جادہ و منزل از سید قطب شہید صفحہ 101 تا 200

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
جادہ و منزل
ترجمہ
معالم فی الطریق

مصنف : سید قطب شہید
مترجم : خلیل احمد حامدی
Ghulam Jilani
-----------------------------------------------------------------------------
اسلامک پیلیکیشنز لمیٹڈ
13-ای، شاہ عالم مارکیٹ، لاہور (پاکستان)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 101 تا 200

صفحہ 101

اور امین کی حیثیت سے معروف تھے۔ آغازِ رسالت سے 15 سال قبل اشرافِ قریش حجرِ اسود کے تنازعہ میں آپ کو اپنا حکم بنا چکے تھے، اور آپ کے فیصلہ کو بخوشی مان چکے تھے۔ نسب کے لحاظ سے بھی آپ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے جو قریش کا معزز ترین خاندان تھا۔ ان حالات و اسباب کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر پوری طرح قادر تھے کہ اپنے ہم وطنوں کے اندر عرب قومیت کے جذبہ کو بھڑکاتے، اور اس طرح اُن قبائلِ عرب کو اپنے گرد جمع کر لیتے جنہیں باہمی جھگڑوں نے ۔۔۔۔۔۔ کر رکھا تھا اور کُشت و خون اور انتقام در انتقام کی چکی میں بُری طرح ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو ان سب عربوں کو ایک جھنڈے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(یہ صفحہ ٹھیک طرح سے سکین نہیں ہوا، اس لیے مکمل نہ لکھ سکا۔)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 102

سے متصادم تھا۔ ------------------ مزید برآں یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ میں یہ صلاحیت موجود تھی جب عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قومی دعوت کو جوش و خروش کے قبول کر چکتے، اور قیادت کا منصب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ دیتے، اور اقتدار کی ساری کُنجیاں پوری طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں آ جاتیں،ا ور رفعت و عظمت کا تاج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سر پر رکھ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس بے پناہ طاقت اور اثر کو عقیدہ توحید کا سکہ رواں کرنے کے لیے استعمال کرتے اور لوگوں کو اپنے انسانی اقتدار کے سامنے سرنگوں کرنے کے بعد بالآخر لے جا کر خدا کے آگے سرنگوں کر دیتے۔ لیکن خدائے علیم و حکیم نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس راستے پر نہیں چلایا۔ بلکہ انہیں حکم دیا کہ صاف صاف اعلان کر دیں کہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی متنبہ بھی کر دیا کہ اس اعلان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اور وہ مٹھی بھر افراد جو اس اعلان پر لبیک کہیں ہر قسم کی تکلیف و اذیت برداشت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
قومی نعرے کو اختیار نہ کرنے کی وجہ

آخر یہ کٹھن راستہ اللہ تعالٰے نے کیوں منتخب فرمایا؟ ظاہر ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کے حق میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ تشدد اور ظلم کا نشانہ بنیں۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ اس دعوت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور نہ یہ کوئی صحیح بات ہوتی کہ مخلوق خدا رومی یا ایرانی طاغوت خواہ کوئی ہو وہ طاغوت ہی ہے۔ یہ ملک اللہ تعالٰی کا ہے۔ اور اس پر صرف اللہ کا ہی اقتدار قائم ہونا چاہیے۔ اور اللہ کا اقتدار صرف اس صورت میں قائم ہو سکتا ہے کہ اس کی فضاؤں میں صرف " لا اِلٰہ الا اللہ " کا پرچم لہرائے۔ یہ بات کیوں کر مقبول اور درست ہو سکتی تھی کہ خدا کی زمین پر بسنے والی مخلوق رومی اور ایرانی طاغوتوں سے نجات پاتے ہی عربی طاغوت کا طوقِ غلامی اپنے گلے میں ڈال لے۔ طاغوت جس قبا میں بھی ہو وہ طاغوت ہے۔ انسان صرف خدائے واحد کے بندے اور غلام ہیں۔ اور وہ صرف اس صورت میں بندے اور غلام رہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں صرف اللہ کی الوہیت کا بول بالا ہو۔ ایک عرب " لا اِلٰہ الا اللہ " کا لغوی لحاظ سے جو مفہوم سمجھتا تھا وہ یہ تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو، اللہ کے سوا کوئی اور ہستی قانون اور شریعت کا منبع و ماخذ نہ ہو۔ اور انسان کا انسان پر غلبہ و اقتدار باقی نہ رہے کیونکہ اقتدار بہمہ وجوہ اللہ ہی کے لیے ہے، اور اسلام انسانوں کے لیے جس " قومیت " کا علمبردار ہے وہ اسی عقیدہ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ تمام اقوام خواہ وہ کسی رنگ و نسل کی ہو، عربی ہوں یا رومی اور ایرانی، سب کی سب اس عقیدہ کی نگاہ میں پرچم الہٰی کے تحت مساویانہ حیثیت رکھتی ہیں۔ قرآن مے نزدیک اسلامی دعوت کا یہی صحیح اور فطری طریق کار ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتصادی انقلاب کا طریق کار کیوں نہ اختیار کیا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ دولت کی منصفانہ تقسیم اور عدل و انصاف کے صحت مندانہ نظام سے یکسر بیگانہ ہو چکا تھا۔ ایک قلیل گروہ تمام مال و دولت اور تجارت پر قابض تھا۔ اور سُودی کاروبار کے ذریعہ اپنی تجارت اور سرمائے کر برابر بڑھاتا اور پھیلاتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں ملک کی غالب اکثریت مفلوک الحال اور بھوک کا شکار تھی۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں دولت تھی وہی عزت و شرافت کے اجارہ دار تھے۔ رہے بیچارے عوام تو وہ جس طرح مال و دولت سے تہیدامن تھے اسی طرح عزت و شرافت سے بھی بے بہرہ تھے!

اس صورت حال کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اجتماعی تحریک کیوں نہ اتھائی اور دعوت کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم ٹھیرا کر امراء و شرفا کے خلاف طبقاتی جنگ کیوں نہ چھیڑ دی تا کہ سرمایہ داروں سے محنت کش عوام کو ان کا حق دلواتے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس دور میں ایسی کوئی اجتماعی تحریک اور دعوت لیکر اٹھتے تو عرب معاشرہ لازما دو طبقوں میں بٹ جاتا، مگر غالب اکثریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کا ساتھ دیتی، اور سرمائے اور جاہ و شرف کی ستم کیشیوں کے سامنے ڈٹ جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں وہ معمولی سی اقلیت ہی رہ جاتی جو اپنے پشتنی مال و جاہ سے چمٹی رہتی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہج اختیار فرماتے تو زیادہ موثر اور کارگر ہوتا۔ اور یہ صورت پیش نہ آتی کہ پورا معاشرہ " لا الٰہ الا اللہ " کے اعلان کے خلاف صف آرا ہو جائے، اور صرف چند نادر روزگار ہستیاں ہی دعوتِ حق کے افق تک پہنچ سکیں۔

کہنے والا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ صلاحیت بدرجہ کمال موجود تھی کہ جب اکثریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک سے وابستہ ہو کر اپنی زمامِ قیادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ دے دیتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دولت مند اقلیت پر قابو پا کر اس کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا چکتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس منصب و اقتدار کو اور اپنی پوری قوت و طاقت کو اُس عقیدہ توحید کے منوانے اور اُسے قائم و راسخ کرنے میں استعمال کر لیتے جس کے لیے دراصل اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کو پہلے انسانی اقتدار کے آگے جُھکا کر پھر انہیں پروردگار حق کے آگے جُھکا دیتے۔

ایسا طریقِ کار اختیار نہ کرنے کی وجہ

لیکن خدائے علیم و حکیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طریق کار پر بھی چلنے کی اجازت نہ دی۔ خدا کو معلوم تھا کہ یہ طریقِ کار دعوتِ اسلامی کے لیے موزوں و مناسب نہیں ہے۔ وہ جانتا تھا کہ معاشرے کے اندر حقیقی اجتماعی انصاف کے سوتے صرف ایک ایسے ہمہ گیر نظریہ کے چشمہ صافی سے ہی پھوٹ سکتے ہیں جو معاملات کی زمامِ کار کلیتہ اللہ کے ہاتھ میں دیتا ہو اور معاشرہ ہر اُس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کرتا ہو جو دو لت کی منصفانہ تقسیم اور اجتماعی کفالت کے بارے میں بارگاہِ الہٰی سے صادر ہو اور معاشرے کے ہر فرد کے دل میں، پانے والے کے دل میں بھی اور دینے والے کے دل میں بھی یہ بات پوری طرح منقش ہو کہ وہ جس نظام کو نافذ کر رہا ہے اُس کا شارع اللہ تعالٰی ہے، اور اس نظام کی اطاعت سے اُسے نہ صرف دنیا کے اندر فلاح کی امید ہے، بلکہ آخرت میں بھی وہ جزائے خیر پائے گا۔ معاشرے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ کچھ انسانوں کے دل حوص و آز کے جذبات سے امنڈ رہے ہوں، اور کچھ دوسرے انسانوں کے دل حسد و کینہ کی آگ میں جل رہے ہوں۔ معاشرے کے تمام معاملات تلوار اور ڈنڈے کے زور پر طے کیے جا رہے ہیں، تخویف اور دھونس اور تشدد کے بل پر فیصلے نافذ کیے جا رہے ہوں، انسانوں کے دل ویران اور ان کی روحیں دم توڑ رہی ہوں ----------- جیسا کہ آج اُن نظاموں کے تحت ہو رہا ہے جو غیر اللہ کی الوہیت پر قائم ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاحِ اخلاق کی مہم سے دعوت کا آغاز کیوں نہ کیا؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت جزیرۃ العرب کی اخلاقی سطح ہر پہلو سے انحطاط کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی تھی۔ صرف چند بدویانہ فضائل اخلاق خام حالت میں موجود تھے۔

ظلم اور جارحیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر ہنیر ابن ابی سلمٰی اسی معاشرتی فساد کی طرف اپنے اس شعر میں حکیمانہ انداز سے اشارہ کرتا ہے :

ومن لم یذ دعن حرفعہ بسلامہ
یھدم، ومن لا یظلم الناس یظلم​

جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا تباہ و برباد ہو گا۔ اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا تو وہ خود (بالآخر) ظلم کا شکار ہو جائے گا۔

اسی خرابی کی طرف جاہلی دور کا یہ مشہور و معروف مقولہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ : انصُرا خاک ظالما اُو مظلوما (اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا اُس پر ظلم ہو رہا ہو۔ (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی یہ ٹکڑا وارد ہوا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں واضح کر دیا ہے کہ ظالم کی مدد سے مراد اُسے ظلم سے روکنا ہے (مترجم))۔

شراب خوری اور جُوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے، اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کی تمام شاعری خمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے :

فلو لا ثلاث ھن من عیشۃ الفتی
وجدک لم احفل متی مام عودی

فمنھن سبقی العاذلات بشربۃ
کمیتُ متی ما تعل بالماء تزبد

وما زال تشرابی الخمور ولذتی
وبذلی وانفاقی طریفی و تالدی

الحا اُت محامتنی العشیرۃ کلھا
و افردت افراد البعیر المعبر​

(1) اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں، تو مجھے کسی چیز کی پروا نہ رہتی بشرطیکہ مجھے تابسدِ رمق غذا ملتی رہتی۔

(2) ان میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مے نوشی میں سبقت لے جانا ہے اور مَے بھی وہ دو آتشہ جس میں اگر پانی ملایا جائے تو اُس پر کف آ جائے۔

(3) شراب نوشی، لذت پرستی اور بذل و اسراف پہلے بھی میری گھٹی میں پڑے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں۔

(4) آخر وہ دن آ گیا کہ میرا پورا قبیلہ مجھ سے دور ہٹ گیا۔اور مجھے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ جیسے خارش زدہ اونٹ کو گلے سے الگ کر دیتے ہیں۔

زنا کاری مختلف شکلوں میں رائج تھی۔ اور اس جاہلی معاشرے کی قابل فخر روایت بن چکی تھی۔ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں ہر دور کا جاہلی معاشرہ ننگا نظر آتا ہے۔ خواہ وہ دورِ قدیم کا جاہلی معاشرہ ہو یا عہدِ حاضر کا (نام نہاد مہذب معاشرہ)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جاہلی معاشرے کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے :

" جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں : ایک تو وہ صورت تھی جو آج لوگوں میں جاری ہے۔ یعنی ایک آدمی دوسرے شخص کو اس کی بیٹی یا اس کی تولیت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغام نکاح دیتا اور اُس کا مہر ادا کر کے اُس سے نکاح کر لیتا۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے، جب کہ وہ حیض سے پاک ہو چکی ہوتی، کہتا کہ فلاں شخص کو بُلا اور اُس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا، اُس وقت تک اُسے نہ چھوتا جب تک اُس آدمی کے حمل کے آثار ظاہر نہ ہو جاتے۔ آثار ظاہر ہو جانے کے بعد خاوند اگر چاہتا تو اس سے ہمبستری کر لیتا۔ وہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا تا کہ اُسے اچھے نسب کا لڑکا ملے۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع کہا جاتا تھا۔ نکاح کی ایک تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی جمع ہو جاتی اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتی، اُس سے مقاربت کرتی۔ جب اُسے حمل ٹھہر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر جانے کے بعد اُن سب کو بُلا بھیجتی۔ اس طرح بُلاوا ملنے پر کوئی شخص جانے سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ جب وہ اُس کے پاس جمع ہو جاتے، تو وہ عورت اُن سے کہتی : تمہیں اپنی کاروائی کا نتیجہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے۔ میں نے ایک بچہ جنا ہے۔ پھر وہ ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس پر بچے کا نام اُس شخص کے نام پر رکھ دیا جاتا اور لڑکا اُس کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اور وہ اس نسبت سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے، اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے۔ جس کے پاس جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ دراصل یہ پیشہ ور فاحشہ عورتیں ہوتی تھیں اور علامت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کر لیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا ان کے پاس چلا جاتا۔ ایسی عورتوں میں سے اگر کسی کو حمل ٹھہر جاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ اُس کے پاس اکٹھے ہو جاتے اور ایک قیافہ شناس کو بُلا لیتے۔ وہ ان میں سے جس کی طرف اُس لڑکے کو منسوب کرتا وہ لڑکا اس شخص کا قرار پاتا اور وہ اس سے انکار نہ کر سکتا۔" (بخاری کتاب النکاح)۔

سوال کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اصلاحی تنظیم کے قیام کا اعلان کر کے اس کے ذریعہ اصلاح اخلاق، تزکیہ نفوس اور تطہیر معاشرہ کا کام شروع کر دیتے۔ کیونکہ جس طرح ہر مصلحِ اخلاق کو اپنے ماحول کے اندر چند پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس ملتے رہے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ایسا پاک سرشت گروہ بایقین دستیاب ہو جاتا جو اپنے ہم جنسوں کے اخلاقی انحطاط اور زوال پر دلی دُکھ محسوس کرتا۔ یہ گروہ اپنی سلامتی فطرت اور نفاستِ طبع کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ تطہیر و اصلاح پر لازماٰ لبیک کہتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کا بیڑا اُٹھاتے تو بڑی آسانی سے اچھے انسانوں کی ایک جماعت کی تنظیم میں کامیاب ہو جاتے۔ یہ جماعت اپنی اخلاقی طہارت اور روحانی پاکیزگی کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بڑھ کر عقیدہ توحید کو قبول کرنے اور اس کی گرانبار ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی۔ اور اس حکیمانہ آغاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ دعوت کہ الوہیت صرف خدا کے لیے مخصوص ہے، پہلے ہی مرحلہ میں تند و تیز مخالفت سے دوچار نہ ہوتی۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس طریقہ میں کیا کمزوری تھی؟

لیکن اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ یہ راستہ بھی منزل مقصود کو نہیں جاتا۔ اُسے معلوم تھا کہ اخلاق کی تعمیر صرف عقیدہ کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے۔ ایک ایسا عقیدہ جو ایک طرف اخلاقی اقدار اور معیار رد و قبول فراہم کرے، اور دوسری طرف اُس " طاقت " ( ) کا تعین بھی کرے جس سے یہ اقدار و معیار ماخوذ ہوں۔ اور انہیں سند کا درجہ حاصل ہو۔ اور اُس جزا و سزا کی نشاندہی بھی کرے جو ان اقدار و معیارات کی پابندی یا ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اُس " طاقت " کی طرف سے دی جائے گی۔ دلوں پر اس نوعیت کے عقیدہ کی ترسیم اور بالاتر قوت کے تصور کے بغیر اقدار و معیارت خواہ کتنے ہی بلند پایہ ہوں مُسلسل تغیر کا نشانہ بنے رہیں گے اور ان کی بنیاد پر جو بھی اخلاقی نظام قائم ہو گا وہ ڈانواں ڈول رہے گا۔ اس کے پاس کوئی ضابطہ نہ ہو گا، کوئی نگران اور محتسب طاقت نہ ہو گی، کیونکہ دل جزا و سزا کے کسی لالچ یا خوف سے بالکل خالی ہوں گے۔

ہمہ گیر انقلاب

صبر آزما کوششوں سے جب عقیدہ الوہیت دلوں میں راسخ ہو گیا، اور اُس " طاقت " کا تصور بھی دلوں میں اُتر گیا جس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عقیدہ کو سند حاصل ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے لفظوں میں جب انسانوں نے اپنے رب کو پہچان لیا اور صرف اُسی کی بندگی کرنے لگے، جب انسان خواہشات نفس کی غلامی سے، اور اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی آقائی سے آزاد ہو گئے، اور " لا الٰہ الا اللہ " کا نقش دلوں میں پوری طرح مُرتسم ہو گیا تو اللہ تعالٰے نے اس عقیدہ اور عقیدہ کے ماننے والوں کے ذریعہ وہ سب کچھ فراہم کر دیا جو وہ تجویز کر سکتے تھے۔ خدا کی زمین رومی اور ایرانی سامراج سے پاک ہو گئی، لیکن اس تطہیر کا مدعا یہ نہیں تھا کہ اب زمین پر عربوں کا سکہ رواں ہو بلکہ اس لیے کہ اللہ کا بول بالا ہو، چنانچہ زمین خدا کے سب باغیوں سے، خواہ وہ رومی تھے یا ایرانی اور عربی، پاک کر دی گئی۔

نیا اسلامی معاشرہ اجتماعی ظلم اور لُوٹ کھسوٹ سے بالکل پاک تھا۔ یہ اسلامی نظام تھا اور اس میں عدل الہٰی پوری طرح جلوہ گر تھا۔ یہاں صرف میزان الہٰی میں ہر خوب و زشت اور صحیح غلط کو تولا جاتا تھا۔ اس عدل اجتماعی کی بنیاد توحید تھی اور اس کا اصطلاحی نام " اسلام " تھا۔ اس کے ساتھ کسی اور نام یا اصطلاح کا اضافہ کبھی گوارا نہیں کیا گیا۔ اُس پر صرف یہ عبارت کندہ تھی " لا الٰہ الا اللہ "

ع : سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے!​

نفوس اور اخلاق میں نکھار آ گیا۔ قلوب و ارواح کا تزکیہ ہو گیا۔ اور یہ اصطلاح اس انداز سے ہوئی کہ چند مستثسنٰی مثالوں کو چھوڑ کر اُن حدود و تعزیرات کے استعمال کی نوبت ہی نہ آئی جن کو اللہ تعالٰی نے قائم فرمایا تھا۔ اس لیے کہ اب ضمیروں کے اندر پولیس کی چوکیاں قائم ہو گئیں۔ اب خدا کی خوشنودی کی طلب، اجر کی خواہش، خدا کے غضب اور عذاب کا خوف مُحتسب کا فرض انجام دے رہا تھا۔ الغرض انسانی نظام، انسانی اخلاق اور انسانی زندگی کمال کی اس بلندی تک پہنچ گئی جس تک نہ پہلے پہنچی تھی، اور نہ صدرِ اول کے بعد آج تک پہنچ سکی ہے۔

یہ انقلاب عظیم کیسے برپا ہوا؟

یہ انقلاب عظیم اور کمالِ انسانیت صرف اس بنا پر حاصل ہوا کہ جن لوگوں نے دین حق کو ایک ریاست، ایک نظام اور جامع قانون و شریعت کی شکل میں قائم کیا تھا وہ خود پہلے اسے اپنے قلب و ضمیر اور اپنی زندگی میں قائم کر چکے تھے۔ اسے عقیدہ و فکر کے طور پر تسلیم کر چکے تھے۔ اپنے اخلاق کو اس سے آراستہ و پیراستہ کر چکے تھے، اپنی عبادات میں اسے سند دے چکے تھے اور اپنے معاملات میں اس کا سکہ رواں کر چکے تھے۔ اس دین کے قیام پر ان سے صرف ایک ہی وعدہ کیا گیا تھا۔ اس وعدہ میں غلبہ و اقتدار عطا کر دینے کا کوئی جز شامل نہیں تھا۔ حتیٰ کہ یہ جُز بھی شامل نہ تھا کہ یہ دین لازماٰ انہی کے ہاتھوں غالب ہو گا۔ ان سے جو کچھ کہا گیا وہ صرف اتنا تھا کہ اقامتِ دین کے عوض انہیں جنت ملے گی۔ جو صبر آزما جہاد ان لوگوں نے کیا۔ جو زہرہ گداز آزمائشیں انہوں نے سہیں۔ جس پامردی و استقامت کے ساتھ وہ راہ دعوت پر رواں دواں رہے اور پھر بالآخر جس طرح انہوں نے جاہلیت کے مقابلے میں اس حقیقتِ کُبریٰ کا ساتھ دیا جو " لا الٰہ الا اللہ " کے اندر پنہاں ہے اور جوہر زمان و مکان کے فرماں رواؤں کے لیے ناگوار رہی ہے ----------- ان سب خدمات کے عوض اُن سے صرف ایک وعدہ کیا گیا جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ یعنی فقط وعدہ فردا!

جب اللہ تعالٰی نے انہیں آزمائش کی بھٹی میں ڈالا اور وہ ثابت قدم رہے اور ہر نفسانی خواہش اور حظ سے دست بردار ہو گئے، اور جب اللہ تعالٰی نے جان لیا کہ وہ اس دنیا کے اندر اب کسی طور جزا اور صلہ کے منتظر نہیں ہیں، نہ انہیں اس کا انتظار ہے کہ یہ دعوت لازما انہی کے ہاتھوں غلبہ حاصل کرے اور یہ دین انہی کی قربانیوں اور کوششوں سے بالا و برتر ہو۔ ان کے دلوں میں نہ آباؤ اجداد کا تفاخر باقی رہا، نہ قومی گھمنڈ کے جراثیم۔ نہ وطن و ملک کی بڑائی کا جذبہ رہا اور نہ قبائلی اور نسبی عصیبتوں کی خُو بو رہی۔ پس جب اللہ تعالٰی نے انہیں ان خوبیوں سے آراستہ دیکھا تب جا کر اُن کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ یہ لوگ اب " امانتِ عظمٰی " (یعنی خلافتِ ارضی) کے بار کو اٹھا سکتے ہیں۔ یہ اس عقیدے میں کھرے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ ہر طرح کی حاکمیت صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہو، دل و ضمیر پر، اخلاق و عبادات پر، جان و مال پر اور حالات و ظروف پر صرف اسی کی حاکمیت ہو۔ خدا کو معلوم تھا کہ یہ اُس سیاسی اقتدار کے سچے محافظ ثابت ہوں گے جو ان کے ہاتھوں میں اس غرض کے لیے دیا جائے گا تا کہ شریعتِ الہٰی کو نافذ کریں اور عدلِ الہٰی کو قائم کریں۔ مگر اس اقتدار میں سے ان کی اپنی ذات کے لیے یا اپنے قبیلے اور برادری کے لیے یا اپنی قوم کے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔ بلکہ وہ سراسر اللہ تعالٰے کے لیے خالص ہو اور اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی خدمت کے لیے ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس اقتدار کا منبع صرف اللہ ہے اور اُسی نے اُن کی تحویل میں دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
نظام حق کی کامیابی کا واحد راستہ

اگر دعوت اسلامی کا قافلہ اس انداز سے روانہ سفر نہ ہوتا، اور دوسرے تمام تما جھنڈوں کو پھینک کر صرف اسی جھنڈے -------- یعنی لا الٰہ الا اللہ کے پرچم توحید ------------- کو بلند نہ کرتا اور اس راہ کو اختیار نہ کرتا جو ظاہر میں دشوار گزار اور جان گُسل راہ تھی مگر حقیقت میں آسان اور برکت بداماں تھی تو اس مبارک اور پاکیزہ نظام کو کائی جز بھی اتنے بلند معیار کے ساتھ ہر گز بروئے عمل نہ آ سکتا تھا۔ اِسی طرح اگر یہ دعوت اپنے ابتدائی مراحل میں قومی نعرہ بن کر سامنے آتی، یا اقتصادی تحریک کے لبادہ میں ظاہر ہوتی یا اصلاحی مہم کا قالب اختیار کرتی یا " لا الٰہ الا اللہ " کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے شعار اور نعرے بھی شامل کر لیتی تو یہ پاکیزہ و مبارک نظام جو اس دعوت کے نتیجے میں قائم ہوا کبھی خالص ربانی نظام بن کر جلوہ گر نہ ہو سکتا۔

قرآن حکیم کا مکی دور اِسی شان و شوکت کا حامل ہے۔ یہ دور قلوب و اذہان پر اللہ کی الوہیت کی نقش ثبت کرتا ہے، انقلاب کے فطری راستے کی تعلیم دیتا ہے خواہ اس میں بظاہر کتنی ہی دشواریوں اور صعوبتوں کا سامنا ہو اور دوسری " پگڈنڈیوں " پا جانے سے منع کرتا ہے خواہ عارضی طور پر انہیں اختیار کرنے کا ارادہ ہو، وہ ہر حال میں صرف فطری راستے پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے۔

ابتدائے دعوت میں جزوی مسائل کو کیوں نہ چھیڑا گیا

اسی طرح قرآن حکیم کا یہ پہلو بھی داعیانِ حق کے لیے قابل غور ہے کہ اس نے مکی زندگی میں صرف عقیدہ ہی پر اپنی ساری بحث کو مرکوز رکھا اور نظامِ زندگی کی ان تفصیلات کو نہیں چھیڑا جو اس عقیدہ کے تقاضے میں مترتب ہوتی ہیں اور نہ ان قوانین و احکام سے بحث کی جو اس عقیدہ کی روشنی میں معاملاتِ زندبی کی تنظیم کرتے ہیں۔

دراصل اس دین کا جو مزاج ہے اُس کا یہ تقاضا تھا کہ قرآن مکی زندگی میں صرف عقیدہ کے مسئلہ تک اپنی دعوت کو محدود رکھتا۔ ظاہر ہے کہ پورا دین وحدتِ اِلٰہ کے نظریہ پر قائم ہے۔ اس کا پورا نظامِ قانون اور نظامِ معاشرت اسی بنیادی نظریئے سے ماخوذ ہے۔ اس دین کی مثال اُس بلند و بالا اور تناور درخت کی سی ہے جس کا سایہ گھنا اور دُور دُور تک پھیلا ہوا ہو، جس کی شاخیں باہم وگر پیوست اور آسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ ایسا درخت قدرتی طور پر اپنی ضخامت اور پھیلاؤ کے مطابق اپنی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں اُتارتا ہے اور انہیں دور دور حصوں تک پھیلاتا ہے۔ بعینہ یہی اس دین کا حال ہے۔ اس کا نظام زندگی کے ہر گوشے پر حاوی ہے۔ انسانیت کے ہر چھوٹے اور بڑے معاملے سے بحث کرتا ہے، انسانی زندگی کی تنظیم صرف دنیا کے اندر ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی کرتا ہے، عالم شہود ہی کے نہیں عالم غیب کے مسائل بھی حل کرتا ہے اور صرف ظاہری اور مادی معاملات میں ہی دخل نہیں دیتا بلکہ ضمیر کی بے پایاں گہرائیوں اور دلوں کے مخفی ارادوں اور نیتوں کے غیر مرئی تموج سے بھی تعرض کرتا ہے اور انہیں درست کرتا ہے۔ ------------- یہ دین ایک قوی ہیکل، وسیع الاطراف اور فلک پیما عمارت ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی بنیادوں کا پھیلاؤ اور گہرائی بھی اسی وسعت اور ضخامت کے مطابق ہونی چاہیے۔

دین کی حقیقت اور اُس کے مزاج کا یہی پہلو خود دین کی تعمیر و توسیع کے بارے میں اس کے مخصوص طریق کار کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے اندر پہلے عقیدہ کی داغ بیل ڈالنا اور پھر اُسے اچھی طرح مستحکم و راسخ کرنا یہاں تک کہ یہ عقیدہ روح انسان کے کونے کونے میں سرایت کر جائے اور اُسے پوری طرح اپنے احاطے میں لے لے صحیح نشو و نما کے لیے ناگزیر ضرورت ہے۔ اسی طریقہ سے دین کے تناور درخت کے اس حسے کے درمیان جو فضاؤں میں موجود ہے اور اُس حصے کے درمیان جو جڑوں کی شکل و صورت میں زمین کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے، ناگزیر ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، بلکہ ان جڑوں کو وہ قوت بھی بخشتا ہے جو ظاہری حصہ کا بوجھ برداشت کرنے کے لیے ضروری ہے۔

جب " لا الٰہ الا اللہ " کا عقیدہ دل کی گہرائیوں میں گھر کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ پورا نظامِ زندگی بھی سرایت کرتا جاتا ہے جو اس عقیدہ کی عملی تفسیر ہے۔ جس سے یہ بات خود بخود متعین ہو جاتی ہے کہ یہی وہ واحد نظام ہے جس پر اس عقیدہ کے حامل نفوس راضی ہو سکتے ہیں۔ اور پیشتر اس کے کہ اس نظام کی تفصیلات ان کے سامنے پیش کی جائیں۔ اور اس کے قوانین و احکام سے انہیں آگاہ کیا جائے، وہ پہلے ہی اصولی طور پر ان نظام کے آگے سرافگندہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پہلا قدم ہی بے چون و چرا اطاعت، اور غیر مشروط نسلیم کے جذبہ سے اُٹھے۔ چنانچہ مکی دور کے بعد جب مدینہ کا دور آیا تو ان نفوس قدسیہ نے ایسے ہی جذبہ تسلیم اور شوقِ سرافگندگی کے ساتھ اُن تمام قوانین اور اصلاحات کا استقبال کیا جو قرآن نے وقتا فوقتا اُن کے سامنے پیش کیں۔ جوں ہی کوئی حکم جاری ہوا، سر جھک گئے اور کسی زبان پر کوئی کلمہ اعتراض نہ ایا۔ اُدھر فرمان کانوں میں پڑا اور ادھر عمل کا جامہ پہنا دیا گیا۔ کہیں لیت و لعل کو راہ نہ ملی۔ شراب حرام قرار دی گئی، سُود کی حرمت نازل ہوئی، جُوئے بازی ممنوع قرار پائی، الغرض جاہلی دور کےتمام رسوم و رواج پامال ہو گئے --------- مگر کس طرح؟ صرف قرآن کی چند آیات کے ذریعہ یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے مجرو چند کلمات کے سدور سے۔ اس کے مقابلے میں دنیاوی حکومتوں کو دیکھیے، وہ ان میں سے ہر ہر چیز کو ختم کرنے کے لیے قانون کا سہارا لیتی ہیں، قانون سازی کرتی ہیں اور انتظامی ادارے حرکت میں آتے ہیں، فوج اور پولیس کو استعمال کیا جاتا ہے، اختیارات کے ترکش خالی کیئے جاتے ہیں، پروپگنڈا اور پریس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود وہ اعلانیہ خلاف ورزیوں پر گرفت سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتیں۔ اور معاشرہ منکرات اور محرمات سے جُوں کا تُوں لبریز رہتا ہے۔ (اسلام میں شراب کیسے حرام کی گئی، اس پر مفصل بحث " فی ظلال القرآن" کی پانچویں جلد ص 78 تا 85 ملاحظہ ہو۔ اور شراب کی بندش میں امریکہ کس طرح بے بس نکلا، اس کی تفصیل مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب : ماذا خیر العالم الاسلامی بانحطاط المسلمین" میں دیکھیے جو انہوں نے مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی کتاب " تنقیحات " مطوبہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ کے حوالے سے نقل کی ہے۔ (مصنف))
 

شمشاد

لائبریرین
عملی اور حقیقت پسند دین

دین کے مزاج کا ایک اور پہلو بھی، جس کی جھلک اُس ے پاکیزہ نظام میں ملتی ہے قابلِ غور ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ دین ایک ٹھوس اور عملی تحریک کا لائحہ عمل ہے۔ انسانی زندگی پر عملا حکمرانی کرنے کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ وہ عملی حالات کا سامنا کرتا ہے تا کہ اُن کے بارے میں اپنا رویہ متعین کرے۔ انہیں برقرار رکھے یا ان میں ترمیم کرے یا انہیں کلیتہ بدل دے۔ لہذا اُس کی تمام تر قانون سازی صرف اُن حالات کے لیے ہوتی ہے جو بالفعل موجود ہوتے ہیں، اور اُس معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اصولی طور پر خدائے واحد کی حاکمیت کو تسلیم کر چکا ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ دین کسی " نظری فلسفے" کا نام نہیں ہے جو محض " مفروضات" پر اپنا ڈھانچہ استوار کرتا ہو۔ بلکہ یہ ایک " عملی نظام" ہے جو عمل اور حرکت کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ پہلے وہ مسلم معاشرہ وجود میں آئے جو عقیدہ الوہیت کا اقرار کرتا ہو اور یہ عہد کرتا ہو کہ حاکمیت اعلیٰ خدا کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ غیر اللہ کی حاکمیت کی وہ صاف صاف نفی کرتا ہو اور ہر اُس قانون کے جواز کو چیلنج کرتا ہو جو عقیدہ الوہیت پر منبنی نہ ہو۔ اس نوع کا معاشرہ جب وجود میں آ جاتا ہے اور اسے بالفعل مختلف عملی مسائل سے سابقہ پیش آتا ہے اور اُسے ایک نظام اور قانون کی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو اُس وقت یہ دین احکام و قوانین کی تدوین اور نظام و ضوابط کی تشکیل کا آغاز کرتا ہے۔ اور اپنے پیش نظر وہ لوگ رکھتا ہے جو اصولی طور پر شروع ہی سے اس کے ہر قانون اور ہر ضابطے کو مان چکے ہوتے ہیں اور دوسرے تمام ضوابط و قوانین کو اصولا ٹُھکرا چکے ہوتے ہیں۔

اسے نافذ کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہے

اس عقیدہ کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود مختار ہوں اور انہیں معاشرے میں اقتدار اور غلبہ حاصل ہو جس کے بل بوتے پر وہ معاشرے کے اندر اس نظام کو اور اس کے جُملہ احکام جاری و ساری کر سکیں۔ تا کہ یہ نظام اپنی پوری ہیبت و شکوہ کے ساتھ جلوہ گر اور اس کے احکام صحیح طور پر بارآور ہو سکیں۔ علاوہ ازیں معاشرے کو جب روزمرہ کے عملی مسائل سے واسطہ پڑے گا تو ان سے نپٹنے کے لیے بھی احکام و قوانین کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اس ضرورت اور تقاضے کو پورا کرنے کے لیے سیاسی قوت ناگزیر ہے۔

مکی زندگی میں مسلمان خود مختار نہ تھے اور اپنے معاشرے میں بھی انہیں کوئی اقتدار حاصل نہ تھا۔ ان کی عملی زندگی نے ابھی مستقل اور جُداگانہ شکل بھی اختیار نہیں کی تھی کہ اسے وہ شریعتِ الہٰی کے تحت منظم کرتے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کی طرف سے بھی اس دور میں اُن کے لیے کوئی انتظامی ضابطے اور عمومی قوانین نازل نہیں ہوئے۔ اُس دور میں اُنہیں درگاہِ خداوندی سے جو کچھ عطا ہوا وہ عقیدہ اور صرف عقیدہ تھا یا اس عقیدہ کے رگ و پے میں اُترنے کے بعد اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اخلاق عالیہ تھے۔ لیکن جب مدنی زندگی میں اُن کی ایک خود مختار ریاست وجود میں آ گئی تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُن پر زندگی کا عام ضوابط و احکام کا نزول بھی شروع ہو گیا۔ اور ان کے لیے وہ نظام منصئہ شہود پر آ گیا جو مسلم معاشرے کی عملی ضروریات کو بخوبی پورا کرتا تھا۔ ریاست کی طاقت اس کی پُشت پناہ اور قوت نافذہ (Sanction) تھی۔

اللہ تعالٰی نے یہ نہیں پسند فرمایا کہ تمام ضوابط و قوانین مکہ کے اندر ہی نازل کر دیے جاتے تا کہ مسلمان " تیار حالت " میں ان کا ذخیرہ کر کے رکھ لیتے اور مدینہ میں منتقل ہونے کے بعد جوں ہی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آتا، انہیں فی الفور نافذ اور جاری کر دیا جاتا۔ یہ طریقِ کار مزاجِ دین کے منافی ہے۔ یہ دین اس طرح کی احتیاطی تدابیر سے کہیں زیادہ عملی اور کہیں زیادہ دور اندیش ہے۔ اس کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ فرضی مسائل کے لیے فرضی حل تلاش کرنے میں وقت ضائع کرے۔ بلکہ وہ قائم شدہ صورتِ احوال کا جائزہ لیتا ہے۔ اور اگر یہ دیکھتا ہے کہ فی الواقع ایک ایسا زندہ اور توانا معاشرہ موجود ہے، جو اپنے قالب و شکل کے اعتبار سے اور اپنے حالات و مسائل کے لحاظ سے مُسلم معاشرہ ہے، شریعتِ الہٰی کے سامنے سرنگوں ہو چکا ہے اور غیر الہٰی شرائع سے بےزار ہے۔ تو ایسی صورت میں بے شک یہ دین اس معاشرے کے حالات و ضروریات کے مطابق قوانین وضع کر کے ان کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے۔

اسلامی قانون کی پیشگی تشکیل لاحاصل ہے

جو لوگ آج اسلام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے وہ اپنے نظریات مدون کرے، اپنے نظام کا ڈھانچہ تیار کرے، اپنے قوانین حیات کا دفتر تیار کرے، حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ روئے زمین پر کہیں ایسا معاشرہ نظر نہیں آتا جس نے دوسرے تمام انسانی قوانین کو مسترد کر کے بالفعل شریعت الہٰی کے ہاتھ میں اپنی زمامِ حکومت دے رکھی ہو اور اُسے وہ اختیارات بھی حاصل ہوں، جن کے بل پر اس کے قوانین کو نافذ کیا جا سکے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اسلام سے اس قسم کا مطالبہ کرنے والے درحقیقت اس دین کے مزاج سے ناآشنا ہیں اور زندگی کی بے کراں پنہائیوں میں دین کے عملی کردار سے ناواقف ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ دین کی عملی تنفیذ سے اللہ تعالٰے کی منشا کیا ہے؟ درحقیقت ایسا مطالبہ کرنے والے حضرات کی اصل خواہش یہ ہے کہ یہ دین اپنی فطرت سے منحرف ہو جائے، اپنا اصل طریقِ کار تج دے، اپنی تاریخ بدل ڈالے، اور عام انسانی نظریات اور انسانی شریعتوں کی سطح پر اُتر آئے۔ اُن کی کوشش یہ ہے کہ یہ اپنی فطری شاہراہ اور فطری مراحل کونظر انداز کر کے کوئی مختصر راستہ اختیار کر لے تا کہ ان کی فوری اور عارضی خواہشات کی تسکین ہو سکے اور خواہشات بھی وہ جن کی پیدائش کا سبب وہ نفسیاتی شکست ہے جو گھٹیا اور بے بضاعت انسانی قوانین کے مقابلے میں ان پر طاری ہو چکی ہے۔ بایں ہمہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ دین بھی مجرد نظریات اور مفروضات کا مجموعہ بن کر رہ جائے جن کا موضوع بحث ایسے حالات و وقائع ہوں جن کا وجود عنقا ہو۔ مگر اللہ تعالٰی کا منشا یہ ہے کہ یہ دین اُسی طرح نافذ ہو جس طرح پہلے نافذ ہوا تھا۔ پہلے اسے بطور عقیدہ تسلیم کا جائے جو دل و دماغ کی گہرائیوں میں اُترے اور قلب و ضمیر پر اپنی سلطانی قائم کرے۔ پھر اس عقیدہ کے تقاضے پورے کیئے جائیں۔ اس کا اولین تقاضا یہ ہے کہ انسان خدا کے سوا کسی کے آگے نہ جھکیں۔ خدا کے ماسوا کسی ہستی سے قوانین حیات اخذ نہ کریں۔ جب اس عقیدہ کی حامل ایک جماعت تیار ہو جائے اور معاشرے پر اُسے عملی غلبہ نصیب ہو جائے تو اس عقیدے کی روشنی میں ایسے تمام قوانیں بنتے رہیں گے جو اس جماعت یا معاشرے کی عملی ضروریات کو پورا کریں اور اس کی عملی زندگی کی تنظیم کریں۔ یہ ہے اس دین کے قیام کا صحیح طریقہ جو اللہ کو پسند ہے۔ اللہ کے پسندیدہ طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ ہرگز قابلِ قبول نہیں ہو سکتا خواہ لوگ کتنی ہی خواہشیں کریں اور کتنے مطالبات پیش کریں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اقامتِ دین کا صحیح طریقہ

اِس بنا پر دعوت اسلامی کے علمبرداروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جب لوگوں کو دین کے احیاٗ اور تجدید کی دعوت دیں تو اُن سے پہلا مطالبہ یہ کریں کہ وہ اسلام کے بنیادی عقیدہ کا اقرار کریں۔ وہ لوگ چاہے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوں، انہوں نے مسلمانوں کے سے نام رکھ رکھے ہوں، اُن کے پیدائش کے سرٹیفکیٹ بھی اُن کے مسلمان ہونے کی شہادت دیتے ہوں۔ بہرحال دعوتِ اسلامی کے علمبردار پہلے ان مسلمانوں کو یہ سمجھائیں کہ " اسلام " جس حقیقت کا نام ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقیدہ لا الٰہ الا اللہ کو اس کے حقیقی مفہوم کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ہر معاملہ صرف اللہ تعالٰی کی حاکمیت میں دیں اور جو لوگ اللہ کی حاکمیت سے بغاوت کر کے اپنی ذات کے لیے اس حاکمیت کا دعویٰ کریں، ان کے اس دعوے کی تردید کریں۔ عقیدہ اسلام کو اس کے اس مفہوم کے ساتھ ماننے کے بعد یہ لازم آتا ہے کہ یہ عقیدہ ماننے والے کے دلوں اور دماغوں میں اچھی طرح رچ بس جائے۔ ان کی عبادات پر اسی کی چھاپ ہو اور ان کی زندگی کا ہر گوشہ اِسی کے نُور سے فروزاں ہو۔

لوگوں کے اندر جب بھی دعوتِ دین کی تحریک برپا ہو، اُس کے نگاہ میں اس پہلو کو اساسی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ خود دنیا کی پہلی اسلامی تحریک نے اِسی کو دعوت کی اساس قرار دیا تھا۔ قرآن کریم کا مکی حصہ پورے 13 سال تک اس پہلو کو قائم اور مستحکم کرنے میں لگا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانوں کا کوئی گروہ دین کے حقیقی مفہوم کو اس طرح سمجھ کر تحریک اِسلامی میں داخل ہو جائے تو صرف اِسی گروہ کو صحیح معنوں میں " اسلامی جمیعت " یا " اسلامی معاشرہ " کہا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ جمیعت یا معاشرہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ اس کی اجتماعی زندگی میں اسلام کا نظامِ حیات جاری و ساری ہو۔ کیونکہ اس جمیعت نے اپنی آزاد مرضی سے یہ طے کر لیا ہے کہ اس کی پُوری زندگی اِسلامی نظام پر استوار ہو گی اور وہ کسی معاملہ میں بھی خداوندِ عالم کی حاکمیت کے سوا کسی اور کی حاکمیت کو قبول نہیں کرے گی۔

یُوں جب ایک معاشرہ بالفعل وجود میں آ جائے گا تو نظامِ اسلامی کی اساسی تعلیمات اُس کے سامنے رکھ دی جائیں گی اور معاشرہ خود ہی نظامِ اسلامی کے عمومی ضوابط کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ایسے تمام قوانین اور احکام وضع کرتا رہے گا جن کا عملی ضروریات تقاضا کریں گی۔ ہمارے نزدیک ایک عملی اور حقیقت پسندانہ اور حکیمانہ اسلامی نظامِ حیات کو قائم کرنے کے لیے مختلف مراحل کی یہی صحیح اور بار آور ترتیب ہے۔ بعض عجلت پسند مخلصین جنہیں دین کی اصل حقیقت اور مزاج کا ادراک حاصل نہیں اور نہ انہوں نے دین کے اُس سیدھے اور راست ربانی طریقِ کار پر ہی غور کیا ہے جو خدائے علیم و حکیم کے بے پایاں حکمت پر مبنی ہے اور انسانی طبائع اور زندگی کی ضروریات کے بارے میں اُس کے علم مُحیط کا کرشمہ ہے۔ وہ بسا اوقات یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ لوگوں کو اسلامی نظام کی بنیادوں، بلکہ محض اسلامی قوانین و احکام سے آگاہ کرنے ہی سے دعوتِ اسلامی کی راہ آسان ہو جائے گی اور لوگوں کے دلوں میں اسلام کے لیے خود بخود ہمدردی کے جذبات پیدا ہو جائیں گے۔ ان حضرات کا یہ نظریہ محض ایک خام خیالی ہے جو ان کے عجلت پسند ذہنوں کی پیداوار ہے۔ یہ اُسی قبیل کا ایک تخیل ہے جس کی مثالیں ہم پچھلے صفحات میں بیان کر چکے ہیں کہ کس طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی ایسی کئی ایک تجاویز پیش کی جا سکتی تھیں اور کہا جا تھا کہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم اگر اپنی دعوت کا آغاز قوم پرستی کے کسی نعرے، معاشی انقلاب کے کسی دعوے یا اخلاقی اصلاح کی کسی تحریک سے کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ہموار اور آسان ہو جاتی اور انہیں مشکلات کی وادی پُرخار میں آبلہ پائی نہ کرنی پڑتی۔

اصولی طور پر سب سے پہلے ضروری ہے کہ دل خدائے واحد کے لیے یکسو ہونے چاہییں۔ اُسی کی عبودیت کا اعلان کریں، اُسی کی شریعت کو تسلیم کریں اور دوسری ہر شریعت کو ٹھکرا دیں قبل اس کے کہ شریعت کی تفصیلات بتا کر اُن کے اندر اس کے لیے مزید رغبت اور کشش پیدا کی جائے۔ شریعت کے ساتھ یہ رغبت تو دراصل اللہ کی خالص بندگی کے چشمے سے ہی اُبلنی چاہیے۔ اور اس کا مآخذ دلوں میں غیر اللہ کی غلامی سے نجات پانے کا شوقِ فراواں ہو۔ یہ کوئی صحیح صورتِ حال نہیں ہو گی کہ دلوں میں قانون الہٰی کے ساتھ رغبت اور دلچسپی کی بنیاد یہ امر ہو کہ تقابلی مطالعہ کے بعد بعض لوگوں نے اس کو بعض پہلوؤں سے اُن انسانی قوانین سے زیادہ مفید اور بہتر پایا ہے جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں عملا جاری ہو ساری ہیں۔ بلاشبہ نظام خداوندی سراسر چشمہ خیر و سعادت ہے۔ اس کے باعث خیر اور موجبِ سعادت ہونے کے لیے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ اُسے اللہ تعالٰی نے تجویز فرمایا ہے۔ غلاموں کی شریعت کسی حال میں بھی اللہ کی شریعت سے لگا نہیں کھا سکتی۔ گر ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حقیقتِ نفس الامری دعوت اسلامی کی بنیاد نہیں ہے۔ دعوت کی بنیاد صرف " اسلام " ہے۔ اور اسلام جس حقیقیت کا نام ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی شریعت کو ہر حال میں بلا چون و چرا قبول کیا جائے اور دوسرے تمام شریعتوں کو اور ان کی ہر شکل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جائے۔ اس کے سوا اسلام کا اور کوئی مفہوم نہیں ہو سکتا۔ جس کو اس ابتدائی اسلام سے رغبت اور وابستگی ہو گی اس کا آخری فیصلہ بھی ظاہر ہے کہ شریعت کے حق میں ہی ہو گا مگرا س کے بعد وہ اس بات کا محتاج نہیں رہے گا کہ اسلامی نظام کی آن بان، اس کے حُسن و جمال اور اس کی افضلیت و برتری کی تفصیلات سُنا سُنا کر اُس کو ترغیب دی جائے اور جذبہ شوق اُبھارا جائے۔ یہ ہے ایمان کے بدیہی حقائق میں سے ایک اہم اور بنیادی حقیقیت۔

اسلام نے جاہلیت کا مقابلہ کیسے کیا؟

ان تفصیلات کے بعد اب ہم یہ بتا دینا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن حکیم نے مکہ کی تیرہ سالہ زندگی میں عقیدہ اور ایمان کے مسئلہ کو کس طرح حل کیا۔ قرآن نے عقیدہ کو مجرد نظریہ (Theory) کی صورت میں یا الہیات کے روپ میں نہیں پیش کیا۔ اور نہ اس کے بیان میں وہ انداز اختیار کیا ہے جو ہمارے علم الکلام نے کلامی بحثوں کے باب میں اختیار کیا ہے۔ اس کے برعکس قرآن ہمیشہ انسان کی فطرت کو اپیل کرتا ہے اور ان چیزوں سے اپنے دلائل اور اشارات اخذ کرتا ہے جو خود انسان کے اپنے نفس میں اور ارد گرد کے ماحول میں پائے جاتے ہیں۔ وہ انسان کی فطرت کو اوہام و خرافات کے انباروں کے نیچے سے نکالتا ہے اور ادراک کی اس فطری صلاحیت کو جِلا بخشتا ہے جو زنگ آلود ہو چکی تھی اور بیکار ہو چکی تھی۔ اسی طرح قرآن انسانی فطرت کے دریچوں کو وا کرتا ہے اور اس کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اس کے مؤثر اور لطیف اشارات کو سمجھ سکے اور انہیں قبول کر سکے۔

یہ تو قرآن کی تعلیمات کا ایک عام پہلو تھا۔ اس کی انقلابی تعلیمات کا خاص پہلو یہ تھا کہ اُس نے توحید کی بنیاد پر سوسائٹی کے اندر ایک عملی جنگ چھیڑ رکھی تھی اور اُن جاہلی نظریات و روایات کے خلاف معرکہ آرائی کر رکھی تھی جن کے ملبے کے نیچے انسانیت مدفون تھی اور فطرتِ انسان معطل اور اپاہج۔ لہٰذا ان مخصوص حالات کا مقابلہ کے لیے اسلام کے لیے یہ شکل مناسب نہ تھی کہ اُسے ایک " نظریہ " کے طور پر پیش کیا جاتا۔ بلکہ یہی مناسب صورت تھی کہ وہ عملی مقابلہ کا عزم لے کر میدانِ کارزار میں اُترے اور انسان کے دل و دماغ پر جو فکری اور عملی پردے پڑے ہوئے تھے اُن کو چاک کرے اور اُن تمام چٹانوں کو پاش پاش کرے اور ان تمام دیواروں کو رستے سے ہٹائے جو انسان کے حق تک رسائی حاصل کرنے میں حائل کر دی گئی تھیں۔ اسی طرح عقلی مجادلہ کا اسلوب بھی جو قرون مابعد میں علم الکلام کا طریقہ رہا ہے اور جس سارا دارومدار لفظی منطق پر تھا، اسلام کو پیش کرنے کی مناسب صورت نہ تھی۔ اس لیے کہ قرآن تو پورے انسانی ماحول اور اُس کے متحرک اسباب و عوامل سے زور آزما تھا اور پوری انسانیت سے ہمکلام تھا جو بگاڑ کے بے کراں سمندر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس مقصد کے لیے " الہیات " کا انداز بیان بھی اُس کے لیے مفید نہ تھا۔ اس لیے کہ اسلامی عقیدہ اگرچہ وجدان سے تعلق رکھتا ہے مگر وہ درحقیقت عملی زندگی کا ایک لائحہ پیش کرتا ہے اور عمل کی دنیا میں اُس کا نفاذ کرتا ہے۔ الہیات کی نظری بحثوں اور ذہنی خیال آرائیوں کی طرح وہ زندگی کے محدود اور تنگ دائرے میں محصور نہیں رہتا۔

قرآن ایک طرف اسلام جماعت کے دلوں میں عقیدہ کی عمارت چنتا ہے اور دوسری طرف ساتھ ہی اس جماعت کو لے کر اردگرد کے جاہی قلعوں پر قوت کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے اور خود اسلامی جماعت کے انکار و اعمال اور اخلاق و معاملات کے اندر بھی جو جاہلی اثرات اُسے نظر آتے ہیں اُن کے خلاف بھی بھرپور جنگ لڑتا ہے۔ چنانچہ انہی بلا خیز حالات و عوامل کے منجدھار میں اسلامی عقیدہ کی تعمیر ہوئی، لیکن " نظریہ " یا " الہیات " کی شکل میں نہیں اور نہ " کلامی جدلیات " کے لباس میں، بلکہ زندگی سے لبریز فعال اور نامی ( Organic) تحریک کی شکل میں جس کا مظہر قرآن کی تیار کردہ مذکورہ جماعت اسلامی تھی۔ اس جماعت کا پورا ارتقاء افکار کے لحاظ سے، اخلاق و کردار کے لحاظ سے اور تربیت و تعلیم کے لحاظ سے اسلام کے تحریکی تصور کے تحت ہوا۔ اُسے جو تربیت ملی اُس میں یہ روح کارفرما تھی کہ یہ جماعت دراصل ایک ایسا منظم اور معرکہ آرا لشکر ہے جسے جاہلیت سے نبرد آزما ہونا ہے۔ چنانچہ اس تحریک کا ارتقاء خود عقیدہ فکر کے ارتقاء کی عملی تفسیر تھا۔ ----------- یہ ہے اسلام کا صحیح طریقِ کار جو اسلام کی فطرت اور روح کا صحیح عکاس ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام نظری نہیں بلکہ عملی دین ہے۔

دعوت اسلامی کے علمبرداروں کو دین کے مزاج اور اس کے تحریکی طریقِ کار کا یہ پہلو جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے، اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ اس پہلو پر غور کرنے سے انہیں معلوم ہو گا کہ عقیدہ کی تعمیر و تشکیل کو وہ طویل مرحلہ جو مکہ کی زندگی میں گزرا ایسا نہیں ہے کہ اس میں اسلام کو صرف نظریاتی طور پر سیکھنے سکھانے پر ہی اکتفاء کیا گیا ہو۔ درحقیقت تعمیر عقیدہ کا مرحلہ اور وہ مرحلہ جس میں اسلامی تحریک کی عملاً تنظیم کی گئی اور اسلامی جماعت کی بالفعل داغ بیل ڈالی گئی دو جداگانہ اور ایک دوسرے سے منفک مرحلے نہیں تھے۔ بلکہ یہ دونوں ایک ہی مرحلہ تھے جس میں بیک وقت عقیدہ کی تخم ریزی بھی کی گئی، اسلامی تحریک اور اسلامی جماعت کا قیام بھی عمل میں لایا گیا اور اسلام کے عملی وجود کا ڈھانچہ بھی تیار کیا گیا۔ اس لیے آئندہ جب کبھی احیائے اسلام کی کوشش کی جائے تو اِسی جامع طریقہ کو اختیار کیا جانا چاہیے۔

مناسب یہی ہے کہ تعمیر عقیدہ کا مرحلہ دراز تر ہو۔ تعمیر کا کام کشاں کشاں شرمندہ تکمیل ہو۔ ہر قدم گہرائی اور استحکام کا آئینہ دار ہو۔ اس مرحلے کو عقیدہ کی کھوکھلی نظری بحثوں کی نذر نہ کیا جائے۔ بلکہ اس مرحلہ میں عقیدہ ایک ایسی زندہ حقیقت بن کر دیدہ نواز ہو جو (اپنی فطری ترتیب کے ساتھ) عقیدہ میں ڈھلے ہوئے دلوں کی شکل میں ہو۔ ایسے متحرک جماعتی نطام می شکل میں ہو جس کا داخلی اور خارجی ارتقاء کا مظہر ہو، ایسی عملی تحریک کی شکل میں ہو جو جاہلیت کو میدانِ عمل میں اُتر کر للکار رہی ہو اور نہ صرف فکر و نظر کے محاذ پر بلکہ عمل و کردار کے محاذ پر بھی اُس سے گرم پیکار ہو۔ تاکہ یہ عقیدہ پیکر محسوس میں تبدیل ہو جائے اور اس کشمکش کے اندر رہ کر نشو و نما حاصل کرے۔

جہاں تک اسلام کا تعلق ہے یہ بات اس کے نزدیک انتہائی غلط ہی نہیں، انتہائی خطرناک بھی ہے کہ عقیدہ اسلامی کھوکھلے نظریہ کی شکل میں ارتقاء پذیر ہو اور محض نظری بحث اور مجرد فکری تحقیق و جستجو کے میدان میں محدود رہے۔ قرآن کریم نے مکی دور میں عقیدہ کی تعمیر و استحکام پر پورے 13 سال اس وجہ سے نہیں صرف کیے تھے کہ وہ یکبارگی نازل ہو گیا تھا۔ اللہ تعالٰی اگر چاہتا تو پورا قرآن یکبارگی نازل کر دیتا اور پھر اس کے ماننے والوں کو کم و بیش 13 برس تک کچھ نہ کہتا۔ یہاں تک کہ وہ اس عرصہ میں " اسلامی نظریہ " پر علمی اور نظری دونوں لحاظ سے عبور حاصل کر لیتے۔ مگر اللہ تعالٰی نے یہ طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ اُسے کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ دنیا کے اندر ایک لاثانی نظام زندگی کو جاری و ساری کرنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ہی وقت میں عقیدہ کی تعمیر، اس کی علمبردار تحریک کی تاسیس اور اُس کے نمائندہ معاشرے کی تنظیم بروئے کار لانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ عقیدہ کی قوت سے تحریک اور جماعت برپا ہو اور تحریک اور جماعت کے سیلِ رواں سے عقیدہ فروغ پذیر ہو۔ وہ چاہتا تھا کہ عقیدہ، جماعت کی متحرک اور عملی زندگی سے عبارت ہو اور جماعت کی حرکت و گرمی عقیدہ کی آئینہ داری کرے۔ اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ انسانوں کی اصلاح اور معاشرے کی صحت مندانہ تشکیل ایسا کام نہیں ہے کہ راتون رات ہو جائے۔ اس لیے کہ عقیدہ کی تعمیر و فروغ میں اتنی ہی مدت لازماً صرف ہوتی ہے جتنی مدت کسی فرد کی اصلاح اور جماعت کی تشکیل و تنظیم کے لیے درکار ہوتی ہے۔ کہ ادھر عقیدہ کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچے، اور اُدھر ایک ایسی مضبوط جماعت منصئہ شہود پر آ جائے جو اس کا مظہر حقیقی اور عملی تفسیر ہو۔

اس دین کا یہی مزاج ہے۔ قرآن کریم کے مکی دور سے بھی اس کے اس مزاج کا ثبوت ملتا ہے۔ ہمیں دین کا مزاج شناس ہونا چاہیے اور اپنی بے تاب خواہشات اور بے بضاعت انسانی نظریات سے ہزیمت خوردہ احساسات کی رو میں بہ کر دین کے مزاج میں تغیر و تبدل کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ دین اپنے اسی مخصوص مزاج کے کرشموں سے پہلے بھی " امتِ مسلمہ " کے نام سے ایک عظیم امت کی تخلیق کا کارنامہ سر انجام دے چکا ہے اور آئندہ بھی جب کبھی " امت مسلمہ " کو دنیا میں دوبارہ کھڑا کونے کا ارادہ کیا جائے گا تو دین کے اسی مزاج اور طریق کار کی روشنی میں اُسے تیار کیا جا سکے گا۔ ہمیں یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسی ہر کوشش غلط ہے اور خطرناک بھی، جس کا مقصد یہ ہو کہ اسلام کے زندہ و تابندہ عقیدہ کو جسے ایک حرکت پذیر توانا اور جیتے جاگتے معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرنا چاہیے اور ایک منظم تحریک کے قالب میں جلوہ ریز ہونا چاہیے، اُسے اپنے اس فطری عمل سے محروم کر کے مجرد نظریاتی درس و تدریس اور علمی بحث و مطالعہ کی آماجگاہ بنا دیا جائے۔ تا کہ ہم بے بضاعت اور ہیچ و ناکارہ انسانی نظریات کے مقابلے میں " اسلامی نظریہ " کی طاقت اور برتری ثابت کر سکیں۔ اسلامی عقیدہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ چلتے پھرتے انسان اُس کا مظہر و نمونہ ہوں، وہ ایک ٹھوس انسانی تنظیم اور فعال تحریک کا لائحہ عمل ہو اور ایک ایسی تحریک کا روپ دھار لے جو ارد گرد کی جاہلیت سے بھی دست و گریباں ہو۔ اور اپنے نا لیواؤں کے اندر بھی جاہلیت کے باقی ماندہ اثرات سے برسرِ پیکار ہو۔ اس لیے کہ اس عقیدہ کو حرزجاں بنانے سے پہلے وہ بھی تو اسی جاہلیت کا ایک جز تھے اور بچے کھچے جاہلی اثرات کا اُن میں پایا جانا عین ممکن ہے۔ اسلامی عقیدہ اپنی اس ماہیت کے لحاظ سے قلوب و اذہان کا اس قدر وسیع و عریض رقبہ گھیر لیتا ہے جو اُس رقبہ سے کہیں زیادہ وسیع و طویل ہوتا ہے جو نظریاتی بحثوں کے دائرے میں آتا ہے۔لیکن وہ صرف قلوب و اذہان کو اپنی جولانگاہ بنانے پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اعمال و کردار کی لا محدود پہنائیوں پر بھی چھا جاتا ہے۔ الوہیت، کائنات، زندگی اور انسان یہ وہ مباحث ہیں جن کے بارے میں اسلام کا تصور نہایت جامع، ہمہ گیر اور کامل ہی نہیں حقیقت پسندانہ اور ایجابی بھی ہے۔ اسلام اپنے مزاج اور فطرت کی بنا پر یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ نرے عقلی اور علمی تصور کا تجریدی ڈھانچہ بن کر رہ جائے۔ یہ اُس کی فطرت کے بھی منافی ہے اور اس کی غایت اور نصب العین کے بھی خلاف ہے۔ اُسے جو بات پسند ہے وہ یہ ہے کہ وہ زندہ انسانوں کے پیرائے میں نمودار ہو، ایک زندہ تنظیم اُس کی نمائندہ اور ایک عملی تحریک اُس کی عملی تفسیر ہو۔ اس کا طریقہ ارتقاء بھی نرالا ہے۔ یہ چلتے پھرتے افراد سیماب آں تنظیم اور فعال تحریک کے اندر سے کھیتی کی طرح اُگتا اور نشو و نما پاتا ہوا اس مرحلہ پختگی تک پہنچ جاتا ہے جہاں نظری لحاظ سے بھی اور عمل و واقع کے لحاظ سے بھی اس کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ اپنے دور تمو میں وہ کبھی مجرد نظریہ کی حیثیت سے زندگی کے عملی مسائل سے الگ تھلگ نہیں رہتا بلکہ واقع اور عمل اور حرکت کے جلو میں تمام مراحل طے کرتا ہے۔ رہا یہ طریقہ کہ پہلے اسلامی تصور کی نظری اور تجریدی حیثیت سے پخت و پُر کر لی جائے اور بعد میں اسے تحریک و عمل کی دنیا میں پروان چڑھایا جائے تو نشوو نما کا ایسا طریقہ اس دین کی فطرت، اس کے نصب العین، اس کی مخصوص ترکیب عنصری ہر لحاظ سے نامناسب بھی ہے، خطرناک اور نقصان دہ بھی۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاہُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِيلاً ۔ (بنی اسرائیل : 106)

اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تا کہ تم ٹھہر ٹھہر کر اسے لوگوں کو سُناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اُتارا ہے۔

اس ارشاد کی رُو سے اسلام میں دونوں پہلو قصداً بیک وقت اختیار فرمائے گئے ہیں۔ قرآن کی رفتہ رفتہ تنزیل اور پھر اسے لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سُنانا۔ یہ طریقہ اس لیے اختیار فرمایا گیا تا کہ عقیدہ کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والا نظام ایک زندہ اور فعال تنظیم کے پیکر میں نمودار ہو کر پایہ تکمیل کو پہنچے، نہ کہ نظریہ محض کی شکل میں۔
 

شمشاد

لائبریرین
دین کا طریقہ فکر و عمل بھی ربانی ہے

اس دین کے علمبرداروں کو یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جس طرح یہ دین ربانی نظام ہے، اسی طرح اُس کا طریق کار بھی وحی الہٰی پر مبنی ہے۔ دین کی اصل فطرت اور اس کے طریق کار دونوں میں مکمل مناسبت اور ہمرنگی ہے۔ چنانچہ دین کو اس کے مخصوص طریقِ کار کے تحت رُو بعمل نہ لانا سعی لا حاصل ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کہ جس طرح یہ دین فکر و نظر کے انقلاب سے کردار و عمل کی دنیا میں انقلاب برپا کرنے کے لیے آیا ہے، اسی طرح اس کا مشن یہ بھی ہے کہ وہ ان منہاجِ فکر کو بھی بدل ڈالے جو عقیدہ کی تعمیر اور عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ دین عقیدہ کی تعمیر بھی کرتا ہے اُمت کی تشکیل تھی۔ اور ساتھ ہی اپنے مخصوص نظامِ فکر کو بھی فروغ دییا ہے اور اُسے رائج کرنے پر اُسی درجہ قوت صرف کرتا ہے جس درجہ عقیدہ کی تاسیس اور عمل کی تبدیلی پر کرتا ہے۔ چنانچہ اس دین کا مخصوص نظامِ فکر، اس کی مخصوص آئیڈیالوجی اور اس کی مخصوص نوعیت کی جاندار تحریک یہ تینوں جدا جدا اور الگ نہیں ہیں بلکہ بیک وقت سرانجام پاتے ہیں کیونکہ ایک ہی پھول ہے کہ جس کی پنکھڑیاں ہیں۔

تشریح بالا سے ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ دین کا اپنا مخصوص طریق کار ہے۔ اب دوسرے قدم پر ہمیں یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ یہ طریق کار منفرد ہے اور ابدی ہے۔ یہ طریق کار دعوتِ اسلامی کے کسی مخصوص مرحلے سے وابستہ نہیں ہے نہ یہ کسی مخصوص حالات رکھنے والے کسی ماحول کے لیے اُترا ہے، نہ صرف اُن حالات کے لیے تجویز کیا گیا تھا جو اولین اسلامی جماعت کے قیام کے وقت موجود تھے۔ بلکہ یہ طریق کار زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے۔ اور جب کبھی دین حق کا قیام و فروغ عمل میں آئے گا، اسی طریق کار کے نتیجے میں آئے گا۔

اسلام کی ذمہ داری محض اتنی نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے عقائد و اعمال میں انقلاب برپا کر دے، بلکہ یہ بھی اُس کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کے طرزِ فکر اور اندازِ نظر کو بھی بدل ڈالے اور تصورات اور حالات کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دے۔ چونکہ اسلام کا نظام فکر بھی ہدایتِ الہٰی سے ہی ماخوذ ہے اس لیے یہ اپنی فطرت و ساخت کے لحاظ سے ان تمام ناقص و بے روح انداز ہائے فکر و نظر سے سراسر مختلف ہے جنہیں فانی اور کوتاہ نظر انسانوں نے تخلیق کیا ہے۔

جب ہم اسلام کو ایک نظریہ مجرد کی حیثیت سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ یہ صرف بحث و مطالعہ کے حلقے کی رونق بنا رہے تو اس طرح ہم اُسے اُس کے ربانی طریقِ کار اور ربانی طرز فکر دونوں سے جُدا کر دیتے ہیں۔ اور اُسے انسانی نظامِ فکر کا تابع بنا دیتے ہیں۔ گویا اللہ تعالٰی کا تجویز کر دہ طریق فکر ------- معاذ اللہ ----------- انسانی طریق ہائے فکر سے فروتر ہے، اور ہم فکر و عمل کے خدائی نظام کو " ترقی " دے کر اُسے انسانی نظاموں کے ہم پلہ کر دینا چاہتے ہیں۔ ------------------- یہ زاویہ نگاہ انتہائی خطرناک اور مضر ہے اور اس انداز کی ذہنی و فکری ہزیمت ملت کے لیے سخت تباہ کن ثابت ہوا کرتی ہے۔

نظامِ حق اُن سب اصحاب کو جو دعوتِ اسلامی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں فکر و تدبر کےمخصوص پیمانوں اور اسالیب کی خرابیوں سے بچ سکتے ہیں جو جاہلیت نے دنیا بھر میں رائج کر رکھے ہیں۔ اور جنہوں نے خود ہماری عقلوں کو ماؤف اور ہماری تعلیم و ثقافت کو زہرآلود کر رکھا ہے۔ اس فتنئہ عظیم کے مقابلے میں اگر ہم نے اس دین کو ایسے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جو اس کی فطرت کے لیے بالکل اجنبی ہے، اور جاہلیت غالبہ ہی کا ایک نتیجہ ہے تو ہماری یہ کوشش دُہرے خسارے پر منتج ہو گی۔ ایک طرف ہم دین کو اپنے اصل وظیفہ اور عمل سے معطل کر دیں گے جسے سرانجام دینے کے لیے وہ انسانیت کے پاس آیا ہے اور دوسری طرف ہم بحیثیت انسان اپنے آپ کو ایک ایسے سنہری موقع سے بھی محروم کر لیں گے جس میں ہم عصرِ حاضر کے جاہلی نظام سے گلو خلاصی کرا سکتے تھے اور جاہلیت کے اُن تمام زہریلے اثرات سے اپنے آپ کو بچا سکتے تھے جو ہمارے ذہنوں اور ہماری تربیت میں پائے جاتے ہیں۔ معاملے کا یہ پہلو بھی انتہائی خطرناک اور سنگین ہے، اور اس انداز کا خسارہ بھی انتہائی تباہ کُن ثابت ہو گا۔

اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے خود نظامِ فکر اور لائحہ عمل کی جو اہمیت و ضرورت ہے وہ اُس اہمیت و ضرورت سے کسی پہلو کم نہیں ہے جو اسلام کے عقیدہ اور نظامِ حیات کو حاصل ہے۔ کیونکہ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے منفک اور جدا جدا نہیں ہیں۔ ہمیں یہ خیال خواہ کتنا ہی اچھا اور خوشنما معلوم ہو، اور ہم اسلام کے عقیدہ و نظام کی خوبیوں کو زبان و قلم سے چاہے کتنا ہی واضح کرتے پھریں، مگر یہ حقیقت ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ ہمارے یہ خدمت دنیا کے اندر اسلام کو کبھی ایک واقعہ اور تحریک کی صورت میں برپا نہیں کر سکتی۔ بلکہ یہ بات بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ اس شکل میں اگر ہم اسلام کو پیش کرتے رہیں گے تو اس سے باہر کے لوگ نہیں، صرف وہ گروہ ہی استفادہ کر سکے گا جو بالفعل اسلامی تحریک کے لیے کام کر رہا ہے۔ اور خود یہ گروہ بھی زیادہ سے زیادہ اس سے جو استفادہ کر سکے گا وہ یہ ہے کہ اپنے تحریکی سفر میں وہ جس مرحلے تک پہنچ چکا ہے اُس مرحلے کی ضرورت و تقاضا کو اس کی مدد سے پورا کر سکے۔ لہٰذا اس مناسبت سے میں دوبارہ یہ کہوں گا کہ اصل طریقہ یہ ہے کہ ایک طرف اسلامی عقیدہ کو بلا تاخیر عملی تحریک میں تبدیل ہو جانا چاہیے اور دوسرے طرف یہ تحریک بھی اُسی ساعت سے عقیدہ کی صحیح تصویر اور حقیقی ترجمان ہونی چاہیے۔ میں مکرر کہوں گا کہ اسلام کے غلبہ کا یہی فطری طریق کار ہے اور یہ طریق کار نہ صرف خوب تر اور سیدھا اور صاف ہے، بلکہ نہایت مؤثر و دل نشین بھی ہے اور اُن تمام طریق ہائے کار کی نسبت فطرتِ انسان سے زیادہ قریب ہے جو پہلے نظریات و افکار کی تراش خراش کر کے انہیں مجرد علمی بحثوں کے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ مرحلہ کہ انسان ان نظریات کے بل پر کوئی عملی تحریک اٹھائیں یا خود ان نظریات کا چلتا پھرتا نمونہ بنیں، اور ان کی رہنمائی میں منزل بہ منزل کوئی پیش قدمی کریں، ابھی بہت دور ہوتا ہے، نہ کبھی اس کے ان لوگوں کو پیش آنے کا امکان ہی کہیں موجود ہوتا ہے۔

اسلامی نظام کے نفاذ سے پہلے اسلامی قانون کا مطالبہ درست نہیں

یہ نقطہ نگاہ اگر بذاتِ خود اسلام کے نظریہ و عقیدہ کے بارے میں درست ہے تو اسے اسلامی نظام کی بنیادوں اور اس کی قانونی تفصیلات کے بارے میں قدرتی طور پر بدرجہ اولٰی صحیح ہونا چاہیے۔ یہ جاہلیت جو آج ہمارے گرد و پیش میں بُری طرح چھائی ہوئی ہے، جہاں یہ دعوت اسلامی کے بعض مخلص خادموں کے اعصاب پر اس قدر بار گراں بن رہی ہے کہ وہ بے صبر ہو کر اسلامی نظام کے تمام مراحل کو بعجلت عبور کر جانا چاہتے ہیں وہاں وہ انہیں ایک اور نازک سوال سے بھی دوچار کر رہی ہے۔ وہ ان سے بار بار یہ سوال کرتی رہتی ہے کہ اس نظام کی تفصیلات کیا ہیں جس کے تم داعی ہو؟ اُسے نافذ کرنے کی خاطر تم نے اس پر کتنی ریسرچ کر رکھی ہے؟ کتنے مقالے اور مضامین تیار کر رکھے ہیں؟ اور فقہ کو کس حد تک جدید اصولوں پر مرتب کر رکھا ہے؟ گویا آج لوگوں کے پاس شریعتِ اسلامی کو جاری و ساری کرنے کے لیے اور کسی چیز کی کمی نہیں ہے، صرف فقہی احکام اور فقہی تحقیقات کی کمی ہے۔ وہ اللہ کا حاکمیت کو بھی مان چکے ہیں اور اللہ کی شریعت کو حاکم بنانے پر تھی راضی ہیں۔ بس ایک ہی کسر رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ " مجتہدین" کی طرف سے ابھی تک انہیں جدید طرز پر مدون کی ہوئی فقہ سپلائی نہیں کی گئی ہے۔ درحقیقت یہ اسلام پر ایک نہایت رکیک طنز ہے۔ اور اس پر ہر اُس شخص کو آتش پا ہو جانا چاہیے جس کے دل میں دین کا ذرہ بھر بھی احترام اور غیرت موجود ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
جاہلیت کے ہتھکنڈوں سے متنبہ رہنا چاہیے

جاہلیت اس طرح کی چھیڑ خانیوں اور اشقلہ بازیوں سے صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اُسے شریعتِ الہٰی کو رد کر دینے کا بہانہ مل جائے۔ اور وہ انسان پر انسان کی آقائی کے نظام کو قائم و دائم رکھ سکے۔ اُس کی یہ بھی خواہش ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں کو اقامتِ دین کے اُس طریق کار سے پھیر دے جو اللہ تعالٰی نے تجویز فرمایا ہے۔ انہیں اس اصول پر قائم نہ رہنے دے کہ فکر و عقیدہ کی تعمیر تحریک کی شکل میں ہو۔ وہ طریقِ دعوت کا وہ مزاج ہی مسخ کر دینا چاہتی ہے جس کی رُو سے اسلامی نظریہ کی تکمیل تحریک کو طوفان خیزیوں کے منجدھار میں ہوتی ہے۔ نظامِ اسلامی کے خد و خال عملی کاوشوں کے ذریعہ اُجاگر ہوتے ہیں اور قانون سازی اسلامی زندگی کے عملی مسائل اور حقیقی مشکلات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے لیکن داعیان حق کو جاہلیت کی اس فسوں کاری پر دھیان نہ دینا چاہیے۔ بلکہ انہیں جرات کے ساتھ ہر ایسے طریق کار کو ٹھکرا دینا چاہیے جو ان کی تحریک اور ان کے دین پر جاہلیت کی طرف سے ٹھونسا جا رہا ہو۔ داعیانِ حق کو موم کی ناک نہ بننا چاہیے کہ مخالفِ دین عنصر انہیں جس طرح چاہے توڑتا موڑتا رہے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ جاہلیت کی تمام چال بازیوں کا بھانڈا پھوڑیں، اور ان کا اچھی طرح قلع قمع کریں۔ خاص کر اس مسخرہ پن کی پُوری قوت سے تردید کریں جو " فقہ اسلامی کی تجدید " کے پردے میں ایک ایسے معاشرے کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے جو نہ قانونِ خداوندی کی برتری کو تسلیم کرتا ہے اور نہ غیر الہٰی قوانین سے اظہارِ بیزاری کرتا ہے۔ اس طرح کی باتیں درحقیقت سنجیدہ اور ٹھوس اور مثمر کام سے غافل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔ اور اس لیے کی جاتی ہیں کہ اسلام کے چاہنے والے محض ہوا میں تخم ریزی کر کے اپنا وقت ضائع کرتے رہیں۔ چنانچہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس طرح کے ناپاک ہتھ کنڈوں کا پردہ چاک کریں اور انہیں کامیاب نہ ہونے دیں۔ اس دین نے تحریک کا جو طریق کار پیش کیا ہے اُسی کے مطابق ہی اقامتِ دین کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ اسی طریق کار کے اندر دین کی طاقت کا راز مضمر ہے اور یہی ان کی اپنی طاقت و شوکت کا منبع بھی ہے۔

اسلام اور احیائے اسلام کا طریقِ کار دونوں مساوی اہمیت کے حامل ہیں۔ دونوں میں دوئی نہیں ہے۔ کوئی اور طریق کار خواہ کیسا ہی جاذب نظر ہواسلامی نظام کو کبھی غالب نہیں کر سکتا۔ انسانوں کے وضع کر دہ نظام تو باہر سے درآمد کر دہ طریقِ کار سے قائم و برپا ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے نظام کو بروئے کار لانے سے وہ قاصر ہیں۔ لہٰذا اسلامی تحریک کے لیے اقامتِ دین کے مخصوص طریق کار کی پابندی اتنی ہی لازم ہے جتنی خود اسلام کے بنیادی عقیدہ اور اس کے نظامِ حیات کی پابندی اِن ھذا القرآن یھدی للتی ھی اتومُ (یہ قرآن اُس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا اور صاف ہے۔)

*********************************
 

شمشاد

لائبریرین
باب سوم

اسلامی معاشرے کی خصوصیات
اور
اس کی تعمیر کا صحیح طریقہ​

انبیاء کی اصل دعوت

دعوت اسلامی کا وہ دور جس کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک نے ڈالی اُس دعوت الی اللہ کے طویل سلسلہ کی آخری کڑی ہے جو انبیائے کرام کی قیادت میں ازل سے جاری رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں اس دعوت کا ایک ہی مقصد اور نصب العین رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانوں کو ان کے خدائے واحد اور حقیقی پروردگار سے آشنا کرایا جائے، انہیں رب واحد کی غلامی میں داخل کیا جائے اور دنیا کے اندر انسان کی ربوبیت کی بساط لپیٹی جائے۔ ان معدودے چند افراد کے سوا جو گاہے بگاہے تاریخ میں پائے جاتے رہے ہیں انسان بحیثیت مجموعی کبھی الوہیت کے نظریہ کے منکر نہیں رہے ہیں اور نہ انہوں نے مطلقاً اللہ کی ہستی کا انکار کیا ہے۔ بلکہ یا تو وہ اپنے حقیقی رب کی صحیح معرفت میں غلطی کرتے رہے ہیں اور یا اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی الوہیت میں شریک ٹھہراتے رہے ہیں۔ کبھی عقیدہ و عبادت میں اور کبھی غیر اللہ کی حاکمیت اور اتباع اختیار کرنے کی صورت میں۔ یہ دونوں شکلیں اس اعتبار سے خالصتہً شرک ہیں کہ وہ انسانوں کو اللہ کے دین سے دور لے جانے والی تھیں جسے وہ ہر نبی اور رسول کی زبان سے سمجھتے آئے تھے۔ مگر طویل مدت گزر جانے کے بعد اُس کو بھول جاتے تھے اور آخر کار اسی جاہلیت کی طرف لوٹ جاتے تھے جس سے اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نکالا تھا۔ وہ دوبارہ شرک کی راہ پر چل پڑتے۔ کبھی عقیدہ اور عبادت غیر اللہ کی حد تک اور کبھی دوسروں کی حاکمیت تسلیم کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی حد تک اور کبھی بیک وقت ان دونوں صورتوں میں مبتلا ہو کر۔

کائنات کے اندر انسان کی اصل حیثیت

انسانی تاریخ کے ہر دور میں دعوت الی اللہ کا ایک ہی مزاج رہا ہے۔ اس دعوت کا نصب العین " اسلام " ہے۔ جس کے معنی ہیں : انسانوں کو ان کے پروردگار کا مطیع و فرمانبردار بنانا۔ انہیں ہندوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے واحد کا غلام بنانا، انہیں انسانوں کی حاکمیت، انسانوں کے وضع کردہ شرائع، انسانوں کی خود ساختہ اقدار حیات اور روایات کے پنجے سے نکال کر زندگی کے ہر شعبے میں انہیں خدائے واحد کے اقتدار و حاکمیت اور اس کے قانون کا پیرو بنانا انبیائے سابقین اسی مشن کو لے کر آئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جس اسلام کو لے کر مبعوث ہوئے ہیں اُ س کا پیغام یہی ہے۔ وہ انسانوں کو اُسی طرح اللہ کی حاکمیت کے آگے سرافگندہ کرنے کے لیے آیا ہے جس طرح یہ پوری کائنات اُس کی حاکمیت کے آگے سرنگوں ہے۔ انسان اسی کائنات کا ایک حقیر جُز ہے۔ لہٰذا جو "قوت" انسان کے طبعی وجود کی تدبیر کرتی ہے ضروری ہے کہ وہی " قوت " اس کی تشریعی زندگی کی مدبر اور کارفرما ہو اور جو نظام اور اقتدار اور اسکیم اس پوری کائنات پر متصرف ہے بلکہ خود انسان کے غیر ارادی پہلوؤں پر بھی متصرف ہے انسان اس سے ہٹ کر اپنے لیے الگ کوئی نظام، کوئی اقتدار اور کوئی اسکیم تجویز نہ کرے۔ انسان اپنی نشوونما، اپنی صحت و بیماری اور موت و حیات کے معاملے میں ان طبعی قوانین کے پابند ہیں جو اللہ تعالٰی نے جاری فرما رکھے ہیں۔ بلکہ اپنی ارادی تگ و دو کے جن نتائج و عواقب سے دوچار ہوتے ہیں، اُن کے بارے میں بھی وہ کائناتی قوانین کے سامنے بے بس ہیں۔ ان تمام پہلوؤں میں وہ اللہ کی سنت کو بدلنے پر قادر نہیں ہیں اور نہ اس بات پر قادر ہیں کہ وہ اس کائنات پر حاوی و متصرف نوامیس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل کر سکیں۔ پس انسان کے لیے یہی رویہ مناسب ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تشریعی اور ارادی گوشوں میں بھی اسلام کی اتباع کرے اور زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لے کر بڑے سے بڑے معاملے تک اللہ کی شریعت کو حاکم بنائے۔ تاکہ ایک طرف اس کی زندگی کے غیر ارادی گوشوں اور اختیاری پہلوؤں کے درمیان ہم آہنگی اور توافق پیدا ہو سکے اور دوسری طرف زندگی کے ان دونوں حصوں اور وسیع تر کائنات کے درمیان بھی مطابقت اور یک جہتی پیدا ہو۔ ( اس نکتے کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو : "دینیات " تالیف مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی امیر جماعت اسلامی، پاکستان۔ مطبوعہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ، لاہور۔ مولف)۔

جاہلیت کی ہمہ گیر گرفت سے نجات پانے کا صحیح طریقہ

لیکن جاہلیت جس کا خمیر ہی اس مادہ فاسد سے تیار ہوتا ہے کہ انسان پر انسان کی حاکمیت قائم ہو، اور جو انسان کو کائنات کے ہمہ گیر نظام سے جدا کرتی ہے اور انسانی زندگی کے غیرارادی اور تکوینی حصے کو اختیاری اور تشریعی حصہ سے متصادم کرتی ہے -------------- وہی جاہلیت، جس کے مقابلے میں انبیاء اور رسولوں نے اسلامی دعوت کو پیش کیا اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کے استیصال کے لیے دنیا میں تشریف لائے۔ یہ جاہلیت کسی تجریدی نظریہ کے قالب میں موجود نہیں رہی۔ بعض حالات میں تو اس کا سرے وے کوئی "نظریہ" ہی نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ ہمیشہ جیتی جاگتی تحریک کے روپ میں اُبھرتی رہی ہے۔ ایک ایسے معاشرے کی شکل میں نمودار ہوتی رہی ہے جس کی اپنی لیڈر شپ، اپنے تصورات و اقدار، اپنی روایات و عادات اور اپنے جذبات و احساسات ہوتے ہیں۔ وہ ایک منظم معاشرہ ہوتا ہے، اس کے افراد کے درمیان ربط و تعاون اور منظم توافق و وفاداری اس درجہ پائی جاتی ہے کہ پورا معاشرہ شعوری اور غیر شعوری طور پر اپنے وجود کی حفاظت کے لیے یکساں طور پر متحرک اور چاق و چوبند رہتا ہے۔ اپنی شخصیت کے دفاع میں وہ ایسے تمام خطرانگیز عناصر و اثرات کے ازالہ میں سرگرم رہتا ہے جو اس کے مستقل نظام کے لیے کسی بھی حیثیت سے خطرے کی تمہید ہوتے ہیں۔

جب جاہلیت محض علمی نظریئے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک زندہ و فعال تحریک اور جیتا جاگتا معاشرہ بن کر سامنے آتی ہے تو اس جاہلیت کو مٹانے اور انسانوں کو ازسرِنو خداوند قدوس کے آستاں پر لانے کے لیے ہر وہ کوشش غیر مناسب اور بے سُود ہو گی جو اسلام کی محض علمی نظریہ کی حد تک پیش کرنے پر اکتفاء کرتی ہو۔ جاہلیت عملی دنیا پر قابض ہے اور اس کی پُشت پر ایک زندہ و متحرک ادارہ موجود ہے۔ ایسی حالت میں نظری کوشش جاہلیت کے مقابلے کے لیے فائق تر تو کجا مساوی جواب بھی نہیں ہے۔ جب مقصد یہ ہو کہ ایک بالفعل قائم نظام کو ختم کر کے اُس کے جگہ ایک ایسے نظام کو برپاکرنا ہے جو اپنے مزاج، اپنے اصول حیات اور ہر کلی و جزئی معاملے میں موجودہ غالب جاہلی نظام سے اختلاف رکھتا ہے تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ نیا نظام بھی ایک منظم تحریک اور جان دار معاشرہ بن کر میدانِ مبارزت میں اُترے۔ اور اس عزم کے ساتھ اُترے کہ اُس کی نظریاتی بنیادیں، اس کی انتظامی تدابیر اور نظم اجتماعی، اس کے کارکنوں کے باہمی روابط و تعلقات قائم شدہ جاہلی نظام سے ہر ہر پہلو میں قوی تر اور محکم تر ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسلامی معاشرہ کی نظریاتی بنیاد

وہ نظریاتی بنیاد جس پر اسلام نے تاریخ کے ہر دور میں اپنے معاشرے کی تعمیر کی ہے وہ یہ شہادت ہے کہ : لا الٰہ الا اللہ ----- اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے ----------- اس شہادت کا مطلب یہ ہے کہ اِلٰہ صرف اللہ ہے۔ وہی رب ہے، وہی منتظمِ کائنات ہے، وہ حاکم حقیقی اور مقتدر اعلٰی ہے۔ قلب و ضمیر اُس کی وحدانیت سے منور ہونے چاہییں، عبادات و شعائر میں اُسی کی وحدانیت کا ثبوت پیش کرنا چاہیے، عملی زندگی کے قانون میں اُسی کی وحدانیت کا تصور کارفرما ہونا چاہیے۔ اس کامل اور ہمہ گیر صورت کے علاوہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت عملی لحاظ سے کسی اور طرح نہیں جا سکتی اور نہ شرعی لحاظ سے ہی ایسی شہادت معتبر ہو گی۔ یہ کامل و ہمہ گیر صورت اس قولی شہادت کو ایسے عملی اور مؤثر نظام کا پیرایہ دے دیتی ہے کہ اس کی بنیاد پر اس کے قائل کو مسلم اور منکر کو غیر مسلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ نظری لحاظ سے اس بنیاد کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ انسانی زندگی پوری کی پوری اللہ کے تصرف میں دے دی جائے۔ انسان اپنی زندگی کے کسی معاملے میں اور کسی گوشے میں اپنے آپ کوئی فیصلہ نہ کرے بلکہ اللہ کے حکم کی جانب رجوع کرے اور اُسی کی پیروی کرے۔ اللہ کا حکم اُسے صرف ایک ذریعہ سے معلوم کرنا چاہیے اور وہ ذریعہ ہے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کلمہ شہادت کے دوسرے حصے میں اسی ذریعہ کو اسلام کے رکن دوم کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ اور فرمایا گیا ہے " و اشہد ان محمدا رسول اللہ" (اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)۔

یہ ہے وہ نظریاتی اساس جس پر اسلام کی عمارت قائم ہوتی ہے اور جو اسلام کی اصل روح ہے۔ یہ بنیاد انسانی زندگی کا مکمل ضابطہ فراہم کرتی ہے جسے زندگی کے ہر ہر پہلو میں نافذ کیا جانا چاہیے اور جسے ہاتھ میں لے کر ایک مسلمان اپنی انفرادی زندگی اور اجتماعی زندگی کے ہر ہر مسئلہ کو حل کرتا ہے خواہ یہ مسئلہ اُسے دارالاسلام کے اندر پیش آئے یا دارالاسلام سے باہر۔ ان روابط سے متعلق ہو جو مسلم معاشرے کے ساتھ وہ قائم کرتا ہے یا ان تعلقات اور رشتوں کے بارے میں ہو جو ایک مسلم معاشرہ دوسرے غیر مسلم معاشروں کے ساتھ قائم کرتا ہے۔

جاہلی معاشرے کے اندر رہنے والے " مسلمان "

اسلام، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، جامد اور مجرد نظریہ نہیں ہے کہ جو لوگ چاہیں اسے عقیدہ کے طور پر قبول کر لیں اور پوجا پاٹ کی حد تک اس پر عمل کر لیں اور پھر دھڑلے سے بالفعل قائم شدہ اور حرکت پذیر جاہلی معاشرے کے کل پُرزے بے رہیں۔ اس طرز پر اسلام کے ماننے والوں کا پایا جانا اسلام کے " عملی وجود " کو بروئے کار نہیں لا سکتا خواہ تعداد کے لحاظ سے وہ جم غفیر ہی کیوں نہ ہوں۔ اس لیے کہ " نظری مسلمان " جو جاہلی معاشرے کے اجزائے ترکیبی کا ایک جُز ہوں وہ لا محالہ اس معاشرے کے تمام تنظیمی تقاضوں کو لبیک کہنے پر مجبور اور بے بس ہوں گے اور اُن تمام اساسی ضروریات کو جو اس معاشرے کی زندگی اور حرکت اور بقاء کے لیے ناگزیر ہیں شعوری اور غیر شعوری طور پر طوعاً و کرھاً پورا کرنے کے لیے محوِ گردش رہیں گے۔ بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ اس معاشرے کے محافظ بن کر کھڑے ہوں گے اور ان اسباب و عوامل کی سرکوبی کریں گے جو اُس کے وجود اور نظام کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے کہ " کُل " جب یہ تمام فرائض انجام دے گا تو " جُز " کو لازماً ارادی طور پر یا غیر ارادی طور پر انہی فرائض کو ادا کرنے کے لیے کل کے مطابق ہی حرکت کرنا ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں ایسے " نظری مسلمان " جس جاہلی معاشرے کی نظریاتی حیثیت سے مخالفت کر رہے ہوتے ہیں عملاً وہ اُس کو مضبوط و مستحکم کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ بلکہ اُس نظام کے نسبتًہ جاندار خلیے (Cells) ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے عناصر بقا اور اسباب حیات مہیا کرتے ہیں۔ اپنی قابلیتیں، اپنے تجربات اور اپنی تازہ دم قوتیں اُس کی خدمت میں صرف کرتے ہیں۔ تاکہ اُسے عُمر دراز اور قوت مزید حاصل ہو، حالانکہ ان کی تمام تر حرکت اور سرگرمی اس جاہلی معاشرے کو ختم کرنے میں صرف ہونی چاہیے تاکہ وہاں صحیح اسلامی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

جاہلی قیادت سے انحراف لازم ہے

اس وجہ سے یہ بات ناگزیر ہے کہ اسلام کی نظریاتی بنیاد (عقیدہ الوہیت) ابتدا سے ایک منظم و فعال جماعت کے پیکر میں نمودار ہو۔ یہ جماعت جاہلی اجتماع سے الگ تھلگ ہو۔ جاہلیت کے متحرک و منظم معاشرے سے جس کا نصب العین ہی " اسلام " (حاکمیت اللہ) کی روک تھام ہے، ہر طرح برتر اور منفرد و ممتاز ہو۔ اس نئی جماعت کا مرجع و محور جدید قیادت ہو۔ وہ قیادت جس کی باگ دوڑ اولاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہر وہ اسلامی قیادت اس ذمہ داری کی امین ہے جو انسانوں کو صرف اللہ کی الوہیت و ربوبیت، اللہ کے اقتدار و حاکمیت اور اللہ کے قانون و شریعت کا پابند بنانا چاہتی ہے۔ جو شخص یہ شہادت ادا کرے کہ : " اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں ہے ، اور محمد اللہ کے رسول ہیں " وہ جاہلی اجتماع سے ------- جسے وہ خیرباد کہہ چکا ہے --------- اپنی وفاداریوں کا رشتہ کاٹ دے، اور جاہلی قیادت سے بغاوت کرے، چاہے کسی بھیس میں ہو : کاہنوں، پروہتوں، جادوگروں اور قیافہ شناسوں کی مذہبی قیادت ہو یا سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی قیادت ہو، جیسی کہ آنحضور صلی اللہ علی وسلم کے عہد میں قریش کو حاصل تھی۔ اُسے اپنی تمام تر وفاداریاں نئی اسلامی جماعت، خدا شناس نظام اور اس کی خدا پرست قیادت کے ساتھ مخصوص رکھنا ہوں گی۔

جاہلی فضا میں اسلام کے احیا کی صورت

یہ فیصلہ کن اقدام اُسی لمحہ سے ہو جانا چاہیے جس لمحہ ایک شخص اسلام میں داخ ہوتا ہے اور یہ قولی شہادت دیتا ہے کہ : " لاالٰہ الا اللہ " اور " محمد رسول اللہ "۔ مسلم معاشرہ اس انقلابی اقدام کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ مسلم معاشرہ محض افراد کے دلوں میں اسلام کی نظریاتی بنیاد قائم ہو جانے سے کبھی وجود میں نہیں آ سکتا۔ خواہ ایسے زبانی نام لیواؤں اور دلی خیر خواہوں کی دنیا کے اندر کتنی بڑی بھیڑ جمع ہو جائے۔ اس معاشرہ کو برپا کرنے کے لیے شرط یہ ہے کہ اسلام کی قولی شہادت ادا کرنے والے ایک ایسی تحریک کی شکل اختیار کریں جو زندگی سے لبریز اور فعال و منظم ہو، اس کے افراد کے اندر باہمی تعاون اور یکجہتی ہو، ہم آہنگی اور ہمنوائی ہو۔ وہ جداگانہ تشخص رکھتی ہو۔ اُس کے اعضاء انسانی جسم کے اعضاء و جوارح کی طرح منظم اجتماعی حرکت کے جلو میں اس کے وجود کا دفاع و استحکام کرتے ہوں۔ اس کی جڑوں کو زمین کی گہرائیوں میں اُتاریں اور اُس کے شاخوں کو افق تا افق وسیع کریں اور اُن عوامل و اسباب کا سدِ باب کریں جو اُس کے وجود اور نظام پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اُسے مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ سب فرائض وہ ایک ایسی بیدار مغز، دور اندیش اور روشن ضمیر قیادت کی رہنمائی میں سر انجام دے سکتے ہیں جو جاہلی قیادت سے مستقل اور جداگانہ وجود رکھتی ہو۔ جو ایک طرف ان کی حرکت اور تگ و دو کی تنظیم کرے اور اس می یکجہتی، وحدت اور یگانگت پیدا کرے اور دوسری طرف ان کے " اسلامی وجود " کے استحکام اور توسعی و تقویت کا انتظام بھی کرے اور اپنے حریفِ مقابل ------- جاہلی وجود ----------- کو زائل اور اس کے اثرات کو ناپید کرنے میں اُن کی رہنمائی کرے۔

یہی وہ فطری طریق کار ہے جس کی بدولت اسلام کا عملی وجود دنیا میں قائم ہوا تھا۔ وہ ایک نظریاتی ضابطہ کی شکل میں آیا جو اگرچہ مجمل حیثیت میں تھا مگر پوری زندگی پر محیط تھا۔ آتے ہی اُس کی بنیاد پر ایک ٹھوس، جاندار اور متحرک جماعت وجود میں آ گئی۔ جس نے نہ صرف جاہلی معاشرے سے اپنا جداگانہ اور مستقل تشخص قائم کیا بلکہ جاہلیت کے وجود کو بھی اُس نے چیلنج کر دیا۔ وہ ہرگز عملی وجود سے عاری حالت میں محض " خیالی نظریہ " کی صورت میں نہیں اترا تھا۔ اور آئندہ بھی اس کا وجود ایک عملی نظام کے ذریعہ ہی منصہ ظہور پر آ سکتا ہے۔ جاہلی معاشرے کی تہ بہ تہ ظلمتوں کے اندر اگر ازسرِ نو اسلام کی شمع فروزاں کی جائے گی تو خواہ کوئی دور ہو اور کوئی ملک ہو اس کے بغیر قطعاً چارہ کار نہ ہو گا کہ پہلے اسلام کے اس مزاج اور فطرت کو لازمی طور پر سمجھ لیا جائے کہ اس کی نشو و نما ایک تحریک اور ایک نامیاتی نظام کے بغیر ہرگز نہ ہو سکے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام کا اصل نصب العین " انسانیت " کا فروغ ہے۔

اس تفصیل کے بعد یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلام جب مذکورہ طریق کار کے مطابق عقیدہ الوہیت کی بنیاد پر ایک مسلم اُمت کی داغ بیل ڈالتا ہے اور اُسے ایک وحدت پسندانہ متحرک جماعت کے سانچے میں ڈھالتا اور عقیدہ کو اس جماعت کا واحد رشتہ قرار دیتا ہے تو اس تمام جد و جہد سے اُس کا منتہائے مقصود درحقیقت یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کی " انسانیت " کو بیدار اور اُجاگر کرے۔ اُسے پروان چڑھائے، اسے طاقت ور اور بالا تر کرے اور انسان کے وجود میں پائے جانے والے تمام پہلوؤں پر اُسے غالب کرے۔ چنانچہ وہ اپنے جامع اور ہمہ گیر نظام کی وساطت سے اسی مقصدِ جلیل کی تکمیل کے درپے رہتا ہے۔ اُس کے اساسی ضابطے، اُس کی جملہ ہدایات، اُس کے تمام احکام و شرائع سب کا ہدف یہی مقصد ہوتا ہے۔

انسان اپنے بعض اوصاف و خصائل میں حیوانات بلکہ جمادات کے ساتھ اشتراک رکھتا ہے۔ چنانچہ اس اوصاف و خصائل نے " سائنٹفک جہالت " کے علمبرداروں کو کبھی تو اس وہم میں ڈال دیا کہ دوسرے حیوانات کی طرح انسان بھی ایک حیوان ہے اور کبھی انہیں اس خام خیالی میں مبتلا کر دیا کہ انسان جمادات ہی کی ایک قسم ہے۔ مگر حقیقیت یہ ہے کہ انسان حیوانات اور جمادات کے ساتھ بعض باتوں میں اشتراک کے باوجود کچھ ایسے خصائص بھی رکھتا ہے جو اُسے ان دونوں سے ممیز کرتے ہیں اور اُسے ایک منفرد مخلوق کی حیثیت عطا کرتے ہیں۔ " سائنٹفک جہالت " کے علمبرداروں نے بھی بالآخر اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے۔ دراصل ناقابل تردید حقائق نے اُن کی گردن اس طرح دبوچ لی ہے کہ وہ کائنات کے اندر انسان کی امتیازی حیثیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر بایں ہمہ ان کا یہ اعتراف نہ مخلصانہ ہے اور نہ دو ٹوک۔ (ان لوگوں میں پیش پیش جدید ڈارونزم کے داعی جولین ہکسلے ہیں (مصنف))۔

" انسانیت " کو فروغ دینے کے نتائج

اس مسئلے میں اسلام کے پاکیزہ نظام حیات نے جو خدمت سر انجام دی ہے اُس کے نہایت درخشاں اور محسوس نتائج برآمد ہوئے۔ اسلام نے نسل و رنگ، زبان و وطن، مادی مصلحتوں اور جغرافی حد بندیوں کی گھٹیا عصیبتوں اور کمزور رشتوں کو پامال کر کے صرف عقیدہ و دین کے رشتہ پر اسلامی معاشرہ کی بنا ڈالی۔ اس معاشرے کے اندر انسان اور حیوان کے مشترک خصائص کے بجائے صرف انسانی خصائص کو اُبھارا، اُن کی آبیاری کی اور غالب و برتر کر دیا۔ اس کارنامہ عظیم کے جو درخشاں اور محسوس نتائج برآمد ہوئے اُن میں سے ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ اسلامی معاشرہ ایک ایسا وسیع الظرف اور کُھلا معاشرہ بن گیا جس میں ہر نسل، ہر قوم، ہر زبان اور ہر رنگ کے افراد داخل ہو سکتے تھے۔ اس میں فضول اور حیوانی خصوصیت کی حامل حد بندیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بحر بیکراں میں تمام انسانی نسلوں کی اعلٰی تر صلاحیتوں اور بوقلموں قابلیتوں کی ندیاں آ کر گرتی رہیں۔ اور باہم خلط ملظ ہوتی رہیں۔ اور ان کے امتزاج سے ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا مرکب تیار ہوا جس کی عمر اگرچہ نسبتًہ کم تھی مگر اُس نے دنیا کے اندر ایک ایسی خیرہ کُن اور عظیم تہذیب کو جنم دیا جس نے اپنے دور کی تمام انسانی صلاحیتوں اور انسانی فکر و دانش کا نچوڑ اپنے دامن میں جمع کر لیا تھا، اس کے باوجود کہ اس دور میں مسافتیں نہایت کٹھن تھیں، اور مواصلات کے ذرائع و وسائل نہایت سُست رفتار تھے۔ اس اعلیٰ درجہ کے اسلامی معاشرہ میں عربی، فارسی، شامی، مصری، مراکشی، ترکی، چینی، ہندی، رومی، یونانی، انڈونیشی، افریقی الغرض ہر قوم اور ہر نسل کے جوہر تاباں جمع ہوئے۔ ان سب کی خصوصیات یکجا ہو گئیں اور اختلاط باہم و تعاون و توافق اور ہم آہنگی و یکجہتی کے ساتھ انہوں نے اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لیا اور اُسے چار چاند لگائے۔ یہ حیرت انگیز تہذیب ایک دن بھی " قومی تہذیب " نہ تھی، بلکہ خالصتاً " نظریاتی تہذیب " کی حیثیت سے متعارف رہی۔ ہر قوم کے افراد اس میں مساویانہ شان کے ساتھ شریک ہوئے۔ محبت اور اخلاص کے مقدس رشتوں نے انہیں باہم منسلک کر رکھا تھا۔ اُن کے اندر یہ احساس کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا کہ وہ سب ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس تہذیب کی خدمت کے لیے اپنی اس میں فضول اور حیوانی خصوصیت کی حامل حد بندیوں کا نام و نشان نہ تھا۔ اس کے بحر بیکراں میں تمام انسانی نسلوں کی اعلیٰ تر صلاحیتوں اور بوقلموں قابلیتوں کی ندیاں آ کر گرتی رہیں۔ اور باہم خلط ملط ہوتی رہیں۔ اور ان کے امتزاج سے ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا مرکب تیار ہوا جس کی عمر اگرچہ نسبتًہ کم تھی مگر اُس نے دنیا کے اندر ایک ایسی خیر کُن اور عظیم تہذیب کو جنم دیا جس نے اپنے دور کی تمام انسانی صلاحیتوں اور انسانی فکر و دانش کا نچوڑ اپنےدامن میں جمع کر لیا تھا۔ اس کے باوجود کہ اس دور میں مسافتیں نہایت کٹھن تھیں اور مواصلات کے ذرائع و وسائل نہایت سُست رفتار تھے، اس اعلیٰ درجہ کے اسلامی معاشرہ میں عربی، فارسی، شامی، مصری، مراکشی، ترکی، چینی، ہندی، رومی، یونانی، انڈونیشی، افریقی، الغرض ہر قوم اور ہر نسل کے جوہر تاباں جمع ہوئے۔ ان سب کی خصوصیات یکجا ہو گئیں اور اختلاط باہم، تعاون و توافق اور ہم آہنگی و یکجہتی کے ساتھ انہوں نے اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی تعمیر میں حصہ لیا اور اُسے چار چاند لگائے۔ یہ حیرت انگیز تہذیب ایک دن بھی " عربی تہذیب " نہ تھی بلکہ خالصتاً "اسلامی تہذیب " تھی۔ یہ کبھی بھی " قومی تہذیب " نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ " نظریاتی تہذیب " کی حیثیت سے متعارف رہی۔ ہر قوم کے افراد اس میں مساویانہ شان کے ساتھ شریک ہوئے۔ محبت اور اخلاص کے مقدس رشتوں نے انہیں باہم منسلک کر رکھا تھا، اُن کے اندر یہ احساس کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا کہ وہ سب ایک ہی منزل کے راہی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس تہذیب کی خدمت کے لیے اپنی انتہائی قابلیتیں صرف کیں۔ اپنے ممتاز نسلی خصائص کو اُجاگر کر کے اُسے تہذیب کے قدموں پر نچھاور کیا۔ اپنے شخصی تجربات ، قومی خصوصیات اور حاصل تاریخ کو اُسی ایک چمن کی آبیاری اور ترقی کے لیے وقف کر دیا جس طرف وہ سب بلا ادنٰی تفاوت منسوب تھے، جس کے اندر انہیں وہ رشتہ باہم جوڑے ہوئے تھا جس کا سرا ان کے پروردگار کے ہاتھ میں تھا۔ اور جس میں ان کی " انسانیت " بلا روک ٹوک پروان چڑھ رہی تھی ----------------- یہ وہ نمایاں خوبیاں ہیں جو پوری انسانی تاریخ میں کسی اور انسانی اجتماع کو نصیب نہیں ہو سکیں۔

کیا قدیم معاشروں نے " انسانیت " کو فروغ دیا؟

قدیم انسانی تاریخ میں سب سے ممتاز اور مشہور ترین معاشرہ رومن امپائر سمجھا جاتا ہے۔ اس معاشرے میں بھی متعدد نسلیں جمع تھیں اور مختلف زبانوں اور متعدد رنگوں اور گونا گوں مزاج کے لوگ جمع تھے۔ لیکن ان کا اتحاد اور اجتماع " انسانی رشتہ " پر قائم نہ تھا۔ اور نہ کوئی اور اعلیٰ تر قدر مثلاً عقیدہ ان کو باہم پیوستہ رکھنے والا تھا، بلکہ انکا یہ اجتماع طبقاتی تقسیم پر قائم تھا۔ ایک طرف " شرفا " کا طبقہ تھا اور دوسری طرف " غلاموں " کا پوری امپائر۔ انہی دو طبقوں میں منقسم تھی۔ علاوہ ازیں نسلی امتیاز بھی اس کے خمیر میں شامل تھا۔ جس کی رُو سے رومی نسل کو سیادت و تفوق حاصل تھا اور دوسری تمام نسلیں اس کے مقابلے میں غلاموں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ لہٰذا اس معاشرے کو وہ بلندی نصیب نہ ہو سکی جس تک اسلامی معاشرہ پہنچ گیا تھا اور نتیجۃً وہ انسانیت کو ان ثمرات و برکات سے بھی بہرہ اندوز نہ کر سکا جن سے اسلامی معاشرے نے اُسے مالا مال کیا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا جدید معاشرے " انسانیت " کو فروغ دے سکتے ہیں؟

تاریخ حاضر میں بھی کئی معاشرے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر برٹش امپائر کر لیجیئے۔ لیکن وہ بھی رومی معاشرے سے جو اس کا مورث اعلیٰ ہے، مختلف نہیں ہے۔ یہ قومی پیمانے پر لُوٹ کھسوٹ کا ایک اجتماع ہے جس کی بنیاد انگریز قوم کی برتری اور ان نوآبادیات کی خون آشامی پر ہے جن میں برٹش امپائر کا دیو استبداد ناچ رہا ہے۔ دوسری یورپین سلطنتوں کا بھی یہی حال ہے۔ اسپین اور پُرتگال کی آنجہانی سلطنتیں، فرانسیسی امپائر، ان سب کا ایک ہی ڈھنگ رہ چکا ہے۔ سب کی سب ظالمانہ نظام کی علمبردار اور پست سطح کی بادشاہتیں تھیں۔

کمیونزم نے بھی ایک نرالے طرز کا معاشرہ قائم کرنا چاہا اور ان دیواروں کو مسمار کرنے کا دعوٰے کیا جو رنگ و نسل، قوم و وطن اور جغرافیہ نے چُن رکھی تھیں۔ لیکن اس اجتماع کی تعمیر بھی " انسان دوستی " کی ہمہ گیر نیو پر نہیں کی گئی۔ بلکہ " طبقاتی تقسیم " کو بنائے اجتماع قرار دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کمیونسٹ معاشرہ قدیم رومی معاشرہ ہی کا دوسرا رُخ ہے۔ رومی معاشرہ طبقہ شرفاء کو امتیاز دیتا تھا اور کمیونسٹ معاشرہ طبقہ عمال (پرولتاریہ) کو یہ امتیازی حیثیت دیتا ہے۔ اور اس کی تہہ میں جو جذبہ کارفرما ہے وہ دوسرے تمام طبقوں کے خلاف حسد اور بغض کا جذبہ ہے۔ اس قسم کا کم ظرف اور کینہ توز معاشرہ اس کے سوا اور کوئی پھل نہیں دے سکتا کہ وہ انسان کے ادنٰی جذبات کو بھڑکائے۔ وہ اپنی داغ بیل ہی اس بات پر ڈالتا ہے کہ انسان کے اندر صرف حیوانی اور سفلی اوصاف کو برانگیختہ کرے اور ان کو خوب پالے پوسے اور ان کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنائے۔ اس لیے کہ اس کی نگاہ میں انسان کے بنیادی مطالبات وہی کچھ ہیں جو حیوان کے بنیادی تقاضے اور ضرورتیں ہیں، یعنی غذا، مکان اور جنسی تسکین۔ چنانچہ اس کے فلسفہ کو رُو سے پوری انسانی تاریخ روٹی کی تلاش میں سرگرادں رہی ہے۔

اس میدان میں اسلام یکتا اور منفرد ہے

صرف اسلام ہی وہ ربانی نظام حیات ہے جو انسان کی اعلیٰ ترین خصوصیات کو اوپر ابھار کر لاتا ہے اور پھر انہیں پوری طرح پرورش کرتا ہے اور انسانی معاشرے کی تعمیر کے لیے انہیں زیادہ سے زیادہ فروغ دیتا ہے۔ اسلام آج تک اس میدان میں یکتا اور منفرد چلا آ رہا ہے۔ جو لوگ اس نظام سے منحرف ہو کر کسی اور نظام کے خواہاں ہیں، خواہ وہ نظام قوم پرستی کی بنیاد پر ہو یا وطنیت کی بنیاد پر، رنگ و نسل کو اہمیت دیتا ہو یا طبقاتی کشمکش کا علمبردار ہو یا ان جیسے اور فاسد نظریات کے خمیر سے تیار ہوا ہو، وہ لوگ بلا شبہ انسان کے دشمن ہیں۔ وہ دراصل یہ نہیں چاہتے کہ انسان اس صفحہ ہستی پر اپنی ان بلند تر خصوصیات کے ساتھ نمودار ہو جو اللہ تعالٰی نے اس کی فطرت میں سمو رکھی ہیں۔ اور نہ یہ پسند کرتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی تمام انسانی نسلوں کی ہمہ گیر صلاحیتوں اور خوبیوں سے اور ان کے صدیوں کے تجربات سے استفادہ کرے اور اس غرض کے لیے کوئی مخلوط اور متناسب نظام تجویز کرے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے :


قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِينَ اَعْمَالاً۔ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُھُمْ فِي الْحَيَاۃِ الدُّنْيَا وَھُمْ يَحْسَبُونَ اَنَّھُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا۔ اُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّھِمْ وَلِقَائِہِ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلاَ نُقِيمُ لَھُمْ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ وَزْنًا۔ ذَلِكَ جَزَاؤُھُمْ جَھَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي ھُزُوًا۔ (الکھف 103 – 106)

اے محمد ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہ راست بھٹکی رہی اور سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا ور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے اُن کے سارے اعمال ضائع ہو گئے۔ قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے۔ ان کی جزا جہنم ہے اُس کفر کے بدلے جو انہوں نے کیا اور اُس مذاق کی پاداش میں جو وہ میری آیات اور میرے رسولوں کے ساتھ کرتے رہے۔
*********************
 

شمشاد

لائبریرین
باب چہارم

جہاد فی سبیل اللہ​

تحریک جہاد کے مراحل

امام ابن تیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے : ----------- بعثت سے لے کر وصال تک کفار و منافقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ کیسا رہا؟ ------------- اس باب میں امام موصوف نے درحقیقت اسلامی جہاد کی تحریک کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

" سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل فرمائی، وہ یہ تھی " اقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔۔۔۔۔۔۔" یہ آغاز نبوت تھا۔ اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو دل میں پڑھا کریں۔ دوسروں تک اس کی تبلیغ کا حکم نہیں دیا۔ پھر اللہ نے یہ نازل فرمایا کہ " يَا اَيُّھَا الْمُدَّثِّرُ۔ قُمْ فَاَنذِرْ " اس طرح " اقرا" کی وحی سے اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی اور " یا ایھا المدثر " کے ارشاد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کا منصب دیا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتہ داراروں کو ڈرائیں۔ چنانچہ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنی قوم کو ڈرایا، پھر آس پاس کے عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر آگے بڑھ کر تمام عربوں کو ڈرایا۔ اور پھر بالآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام جہان کو ڈرایا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے بعد تقریباً 13 تک دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کا خوف دلاتے رہے۔ اس عرصہ میں نہ جنگ کی نہ جزیہ لیا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی حکم ملتا رہا کہ ہاتھ روکے رکھیں، صبر سے کام لیں اور عفو و درگزر کو شعار بنائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ملا۔ اور قتال کی بھی اجازت دی گئی۔ پھر یہ حکم ملا کہ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس نے جنگ کریں اور ان لوگوں سے ہاتھ کو روک لیں جو الگ تھلگ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے نہیں نکلے۔ بعد ازاں یہ حکم دیا کہ مشرکین سے جنگ کریں، یہاں تک کہ دین پورے کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔ پھر حکم جہاد آنے کے بعد کفار کی تین قسمیں ہو گئیں : ایک اہلِ صلح، دوسرے اہلِ حرب اور تیسرے اہلِ ذمہ۔ جن کفار سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ اور صلح تھی، حکم ہوا کہ اُن کا معائدہ پُورا کریں اور جب تک وہ خود عہد پر استوار رہیں، اُن کے معاہدہ کا ایفاء کیا جائے اور اگر ان سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اُن کا عہد اُن کے منہ پر دے ماریں اور اس وقت تک ان کے خلاف تلوار نہ اُٹھائیں جب تک نقضِ عہد کی ان کو اطلاع نہ کر دیں۔ اور حکم ہوا کہ عہد شکنی کرنے والون سے جنگ کی جائے --------------- اور جب سورۃ براءت نازل ہوئی تو اس سورۃ میں تینوں قسم کے احکام بیان کیے گئے۔ اور یہ واضح کر دیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ خدا و رسول کے دشمن ہیں اُن سے جنگ کریں یہاں تک کہ وہ جزیہ دینا قبول کریں یا اسلام میں داخل ہو جائیں۔ کفار اور منافقین کے بارے میں اس سورۃ میں بتایا گیا کہ ان کے خلاف جہاد کیا جائے اور اُن سے سخت برتاؤ کیا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ شمشیر و سناں سے جہاد کیا۔ اور منافقین کے ساتھ دلیل و زبان سے۔ اسی سورۃ میں یہ بھی فرمایا گیا کہ کفار کے ساتھ کیے ہوئے اپنے تمام معائدوں سے اعلانِ برات کر دیں اور ان کے معاہدے ان کے منہ پر دے ماریں -------- اس سلسلہ میں اہل معاہدہ کی تین قسمیں قرار دی گئیں : ایک وہ قسم جس سے قتال کا حکم دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے خود عہد شکنی کی تھی۔ اور عہد کی پابندی پر قائم نہ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کی اور ظفر یاب ہوئے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے ایک معین مدت تک کے لیے تھے اور انہوں نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی کو مدد دی۔ ان کے بارے میں اللہ نے حکم دیا کہ ان کے معاہدون کی مدت پوری کریں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معاہدہ نہ تھا اور نہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برسرِ پیکار ہوئے، یا ایسے لوگ تھے جن کے ساتھ غیر معین عرصہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔ تو ایسے سب لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوا کہ انہیں چار ماہ کی مہلت دی جائے اور جب یہ مہلت ختم ہو جائے تو ان سے قتال کیا جائے ------------- چنانچہ عہد شکنی کرنے والوں کو قتل کیا گیا اور جن سے کوئی معاہدہ نہ تھا یا جن کے ساتھ غیر محدود مدت کا معاہدہ تھا انہیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ اور ایفائے معاہدہ کرنے والوں کی مدتِ معاہدہ کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح کے تمام لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئے۔ اور عرصہ مہلت کے خاتمہ تک وہ کفر پر قائم نہ رہے۔ اہل ذمہ پر جزیہ عائد کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ الغرض سورۃ براءت کے نازل ہونے کے بعد کفار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتاؤ نے مستقل طور پر تین شکلیں اختیار کر لیں۔ محاربین، اہل عہد اور اہل ذمہ۔ اہل عہد بھی بالآخر اسلام میں شامل ہو گئے اور صرف دو قسم کے لوگ رہ گئے : محاربین اور اہل ذمہ۔ محاربین آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خائف رہتے تھے۔ اس طرح تمام اہل زمین تین شکلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ گئے : ایک مسلمان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، دوسرے صلح جُو جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امان ملی اور تیسرے خائفین جو برسرِ جنگ رہے۔ رہا منافقین کے معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے ظاہر کو قبول کریں اور اُن کے باطن کے حالات کو اللہ پر چھوڑ دیں اور علم اور دلیل سے اُن کے ساتھ جہاد کریں۔ اُن سے رُوکشی کریں اور شدت کا برتاؤ کریں اور قول بلیغ کے ساتھ ان کے دلوں پر اثر ڈالیں۔ ان کا جنازہ پڑھنے سے اور ان کی قبروں پر قیام کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کر دیا گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے مغفرت بھی طلب کریں گے تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کافر اور منافق دشمنوں کے بارے میں۔"

اس مضمون میں جہاد اسلامی کے تمام مراحل کی بڑی عمدگی سے تلخیص کی گئی ہے۔ اس تلخیص میں دین حق کے تحریکی نظام کے امتیازی اور دور رس اوصاف کی جھلک ملتی ہے۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کا بغائر نظر مطالعہ کیا جائے۔ لیکن ہم یہاں چند مُجمل اشارات ہی سے کام لے سکتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
تحریک جہاد کی پہلی امتیازی خصوصیت

دین حق کا پہلا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس دین کا پورا نظام عملی اور حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کی تحریک واقعہ میں موجود انسانوں کو پکارتی ہے اور ان وسائل و ذرائع سے کام لیتی ہے جو انسان کے عملی حالات کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں۔ چونکہ اس تحریک کا مقابلہ ایک ایسی جاہلیت سے ہوتا ہے جو ایک طرف خیالات اور عقائد پر قابض ہوتی ہے، دوسری طرف اس کی بنیاد پر زندگی کا عملی نظام قائم ہوتا ہے۔ اور تیسری طرف اسے اور اس کے قائم کردہ نظامِ زندگی کی پشت پناہی کے لیے سیاسی اور مادی اقتدار موجود ہوتا ہے۔ اس لیے اسلام تحریک کو جاہلیت کا مقابلہ کرنے کے لیے متوازی وسائل و اسباب بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔ یہ تحریک خیالات و عقائد کی اصلاح کے لیے دعوت و تبلیغ کو ذریعہ بناتی ہے، جاہلی نظامِ زندگی اور اس کے پشت پناہ اقتدار کے ازالہ کے لیے مادی طاقت اور جہاد سے کام لیتی ہے کیوں کہ یہ نظام اور یہ اقتدار عامۃ الناس کے عقائد و خیالات کی اصلاح کی کوشش میں حائل ہوتا ہے اور اپنے وسائل اور گمراہ کُن ہتھکنڈوں کے ذریعہ اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ہے۔ اور ان کو اپنے ربِ جلیل کے بجائے انسانوں کے آگے جُھکا دیتا ہے۔ یہ تحریک مادی اقتدار سے نبرد آزمائی میں محض دعوت و تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کرتی اور نہ عام انسانوں کے افکار کو بدلنے کے لیے جبر و اکرا اور قوت کا استعمال مناسب سمجھتی ہے۔ یہ دونوں اصول اس دین کے طریقِ کار میں یکساں طور پر اختیار کیئے جاتے ہیں۔ یہ تحریک برپا ہی اس غرض کے لیے ہوتی ہے کہ انسان کو انسان کی غلامی کے جُوئے سے آزاد کر کے اُسے خدائے واحد کا بندہ بنائے۔

دوسری امتیازی خصوصیت

اس کا دوسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ ایک عملی تحریک ہے جو مرحلہ بمرحلہ ترقی کرتی ہے اور ہر مرحلے میں اپنی عملی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق متوازی اور موزوں وسائل اختیار کرتی ہے۔ ہر مرحلہ بعد میں آنے والے مرحلہ کے لیے فضا ہموار کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔ دراصل یہ دین عملی زندگی کی تجریدی نظریات سے سامنا نہیں کرتا اور نہ وہ زندگی کے مختلف مراحل کو جامد اور ناقابل تغیر ذرائع سے طے کرتا ہے۔ جو لوگ دین کے نظام جہاد پر گفتگو کرتے ہوئے قرآنی نصوص کو بطور استدلال پیش کرتے وقت دین کے اس امتیازی وصف کا لحاظ نہیں کرتے اور نہ ان مراحل کی فطرت و حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں جن سے تحریکِ جہاد گزری ہے اور نہ ان کی نظر اس پہلو پر ہوتی ہے کہ مختلف نصوص کا ہر ہر مرحلہ سے کیا تعلق ہے تو اس طرح کے لوگ جب اسلام کے نظامِ جہاد پر کلام کرتے ہیں تو بات کو نہایت بھونڈے طریقے سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔ اور دین کے نظامِ جہاد کو گمراہ کُن انداز سے بیان کرتے ہیں۔ اور آیاتِ قرآنی کو زبردستی کھینچ تان کر ان میں سے ایسے اصول اور قواعد کلیہ اخذ کرتے ہیں جن کی ان آیات میں قطعاً گنجائش نہیں ہوتی۔ ان کی غلطی کی بنیاد یہ ہے کہ وہ قرآن کی ہر آیت کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہی آخری اور کلی نص ہے۔ اور اس میں دین کا آخری اور کلی حکم بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ گروہ مفکرین دراصل ان مایوس کُن حالات کے دباؤ کے سامنے روحانی اور عقلی طور پر ہتھیار ڈال چکا ہے جس میں اس وقت موجودہ مسلمان نسل مبتلا ہے اور جس کے پاس سوائے اسلام کے لیبل کے اور کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ یہ اسی شکست خوردہ ذہنیت کا اثر ہے کہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ : " اسلام صرف مدافعانہ جنگ کا قائل ہے" اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ وہ اس گمان میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اس تاویل سے دین پر بڑا احسان کیا ہے۔ حالانکہ اس غلط تاویل سے وہ دین کو اپنے امتیازی طریقِ کار سے دستبردار ہو جانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ گویا دین اپنا یہ نصب العین چھوڑ دے کہ وہ رُوئے زمین سے طاغوتی طاقتوں کو مٹانے کےلیے آیا ہے۔ انسانیت کا سر صرف خدائے واحد کے آگے خم کرنے کے لیے آیا ہے۔ انسانوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر بندوں کے پروردگار کی غلامی میں داخل کرنے کےلیے آیا ہے۔ لیکن اسلام اپنا یہ نصب العین سرانجام دینے کے لیے لوگوں سے بزور شمشیر اپنا عقیدہ نہیں منواتا، بلکہ وہ لوگوں کے لیے انتخاب عقیدہ کی آزاد فضا فراہم کرتا ہے۔ وہ برسرِ اقتدار سیاسی نظاموں کو کلیتًہ مٹا دیتا ہے یا انہیں زیرنگیں کر کے جزیہ قبول کرنے اور سرِ اطاعت خم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس طرح وہ کوئی ایسی رکاوٹ باقی نہیں رہنے دیتا جو اس عقیدہ کو ماننے کی راہ میں لوگوں کے سامنے حائل ہوتی ہو۔ اس کے بعد وہ لوگوں کو مکمل آزادی دیتا ہے کہ چاہے تو وہ اس عقیدہ کو قبول کریں یا نہ کریں۔

تیسری امتیازی خصوصیت

تیسرا امتیازی وصف یہ ہے کہ دین کی یہ سخت کوش اور رواں دواں تحریک اور اس کے نوبنو وسائل دین کو اس کے بنیادی اصول و مقاصد سے دور نہیں کرتے۔ دین نے روزِ اول ہی سے، خواہ وہ رسول کے قریبی رشتہ داروں سے ہم کلام ہو یا قریش سے خطاب کر رہا ہو یا سب عربوں کی طرف اس کا روئے سخن ہو، یا تمام دنیا کے باشندے اُس کے مخاطب ہوں، اُس نے سب سے ایک ہی بنیاد پر گفتگو کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ سب سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانوں کی بندگی سے نکل کر صرف خدائے واحد کی بندگی کے لیے یکسو ہو جائیں۔ اس اصول پر وہ کئی سودا بازی نہیں کرتا، اور نہ کسی لچک کو گوارا کرتا ہے۔ پھر وہ اس یکتا مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک لگے بندھے منصوبے پر عمل پیرا ہو جاتا ہے، یہ منصوبہ چند معین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مرحلے کے لیے متوازی اور نئے وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں۔

چوتھی امتیازی خصوصیت

چوتھا امتیازی وصف یہ ہے کہ یہ دین مسلم معاشرے اور دیگر معاشروں کے باہمی تعلقات کو باقاعدہ قانونی شکل دیتا ہے ۔۔۔۔ جیسا کہ زاد المعاد کی مذکورہ تلخیص سے واضح ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ یہ قانونی ضابطہ جس بنیاد پر قائم ہے وہ یہ ہے کہ " اسلام " (خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت کیشی کا رویہ اختیار کرنا) ایک عالم گیر حقیقت ہے جس کی طرف رجوع کر لینا انسانیت پر لازم ہے۔ اور اگر وہ اس کی طرف رجوع نہ کرے اور اسے اختیار نہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اسلام کے ساتھ بالجملہ مصالحت کا موقف اختیار کرے اور کسی سیاسی نظام یا مادی طاقت کی شکل میں اسلام کی دعوت و تبلیغ کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرے۔ وہ ہر فرد کو آزاد چھوڑ دے تا کہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اُسے اختیار کرے یا نہ اختیار کرے اور اگر اسے اختیار نہ کرنا چاہے تو اس کی مزاحمت بھی نہ کرے اور دوسروں کے لیے سدِ راہ نہ بنے۔ اگر کوئی شخص مزاحمت کا رویہ اختیار کرے گا تو اسلام کا فرض ہو گا کہ وو اس سے جنگ کرے یہاں تک کہ اُسے موت کے گھاٹ اُتار دے یا پھر وہ وفاداری اور اطاعت کا اعلان کر دے۔

شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کے ادیب جب " اسلام میں جہاد کی حقیقیت " کے موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور دامن اسلام سے جہاد کا " دھبہ " دھونے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ دو باتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کر دیتے ہیں۔ ایک دین کا یہ رویہ کہ وہ عقیدہ کو جبراً ٹھونسنے کی مخالفت کرتا ہے جیسا کہ نص قرآنی (لا اکراہ فی الدین) سے عیاں ہے۔ اور دوسرا دین کا یہ طریقِ کار کہ وہ ان تمام سیاسی اور مادی قوتوں کو نیست و نابود کرتا ہے جو عقیدہ دین اور انسانوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑی ہوتی ہیں، اور جو انسان کو انسان کے سامنے سرافگندہ کرتی ہیں اور اُسے اللہ کی عبودیت سے روکتی ہیں ۔۔۔۔ یہ دونوں اصول بالکل الگ الگ ہیں ۔ ان کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ دونوں کو باہم گڈمڈ کرنے کی کوئی گنجائش ہے۔ بایں ہمہ یہ لوگ اپنی شکست خوردہ ذہنیت سے مجبور ہر کر خلط مبحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتےہیں کہ اسلام میں جہاد کو صرف اس مفہوم میں محصور کر دیا جائے جسے آج " دفاعی جنگ" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلامی جہاد ایک جداگانہ حقیقت ہے۔ عہد حاضر کی انسانی جنگوں سے اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ نہ اسباب جنگ کے لحاظ سے اور نہ جنگ کے ظاہری رنگ ڈھنگ کے لحاظ سے۔ اسلامی جہاد کے اسباب خود اسلام کے مزاج اور دنیا میں اس کے اصل کردار کے اندر تلاش کرنے چاہییں اور ان اعلٰی اصولوں کے اندر تلاش کرنے چاہییں جو اللہ تعالٰی نے اس دین کے لیے مقرر فرمائے اور جنہیں بروئے کار لانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے منصب عظیم پر سرفراز فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کوخاتم الرسالات کا درجہ قرار دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام انسان کی آزادی کا اعلانِ عام ہے

دین حق دراصل اس عالمگیر اعلان کا نام ہے کہ دنیا میں انسان، انسان کی غلامی سے، اور خود نفس کی غلامی سے جو انسانی غلامی ہی کی ایک شکل ہے، آزاد ہو، یہ اعلان دراصل اُس اعلان کا طبعی نتیجہ ہے کہ الوہیت کا مقام صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہے اور اس کی شان ربوبیت تمام اہل جہان کو محیط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین حاکمیتِ انسان کی ہر نوعیت، ہر شکل، ہر نظام اور ہر حالت کے خلاف ہمہ گیر اور کُلی انقلاب اور روئے زمین پر قائم شدہ ہر اُس ہیت کے خلاف مکمل بغاوت کرتا ہے جس میں کسی شکل میں بھی حکمرانی انسان کے ہاتھ میں ہو۔ یا دوسرے الفاظ میں الوہیت کا مقام انسان نے کسی نہ کسی صورت میں حاصل کر رکھا ہو۔ ایسا نظام حکمرانی جس میں معاملات کا آخری رجوع انسان کی طرف ہوتا ہو اور انسان ہی اختیارات کا منبع ہوں۔ انسان کو درحقیقت الوہیت کا درجہ دیتا ہے۔ اور بعض انسانوں کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کے لیے ارباب من دون اللہ ٹھہراتا ہے۔ مگر جب یہ اعلان کر دیا گیا کہ ربوبیت اور الوہیت صرف خدائے واحد کے لیے مخصوص ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کا غصب شدہ اقتدار غاصبین سے لے کر دوبارہ اللہ تعالٰی کی طرف لوٹا دیا جائے۔ اور ان غاصبین کو نکال باہر کیا جائے جو خانہ ساز شریعیتوں کے ذریعہ انسانوں کی گردنوں پر تخت حکومت بچھاتے ہیں، خود کو ان کے لیے رب کا مقام دیتے ہیں اور انہیں اپنے غلاموں کا درجہ دیتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں اللہ کی الوہیت اور ربوبیت کا آوازہ بلند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ساری انسانی بادشاہتوں کی بساط لپیٹ کر اس زمین پر صرف پروردگار عالم کی بادشاہت کا ڈنکا بجا دیا جائے۔ یا قرآن کریم کے الفاظ میں یہ اعلان کر دیا جائے :

وَھُوَ الَّذِي فِي السَّمَاءِ اِلَہٌ وَفِي الْاَرْضِ اِلَہٌ وَھُوَ الْحَكِيمُ الْعَلِيمُ۔ (زخرف : 84)

وہی اکیلا آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے۔

۔۔۔۔۔ اِنِ الْحُكْمُ اِلاَّ لِلّہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُواْ اِلاَّ اِيَّاہُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۔۔۔۔۔۔(یوسف : 40)

حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ اُس کا فرمان ہے کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، یہی دین حق ہے۔

قُلْ يَا اَھْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْاْ اِلَى كَلِمَۃٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّہَ وَلاَ نُشْرِكَ بِہِ شَيْئًا وَلاَ يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّہِ فَاِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ اشْھَدُواْ بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۔ (آل عمران : 64)

کہہ دیجیئے، اے اہلِ کتاب، آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو خدا کی بندگی کرنے والے ہیں۔

دنیا میں حکومت الہٰیہ کیسے قائم ہو سکتی ہے

دنیا میں خدا کی بادشاہت کے قیام کی یہ صورت نہیں ہے کہ مسند حاکمیت پر کچھ " مقدس افراد " (یعنی دینی رہنما) فروکش ہو جائیں، جیسا کہ چرچ کی بادشاہت کا حال تھا اور نہ یہ درست ہے کہ دیوتاؤں کے کچھ " نمائندے " زمام حاکمیت ہاتھ میں لے لیں جیسا کہ تھیوکریسی یا " خدا کی مقدس حکومت " کے نام پر یاد کیئے جانے والے نظام میں رائج تھا۔ خدا کی بادشاہت کا قیام یہ ہے کہ خدا کی شریعت حکمرانی کرے اور تمام معاملات کا آخری فیصلہ اس کے مطابق کیا جائے۔ لیکن یہ پیش نظر رہے کہ دنیا میں خدا کی بادشاہت کا قیام، انسان کی بادشاہت کا خاتمہ، غاصبین کے ہاتھوں سے اقتدار چھین کر خدا کی طرف اُسے لوٹانا، شریعت الہٰی کی فرماں روائی، انسانی قوانین کی تنسیخ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب مہمیں مجرد دعوت و تبلیغ سے انجام نہیں پا سکتیں۔ جو لوگ خلق خدا کی گردنوں پر سوار ہیں اور انہوں نے اقتدارِ خداوندی پر غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے یہ نری تبلیغ اور اپیل سے اپنے تختِ اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہی معاملہ ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کے لیے دنیا کے اندر دین حق کی سرفرازی نہایت سہل اور خوش گوار کام ہوتا۔ لیکن انبیاٗ کی تاریخ سے جو کچھ واضح ہوتا ہے اور دین حق کی صدیوں پر پھیلی ہوئی داستان جس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے وہ اس کے برعکس ہے۔

اتنا اہم اعلان کہ الوہیت اور ربوبیت صرف خداوند عالم کے لیے مخصوص ہے، اور پھر اس اعلان کا یہ اہم نتیجہ کہ انسان اللہ کے ماسوا ہر قسم کے اقتدار اور حاکمیت سے آزاد ہو گا یہ کرئی محض نظریاتی، فلسفیانہ اور منفی نوعیت کا اعلان نہ تھا۔ بلکہ یہ مثبت تحریکی دعوت تھی جس کے پیش نظر ایک ایسے نظامِ زندگی کو عملاً بروئے کار لانا تھا جو شریعت الہٰی کے مطابق انسانوں پر حکمرانی کرے اور انہیں عملی طاقت سے انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدائے وحدہ لاشریک کے حلقہ بندگی میں داخل کرے۔ ظاہر ہے کہ اتنے اہم مشن کو سرانجام دینے کے لیے ضروری تھا کہ یہ اعلان مجرد و تبلیغ و دعوت تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تحریک کا قالب بھی اختیار کرے تاکہ عملی صورتِ حال کے ہر ہر پہلو کا مقابلہ متوازی اور عملی وسائل و ذرائع سے ہو سکے۔

انسان نے ہر دور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دور ماضی میں بھی، عہد حاضر میں بھی اور شاید عالم فردا میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دین حق کا طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے مقابلہ کر کے اسے نیچا دکھانے کی کوششیں کی ہیں کیونکہ یہ دین انسانوں کو غیر اللہ کی آقائی سے آزاد کرتا ہے۔ چنانچہ انسانوں نے اس دین کے راستے میں فکری اور مادی ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کیں۔ سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی دیواریں حائل کیں، نسلی اور طبقاتی نعرے استعمال کیے۔ انسان کے منحرف عقائد اور باطل تصورات بھی مذکورہ عوامل کے پہلو بہ پہلو کام کر رہے تھے۔ اور ان دونوں کے اتحاد سے انتہائی پیچیدہ صورت حال ظہور پذیر ہوتی رہی ہے۔

اگر " تبلیغ " عقائد اور تصورات کی اصلاح کرتی ہے تو " تحریک " دوسرے مادی سنگہائے راہ کو صاف کرتی ہے، جن میں سر فہرست وہ سیاسی قوت ہے جو پیچیدہ مگر مربوط فکری، نسلی، طبقاتی، اجتماعی اور اقتصادی سہاروں پر قائم ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغ اور تحریک ۔۔۔۔۔۔ مل کر قائم شدہ نظام پر چاروں طرف سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ اور اُن تمام عوامل و اسباب کے ساتھ اپنے نئے نظام کو برؤے کار لانے میں ممد ہوتے ہیں اور اس غرض کے لیے ہر مخالف عامل کا اس کے ہم پلہ عوامل اور وسائل سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس زمین پر انسان کی حقیقی آزادی بلکہ پوری دنیا میں پوری انسانیت کی حقیقی آزادی کا عظیم مشن سرانجام دینے کے لیے ان دونوں کو (یعنی تبلیغ اور تحریک کو) دوش بدوش کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہایت اہم نقطہ ہے جسے بار بار ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عبودیت کی اصل حقیقیت

یہ دین صرف عربوں کی آزادی کا اعلان نہیں ہے اور نہ اس کا پیغام صرف عربوں تک محدود ہے۔ اس دین کا موضوع انسان ۔۔۔۔۔ پوری نوعِ انسانی اور اس کا دائرہ کار زمین ۔۔۔۔۔ پوری روئے زمین ۔۔۔۔ ہے۔ اللہ تعالٰی صرف عربوں کا پروردگار نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اُس کی ربوبیت ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے جو عقیدہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالٰی تمام اہلِ جہان کا رب ہے۔ یہ دین تمام اہل جہان کو ان کے رب کی طرف لوٹا دینا چاہتا ہے۔ انہیں عبودیت غیر اللہ کے چنگل سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں اصل عبودیت یہ ہے کہ انسان ایسے قوانین کا طوق اپنے گلے میں ڈال لے جو خود اُس جیسے انسانون نے ہی وضع کیئے ہوں اور یہی وہ " عبادت " (بندگی) ہے جس کے بارے میں اس دین نے فیصلہ کر دیا ہے کہ یہ صرف اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص رہے گی۔ جو شخص غیر اللہ کے آگے اس عبادت کو بجا لاتا ہے، وہ چاہے دینداری کا لاکھ دعوٰے کرے مگر وہ دین سے خارج ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں یہ فرمایا ہے کہ رائج الوقت قانون اور حکومت کی اطاعت " عبادت " کا دوسرا نام ہے۔ عبادت کے اس مفہوم کو رُو سے جب یہود اور نصاریٰ نے خدائے واحد کی " عبادت " سے روگردانی کی تو وہ " مشرکین " میں شمار کیئے گئے۔

ترمذی نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب اُن (عدی بن حاتم) تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پہنچی تو وہ شام بھاگ گئے۔ کیونکہ زمانہ جاہلیت میں انہوں نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ مگر اُن کی بہن اور قبیلے کے چند لوگ قیدی بنا لیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بہن پر احسان فرمایا (اور انہیں بلا فدیہ آزاد کر دیا) اور کچھ عطیہ دے کر انہیں واپس کر دیا۔ وہ اپنے بھائی کے پاس آئیں اور اُن کو اسلام کی ترغیب دی اور بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ عدی تیار ہو گئے۔ مدینہ میں لوگوں کے اندر عدی کی آمد کا چرچا ہوا۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے تو ان کے گلے میں چاندی کی صلیب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت یہ آیات تلاوت فرما رہے تھے : اتخذوا احبارھم و رھبانہم ربابا من دون اللہ (اہلِ کتاب نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کو چھوڑ کر اپنا رب ٹھہرا لیا)۔ عدی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا : وہ راہبوں کی عبادت نہین کرتے۔ آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس چیز کو ان کے علماء اور راہبوں نے حلال کیا اسے وہ لوگ حلال مان لیتے تھے اور جسے انہوں نے حرام قرار دیا اسے وہ حرام تسلیم کر لیتے تھے۔ اور یوں وہ اپنے علماء اور راہبوں کی عبادت کرتے تھے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کی جو تشریح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے وہ اس بارے میں نص قطعی ہے کہ کسی غیر الہٰی قانون اور حکومت کی پیروی ایک عبادت ہے۔ اور اس کے ارتکاب کے بعد مسلمان دین کے دائرہ سے نکل جاتا ہے۔ اس نص سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کو ارباب من دون اللہ ٹھہرا لیں۔ دین حق اسی منکر کو نیست و نابود کرنے کے لیے آیا ہے۔ اور اُس کا اعلان ہے کہ اس خطہ زمین پر بسنے والے انسانوں کو غیر اللہ کی عبودیت سے آزاد ہونا چاہیے۔

اسلام دعوت اور تحریک دونوں پہلوؤں سے برپا ہو

اگر انسان کی عملی زندگی اسلام کے مذکورہ اعلانِ آزادی کے خلاف پائی جاتی ہو تو اس صورتِ حال کے ازالہ کے لیے ناگزیر ہے کہ اسلام بیک وقت تبلیغ (بیان) اور تحریک (حرکت) دونوں پہلوؤں سے میدان میں اُترے۔ اور اُن سیاسی طاقتوں پر کاری ضربیں لگائے جو انسانوں کو غیر اللہ کی چوکھٹ پر سرافگندہ کرتی ہیں اور اللہ کی شریعت سے بے نیاز ہر کو ان پر حکمرانی کرتی ہیں۔ اور اسلام کی دعوت کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے نہیں دیتیں۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ عقیدہ اسلام کا انتخاب کرنا بھی چاہیں تو بھی انہیں یہ آزادی نہیں ہوتی کہ وہ برسرِاقتدار طاقت سے بے خوف اور بے نیاز ہو کر اسے قبول کر سکیں۔ تبلیغ اور تحریک دونوں حیثیتوں سے اسلام کا رُو بکار آنا اس لیے بھی ضروری ہے تا کہ اسلام طاغوتی اقتدار سے ملک خدا کو پاک کرنے کے بعد چاہے وہ نرا سیاسی نوعیت کا ہو، اور چاہے اُس نے نسلیت کا لبادہ پہن رکھا ہو یا ایک ہی نسل کے اندر طبقاتی امتیازات پیدا کر رکھے ہوں، ایک ایسا نیا معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی نظام قائم کر سکے جو تحریکِ آزادی انسان کو عملی جامہ پہنائے اور دنیا کے اندر اُسے فروغ دینے میں ممد و معاون ہو۔

اسلام کے نزدیک آزادی انسان کا مطلب

اسلام کا ہرگز یہ منشا نہیں ہے کہ وہ لوگوں پر زبردستی اپنا عقیدہ ٹھونسے۔ مگر یہ بھی واضح ہے کہ اسلام کسی مجرد عقیدہ کا نام نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے، اسلام انسانوں کی غلامی سے انسان کو آزاد کرانے کا ایک عالم گیر اعلان ہے۔ اس کی دعوت کا آغاز ہی اس نصب العین سے ہوتا ہے کہ وہ ایسے تمام نظاموں اور حکومتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے جو انسانوں کی گردنوں پر انسانوں کی حاکمیت کا تخت بچھاتی ہیں اور انسانوں کوانسان کا غلام بناتی ہیں۔ جب وہ لوگوں کی گردنوں کو انسانی حاکمیت کے سیاسی دباؤ سے چھڑا دیتا ہے اور ان کے سامنے انسان کی روح و عقل کو منور کر دینے والی دعوت پیش کر دیتا ہے تو پھر انہیں آزاد چھوڑ دیتا ہے کہ وہ جس عقیدہ اور نظریہ کو چاہیں اپنی آزاد مرضی سے اختیار کر لیں۔ لیکن اس آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اپنی اہواء و اغراض کو الٰہ بنا لیں یا وہ خود یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ انسانوں کی غلامی میں رہیں گے اور ایک دوسرے کو اپنا رب بنائیں گے۔ دنیا کے اندر حکمرانی کا جو نظام بھی قائم ہو وہ بندگیِ رب کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔ اور قوانین حیات کا ماخذ صرف اللہ کی ذات ہونی چاہیے تا کہ اس اصولی نظام کے سائے میں ہر فرد کو آزادی ہو کہ وہ جس عقیدہ کو چاہے قبول کرے۔ یہی صورت ہے جس میں دین یعنی قانون، سرافگندگی، اطاعت اور بندگی سراسر صرف اللہ کے لیے حالص ہو سکتی ہے۔ دین کا مفہوم عقیدہ کے مفہوم سے زیادہ وسیع اور جامع ہے۔ دین اُس نظام اور طریقِ عمل کا نام ہے جو انسانی زندگی کو اس کی وسعتوں سمیت اپنے قبضہ اقتدار میں لاتا ہے۔ اسلام میں اس نظام کا تمام تر اعتماد عقیدہ پر ہوتا ہے۔ مگر اس کی گرفت کا دائرہ عقیدہ سے زیادہ وسیع ہے۔ چنانچہ اسلامی نظامِ حکومت کے اندر اس امر کی گنجائش ہے کہ اس میں ایسی متعدد آبادیاں پائی جائیں جو اسلام کے مُلکی قانون کی (جو اللہ کی بندگی پر استوار ہوتا ہے) وفادار تو ہوں مگر انہوں نے اسلام کو عقیدہ کی حیثیت سے تسلیم نہ کیا ہو۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top