تَوَلّا--------- (نظم)

ایک تو وقت کے گزرنے کا عنصر کہ جیسے بہت سے گناہ پہلے چھپ کے کیے جاتے تھے اب ڈنکے کی چوٹ پر ہوتے ہیں ممکن ہے ایسا ہی اس رسم کے ساتھ ہو پھر علاقے علاقے میں فرق کا عنصر بھی ہے کہ ان علاقوں میں جہاں کھانے سے پہلے پوچھنے کا رواج نہ ہو اور ہر چیز کھا جاتے ہوں خواہ گدھے کا بروسٹ ہی کیوں نہ ہو وہاں عجب نہیں کہ یہ رسم ڈھٹائی سے ادا کی جاتی ہو اور جہاں تحقیق و مزاحمت کا رواج ہو وہاں آج بھی ممکن ہے کہ یہ رسم چھپ کے ادا کی جاتی ہو -واللہ اعلم بالصواب
بہر حال یہ تحریر سینہ گزٹ نہیں علما نے خاصی تحقیق کی ہے اس موضوع پر :

میری ابزرویشن معاملے کیسرعی حیثیت کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک سماجی رویئے سے متعلق تھی اور میرے بچپن کا دور آج سے پانچ عشرے پرانا ہے ستر کی دہائی کی بات کر رہا ہوں۔ :)
 

یاسر شاہ

محفلین
غالب کے مندرجہ ذیل اشعار پیش کر کے اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ کھٹملوں کی طرح اصحاب کی شان میں تبرا کے قائل تھے -حالانکہ ایسا نہیں ،ان اشعار میں انھوں نے یزید کی مذمت کی ہے :


یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمن دیں
علیؑ سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
برا نہ مانیے گر ہم برا کہیں اس کو

علی کے بعد حسن اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے برائی بھلا کہیں اس کو

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض کیا کہیں اس کو

بھرا ہے غالبؔ دلخستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو


ان کی ایک رباعی ہے :

اصحاب کو جو نا سزا کہتے ہیں
سمجھیں تو ذرا دل میں کہ کیا کہتے ہیں
سمجھا تھا نبی نے ان کو اپنا ہمدم (صلّی الله علیہ وسلم )
ہے، ہے! نہ کہو، کسے برا کہتے ہیں

؂۱یہ رباعی سید الاخبار دہلی، جلد ۸، شمارہ ۲۸، ۱۶ نومبر ۱۸۵۰ء میں شائع ہوئی تھی۔


اور دوسری رباعی کچھ یوں ہے :

یارانِ رسول، یعنی اصحابِ کبار
ہیں گرچہ بہت، خلیفہ ان میں ہیں چار
ان چار میں ایک سے ہو جس کو انکار
غالبؔ، وہ مسلماں نہیں ہے زنہار

؂۱یہ رباعی سید الاخبار دہلی، جلد ۸، شمارہ ۲۸، ۱۶ نومبر ۱۸۵۰ء میں شائع ہوئی تھی۔

ثابت ہوا کہ غالب حب علی برائے بغض معاویہ کے قائل نہ تھے بلکہ حب علی برائے حب الله کے قائل تھے -
 
Top