واللہ خیر الرازقین ! اس ارشادِ باری تعالیٰ کی ایک عملی تفسیر مجھ پر بیتی ہے۔ اس کو میں نے جس طرح دیکھا ہے، ہو سکتا ہے آپ کو بہت عجیب بات لگے مگر عملاََ ایسا ہوا ہے۔ جب سے روٹی کے چکر میں گھر سے نکلا ہوں ظاہر ہے کمانے والا تو ایک میں ہی تھا۔ شادی ہوئی بچے ہوئے، گھر بڑا ہوتا گیا، افراد کی تعداد بھی اور ضرورتیں بھی۔ اس کا نقشہ (تاریخوں، مہینوں کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ) کچھ یوں بنتا ہے۔
۔1۔ جب میں تھا اور میری اماں تھیں، زیادہ وقت بے روزگاری کا گزرا۔ شادی بھی بے روگاری کے دنوں میں ہو گئی۔
۔2۔ اللہ نے پہلی بچی سے نوازا تو مجھے سکیل 5 کی کلرکی مل گئی، دوسری بچی سے نوازا تو میں سکیل 8 میں چلا گیا، پھر سکیل 10 میں، تیسری بچی پیدا ہوئی تو مجھے چار ایڈوانس انکریمنٹس مل گئی۔
۔3۔ پھر پہلا بیٹا ہوا تو مجھے سکیل 15 مل گیا۔ تیسرے بیٹے کی پیدائش تک چار بچے سکول میں مختلف درجوں میں تھے اور مجھے سکیل 17 مل چکا تھا۔ پھر آخری دو بچوں کی پیدائش اور سکیل 18 ۔
۔ اللہ اکبر! یہ اُسی اللہ کے اپنے حساب ہیں! ورنہ ملازمت میں آنے کے بعد میں نے جو واحد تیر مارا تھا وہ یہ تھا کہ میٹرک کے پانچ سال بعد ایف اے کیا وہ بھی سیکنڈ ڈویژن میں اور پھر پانچ سال بعد بی اے کیا تو وہ بھی سیکنڈ ڈویژن میں اور بائی پارٹس!۔ ایم اے انگلش کی آدھی تیاری ہو گئی تھی، امتحان دینے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ایک دوست نے پوچھا تھا، ماں کی دعاؤں کی رسائی کا۔ یہ جو کچھ مجھے ملا اور ملتا چلا آ رہا ہے اس میں کتنا حصہ ان دعاؤں کا ہے، آپ ہی حساب کر لیجئے۔

یہیں پر بس نہیں ہے! ریٹائرمنٹ، بیوی کی وفات، پوتے پوتیاں، بہوئیں۔ بیتے بھی اچھا کما رہے ہیں الحمد للہ اور خالص تنخواہ کما رہے ہیں، میری اپنی پنشن خاصی معقول ہے، اتنی تو میری تنخواہ بھی نہیں تھی۔ اللہ جانے اس میں کون کس کے نصیب سے کھا رہا ہے۔ پھول کلیوں جیسے توتلی زبانوں والے ننھے منے؟ یا پھر میں؟ یا ان کے والدین (میرے بچے)؟ یہ حساب اپنے بس کا نہیں۔
 
آخری تدوین:
رہی بات ادب کی، یہ تو بقول پروفیسر احسان اکبر ’’گھر پھونک تماشا‘‘ ہے۔ 1972-1973 کے بعد بارہ سال کی خاموشی اور پھر حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا میں شمولیت 1985۔ تیس برس ہو گئے حرف سے تعلق بنے، سو چل رہا ہے۔ یہ شعبہ ہی الگ ہے۔
 
زندگی کی رنگا رنگی کے پس منظر اور پیش منظر میں بہت کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ بندہ روتا ہی رہے، یا ہنستا ہی رہے دونوں رویے غیرمتوازن ہیں۔ رونے کی بات پہ رونا بھی آتا ہے، ہنسنے کی بات پہ ہنسی بھی آتی ہے، کبھی وہ زہرخندہ بھی ہوتی ہے اور معصوم بھی۔ یہی معاملہ دیگر کیفیات کا ہے؛ غصہ، جھلاہٹ، مایوسی، مسرت، حسرت، خفت وغیرہ وغیرہ ہم کسی کو بھی منہا تو نہیں کر سکتے۔ ہاں کس کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ بھی کچھ ایسا سادہ فیصلہ نہیں ہوتا، یہاں بھی کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک بات البتہ طے ہے! سب کچھ ہمارے اندر ہی سے پھوٹے اور ہم اپنے گرد و پیش سے مستغنی ہو کر اس اندرونی موج کے مطابق چلتے جائیں، ناممکن! سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ معاشرے میں رہنا جو ہوا! بن بسرام شاعری میں تو بہت اچھا لگتا ہے، عملاََ کیسا ہوتا ہے، اپنا تجربہ نہیں ہے۔

معاشرے میں ہمارے عمل پر اثر انداز ہونے والے لوگ بنیادی طور پر وہی ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہمارا کچھ تعلق واسطہ ہو۔ اور جتنا یہ تعلق واسطہ گہرا یا اہم ہو گا اتنا ہی ہم ایک دوسرے کا اثر قبول کریں گے (یہ دوطرفہ عمل ہے)۔ نیک نیتی اور خلوص، بد نیتی اور منافقت؛ اس کو ٹھیک ٹھیک پا لینے کا دعویٰ کم از کم میں تو نہیں کرتا۔ ہاں، واقعاتی سطح پر ہر انسان تجزیہ کرتا ہے اور شخصی یا غیرشخصی حوالے سے کوئی نہ کوئی خیال جسے تحقیق والے ہیپوتھیسس کہتے ہیں، بنتا ضرور ہے۔ بات پھر پھرا کے آ جاتی ہے شخصیات پر اور واقعات پر تو کیوں نہ کچھ اور شخصیات کا ذکر ہو جائے، کچھ اہم واقعات کا بھی۔ اہمیت کے پہلو بھی تو متنوع ہیں، نا! چلئے یوں ہی سہی۔
 
پروفیسر خان صاحب کے بعد پروفیسر ڈاکٹر علوی صاحب پرنسپل بنے تو دفتر میں میرے لئے جیسے کام ہی کوئی نہیں رہا، ہمہ وقت بے کار؟ دس دن بیس دن ایک مہینہ، گویا میرا کام صرف فون ملا کر دینا رہ گیا؟ ڈاکٹر علوی صاحب یہیں ٹیکسلا میں مکینیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے، اور شناسائی بھی عمدہ تھی۔ ایسے میں اُن کا لاتعلقی کا سا رویہ میرے لئے بہت بڑا سوالیہ نشان تھا۔ اُن سے براہِ راست پوچھا بھی نہیں جا سکتا تھا، سو میں نے اپنے طور پر وجہ کی تلاش شروع کر دی۔ کھلا یہ کہ میرے ایک ’’مہربان‘‘ جو مجھ سے خاصے سینئر تھے، ڈاکٹر صاحب کے پاس الٹی سیدھی ہانک جاتے اور جس دن وہ کوئی نیا گل کھلاتے، جاتے جاتے مجھ پر کوئی جملہ بھی چست کر جاتے۔ میں نے مصلحتاََ خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ڈاکٹر علوی صاحب بھی پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور ان کی گفتگو میں خان صاحب والا رکھ رکھاؤ نہیں تھا۔ ایک دن مجھے طلب کر لیا، اور کہا: ’’میرے کول لوکی تیرے خلاف گلاں کردے رہندے نیں، توں کوئی گل وی نہیں کیتی (یعنی اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا)‘‘۔ میں کچھ کچھ سمجھ گیا مگر پوری بات واضح نہیں تھی، عرض کیا: ’’تسی صفائی طلب کرو تے میں کوئی گل کراں! مینوں کیہ پتہ کہنے کیہ کہیا اے۔‘‘ (واضح کر دوں کہ ڈائریکٹر امورِ طلباء دوسرے ڈاکٹر صاحب تھے وہ سِوِل انجینئر تھے)۔ اس دن کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مجھے تھوڑا تھوڑا کام دینا شروع کیا اور ساتھ ہی کہتے: ’’کر لئیں گا؟‘‘ میرا بہت کچھ کہنے کو جی چاہتا مگر ۔۔ وہی خاموشی۔
ہوتے ہوتے یوں ہوا کہ ڈاکٹر علوی صاحب مجھ پر محاورے کی مصداق آنکھیں بند کر کے اعتماد کرنے لگے۔ میرے لئے اُن کا یہ اعتماد بہت بڑی آزمائش بھی تھا۔ ایک دن کہنے لگے: ’’توں اپنی صفائی پیش نہیں کیتی‘‘ میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا، وہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے کہا: ’’ہن لوڑ نہیں رہی، سر‘‘۔ ہمارے ایک ایڈمن افسر (آفس سپرنٹنڈنٹ) ہوا کرتے تھے، کوئی بے کار سی وہ بھی کر دیتے تھے مگر کسی کے کہنے پر۔ ایک دن (کسی اور کے کہے پر) مجھ سے کہنے لگے: ’’آسی صاب، کیہ کردے ہندے اوں سارا دِن‘‘ ’’کچھ وی نہیں جی‘‘۔ ’’تسیں ایتھے میرے کول بیٹھیا کروں، علوی صاحب نے کہہ دتا اے‘‘ ’’اچھا جی، میں ذرا اوہناں کولوں پچھ لواں‘‘۔’’نہیں نہیں رہن دیوں، بیٹھوں اوتھے ای‘‘۔ مجھے ان کی سادگی پر بہت ہنسی آئی۔ میں نے پوچھا: ’’تسیں ایہ گل چوہدری دے کہن تے کیتی اے نا؟‘‘ ہنس کر بولے: ’’آہو یار‘‘۔ مذکورہ چوہدری صاحب سامنے بیٹھے تھے ان سے بولے: ’’چوہری! توں مینوں مرواؤں گا کسے دن۔‘‘ بات مذاق میں ٹل گئی۔
 
ادھر اکاؤئنٹس میں ایڈمن افسر کی نئی پوسٹ آ گئی تو وہ جملے کسنے والے صاحب (اگرچہ گریجوایٹ نہیں تھے) اپنی طوالتِ خدمات کی بنا پر ترقی پا گئے۔ مجھے ان کی ترقی نے خاصا پرسکون کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ہمارے سادہ دل ایڈمن افسر صاحب 60 سال کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہو گئے تو انہی جملہ خان صاحب کو اِس سیکشن کی نگرانی سونپ دی گئی۔ میرا تو سلسلہ الگ تھا، چوہدری صاحب کو جملہ خان صاحب کی براہِ راست ماتحتی میں خاصا ’’مزہ‘‘ آیا۔ وہ میرے پاس بھی اپنے نگران باس کی ’’شکایت ‘‘ کرنے لگتے تو میں کبھی کیپسول کی صورت میں کبھی ویسے اُن کو جتا ضرور دیتا کہ ۔۔ ۔۔ وغیرہ، وغیرہ۔
میں اس وقت تک سکیل 10 میں تھا۔ ایک درخواست ڈال دی کہ گریڈ 16 کی تازہ ویکینسی پر مجھے ترقی دی جائے۔ اپنے چوہدری صاحب نے بھی درخواست دے دی۔ وہ اسسٹنٹ کے کیڈر میں سب سے سینئر تھے اور میں سٹینوگرافر کے کیڈر میں۔ کارکردگی کے اعتبار سے ہم دونوں ’’اے۔ون‘‘ تھے۔ پرنسپل صاحب کے لئے مسئلہ بن گیا، کہ سیٹ ایک ہے بندے دو ہیں، اور دونوں کا ریکارڈ وغیرہ سب ٹھیک ہے، پروموشن کے لئے دونوں حق دار ہیں۔ اب ہونا کیا چاہئے؟ کس کی سفارش کی جائے؟ پروموشن کا اختیار وائس چانسلر صاحب کے پاس تھا۔
ایک اور اسسٹنٹ تھے تیسرے یا چوتھے نمبر پر، یار لوگوں نے ان کا نام ’’اسٹنٹ‘‘ رکھا ہوا تھا۔ کچھ کچھ سیاست میں بھی قدم رکھتے تھے۔ وہ بھی نہ صرف میدان میں آ گئے بلکہ ڈاکٹر صاحب کے کچھ پرانے دوستوں سے کہلوایا، وغیرہ۔ اس طرح کی خبریں خفیہ نہیں رہا کرتیں۔ ایک دن دفتر میں آتے ہی ڈاکٹر صاحب نے مجھے طلب کر لیا: ’’آسی، اندر آ ذرا‘‘۔ یا اللہ خیر۔ میں اندر گیا تو چھوٹتے ہی بولے: ’’توں میرے لئی کیہ مسئلہ بنیا ایں؟‘‘ میں سمجھ گیا، اور کہا: ’’مسئلہ میں کیویں بنیا، سر؟ مسئلہ تے اوہ بنیا نا، جیہڑا سفارشاں پواندا پھردا اے‘‘۔ انہوں نے مری بات کو بہ ظاہر ان سنی کرتے ہوئے کہا: ’’بیٹھ!‘‘ ۔ اس کے بعد کی گفتگو واقعی بڑی دل چسپ ہے۔ آپ بھی شامل ہوجئے۔
’’تہاڈے دونہاں چوں سینئر کون اے‘‘
’’کیڈر وچ اودھر چوہدری سینئر اے، ایدھر میں سینئر آں، سروس اس دی زیادہ اے‘‘
’’تے اوہ، اوہ تیجا‘‘
’’اوہ تے بہت پچھے وے جی، اک بندہ اس توں سینئر اے جنہے شاید درخواست نہیں دتی، تسیں میرے تے کاہدا غصہ کڈھ رہے او؟‘‘
’’اوہ، یار۔ ! اوہ سفارشاں پواندا پھردا اے۔ فلانے تے فلانے نوں جاندا ایں نا‘‘
’’ہاں جی تہاڈے پرانے بیلی نیں‘‘
’’نرے بیلی نہیں، کلاس فیلو! ۔۔ اوہ دونویں میری جان نوں آئے نیں، کہ جی اس نوں پروموٹ کراؤ‘‘
’’مینوں اک گل دسو سر! میں جدوں دی درخواست دتی اے، کدی کدھرے اک واری وی، میں خود یا میرے لئی کسے نیں تہانوں کہیا ہووے‘‘
’’بالکل نہیں، چوہدری نے کسے توں تے نہیں اکھوایا پر آپ ہر ویلے چمبڑیا رہندا اے‘‘
’’پھر، کر لئو فیصلہ، اک سیٹ اے چوہدری نوں سروس دا فائدہ دیو! مکاؤ جھگڑا‘‘
’’میں چوہدری نوں کرا دیاں گا پروموٹ! پھر نہ کہیں‘‘
’’ٹھیک اے جی نہیں کہندا‘‘۔ میں نے بات ختم کر دی۔
’’پر یار، میں چوہدری دی وی حق تلفی نہیں کرنا چاہندا نہ تینوں گوانا چاہندا آں۔ سیٹ اک اے، جے ۔۔ ۔۔‘‘ انہوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ اور مجھے جانے کو کہہ دیا۔
ایک ڈیڑھ مہینے تک مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر ایک دن یونیورسٹی سے سرکاری حکم نامہ آ گیا۔ اس کے تین نکات تھے:
۔1۔ چوہدری ۔۔ ۔۔ کو ترقی دے کر ایڈمن افسر بنایا جاتا ہے اور مین آفس میں موجود خالی سیٹ پر تعینات کیا جاتا ہے۔
۔2۔ شعبہ امتحانات میں ایڈمن افسر کی ایک سیٹ فراہم کی جاتی ہے، اور محمد یعقوب آسی کو ترقی دے کر اس سیٹ پر ایڈمن افسر بنایا جاتا ہے۔
۔3۔ یہ حکمنامہ تاریخِ اجراء سے مؤثر ہے۔ (یعنی جس تاریخ کو حکم جاری ہوا)۔

ہوا یہ تھا، جو بات ڈاکٹر صاحب نے ادھوری چھوڑ دی تھی۔ ان کو خیال آیا کہ ایک سیٹ تو موجود ہے، ایک سیٹ نئی لے لی جائے، اور دونوں کو ترقی دے دی جائے۔ اس پر انہوں نے وائس چانسلر کو قائل کر لیا تھا اور یوں کسی کی بھی حق تلفی نہیں ہونے دی تھی۔
 
آخری تدوین:
یہ دوسرا موقع تھا جب میرے لئے نئی سیٹ مہیا کی گئی ہو۔
اس سے پہلے محکمہ شناختی کارڈ میں میرے لئے سٹینوگرافر کی نئی سیٹ پیدا کی گئی تھی۔ اس کی تفصیلات بیان نہیں ہو سکیں کہ بات کسی اور طرف نکل گئی تھی۔ اب اس کی تفصیل میں جانے کا موقع بھی نہیں رہا۔
 
اور وہ جو انور وٹو صاحب تھے، جنہوں نے کہا تھا ’’میں نے کون سا یہاں رہنا ہے‘‘ وہ واقعی نہیں رہے۔
انہوں نے، جب مجھ سے ملے تھے، میٹرک اور ڈی کام کیا ہوا تھا۔ بعد میں بی اے کا امتحان دیا، اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے اور پھر بنجاب پبلک سروس کا امتحان بھی پاس کر لیا اور ساہی والے کے قریب ایک سرکاری فارم ’’نورپور ڈیری فارم‘‘ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن کر ٹیکسلا سے رخصت ہو گئے۔ مختلف سرکاری محکموں میں پھرتے پھراتے، پنجاب سکرٹریٹ (لاہور) میں ڈپٹی سکرٹری فنانس بن گئے۔ دورانِ ملازمت ان کو دل کا دورہ پڑا جس سے جاں بر نہ ہو سکے۔ اللہ مغفرت کرے، دھُن کے پکے تھے۔
 
ایک نوجوان اور ایسا ہے جس کا ذکر نہ کرنا انسانی عزم و ہمت کی نفی کرنے کے مترادف ہو گا۔ اپنی سہولت کے لئے اس کا نام اختر رکھ لیتے ہیں۔

یہ 1979 کی بات ہے۔ کالج نے اکیڈیمک شعبوں میں لیبارٹری اٹنڈنٹ کی بھرتی کا نوٹس جاری کیا۔ جملہ کاروائیوں سے گزر کر دوسرے کچھ امید واروں کے ساتھ اختر بھی بھرتی ہوا۔ میں چونکہ مرکز میں بیٹھا ہوا تھا، ہر نئے آنے والے کی حاضری رپورٹ کو پرنسپل صاحب منظور کیا کرتے۔ میں نے اختر کے کاغذات دیکھے تو اس کی فوٹو نے میری توجہ کھینچ لی۔ اس کی آنکھیں بہت گہری اور چمکدار لگ رہی تھیں۔ رسمی کاروائی تو ظاہر ہے ہو ہی جانی تھی۔ میں نے اپنے تجسس کے ہاتھوں اس کو بلوا بھیجا کہ دیکھیں تو سہی یہ کون لڑکا ہے۔
وہ میرے پاس آیا تو گھبرایا ہوا لگتا تھا، کہ پرنسپل آفس سے کسی اور کو تو نہیں بلوایا گیا، مجھے ہی کیوں۔ میں نے اُسے بٹھایا اور بتایا کہ بھائی آپ کو پرنسپل صاحب نے نہیں میں نے بلوایا ہے، میں آپ سے ملنا چاہ رہا تھا۔ پھر میں نے اختر سے اچھا خاصا غیر رسمی انٹرویو کر ڈالا۔ اختر کے والد ایک مقامی صنعتی ادارے میں سکیورٹی گارڈ تھے۔ اختر نے میٹرک کا امتحان ایک مقامی سکول سے پاس کیا۔ اس سے بڑی بہنیں تھیں، بھائیوں میں وہ سب سے بڑا تھا۔ اس لئے میٹرک کی سند ملتے ہی نوکری کی تلاش میں نکلا اور پہلے ہی مرحلے میں اس کو نوکری مل بھی گئی۔ میرے ذہن میں اپنا ماضی گھوم گیا جو اختر کی نسبت کہیں مشکل تھا، ظاہر ہے وہ سب کچھ اُسے بتانے کا نہیں تھا۔ علم و تعلیم اور عمومی مطالعہ اس کی باتوں میں جھلکتا تھا اور شعور میں وہ اپنی عمر سے بڑا لگتا تھا۔ اِس طبقے کے لوگ اپنی طبعی عمر سے بڑے ہوا کرتے ہیں۔
 
اختر سے کبھی کینٹین پر ملاقات ہو جاتی، کبھی ڈیپارٹمنٹ میں اور کبھی کبھار وہ میرے پاس بھی آ جاتا۔ اس کی باتیں اچھی لگتیں، ان میں عصری شعور بھی ہوتا اور دکھ بھی، امیدیں بھی اور خدشات بھی۔ اور اس کا لہجہ خاصا نپا تلا تھا، اس میں لڑکپن نہیں تھا۔
پھر یوں ہوا کہ میں کوئی چھ ماہ کے لئے اس منظر سے ہٹ گیا (یہ کہانی پھر سہی)، میں واپس آیا تو اختر نوکری چھوڑ کر جا چکا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ مجھے یاد تو آتا مگر میں نے اسے تلاش بھی نہیں کیا۔ کوئی چھ برس بعد اُس سے حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے اجلاس میں ملاقات ہوئی جو میرے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ شعر و ادب سے ہٹ کر یہاں انسانی حوالوں کی کچھ باتیں تازہ کرتے ہیں۔
وہ بھی اسی صنعتی یونٹ میں ملازم تھا جہاں اس کے والد صاحب تھے۔ کالج کی نسبت اسے زیادہ تنخواہ ملتی تھی مگر وہ مطمئن نہیں تھا۔ اکثر کہا کرتا کہ غریب کے بچے کو بھی غریب ہی رہنا ہے اور اس کے بچوں کو بھی۔ اس کو یہ دکھ بھی تھا کہ غریبوں سے ہمدردی کے نعرے لگانے والے بھی غریب ہی کا استحصال کرتے ہیں۔ میں نے اسے ایف اے کرنے کا مشورہ دیا تو وہ تپ گیا، اور بعد میں مان بھی گیا۔ ایف اے کی سند بھی اس کی نوکری میں کوئی تبدیلی نہ لا سکی تو وہ اور بھی پریشان ہو گیا۔ میری تحریک پر اس نے بی اے کی تیاری شروع کر دی۔ جس دن اُسے بی اے کا رزلٹ کارڈ ملا وہ میرے پاس گھر پر آیا، میرا خیال تھا پھر کہے گا کہ اب کیا کہتے ہو؟ بی اے تو کیا میں ڈاکٹریٹ بھی کر لوں تو مجھے مزدوری ہی کرنی ہے۔ مگر ۔۔۔ اس کا جملہ: ’’میں ایم اے اردو کروں گا اور ریگولر کروں گا‘‘۔ مجھے حیران کر گیا۔ میں نے کہا: تمھارا دماغ ٹھیک ہے؟ نوکری چھوڑو گے، کیا؟ کہنے لگا کچھ کرتا ہوں۔
پھر اُس نے گورنمنٹ اصغر مال کالج میں داخلہ لے لیا۔ رات کو ڈیوٹی کرتا (وہ بھی مشین کے سر پر کھڑا ہو کر) اور دن کو پڑھنے جاتا۔ اپنی نیند وہ شاید بس میں آتے جاتے پوری کرتا ہو گا، یا پھر چھٹی کے دن؟ یہ دو سوا دو سال اس نے کس طور جسم و جان کو سولی پر چڑھا کر گزارے، اس کا اندازہ خود لگا لیجئے۔ فائنل امتحان کے بعد اس نے سکھ کا سانس لیا۔ نتیجہ میری توقع سے بڑھ کر اور خود اس کی توقعات سے ذرا کم تھا بہر حال وہ کامیاب ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ پنجاب کے ایک بڑے نجی سسٹم آف کالجز کے راول پنڈی کیمپس میں اردو کا استاد مقرر ہو گیا۔ اس دوران اس کی شادی ہو چکی تھی۔ خاتون اس کے قریبی عزیزوں میں تھیں اور ایک اچھی ملازمت پر راول پنڈی میں تعینات تھیں، سو اسے بھی راول پنڈی منتقل ہونا پڑا۔ بہ این ہمہ اس نے اپنے جملہ روابط معمول کے مطابق قائم رکھے۔ کالج کے پرنسپل نے اختر کے مزاج کو بھانپتے ہوئے اسے شعبہ امتحانات کا انچارج بنا دیا۔بعد ازاں ادارے نے ایک اور کالج کھولا تو اختر اس کا پرنسپل مقرر ہوا۔ اس شریف آدمی کا لا ابالی پن دیکھئے، مجھے کوئی تین ماہ بعد فون پر بتایا کہ : یار انہوں نے مجھے پرنسپل بنا دیا ہے۔ میں نے برجستہ کہا: ویری سَیڈ یار۔ پاگل ہیں، ایک اچھے بھلے شاعر کو باندھ کے رکھ دیا۔ ۔۔ اور ہم اس بات پر تا دیر ہنستے رہے۔
 
ایک دل گداز واقعہ بھی سُن لیجئے۔ اختر اور اس کی بیگم کہیں جا رہے تھے مال روڈ پر کوئی کار والا ان سے ٹکرا گیا۔ اختر کو اچھی خاصی چوٹیں آ گئیں، ہسپتال میں داخل ہوئے تین دن بعد چھٹی ملی تو چہرے کے پٹھے ایک طرف سے کھنچ چکے تھے، اور کھچاؤ نمایاں نظر آتا تھا۔ مجھے پتہ چلا، میں نے فون کیا۔ پتہ چلا ہسپتال سے گھر آ چکے ہیں۔ ہماری بھابی کی پریشانی ان کے لہجے سے عیاں تھیں۔ انہوں نے ایک تو چہرے کے پَٹھوں کا بتایا اور یہ کہ :’’کسی سے بات ہی نہیں کرتے اور مجھے تو دیکھتے ہی پھٹ پڑتے ہیں کہ میرے سامنے سے ہٹ جاؤ وغیرہ وغیرہ، ویسے ٹھیک ہیں، اللہ کا شکر ہے کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی، یہ جو چپ سادھے بیٹھے ہیں، وہ مجھے کھا رہی ہے۔‘‘ میں بھاگم بھگ اختر کے گھر پہنچا۔ وہ مجھ سے یوں ملا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں اور یوں ہی حال پوچھنے آ گیا ہوں۔ بھابی نے پہلے نہ بتایا ہوتا تو شاید میں دس منٹ بعد نکل چکا ہوتا۔ اختر کا چھوٹا بھائی بھی گھر پر تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یار اس گھر میں کوئی ایسی جگہ جہاں کوئی ہماری (میری اور اختر کی) بات چیت میں مخل نہ ہو۔ کہنے لگا: چھت پہ چلے جائیے، سایہ بھی ہے، ہوا بھی کھلی ہے۔ اختر سے کہا تو وہ بادلِ ناخواستہ چھت پہ پہنچ ہی گیا۔ بولا: میرا منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔ کہا: نہیں صرف پٹھے کھنچ گئے ہیں کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ بولا: مجھے بہلاتے ہو؟ کہا: مجھے کیا پڑی ہے تمھیں بہلانے کی، مگر سچ یہی ہے کہ یہ کھچاؤ عارضی ہے۔ بے دلی سے بولا: ہاں عارضی ہے۔ کہا: جانتے ہو عارضی کیا ہے؟ جو عارض سے متعلق ہو۔ وہ ذرا سا مسکرا دیا۔ اپنا طریقہ کام کر رہا تھا۔
اسی نوع کی کچھ بے سرو پا اور کچھ لفظی بازی گری کی، کچھ دوستوں کی، کچھ ادب کی، کچھ یوں ہی ادھر ادھر کی باتیں چلتی رہیں، وہ بھی حصہ لینے لگا۔ جب چھوٹا چائے لے کر چھت پر پہنچا تو اختر قہقہے لگا کر ہنس رہا تھا۔ چھوٹے کی حیرت دیدنی تھی۔ میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا میں نے کہا نیچے چلتے ہیں، مجھے جانا بھی ہے۔ ہم نیچے اترے، بھابی کچن میں تھیں، مجھے وہیں بلوا لیا، مسرت اور اشتیاق ملے لہجے میں کہنے لگیں: ’’کمال ہے! یہ آپ نے ان کو کِیا کیا ہے؟ مجھے تو یقین نہیں آ رہا‘‘ میں نے کہا بے فکر ہو جائیے، وہ خول ٹوٹ گیا ہے، اب ان شاء اللہ ان کی صحت یابی کی رفتار دیکھئے گا‘‘۔ اپنا وہ نسخہ کامیاب رہا، بھابی بھی خوش، بھائی بھی خوش اور ہم بھی۔ کچھ دنوں میں وہ کھچاؤ نمایاں طور پر کم ہو گیا اور پھر ہولے ہولے بالکل ختم ہو گیا۔
نسخہ بہت آسان تھا۔ مریض سے ہمدردی کا اظہار ضرور کیجئے مگر ایسے نہیں کہ اس کو اپنی بیماری اصل سے بڑی لگنے لگے! ایسا کیجئے کہ بیماری، تکلیف مریض کی ذہنی ترجیحات میں کہیں دوسرے تیسرے چوتھے نمبر پر جا پڑے اور اگر اس نے اپنے گرد کوئی خول بنا لیا ہے یا جال بن لیا ہے تو وہ ایک دو جگہ سے ٹوٹ جائے، باقی کو مریض خود توڑ لے گا۔ کرم، صحت، عنایات اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں۔
 
یہیں یونیورسٹی کے ایک ساتھی ہیں: اے ڈی خان۔ یہ ان کا نِک نیم ہے، وہ بھی معدودے چند دوستوں کے درمیان۔ موصوف سے اپنی گپ شپ خاصی فری سٹائل ہے، جیسے اپنے ’’مرزا جٹ‘‘ صاحب سے ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کی بات ہے، ایک دن میں دفتر گیا، وہاں کسی نے بات کی کہ اے ڈی خان کی پیشاب کی نالی کی سرجری ہوئی ہے اور وہ آج ہی ہسپتال سے گھر پہنچے ہیں۔ ان کا گھر میرے گھر کے راستے میں پڑتا تھا۔ ان سے ملا، دیکھا پیلے ہو رہے ہیں اور جسمانی تکلیف سے زیادہ ذہنی اذیت میں دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا حال ہیں کے جواب میں مردہ سا ’’ٹھیک ہوں‘‘ وغیرہ۔ ان کا بیٹا ان کے پاس تھا، میں نے اس سے پینے کا پانی مانگ لیا کہ دو منٹ کو ٹل جائے یہی بہت ہے۔ وہ کمرے سے نکلا تو میں نے ایک ایسا جملہ چھوڑا کہ اے ڈی خان کی ہنسی چھوٹ گئی۔ تازہ سرجری تھی، درد کی کیفیت موصوف کے چہرے سے عیاں تھی۔ ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں، پانی پیا اور گھر چلا آیا۔ (وہ جملہ یہاں کہنے کا نہیں ہے، ذکر اس لئے ضروری تھا کہ اے ڈی خان کے محبوس ہوتے ذہن کو اس جملے نے کھلی ہوا میں پھینک دیا تھا)۔ بعد کی بات اے ڈی خان کی زبانی:
’’جب تم چلے آئے تو میری پھر ہنسی چھوٹ گئی اور میں درد کی شدت سے کراہنے لگا۔ گھر والی بھاگی آئی کہ ہوا کیا ہے، ہنس بھی رہے ہو، ہائے ہائے بھی کر رہے ہو۔ اس کو تو میں نے ایسے تیسے ٹال دیا، مگر یہ ضرور ہوا کہ وہ مجھ پر جو غمگینی چھائی ہوئی تھی، اس جملے نے توڑ دی اور میں گویا پرسکون سا ہو گیا‘‘۔
 
آخری تدوین:
شعبہ امتحانات میں میرے انچارج کیمسٹری کے ایک استاد محمود اختر صاحب ہوا کرتے تھے جن کو افسر انچارج امتحانات کی اضافی ذمہ داری دی گئی تھی۔ یوں کالج کے اس شعبے غریبڑے شعبے میں ریگولر افسر میں ہی تھا، باقی جونیئر سٹاف تھا۔ (محمود اختر صاحب دمِ تحریر کنٹرولر امتحانات کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کا شخصی ذکر بعد میں آئے گا) ۔
کالج کی حیثیت سے ہم لوگوں کا کام تھا: امتحان لینا، رزلٹ تیار کرنا، کنٹرولر امتحانات (یو ای ٹی لاہور) سے اس کی منظوری حاصل کرنا اور نتائج کا اعلان کرنا۔ یہ دو لفظی کام ’’امتحان لینا‘‘ سٹاف کے لئے ہر چھ ماہ بعد زندگی کا امتحان دینے والی بات تھی۔ اس کا تو خیر کوئی گلہ نہیں کیا جا سکتا، اپنا کام جو ٹھہرا۔ ’’گل پیا ڈھول وجانا پیندا اے‘‘، نالے آپ گل پایا سی کسے نے منتاں تے نہیں سی کیتیاں نا!۔ کنٹرولر صاحب کبھی خود ٹیکسلا چلے آتے، کبھی اپنے عملے سے دو تین سینئر اور تجربہ کار لوگوں کو بھیج دیتے اور کبھی مجھے سارے پلندے اٹھا کر لاہور جانا ہوتا۔
 
ڈاکٹر علوی صاحب جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا افسر سے زیادہ بزرگ تھے۔ اپنے عملے کے ساتھ بھی’’ بزرگانہ سختی‘‘ سے پیش آتے۔ کبھی کسی چھوٹی سی بات پر گوشمالی کر دیتے اور کبھی اچھی بھلی غلطی کو نظرانداز کر دیتے۔ انضباطی کارروائی کی کبھی نوبت نہ آتی۔ اپنے سٹاف سے بزرگانہ توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے، سو بعض مواقع پر وہ ناراض ہونے کی بجائے ’’رُوٹھ جاتے‘‘۔
ایک دن کوئی بارہ بجے کے لگ بھگ مجھے طلب کیا اور کہا: ’’تازہ امتحانات کا ریکارڈ لے کر تیار ہو جاؤ، دو بجے تم میرے ساتھ لاہور جا رہے ہو‘‘۔ متعلقہ ریکارڈ الگ کرنے، ترتیب لگانے اور پَیک کرنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ ریکارڈ کو پارک میں کھڑی ان کی کار کے پاس رکھا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب آگئے۔ ’’ہاں بھئی! تیار؟‘‘ ’’جی، تیار!‘‘ ’’چلتے ہیں بسم اللہ‘‘۔ کیمپس سے نکل گئے تو بولے: ’’کھانا کھا آئے ہو؟‘‘۔ کہا: ’’نہیں سر، ٹائم ہی نہیں تھا، راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔ ’’دیکھو! میرے کمرے میں صرف میرا کھانا رکھا ہو گا، وہ ایک آدمی کے لئے کافی ہوتا ہے، اپنا بندوبست تمہیں خود کرنا ہو گا‘‘۔ ’’جی، میں نے کہا نا راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔
ان کی رہائش ایک اور ادارے کے ہاسٹل میں تھی، کمرے میں پہنچے، کھانا میز پر رکھا تھا۔ بولے ’’آؤ شامل ہو جاؤ‘‘۔ ’’نہیں سر، شکریہ! میں راستے میں کھا لوں گا‘‘۔ ’’ناراض ہو گئے ہو؟ آؤ شامل ہو جاؤ!‘‘ دو اسم با مسمٰی پھلکیاں تھیں، اور ایک پیالی میں گوشت کا سالن، ذرا سا شوربہ اور دو بوٹیاں۔ ’’یہ لو، ایک روٹی تمہاری، ایک میری، ایک بوٹی تمہاری ایک میری!‘‘۔ نہ کوئی تکلف نہ تردد، نہ کوئی افسری نہ ماتحتی! ایک بزرگ ایک برخوردار، اور بس! یہ ضرور تھا کہ میں نے ان کے سامنے کبھی سگرٹ نوشی نہیں کی، ڈر نہیں تھا، حیا آتی تھی۔
 
آخری تدوین:
لاہور تک جی ٹی روڈ پر پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا، ان دنوں ابھی موٹر وے نہیں بنی تھی۔ راستے میں ادھر ادھر کی کچھ سرکاری، کچھ ذاتی ملی جلی گفتگو چلتی رہی۔ گفتگو تو ساری پنجابی میں ہوئی (وہ بھی پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور میں بھی) تاہم اپنے دوستوں کے لئے اردو میں مرتب کر رہا ہوں۔ اسی گفتگو سے دو حصے ملاحظہ ہوں:
۔۔
’’یہ بتاؤ کہ تمہاری احسان سے کیوں نہیں بنتی؟‘‘
’’میری تو بنتی ہے، ان کی نہیں بنتی‘‘
’’کیوں‘‘
’’یہ آپ انہی سے پوچھ لیجئے گا‘‘
’’تم کچھ نہیں بتاؤ گے؟‘‘
’’نہیں، مناسب نہیں ہے! ان کی اپنی سوچ ہے میری اپنی ہے۔ میں نے کبھی آپ کے پاس ان کی کوئی شکایت کی؟‘‘
’’نہیں کی نا، تبھی تو پوچھ رہا ہوں!‘‘
’’چھوڑئیے سر، کوئی اور بات کیجئے‘‘
۔۔
شاہدرہ کے قریب پہنچے تو میں نے کہا: ’’مجھے بتی چوک میں اتار دیجئے گا‘‘
’’کیوں، کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’میں اوکاڑا جاؤں گا‘‘
’’اور تمہارا ریکارڈ؟‘‘
’’گاڑی میں پڑا ہے نا، صبح آپ بھی یونیورسٹی (انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور) آئیں گے، میں بھی پہنچ جاؤں گا۔‘‘
’’یہاں کسی ہوٹل میں رات گزار لو۔‘‘
’’نہیں سر، کمرے کا کرایہ اور بس کا کرایہ تقریباً برابر ہیں۔ وہاں بہن کے ہاں جاؤں گا، اور کوشش کروں گا کہ آٹھ بجے تک یونیورسٹی پہنچ جاؤں‘‘
’’دیکھ لو یار، دیر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہو نے کو تو ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے، بہرحال میں پہنچ جاؤں گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’اگر تمہیں دیر ہو جائے تو نگار شاہ کے دفتر سے اپنا ریکارڈ اٹھا لینا‘‘۔
’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، سر۔ مجھے وہیں تو کام کرنا ہے، نگار شاہ کو پہلے چیک کرانا ہے‘‘
۔۔۔
 
وقت گزرتا رہا، زندگی کی شیرینیاں اللہ کے فضل و کرم سے بڑھتی چلی گئیں اور تلخیاں خاصی کم ہو گئیں۔ تاہم یہ زندگی کا اہم جزو تو ہیں نا، سو اِن کا ہونا ایک اعتبار سے شیرینیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اللہ کریم جس کو شکر کرنے کی جتنی توفیق عطا فرمائے۔ ’’احسان صاحب‘‘ جیسی شخصیات کم و بیش ہر دفتر میں پائی جاتی ہیں، احسان ایک الگ چیز ہے۔

یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا در اصل ایک حصہ یا سب کیمپس تھا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کا، اور کالج کے پرنسپل کا مرتبہ تعلیمی معاملات میں ڈِین آف فیکلٹی کے برابر تھا، جب کہ انتظامی امور میں وہ براہِ راست یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو جواب دِہ تھے۔ اساتذہ کی بھرتی میں وہ ڈین کی حیثیت سے اپنی سفارشات وی سی صاحب کو پیش کرتے جو عام طور پر منظور کر لی جاتیں۔ انتظامی افسروں کی تعیناتی کا سارا دفتری عمل یونیورسٹی کے رجسٹرار صاحب کیا کرتے۔ سیلیکشن بورڈ کی سفارش پر وی سی صاحب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایماء پر تعیناتی کا حکم جاری کر دیتے جو بعد میں عام طور پر منظور کر لیا جاتا۔

کالج کو اسسٹنٹ رجسٹرار (سیکشن آفیسر کے برابر) کی ایک نئی پوسٹ مہیا کی گئی تو کوٹہ کے مطابق کالج کے ملازمین سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ ظاہر ہے میں نے بھی درخواست داخل کر دی۔ میرے ایک محسن جو اُس وقت ایڈمن افسر (برابر: آفس سپرنٹنڈنٹ) واحد افسر تھے جو مجھ سے سینئر تھے مگر ان کی رسمی تعلیم مقررہ درجہ کی نہیں تھی۔ ایک طویل چکربازی کا حاصل یہ ہوا کہ موصوف نے پہلے تو مجھے ورغلایا کہ یہاں پروموشن ملنی چاہئے اور از خود ملنی چاہئے وغیرہ، پھر میرے دیگر ساتھی افسران کو میرے خلاف اکسایا اور اس بات پر تیار کیا کہ مجھے انٹرویو کے لئے جانے سے روکا جائے۔ اس ’’خیرسگالی‘‘ وفد کے سربراہ ہم لوگوں کی اپنی ایسو سی ایشن کے صدر تھے، اللہ کریم ان کو غریقِ رحمت کرے۔ وفد سے مذاکرات ناکام ہو گئے تو میں انٹرویو کال کی تعمیل میں اگلے دن سیلیکشن بورڈ کے سامنے حاضر ہو گیا۔

کوئی ایک مہینے کی رسمی کارروائی کے بعد مجھے تقرری کا پروانہ مل گیا۔ اس وقت تک ڈاکٹر علوی صاحب اور ان کے بعد ایک پروفیسر منظور صاحب ریٹائر ہو چکے تھے اور پرنسپل کے عہدے پر ہمارے ہی کالج کے ایک سینئر پروفیسر صاحب متمکن تھے۔ میرے محسنوں نے پرنسپل صاحب کو کسی طور قائل کر لیا کہ اس شخص کی تقرری کالج نے نہیں یونیورسٹی نے کی ہے، سو، یہ جائیں اور رجسٹرار صاحب کو جا کر رپورٹ کریں۔ پرنسپل صاحب نے یہی بات مجھے بطور ہدایت کے فرما دی تاہم زبانی۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہی بات مجھے تحریری طور پر عنائت کر دیں تا کہ میں رجسٹرار صاحب کو پیش کر سکوں یا رجسٹرار صاحب کے نام ایک خط لکھ دیں اور اس کی نقل مجھے فراہم کر دیں۔ ظاہر ہے یہ نہ ہونا تھا نہ ہوا، میری جائننگ البتہ دو تین ہفتے تک کھٹائی میں پڑی رہی۔ ایک دن خود پرنسپل صاحب نے بتایا یہ آج شام کو رجسٹرار صاحب یہاں آ رہے ہیں، اپنی فائل لے آئیے گا، ان سے ہدایت لئے لیتے ہیں۔ رجسٹرار صاحب نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ جناب جائننگ نہ لینے کی کوئی وجہ موجود نہیں تو یہ تاخیر کیوں ہوئی؟ پرنسپل صاحب نے اسی وقت میری تقرری کے خط کے مطابق میری جائننگ قبول کر لی۔

چلئے اپنی نوعیت کا ایک اور تجربہ سہی۔ بعد ازاں جلد ہی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اور کالج کا سارا عملہ نوزائیدہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کا عملہ قرار پایا۔ بعد کو ایک اصطلاح بھی چلی کہ یہ سٹاف یونیورسٹی کو میکے سے ملا ہے۔ تعلیمی اداروں کے انتظامی امور سے تعلق رکھنے والے احباب کے لئے ’’مدر یونیورسٹی‘‘ اور ’’مدر کیمپس‘‘ کی اصطلاحات اجنبی نہیں ہیں۔
 
یونیورسٹی بنی تو کچھ نئے انتظامی شعبے بھی بنے جو کالج میں ضروری نہیں ہوتے۔ کچھ شعبوں کو ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا گیا اور ملازمین کو ایک سے دوسرے شعبوں میں ٹرانسفر کیا گیا، یہ ایک بالکل منطقی امر تھا۔ مجھے شعبہ امتحانات سے اٹھا کر انتظامی امور کے شعبے میں بھیج دیا گیا۔ یوں میں پھر ایک بار مرکزی انتظامی دھارے میں شامل ہو گیا۔ لاہور سے ایک پروفیسر صاحب ڈیپوٹیشن پر یہاں آئے اور ان کو اس نوزائیدہ یونیورسٹی کے اولین رجسٹرار کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی اور یوں وہ میرے امیڈیٹ باس بن گئے۔

یہاں ایک اور خشک سی بات ہو جائے کہ اس کی اہمیت بعد کے معاملات میں بہت ہے۔ ہمارے اولین رجسٹرار صاحب چونکہ باہر سے آئے تھے، اس لئے یہاں کے امور اور ماحول میں وہ پہلے تو خود کو اجنبی محسوس کرتے رہے، پھر کچھ کچھ مانوس ہوئے تو ان کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ گئی کہ جو کام رعب داب سے نکل سکتا ہے وہ تحمل مزاجی سے نہیں نکل سکتا۔ ان کی بات اپنی جگہ درست بھی ہو تو یہ ضرور ہوتا ہے کہ رعب داب کے ماحول میں کوئی بھی شخص آگے بڑھ کر کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، اس پر ڈالنی پڑتی ہے اور کام کی رفتار جو بھی رہے کام کی کوالٹی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے یہاں کم و بیش سارا عملہ کوئی دو دہائیوں سے مل کر کام کر رہا تھا، اس لئے بہت سارے افسران اور سٹاف ایک دوسرے کے مزاج آشنا بھی تھے اور اعتماد کی ایک اچھی فضا بنی ہوئی تھی۔ میری اپنی بات نہیں، عام طور پر رجسٹرار صاحب کے اس رویے پر بد دلی کی فضا پیدا ہونے لگی تو موصوف نے ایک اور نظریہ بنا لیا کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ جو یقیناً ایک غیر مثبت سوچ تھی۔

ایک موقع پر میرا کام شاید ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا، خاصے چیں بجبیں ہوئے اور کہنے لگے:’’آسی صاحب! آپ کا قصور نہیں ہے، ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘۔ میرے دو تین ہم منصب لوگ اور بھی موجود تھے۔ میں نے جبراً ہنستے ہوئے کہا: ’’نہیں سر! باہر سے آ جاتے ہیں‘‘۔

بارے یوں بھی ہوا کہ میں نے ایک فائل پیش کی۔ صاحب نے وہی جملہ کہا: کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ اور فائل پوری قوت سے دفتر کے ایک کونے کی طرف پھینک دی۔ ایک دو لوگ اور بھی موجود تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا اور میں ۔۔ میں فوراً دفتر سے باہر نکل گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پرانے ساتھی چوہدری مشتاق صاحب نے وہ فائل سمیٹ سماٹ کر صاحب کو پیش کی اور انہوں نے اسی آفس نوٹ کو (جسے پڑھ کر اپنا محبوب تبصرہ ارشاد فرمایا تھا اور فائل اڑا کر پھینکی تھی) منظور فرما دیا۔ کوئی گھنٹے ڈیڑھ بعد ان کا غصہ فرو ہوا تو مجھے طلب کیا اور رسمی طور پر معذرت کی (نہ بھی کرتے تو کیا تھا)۔ میں نے جواب میں اتنا کہا کہ ’’آپ کہنے کو جو مرضی کہہ دیتے، فائل کو یوں پھینکنا میرے اور آپ کے دونوں کے وقار کے منافی تھا‘‘۔ اس کے بعد میں نے ان کے عمومی رویے میں واضح تبدیلی محسوس کی اور پھر ہمارے مابین اعتماد کی بہت عمدہ فضا بن گئی۔

سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھنے کا موقع آیا تو مجھے کہنے لگے: میرے عملے کی رپورٹیں بھی آپ لکھ دیں۔ واللہ اعلم یہ اعتماد تھا یا کوئی امتحان تھا یا کیا تھا، بہر حال میں نے معذرت کر لی اور کہا کہ قاعدے کے مطابق وہ آپ کا سٹاف (تین لوگ : ایک سٹینو، ایک کلرک، ایک چپراسی) ہے ان کی رپورٹوں پر صرف اور صرف آپ کے دستخط ہو سکتے ہیں۔ کہنے لگے اچھا ٹھیک ہے آپ لکھ دیں میں دستخط کر دوں گا۔ اب میرے پاس فرار کا راستہ نہیں تھا، سو میں نے ان تینوں لوگو کی خفیہ رپورٹیں کچھ پنسل سے لکھ دیں اور رجسٹرار صاحب کے پاس لے گیا۔ کہنے لگے ٹھیک لکھا ہے اس کو پکا کر دیں۔ عرض کیا: پکا آپ کریں گے۔ وہ ہنس پڑے اور کچی پنسل کے لکھے کے اوپر بال پوائنٹ پین سے لکھ کر دستخط کر دئے۔ ایک اور امتحان یا شاید سوال برائے سوال؟ میں اس کی نوعیت کو نہیں سمجھ رہا تھا، بہر حال۔ کہنے لگے : آپ کو کیسے اندازہ تھا کہ میں اسی طرح کی رپورٹ لکھوں گا۔ عرض کیا: مجھے آپ کے لکھنے یا اندازے سے کیا غرض! میں نے تو اس مفروضے کے تحت لکھا ہے کہ یہ تینوں میرے ماتحت ہیں۔
 
آخری تدوین:
یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر تھے ڈاکٹر کے ای دُرانی۔ بہت کم لوگوں کو ان کے پورے نام کا علم تھا۔ اٹک یا میاں والی سے تعلق رکھتے تھے۔

ایک دن عین دوپہر کے وقت، دفتر سے چھٹی کے فوراً بعد سوچا کہ سودا سلف لے آؤں پھر کچھ دیر آرام کروں گا۔ مشرقی گیٹ پر ایک ’’بزرگ جوان‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ چہرے بشرے سے کوئی ساٹھ کے پیٹے میں لگتے تھے؛ خشخشی داڑھی اور بھاری مونچھیں، چوڑا اور پر رعب چہرہ، سر پر ایک بڑا سا سفید رنگ کا پگڑ، سفید کرتا اور تہ بند، پاؤں میں گول سروں والا کھسہ، کندھے پر دو ڈھائی فٹ کی سوٹی (ڈنڈا) جس کے سرے پر ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ مجھے روکا اور اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا: یہیں رہتے ہو؟ کہا: ہاں، بولے: میں کرم الٰہی نوں ملنا اے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کون صاحب ہیں، کرم الٰہی۔ بزرگ بولے: وڈا ماشٹر لگا ہوئیا اے؛ میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر کرم الٰہی درانی، وائس چانسلر کا پوچھ رہے ہیں۔
میں نے ان کو راستہ سمجھاتے ہوئے بتایا کہ یہاں ان کو کرم الٰہی کے نام سے کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہ وہاں ان کے باہر والے دروازے پر ایک کیبن بنا ہوا ہے جس میں ایک وردی والا بندہ بیٹھا ہو گا، اس سے کہیں کہ وڈے صاحب سے ملنا ہے۔ انہوں نے ’’ہلا!‘‘ کہا اور ہم اپنی اپنی راہ پر ہو لئے۔ اگلے دن وہ واپس جا رہے تھے کہ مجھ سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو گئے۔
 
ڈاکٹر درانی صاحب بہت تھوڑا عرصہ (تقریباً ڈیڑھ سال) تک یہاں رہے، ان کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے ایک سول انجینئر ڈاکٹر محمد شریف بھٹی صاحب یہاں وائس چانسلر بن کر آئے۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا تعلق اوکاڑا سے ہے۔ ان کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگی وہ پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا، دفتر ہو، گھر ہو، میٹنگ میں ہوں؛ پنجابی میں بات کرتے (پروٹوکول وغیرہ کی بات دوسری ہے)۔

ڈاکٹر بھٹی صاحب نے پہلی تبدیلی یہ کی کہ رجسٹرار کی ذمہ داری یہاں کے ایک پروفیسر مختار حسین ساحر صاحب کو تفویض کر دی۔ ساحر صاحب کی شخصیت میں کچھ ساحرانہ چیز ضرور تھی، جس کا مجھے تجربہ تب ہوا جب وہ میرے باس بن کر آن بیٹھے۔ ان کا تعلق کھیوڑا سے ہے۔ دمِ تحریر وہ ریٹائرمنٹ کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ اردو بول رہے ہوں، انگریزی بول رہے ہوں یا پنجابی؛ ان کا لہجہ کھیوڑے کی خوش گوارنمکینی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ سگریٹ ان کا ٹریڈ مارک کہا جاتا ہے؛ خود کہتے ہیں: میں چالیس سے پچاس سگریٹ روزانہ پیتا ہوں۔ ایک بار کسی کے کہنے پر کہ ٓپ جب اتنے سگریٹ پیتے ہیں تو ایک ایک ڈبی کر کے منگوانے کی بجائے پورا ڈنڈا (دس ڈبیاں اکٹھی) منگوا لیا کریں؛ وہ لے آئے۔ اگلے دن کہنے لگے: نہیں یار، ایہ نہیں ٹھیک میں راتیں تِن ڈبیاں (ساٹھ سگریٹ) پی گیا ہوں۔ سونے اور کھانے پینے کے اوقات کے علاوہ وہ ہوتے ہیں اور سگریٹ ہوتا ہے۔ لیکچر تھیٹر کا ایک گھنٹہ یا کوئی میٹنگ وغیرہ جس میں وی آئی پی شریک ہوں ان پر صرف اس ایک لحاظ سے بھاری گزرا کرتا ہے۔ سادہ مزاج اتنے ہیں کہ ان کے پاس سگریٹ ختم ہو گئے ہوتے تو اپنے چپراسی سے مانگ لیتے۔ اور جب منگواتے تو ایک ڈبی اسے ویسے ہی دے دیتے۔

یونیورسٹی بننے کے بعد میری ملازمت کا زیادہ عرصہ ان دونوں بزرگوں کے ساتھ گزرا ہے۔ کچھ چیدہ چیدہ اور دل چسپ واقعات میں احباب کو شریک کرتا چلوں گا۔
 
آخری تدوین:
دیگر بہت سے نئے شعبوں میں ایک اے اینڈ آر برانچ تھی (اکیڈمک اینڈ ریگولیشنز)۔ جس کی منظوری ہو چکی تھی مگر کام شروع نہیں ہوا تھا۔ ساحر صاحب نے یہ شعبہ مجھ پر ڈال دیا اور انتظامی امور میں بھی میری ذمہ داریاں اول اول تو برقرار رہیں پھر کم ہوتی چلی گئیں۔ میری برانچ کی بنیادی ذمہ داری تھی: یونیورسٹی کے قواعد اور قوانین کا مطالعہ اور ان میں ترامیم وغیرہ کی سفارش کرنا، تعلیم معاملات میں باہمی رابطہ، یونیورسٹی کے مختلف اداروں مثلاً سیلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کی تیاری، انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد، سرکاری اداروں محکمہ تعلیم پنجاب، وزارت تعلیم وفاق اور دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں کے درمیان روابط اور تعاون، پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ملنے والے سوالوں کے جوابات، یونیسکو اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں سے معاملات؛ وغیرہ۔ خاص مشکل کام تھا، تاہم کرنا تھا! سو، چل سو چل۔ ہوتے ہوتے سب کچھ ہوتا چلا گیا تو یونیورسٹی کے پراسپیکٹس اور دیگر مطبوعات کا کام بھی مجھے سونپ دیا گیا۔
اس میں دو چیزیں نمایاں طور پر واقع ہوئیں۔ اول تو یہ کہ میرے پاس فراغت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ دن کے علاوہ شام کو بلکہ رات گئے تک کسی بھی وقت وی سی صاحب کی طرف سے ’’آسی صاحب حاضر ہوں!‘‘ کا بلاوا آ سکتا تھا۔ دوم یہ کہ اتنی ساری ذمہ داریوں نے جہاں اعلٰی انتظامیہ میں میرا اعتماد بنایا وہیں میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی گئی۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا ایک بہت ہی خاص فلسفہ تھا جس کا اعلان بھی وہ وقتاً فوقتاً کیا کرتے کہ ’’جو کام جلدی کرنا ہو، وہ کسی ایسے شخص پر ڈال دو جس کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے‘‘ اور اس پر خود ہی ہنسا بھی کرتے۔ میں نے ایک دن کہہ دیا: سر، اوہ تے کم نوں مگروں لاہن دی کرے گا، جیہو جیہا اوہ ہووے۔ بولے: نہیں، اوہنوں کم دی عادت ہوئی ہوندی اے، اوہ وگاڑے گا نہیں پئی پھر میرے تے ای آنا اے! اوہ ٹھیک کم کرے گا تے اپنے دوجے کماں پاروں چھیتی کر کے جان چھڈائے گا۔ میں نہ رہ سکا، کہا: سر، تے اوہ رانجھے؟ اوہ ویہلے ٹیٹنے مارن نوں؟ بولے نہیں ویہلے کیوں! اونہاں نوں کوئی ایہو جیہا کم دیو جیہڑا اوہناں دی سرکاری حیثیت توں تھلے دا ہووے۔ ویکھو ٹھیک ہوندے نیں کہ نہیں! جھاڑن جھمبن دی لوڑ کیہ اے!
 
ڈاکٹر بھٹی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ماتحتوں کی عزتِ نفس کا بہت پاس کیا کرتے تھے۔ پروفیسر عبدالوہاب خان کی طرح تو نہیں البتہ خاصے متحمل مزاج تھے۔ میں نے ان کو غصے کی حالت میں بہت کم دیکھا۔ کسی کی ’’مرمت‘‘ مقصود ہوتی تو طنز اور مزاح کا انداز اختیار کرتے، حتی الامکان کسی کے خلاف تحریری کارروائی کی نوبت نہ آنے دیتے۔ کہا کرتے تھے کہ آپ کی فائل میں لکھا ہوا ایک ایک جملہ آپ کے ریٹائر ہو جانے کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہتا ہے، کوشش کریں کہ آپ کی فائل صاف رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ کس دفتر یا تعلیمی شعبے میں کس شخص کے ذمے کیا کام لگایا گیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کون شخص کتنا اہل ہے، اور اس کے رجحانات کیا ہیں۔ خصوصی ذمہ داریوں کی تقسیم میں وہ اسی بات کو بنیاد بناتے تھے۔ انتظامیہ کے چار بڑے شعبوں: امورِ ملازمت، امتحانات، مالیات اور امورِ طلبا میں سیکنڈ لائن افسروں پر کڑی نظر رکھتے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے: ’’آسی صاحب، کدی کوئی خبر شبرای دے دیا کرو‘‘۔ عرض کیا: ’’تہانوں پتہ اے سر، نہ میرا ایہ مزاج اے تے نہ میرے کول ٹائم اے، اُنج وی تہاڈے کول ہور تھوڑے لوکی نہیں خبراں دین والے؟‘‘۔ ہنس کر خاموش ہو رہے۔
 
Top