فراز تِرا قُرب تھا کہ فراق تھا، وہی تیری جلوہ گری رہی ۔ احمد فراز

فرخ منظور

لائبریرین
تِرا قُرب تھا کہ فراق تھا، وہی تیری جلوہ گری رہی
کہ جو روشنی تِرے جسم کی تھی مِرے بدن میں بھری رہی

تِرے شہر میں سے چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مِرے
تو میں کس سے محوِ کلام تھا، تو یہ کِس کی ہمسفری رہی

مجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک تِرا دھیان تھا
تو مثال تھی مِری آگہی، تو کمالِ بے خبری رہی

مِرے آشنا بھی عجیب تھے، نہ رفیق تھے نہ رقیب تھے
مجھے جاں سے درد عزیز تھا، اُنہیں فکرِ چارہ گری رہی

میں یہ جانتا تھا مِرا ہُنر، ہے شکست و ریخت سے مُعتبر
جہاں لوگ سنگ بدست تھے، وہیں میری شیشہ گری رہی

جہاں ناصحوں کا ہجوم تھا، وہیں عاشقوں کی بھی دھُوم تھی
جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی، وہیں رسمِ جامہ دری رہی

تِرے پاس آ کے بھی جانے کیوں مِری تشنگی میں ہراس تھا
بہ مثالِ چشمِ غزال جو، لبِ آبجُو بھی ڈری رہی

جو ہوس فروش تھے شہر کے سبھی مال بیچ کے جا چکے
مگر ایک جنسِ وفا مِری، سرِ رَہ دھری کی دھری رہی

مِرے ناقدوں نے فرازؔ جب مِرا حرف حرف پرکھ لِیا
تو کہا کہ عہدِ ریا میں بھی جو بات کھری تھی کھری رہی

(احمد فرازؔ)
 
Top