جیا راؤ
محفلین
تھیں گلستاں میں رونقیں جن کے شباب سے
مرجھا کے رہ گئے ہیں وہ چہرے گلاب سے
جب کر چکا ہے باغباں آندھی سے ساز باز
کیسے بچیں گے پیڑ خزاں کے عذاب سے
کیوں بھیجتے ہو ہم کو بتاؤ تو زرد پھول
رشتہ اگر نہیں ہے ہمارا جناب سے
آنکھوں سے روح تک جو فروزاں ہیں ساقیا
کیسے مٹیں گے نقش بھلا وہ شراب سے
بے تابیاں نگاہ کی کچھ اور بڑھ گئیں
چہرے پہ اس کے رنگ جو آئے حجاب سے
تنویر اس کو میری رفاقت میں دیکھ کر
جلنے لگے ہیں لوگ مرے انتخاب سے
تنویر ظہور