہ کو چھوڑ کر کسی اور مقام کی طرف ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو ابن الدغنہ اسے برداشت نہ کر سکا اور انہیں ہجرت سے روک دیا۔ کیونکہ وہ اس بات کو عربوں کے لیے باعثِ ننگ سمجھتا تھا۔ چنانچہ اُس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنی حمایت اور اپنی پناہ پیش کی۔ ایسے واقعات کی بہترین مثال اُس وثیقہ کی تنسیخ ہے جس کے تحت بنو ہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا، مگر جب ان کی بھوک اور فاقہ زدگی کا دور طول پکڑ گیا اور ان کی تکلیف حد سے بڑھ گئی تو بالآخر خود عرب نوجوانوں نے ہی اس وثیقہ کے پُرزے پُرزے کر ڈالے۔ یہ نخوت عرب کا امتیازی وصف تھا۔ جب کہ قدیم تہذیبوں کے اندر جو انسانیت کی تذلیل کی عادی رہی ہیں اس کے برعکس صورتِ ھال نظر آتی ہے۔ وہاں ظلم و اذیت پر مہر بلب رہنے سے انسان خود ماحول کی طرف سے تمسخر و استہزاء اور حقارت کا نشانہ بنتا ہے اور اُلٹا موذی کی تعظیم و تکریم کی جاتی ہے۔

ساتویں وجہ

یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ اور وہ صرف مکہ ہی میں پائے جاتے تھے۔ دعوت اسلامی ابھی تک جزیرہ عرب کے دوسرے حصوں تک نہیں پہنچی تھی۔ یا اگر پہنچی تھی تو محض اُڑتی اُڑتی خبروں کی صورت میں دوسرے قبائل اسے قریش اور ابنائے قریش کی اندرونی جنگ سمجھ کر ابھی تک غیر جانب دار تھے اور آخری فیصلے کے منتظر۔ ان حالات میں اگر قتال مسلمانوں پر فرض کر دیا جاتا تو یہ محدود جنگ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے کلی خاتمہ پر منتج ہوتی۔ اور خواہ مسلمان اپنے سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو مار ڈالتے مگر وہ خود پورے کے پورے صفحہ وجود سے محو ہو جاتے۔ شرک کی عملداری جوں کی توں رہ جاتی اور اسلامی نظام کے قیام کی صبح طلوع نہ ہو سکتی۔ اور کبھی اس کا عملی نظام اپنی بہار نہ دکھا سکتا۔ حالانکہ وہ اس لیے نازل ہوا ہے کہ انسانی زندگی کا عملی نقشہ اُس پر استوار ہو۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مدنی دور کے ابتدائی ایام میں جہاد کیوں ممنوع رہا؟

مدنی زندگی کے اوائل ایام میں بھی قتال کی ممانعت رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہود کے ساتھ اور ان عربوں کے ساتھ جو مدینہ کے اندر اور مدینہ کے اطراف میں آباد تھے اور ابھی تک شرک پر قائم تھے عدم جنگ کا معاہدہ کر لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام درحقیقت اس نئے مرحلے کا طبعی تقاضا تھا اور اس کا پس منظر یہ تھا کہ :

اولاً : وہاں تبلیغ و نصیحت کے کُھلے مواقع حاصل ہو گئے تھے۔ کوئی سیاسی قوت اُس پر قدغن لگانے والی اور لوگوں کو اُس سے روکنے والی موجود نہ تھی۔ تمام آبادی نے نئی مسلم ریاست کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس کے سیاسی معاملات کو سُلجھانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت پر اتفاق کر چکے تھے۔ چنانچہ مذکورہ بالا معاہدے میں یہ طے کر دیا گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی شخص معاہدہ صلح کرنے یا جنگ چھیڑنے یا خارجہ تعلقات قائم کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو گئی تھی کہ مدینہ منورہ کی اصل سیاسی قوت مسلم قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے دعوت کے فروغ کے دروازے کُھلے تھے، عقیدہ کی آزادی موجود تھی، اور لوگ جس عقیدہ کو چاہتے اُسے اختیار کرنے میں کوئی قوت انہیں روکنے والی نہ تھی۔

ثانیاً : اس مرحلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ساتھ یکسو ہو کر نبٹنا چاہتے تھے۔ کیونکہ ان کی مخالفت دوسرے قبائل کے اندر دین حق کی اشاعت کے لیے سدِراہ بن رہی تھی۔ وہ قبائل اس انتظار میں تھے کہ قریش اور ابنائے قریش کی یہ داخلی معرکہ کس نتیجہ پر پہنچتا ہے۔ اسی منصوبے کے مدِنظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع گنوائے بغیر جنگی دستوں (سرایا) کو اِدھر اُدھر بھیجنے میں جلدی کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا دستہ جو روانہ کیا اُس کی کمان حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد فرمائی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا اور ابھی ہجرت کو چھ ماہ ہوئے تھے۔ اس دستہ کے بعد پے درپے کئی دستے روانہ کیے گئے۔ ایک ہجرت کے نویں ماہ کے آغاز پر، دوسرا تیرھویں ماہ کے آغاز پر، تیسرا سولہویں ماہ کے آغاز پر اور جب ہجرت کا سترھواں ماہ شروع ہوا تو عبد اللہ بن جحش کی قیادت میں ایک سریہ روانہ کیا گیا۔ اس سریہ نے وہ پہلا معرکہ برپا کیا جس میں خونریزی تک نوبت پہنچی۔ یہ معرکہ ماہ حرام (رجب) میں پیش آیا۔ اسی معرکے کے بارے میں سورۃ بقرہ کی یہ آیات نازل ہوئیں :

يَسْاَلُونَكَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيہِ قُلْ قِتَالٌ فِيہِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللّہِ وَكُفْرٌ بِہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہِ مِنْہُ اَكْبَرُ عِندَ اللّہِ وَالْفِتْنَۃُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ (بقرہ 217)

لوگ پوچھتے ہیں ماہ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو، اس میں لڑنا بہت بُرا ہے، مگر راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر ۔۔۔۔۔

(ختم شد صفحہ 200)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top