آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاحِ اخلاق کی مہم سے دعوت کا آغاز کیوں نہ کیا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے وقت جزیرۃ العرب کی اخلاقی سطح ہر پہلو سے انحطاط کے آخری کنارے تک پہنچی ہوئی تھی۔ صرف چند بدویانہ فضائل اخلاق خام حالت میں موجود تھے۔
ظلم اور جارحیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ جاہلی دور کا نامور شاعر ہنیر ابن ابی سلمٰی اسی معاشرتی فساد کی طرف اپنے اس شعر میں حکیمانہ انداز سے اشارہ کرتا ہے :
ومن لم یذ دعن حرفعہ بسلامہ
یھدم، ومن لا یظلم الناس یظلم
جو ہتھیار کی طاقت سے اپنا دفاع نہیں کرے گا تباہ و برباد ہو گا۔ اور جو خود بڑھ کر لوگوں پر ظلم نہیں کرے گا تو وہ خود (بالآخر) ظلم کا شکار ہو جائے گا۔
اسی خرابی کی طرف جاہلی دور کا یہ مشہور و معروف مقولہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ : انصُرا خاک ظالما اُو مظلوما (اپنے بھائی کی مدد کر، خواہ وہ ظلم کر رہا ہو یا اُس پر ظلم ہو رہا ہو۔ (آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی یہ ٹکڑا وارد ہوا ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں واضح کر دیا ہے کہ ظالم کی مدد سے مراد اُسے ظلم سے روکنا ہے (مترجم))۔
شراب خوری اور جُوا بازی معاشرتی زندگی کی روایت بن چکے تھے، اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ جاہلی دور کی تمام شاعری خمر اور قمار کے محور پر گھومتی ہے۔ طرفہ ابن العبد کہتا ہے :
فلو لا ثلاث ھن من عیشۃ الفتی
وجدک لم احفل متی مام عودی
فمنھن سبقی العاذلات بشربۃ
کمیتُ متی ما تعل بالماء تزبد
وما زال تشرابی الخمور ولذتی
وبذلی وانفاقی طریفی و تالدی
الحا اُت محامتنی العشیرۃ کلھا
و افردت افراد البعیر المعبر
(1) اگر تین چیزیں جو ایک نوجوان کی زندگی کا لازمہ ہیں نہ ہوتیں، تو مجھے کسی چیز کی پروا نہ رہتی بشرطیکہ مجھے تابسدِ رمق غذا ملتی رہتی۔
(2) ان میں سے ایک میرا اپنے رقیبوں سے مے نوشی میں سبقت لے جانا ہے اور مَے بھی وہ دو آتشہ جس میں اگر پانی ملایا جائے تو اُس پر کف آ جائے۔
(3) شراب نوشی، لذت پرستی اور بذل و اسراف پہلے بھی میری گھٹی میں پڑے ہوئے تھے اور آج بھی ہیں۔
(4) آخر وہ دن آ گیا کہ میرا پورا قبیلہ مجھ سے دور ہٹ گیا۔اور مجھے الگ تھلگ کر دیا گیا۔ جیسے خارش زدہ اونٹ کو گلے سے الگ کر دیتے ہیں۔
زنا کاری مختلف شکلوں میں رائج تھی۔ اور اس جاہلی معاشرے کی قابل فخر روایت بن چکی تھی۔ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں ہر دور کا جاہلی معاشرہ ننگا نظر آتا ہے۔ خواہ وہ دورِ قدیم کا جاہلی معاشرہ ہو یا عہدِ حاضر کا (نام نہاد مہذب معاشرہ)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جاہلی معاشرے کی حالت ان الفاظ میں بیان کی ہے :
" جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں : ایک تو وہ صورت تھی جو آج لوگوں میں جاری ہے۔ یعنی ایک آدمی دوسرے شخص کو اس کی بیٹی یا اس کی تولیت میں رہنے والی دوشیزہ کے لیے پیغام نکاح دیتا اور اُس کا مہر ادا کر کے اُس سے نکاح کر لیتا۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ مرد اپنی بیوی سے، جب کہ وہ حیض سے پاک ہو چکی ہوتی، کہتا کہ فلاں شخص کو بُلا اور اُس سے پیٹ رکھوا۔ چنانچہ وہ خود اس سے الگ رہتا، اُس وقت تک اُسے نہ چھوتا جب تک اُس آدمی کے حمل کے آثار ظاہر نہ ہو جاتے۔ آثار ظاہر ہو جانے کے بعد خاوند اگر چاہتا تو اس سے ہمبستری کر لیتا۔ وہ یہ طریقہ اس لیے اختیار کرتا تا کہ اُسے اچھے نسب کا لڑکا ملے۔ نکاح کی اس شکل کو استبضاع کہا جاتا تھا۔ نکاح کی ایک تیسری صورت بھی تھی۔ مردوں کی ایک ٹولی جو دس سے کم ہوتی جمع ہو جاتی اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتی، اُس سے مقاربت کرتی۔ جب اُسے حمل ٹھہر جاتا تو بچے کی ولادت پر چند راتیں گزر جانے کے بعد اُن سب کو بُلا بھیجتی۔ اس طرح بُلاوا ملنے پر کوئی شخص جانے سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ جب وہ اُس کے پاس جمع ہو جاتے، تو وہ عورت اُن سے کہتی : تمہیں اپنی کاروائی کا نتیجہ تو معلوم ہو ہی چکا ہے۔ میں نے ایک بچہ جنا ہے۔ پھر وہ ان میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے کہتی کہ یہ تیرا بیٹا ہے۔ اس پر بچے کا نام اُس شخص کے نام پر رکھ دیا جاتا اور لڑکا اُس کی طرف منسوب ہو جاتا۔ اور وہ اس نسبت سے انکار نہ کر سکتا تھا۔ نکاح کی چوتھی قسم یہ تھی کہ بہت سے لوگ جمع ہو جاتے، اور مل کر ایک عورت کے پاس جاتے۔ جس کے پاس جانے میں کسی کو کوئی رکاوٹ نہ ہوتی تھی۔ دراصل یہ پیشہ ور فاحشہ عورتیں ہوتی تھیں اور علامت کے طور پر اپنے دروازوں پر جھنڈے نصب کر لیتیں۔ جو شخص بھی اپنی حاجت پوری کرنا چاہتا ان کے پاس چلا جاتا۔ ایسی عورتوں میں سے اگر کسی کو حمل ٹھہر جاتا تو وضع حمل کے بعد سارے لوگ اُس کے پاس اکٹھے ہو جاتے اور ایک قیافہ شناس کو بُلا لیتے۔ وہ ان میں سے جس کی طرف اُس لڑکے کو منسوب کرتا وہ لڑکا اس شخص کا قرار پاتا اور وہ اس سے انکار نہ کر سکتا۔" (بخاری کتاب النکاح)۔
سوال کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو ایک اصلاحی تنظیم کے قیام کا اعلان کر کے اس کے ذریعہ اصلاح اخلاق، تزکیہ نفوس اور تطہیر معاشرہ کا کام شروع کر دیتے۔ کیونکہ جس طرح ہر مصلحِ اخلاق کو اپنے ماحول کے اندر چند پاکیزہ اور سلیم الفطرت نفوس ملتے رہے ہیں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ایسا پاک سرشت گروہ بایقین دستیاب ہو جاتا جو اپنے ہم جنسوں کے اخلاقی انحطاط اور زوال پر دلی دُکھ محسوس کرتا۔ یہ گروہ اپنی سلامتی فطرت اور نفاستِ طبع کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ تطہیر و اصلاح پر لازماٰ لبیک کہتا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کا بیڑا اُٹھاتے تو بڑی آسانی سے اچھے انسانوں کی ایک جماعت کی تنظیم میں کامیاب ہو جاتے۔ یہ جماعت اپنی اخلاقی طہارت اور روحانی پاکیزگی کی وجہ سے دوسرے انسانوں سے بڑھ کر عقیدہ توحید کو قبول کرنے اور اس کی گرانبار ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوتی۔ اور اس حکیمانہ آغاز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ دعوت کہ الوہیت صرف خدا کے لیے مخصوص ہے، پہلے ہی مرحلہ میں تند و تیز مخالفت سے دوچار نہ ہوتی۔