توبۃ النصوح صفحہ 201 تا 242 (آخری حصہ)

شمشاد

لائبریرین
توبۃ النصوح صفحہ 201 تا 242

اور اس کو بیچ میں بات کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا، یا دوسرے منصوبے سوچ رہا تھا۔ اس کا سرنگوں ہونا بھی کچھ گناہ کی ندامت سے نہ تھا، بلکہ حالت کی شناخت سے۔ جب نصوح نے دیکھا کہ وہ ہاں یا نہیں کچھ بھی نہیں کہتا، تو اس نے ذرا گرم ہو کر اتنی بات کہی کہ بڑی دقت تمہارے معاملے میں مجھ کو یہ درپیش ہے کہ تمہاری مافی الضمیر مجھ پر منکشف نہیں ہوتا۔ شروع میں تم نے میرے سامنے آنے سے گریز کیا اور اب مواجہ بھی ہوا تو بے سود۔

ابھی تک کلیم نے کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا، کہ نصوح کے ہمراہی جو کلیم کے حالات سے واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ وہ دین داری کی تاکید پر گھر سے نکل گیا ہے، بول اٹھے کہ اے حضرت، میاں کلیم ماشا اللہ بڑے ذہین اور زیرک اور عاقل ہیں، جو آپ نے فرمایا انہوں نے گرہ باندھا۔ اگرچہ باقتضائے سن، اب تک لہو و لعب کی طرف متوجہ تھے مگر اب آپ دیکھیے گا کہ انشا اللہ جوانِ صالح اور متشرع اور متقی بنیں گے کہ اپنے ہم عمروں کے لیے نمونہ ہوں گے۔ اپ گھر میں تشریف لے جایئے۔ یہ بھی آپ کے ساتھ جائیں، کپڑے بدلیں اور آپ کی نصیحت پر عمل کریں، جس میں دنیا اور دین دونوں کا فائدہ ہے۔"

نصوح نے پھر کلیم کی طرف مخاطب ہو کر کہا : " کیوں صاحب، کچھ تم بھی تو اپنے دل کا ارادہ بیان کرو۔"

کلیم : " مجھ کو آپ اتنی اجازت دیجئے کہ گھر سے اپنی ضرورت کی چند چیزیں منگوا لوں۔

نصوح : "سخت افسوس کہ تم دنیا کی چند روزہ اور عارضی ضرورتوں کا اہتمام کرتے ہو اور دین کی بڑی ضرورت سے غافل ہو۔

غم دیں خور کہ غم غم دین ست
ہمہ غم ہا فرو تر از ایں ست

ضرورت کی چیزیں منگوا لینا کیا معنی، تم شوق سے گھر میں چلو۔ غالبا میری نسبت کر تم کو اس گھر میں زیادہ دنوں رہتا ہے، بس وہ گھر میرا کیوں فرض کر لیا گیا ہے۔ تمہاری ماں بہت بے تاب ہے۔ چھوٹے بڑے سب فکر مند ہیں۔ میرے جرم کی سزا دوسروں کو دینا شیوہ انصاف سے بعید ہے۔"

کلیم : " مجھ کو معلوم ہے کہ آپ چند روز سے دین داری اور خدا پرستی کے نام سے نئے نئے دستور، نئے نئے طریقے، نئے نئے قاعدے گھر میں جاری کرنے چاہتے ہیں اور اس جدید انتظام میں جیسا کچھ اہتمام آپ کو منظور ہے، میں کیا گھر میں کوئی متنفس اس سے بے خبر نہیں۔ ہر شخص اس بات کو اچھی طرح سے جان چکا ہے کہ وہ اس انتظامِ جدید کی مخالفت کے ساتھ گھر میں رہ نہیں سکتا۔ پس میں نے اپنی طرف بہتیری کوشش کی کہ مجھ کو اپنی مخالفت آپ کے رو در رو ظاہر کرنے کی ضرورت نہ ہو، مگر آپ کے اصرار نے مجھ کو مجبور کر دیا اور اب ناچار مجھ کو کہنا پڑا کہ میں شروع سے اس انتظام کا مخالف ہوں، اور میرا گریز میری رائے ظاہر کر دینے کے لیے کافی تھا۔ میں ایک بال کے برابر اپنی طرز زندگی کو نہیں بدل سکتا اور اگر جبر اور سخت گیری کے خوف سے میں اپنی رائے کی آزادی نہ رکھ سکوں تو تف ہے میری ہمت پر اور نفرین ہے میری غیرت پر اور میں اس میں کلام نہیں کرتا کہ آپ کو اپنے گھر میں ہر طرح کے انتظام کا اختیار حاصل ہے، مگر اس جبری انتظام کے وہی لوگ پابند ہو سکتے ہیں جن کو اس کی واجبیت تسلیم ہو یا جو اس کی مخالفت پر قدرت نہ رکھتے ہوں۔ اور چوں کہ میں دونوں شقوں سے خارج ہوں، میں نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ گھر سے الگ ہو جاؤں اور اگرچہ میری اس وقت کی حالت پر یہ کہنا زیب نہیں دیتا لیکن ذرا مجھ کو دہلی سے نکلنے دیجئے، تو پھر آپ اور سب لوگ دیکھ لیں گے کہ میں کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ قاعدہ ہے کہ وطن میں آدمی بے قدر ہوتا ہے، چنانچہ آپ کے نزدیک بھی یہ بات ثابت ہے کہ مجھ کو گھر سے نکلنے پر بھیک مانگی نہیں ملے گی۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہی آپ کا فرزند نالائق و ناخلف ہو گا اور کسی امیر کی مصاحبت ہو گی، یا کسی ریاست کی مسندِ وزارت۔ میں ایسا بھی احمق نہیں ہوں کہ آپ پر مہربانی کی تہمت لگاؤں۔ آپ وہی بات فرماتے ہیں جو آپ میرے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ لیکن میری بے ادبی اور گستاخی معاف، میں اپنے تئیں محتاج تعلیم و ہدایت نہیں سمجھتا۔ رہا گھر، سو اس میں صرف اس شرط سے چل سکتا ہوں کہ آپ میرے نیک و بد سے بحث، میرے بھلے برے سے تعرض نہ کرنے کا قول واثق اور وعدہ حمتی کریں۔"

نصوح : اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے مجھ کو منصب پدری سے معزول کیا۔

کلیم : نہیں۔ آپ نے مجھ کو فرزندی سے عاق فرمایا۔

اس کے بعد نصوح گھر میں آنے کی نیت سے اٹھا اور اس کا ارادہ تھا کہ طوعا و کرہا جس طرح ممکن ہو، کلیم کو ساتھ لوا جائے۔ مگر کلیم، نہیں معلوم کیوں کر، نصوح کے بطون کو تاڑ گیا کہ اس کو اٹھتا دیکھ چبوترے سے جست کی تو صحن میں تھا اور صحن سے تڑپا تو احاطے کے باہر۔ لوگوں نے دوڑ کر دیکھا تو وہ بازار کے پرلے سرے جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر نصوح ہکا بکا سا ہو کر رہ گیا اور جس طرح اس نے بیٹے کو سپاہیوں کے ہاتھوں میں گرفتار دیکھ کر " انا للہ " کہا تھا، اب بیٹے سے جدا ہوتے وقت بھی وہ " انا للہ " کہہ کر چپ ہو رہا۔

غرض کلیم نہ گھر گیا اور نہ گھر سے اس کو کوئی چیز لینی نصیب ہوئی۔ اسی طرح الٹے پاؤں پھر کر چلا گیا۔ نصوح کے پہنچتے پہنچتے یہ تمام ماجرا کسی نے گھر میں جا کہا اور مستورات میں بیٹھے بٹھائے ایک کہرامچ گیا۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بادلوں کی طرح دروازے میں آ کھڑی ہوئی اور قریب تھا کہ پردے سے باہر نکل آئے، کہ نصوح جا پہنچا۔ بی بی کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر حیران ہو کر پوچھا کہ خیر تو ہے، کہاں کھڑی ہو؟ فہمیدہ میاں کو دیکھ کر بلک گئی اور گھبرا کر پوچھا کہ میرا کلیم کہاں ہے؟

نصوح : میرا کلیم؟ اگر تمہارا کلیم ہوتا تو تمہارے گھر میں ہوتا۔ اور تمہارے اور باپ اور بھائی کے اتنے اصرار اور اتنے سمجھانے اور اتنی منت اور اتنی خوشامد پر، بے پوچھے، بے کہے، گھر سے نہ چلا جاتا۔

فہمیدہ : اچھے، خدا کے لیے مجھ کو اس کی صورت دیکھا دو۔ میں نے سنا ہے کہ سر سے ننگا ہے، پاؤں میں جوتی نہیں۔ اس نے کاہے کو کبھی زمین پر پاؤں رکھا تھا، کنکر تلووں میں چبھتے ہوں گے۔ کون سے وہ مولے سپاہی تھے، میرے بچے کے پکڑنے والے۔ گھورا ہو تو الہٰی دیدے پھوٹیں۔ ہاتھ لگایا ہو تو خدا کرے پور پور سے کوڑھ ٹپکے۔ وارے تھے وہ سپاہی اور قربان کیا تھا وہ کوتوال۔ میرا بچہ اور چوری کرنے کے قابل؟

نصوح : کیسی بد عقلی کی باتیں کرتی ہو۔ چلو گھر میں چل کر بیٹھو۔ باہر گلی میں تمہاری آواز جاتی ہے۔ تمہاری اس بے تابی کی محبت نے اولاد کو دنیا اور دین دونوں سے تو کھو دیا، اب دیکھیے کیا کرے گی۔

فہمیدہ : اچھا تو پھر کلیم گیا تو کہاں گیا؟

نصوح : جانے میری جوتی کہاں گیا۔ مجھ سے پوچھ کر گیا ہو تو بتاؤں۔ نہیں معلوم خدائی خوار کہاں تھا، اور کیسے لوگوں میں تھا کہ جو رسوائی ہفتاد پشت سے نہ ہوئی تھی وہ اس مردک کی وجہ سے ہوئی۔ اب مجھ کو شہر میں منہ دکھانا مشکل ہے۔ یا تو خدا اس کو نیک ہدایت دے، یا میں اس کو تو کیا بدعا دوں، مجھ کو ایمان سے اٹھا لے کہ ان تکلیفوں سے مجھ کو نجات ہو۔

فہمیدہ : کیوں کر تمہارے دل نے صبر کیا اور کن آنکھوں سے تم نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔؟

نصوح : جس طرح اس کی گستاخی پر صبر کیا تھا کہ میں نے بار بار بلایا اور وہ نہ آیا، اسی طرح مین نے اس کی وہ حالت دیکھ کر صبر کیا اور جن آنکھوں سے اس کے خلوت خانے، عشرت منزل اور کتب خانے کی رسوائی اور خرابی اور تفضیح کو دیکھا تھا، انہی آنکھوں سے اس کو کھلے سر، ننگے پاؤں، چور بنا ہوا، سپاہیوں کی حراست میں دیکھا ۔ ع :

جو کچھ خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا

فہمیدہ : تم سے اتنا نہ ہو سکا کہ اس کو مجھ تک لے آتے۔

نصوح : اگر میں اس کو تم تک نہ لا سکا تو مجھ سے پہلے تم اس کو مجھ تک نہیں لا سکیں اور نہ تم اس کو جانے سے روک سکیں۔

فہمیدہ : کہاں تم مرد، کہاں میں عورت۔

نصوح : تو کیا تمہاری مرضی تھی کہ میں اس سے کشتی لڑتا؟ بس ایسے اخلاص سے مجھ معاف رکھیے۔

غرض نصوح سمجھا بجھا کر بی بی کو گھر میں لے گیا اور یہ بات اس کے ذہن نشین کر دی کہ رونے سے مطلق فائدہ نہیں۔ البتہ خدا سے اس کے حق میں زار نالی کے ساتھ دعا کرنی چاہیے کہ بامراد اس کو واپس لائے۔

ادھر کلیم نے خالہ کے جانے کا ارادہ کیا مگر اس وقت تک اس کو نعیمہ کا حال معلوم نہ تھا۔ اگر کہیں خالہ کے یہاں چلا گیا ہوتا تو سب سے بہتر تھا۔ سرِ دست اس کی ہمدردی کرنے کو نعیمہ وہاں موجود تھی اور چوں کہ اس کی خالہ کا سارا خاندان نیک اور دین دار تھا، کلیم کو نصوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور حقوق والدین کی شامت، ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جوں ہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت، نصوح کے چچازاد بھائیوں میں تھے اور ان سے اور نصوح سے موروثی عداوت تھی، جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دین داری کا نیا خبط اچھلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے تمام خاندان میں کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں، فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی، فطرت اپنے یہاں خود کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دین داری جتائیں مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں۔ کلیم کو جو ننگے سر ننگے پاؤں سر بازار جاتے ہوئے دیکھا تو فطرت نے چھیڑ کر پوچھا کہ میاں کلیم، تم نے ابھی سے احرام حج باندھ لیا؟

(جاری ہے۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
کلیم : احرام حج نہیں، احرام ہجرت۔

فطرت : وہی تو کہوں، مجھ کو تمہاری وضع داری اور دانش مندی سے شیخ وقت کی تقلید نہایت مستبعد معلوم ہوتی تھی۔

کلیم : جی نہیں، شیخ کی خدمت میں جیسی ارادت شاعروں کو ہے، معلوم۔

فطرت : بس یہی دیکھ لو کہ بھائی نصوح کا اپنی اولاد کے ساتھ اور اولاد میں بھی تمہارے ساتھ، کہ آج ماشا اللہ فخر خاندان ہو، یہ طرز مدارت ہے۔ ہم لوگ تو خیر کہنے کو اجنبی اور غیر ہیں۔ ایسی ہی بدمزاجیوں نے کنبہ والوں سے میل ملاپ چھڑایا، ورنہ انصاف شرط ہے، ہمارا ان کا کیا بانٹیئے؟ اپنا کھانا، اپنا پہننا، لڑائی کس لیے اور جھگڑا کیوں؟ اور طرہ یہ ہے کہ جس قدر حضرت سن رسیدہ ہوتے جاتے ہیں، مزاج جوان ہوتا جاتا ہے۔ بھائی، صد آفرین ہے تمہاری والدہ کو۔ نہیں معلوم ایسے آتش مزاج، بے مروت آدمی کے ساتھ اس نیک بخت نے کیوں کر نباہ کیا۔ مگر عورت ذات، موزی کے پنجہ غضب میں گرفتار ہے، کرے تو کیا کرے۔ میاں کلیم، تم اس کو سچ جاننا، تم لوکوں کی مصیبت کا خیال کر کر کے، بھائی، ہمارا تو گھر بھر بے چین رہتا ہے۔ یہ خون کا جوش ہے ورنہ ملنا ملانا ترک، آنا جانا موقوف، سلام پیام مسدود۔ کیا کریں، کچھ بس نہیں چلتا۔ بھلا پھر اس حالت میں تم جاتے کہاں ہو؟

کلیم : خالہ جان کے یہاں جانے کا ارادہ ہے۔

فطرت : تمہارے باپ کے ڈر سے، دیکھا ہی چاہیے کہ گھر میں گھسنے دیں۔

کلیم : نہیں، ان سے تو ایسی توقع نہیں ہے۔

فطرت : مگر ذات شریف خود نہ تشریف لے جائیں، اس کی کیا روک ہے؟

کلیم : اس کا خدشہ تو ضرور ہے۔

دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
جب دھم سے آ کہوں گا حضرت سلام میرا

فطرت : میں کہہ تو نہیں سکتا، لیکن سمجھو تو ہم بھی، خدا نہ خواستہ، کوئی تمہارے یا بھائی نصوح کے دشمن نہیں ہیں۔ ارے میاں، رشتہ داروں ہی میں کھٹ پٹ بھی ہوا کرتی ہے۔ شکوہ غیر کا نہیں کرتے۔ گلہ اوپری سے نہیں ہوتا۔ جو ہم کو تمہارا اور تم کو ہمارا درد ہو گا، وہ خالہ خالو کو نہیں ہو سکتا۔ بھائی نصوح ابھی جب وبا میں بیمار پڑے، خدا شاہد ہے، دونوں وقت میں خود محلے میں آ کر خبر لے جاتا تھا۔ ہماری اماں جان ہمیشہ حلال خوری سے تمہارے یہاں کے حالات پوچھا کرتی ہیں۔ مجھ سے تو یہ رسوائی گوارا نہیں ہو سکتی کہ تم اس حالت سے، ایسے بے وقت خالہ کے یہاں جاؤ۔ چلو شب کو ہمارے یہاں آرام کرو۔ ایسا ہو ہو گا تو صبح کو خالہ کے یہاں بھی ہو آنا۔ لو یہ میرا دوپٹہ تو سر کو لپیٹ لو، لوگ آتے جاتے ہیں اور چلو پاس کے پاس اسی چھتے سے ہر کر نکل چلیں۔

غرض میاں فطرت للو پتو کر کے کلیم کو اپنے گھر لے گئے اور نصوح کے جلن سے اس کی ایسی بزرگداشت کی کہ کسی کے گھر والے بھی نہ کرتے ہوں گے۔ کلیم نے جب سے دین داری اور اصلاح وضع کی چھیڑ چھاڑ سنی تھی، کیا ماں، کیا باپ، کیا بھائی، سب کو اپنی رائے سے برخلاف پایا۔ اب جو فطرت نے بغرض اس کی دلجوئی اور خاطر داری کی اور اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور نصوح کو مجنوں اور بدمزاج اور سخت گیر ٹھہرایا، یہ احمق سمجھا کہ بس فطرت اور اس کے گھر والوں سے بڑھ کر کوئی اس کا خیرخواہ نہیں۔ اب تک وہ باپ سے صرف اختلاف رائے رکھتا تھا، اب اس کو باپ سے ایک نفرت و عداوت پیدا ہوئی۔ فطرت نے جلی کٹی باتیں لگا کر یہ خیال اس کے دل سے بالکل دور کر دیا کہ نصوح کو اس کے تدین نے اولاد کے ساتھ روک ٹوک کرنے پر مجبور کیا ہے اور چوں کہ کلیم اپنی پندار میں یہی سمجھتا تھا کہ اس وقت تک میں ہی اکیلا گھر سے نکلا ہوں، فطرت کے بہکا دینے سے اس کو یقین ہو گیا کہ دین داری اور خدا پرستی کا حیلہ تھا، ورنہ فی الاصل باپ کو اس کا گھر سے نکال دینا مرکوز خاطر تھا۔

کلیم اس وقت دو مخالفوں کی کش مکش میں تھا۔ باپ اس کو صراطِ مستقیم کی طرف کھینچتا تھا، فطرت گمراہی اور ضلالت کی طرف۔ لیکن فطرت حریف غالب تھا، اس واسطے کہ اول تو خود کلیم کا میلانِ طبع اس کی جانب تھا، دوسرے، نصوح ایک نئی اور نامانوس اور دشوار گزار راہ پر اس کو لے جانا چاہتا تھا، جس میں زہد و ریاضت اور اِتقا اور نفس کشی اور انکسار اور فروتنی اور خوفِ عاقبت کی چند در چند تکلیفیں اور مصیبتیں درپیش تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو بدرقہ و راہ نما تو خیر، رفیق و ہمسفر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ برخلاف اس کے فطرت اس کو ایک شارع عام دکھاتا تھا، ایسا آباد کہ گویا اس سرے سے اس سرے تک بازار لگا ہے اور نہ صرف منزل بہ منزل، بلکہ قدم بہ قدم، تن آسانی اور عیاشی اور خود پسندی اور کبر اور بے فکری اور مطلق العنانی، طرح طرح کی آسائشیں اور انواع و اقسام کی راحتیں موجود و مہیا تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو میلے کا حظ یعنی سفر میں حضر کا لطف حاصل تھا۔

غرض کلیم، میاں فطرت سے شیر و شکر کی طرح ملا۔ نصوح نے جب یہ خبر سنی تو سخت افسوس کیا، نہ اس وجہ سے کہ وہ فطرت سے عداوت رکھتا تھا کیوں کہ عداوت تو دین عاری کے اعتبار سے بڑا گناہ ہے اور نصوح سے اس کے ارتکاب کی امید نہیں کی جا سکتی تھی لیکن اس کا یہ خدشہ کچھ بے جا نہ تھا کہ فطرت اصلاح میں کوشش نہیں کرے گا۔ فطرت کے یہاں کلیم کو اور توکسی طرح کی تکلیف نہ تھی، مگر اس کی مرضی کی کتابیں یہاں نہیں ملتی تھیں۔ تب اس نے فطرت سے بیان کیا کہ دن بھر خالی بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرایا کرتی ہے۔ اگرچہ میں نے اپنے حالات میں ایک مثنوی کہنی شروع کر دی ہے اور سو، سوا سو شعر بھی ہو گئے ہیں، مگر فکرِ سخن بے اطمینان خاطر بن نہیں پڑتا۔ اگر آپ صلاح دیں تو میں اپنی چند کتابیں گھر سے منگوا بھیجوں۔

فطرت : مجھ کو بھائی نصوح سے توقع نہیں کہ وہ اتنی رعایت بھی تمہارے حق میں جائز رکھیں، خصوصا اس حال میں کہ تم میرے گھر ہو۔ میرے نزدیک تمہارا یہ جرم ان کے مذہب میں تکفیر کے لیے کافی ہے۔ مگر ہاں، اپنی والدہ سے کہلا بھیجو۔ ان کا قابو چلے گا تو البتہ دریغ نہ کریں گی۔

کلیم تو متردد تھا کسی سبیل سے کتابیں منگوائے مگر فطرت، از بس کہ عیاری اور چالاکی کے موکل اس کے مطیع تھے، خود بول اٹھا کہ جی، یہ کون سی بری بات ہے؟ مجھ سے کہیے تو بھائی نصوح کی چارپائی اٹھوا منگواؤں اور ان کے فرشتوں کو خبر نہ ہو۔

غرض فطرت نصوحکے گھر گیا اور کسی ڈھب سے اس نے سارا حال معلوم کیا، اور وہ آگ جو نصوح نے کلیم کی کتابوں میں لگائی تھی، فطرت نے کلیم سے جا لگائی۔ ایک تو خانہ ویرانی اس پر فطرت کی آتش بیانی۔ کلیم پر اس آتش زنی کی خبر نے وہ اثر کیا کہ جو حضرت مُوسیٰ علیہ السلام پر آتشِ طور نے کیا تھا۔ سنتے کے ساتھ ایسا بے خود ہو گیا کہ گویا بجلی گری۔ آپے میں آیا تو مزاج ایسا برافروختہ تھا کہ شاید نصوح اس وقت موجود ہوتا تو یہمر دک دست و گریباں ہو کر لپٹ جاتا۔ کوئی ناگفتنی، جل کٹی بات اس نے اٹھا نہیں رکھی۔ مگر لال پیلا ہو کر خاموش ہو رہا اور اس بات کے درپے ہوا کہ باپ سے انتقام لے۔ کلیم نے جو طریقے انتقام کے سوچے تھے، وہ سخت بےہودہ تھے۔ جب اس نے اپنی تدبیروں کو فطرت پر عرض کیا تو اس نے سب کی تحقیق کی اور کہا کہ ابھی تم نرے صاحب زادے ہو۔ میں تم کو ایسی تدبیر بتاؤں کہ " ہم کینہ و ہم خزینہ۔"

کلیم : وہ کیا؟

فطرت : گاؤں پر آخر تمہارا نام چڑھا ہوا ہے، اس پر دخل کرو۔

کلیم : " این خیال است و محال است و جنون"

ان کے متعدد کارندے اور نوکر چاکر اس پر مسلط ہیں۔

فطرت : گاؤں تمہارا تو نوکر اور کارندے تمہارے یا ان کے؟

کلیم : لیکن میں صرف اسم فرضی ہوں۔

فطرت : اس کا ثبوت؟

کلیم : ثبوت کا قبض و دخل، اور ان کے روپے سے گاؤں کا خرید ہونا۔

فطرت : ان کا قبض و دخل عین تمہارا قبض و دخل اور ان کا روپیہ عین تمہارا روپیہ ہے۔ بائع نے تمہارے نام سے رسید دی۔ گاؤں میں پٹہ قبولیت تمہارے نام سے ہوتا ہے۔ خزانہ سرکاری میں مال گزاری تمہارے نام سے سیاہہ ہوتی ہے۔

کلیم : جب میں سرے سے اسم فرضی ہوں تو نام کا ہونا میرے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتا۔

فطرت : لیکن اگر اسم فرضی ہونے سے انکار کیا جائے تو اس کی تردید کچھ آسان نہیں ہے۔

کلیم : میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کیوں کر ایک امر واقعی کی تکذیب ہو سکتی ہے۔

فطرت : ہاں یہ شاعری نہیں ہے، دین داری ہے۔ اس کو ایک خاص سلیقہ درکار ہے۔

کلیم : غرض اس تدبیر کا پیش رفت ہونا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا، کوئی اور بات سوچیے۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
فطرف : جب تم سے ایسے سہل کام کا سرانجام نہیں ہو سکتا تو گھر سے نکلنے کا حوصلہ تم نے ناحق کیا۔ یہی اسم فرضی کا حق مجھ کو حاصل ہوتا تو سیر دکھاتا۔

کلیم : فرض کر لیجئے کہ آپ کو حاصل ہے۔

فطرت : کیوں کر فرض کر لوں؟ جیسے تم اسم فرضی مالک ہو ویسا ہی ایک فرضی بیع نامہ میرے نام کر دو تو البتہ فرض کر سکتا ہوں۔

کلیم : اگر ملکیت فرضی کا بیع نامہ کچھ بکارآمد ہو سکتا ہے تو گاؤں کی کیا حقیقت ہے، میں تو سلطنت روم کا بیع نامہ آپ کے نام لکھ دوں۔ ع :

بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

فطرت : بھلا گاؤں کتنے پر بیع کرو گے؟

کلیم : کسی فرضی قیمت پر۔

فطرت : بھلا اس کا اندازہ بھی؟

کلیم : فرض کیجئے کہ سو روپے

فطرت : مجھ سے ہزار نقد لیجئے۔

کلیم : سچ

فطرت : سچ

کلیم : واللہ بیچا۔

فطرت : واللہ لیا۔

کلیم کو فطرت کی قسم پر بھی اعتبار نہ ہوتا تھا۔ فطرت نے گھر میں جا، ہزار روپے کا توڑا لا کر سامنے رکھ دیا۔ ادھر روپے گنے گئے اور ادھر بیع نامہ لکھ پڑھ کر تیار ہو گیا۔

کلیم نے سوچا کہ میں نے یہ سودا کیا کیا، ایک غنیمت باردہ مفت ہاتھ آئی۔ اس وقت تو بات کی پچ کر کے فطرت نے روپیہ دے دیا، ایسا نہ ہو پھر چنید کرے۔ بہتر ہے کہ چل دیجئے۔ یہ سوچ، روپیہ کا توڑا بغل میں داب، کلیم رخصت ہوا تو سیدھا چاندنی چوک میں آیا۔ محل دارخان کا کمرہ اسی روز خالی ہوا تھا کہ اس نے سر قفلی جا دی۔

دہلی جیسا شہر اور کلیم جیسا ناعاقبت اندیش اور مسرف اور اس طرح کا مال مفت، بات کی بات میں، فرش و فروش، جھاڑ فانوس، ساز و سامان، نوکر چاکر ، سب کچھ موجود ہو گیا۔ یہاں تک کہ اگلے ہی دن، پہلے مشاعرے کی محفل، اس کے بعد ناچ کا جلسہ ٹھہر ٹھہرا، جتنے یار آشنا تھے، سب کے نام رقعے تقسیم ہوئے اور کلیم کے سارے شیاطین الانس پھر بہ دستور جمع ہو گئے۔ حتی کہ وہ مرزا ظاہر دار بیگ بھی اتنے بڑے بے غیرت کہ خبر سنکر دوڑے آئے اور کلیم اتنا بڑا احمق کہ ایسا دھوکہ کھا کر پھر ان سے صاف ہو گیا۔

جس کیفیت سے کلیم نے دو مہینے گزارے، ناگفتہ بہ ہے۔ وہ بد کرداری کا تپ کہنہ رکھتا تھا، اب یہ دن گویا بحران کے تھے۔ ہزار روپے کی کل جمع پونجی اور ایسا بے دریغ خرچ، تیسرا مہینہ شروع نہیں ہوا تھا کہ ہزار تمام ہوئے۔ پہلے سے ہی بزاز، درزی، حلوائی، کبابی، نانوائی، میوہ فروش، گندھی، بساطی وغیرہ کا حساب باقی تھا۔ نوکروں کا دوماہہ چڑھ چکا تھا، اب آٹا دال تک ادھار آنے لگا۔ شدہ شدہ ہر طرف سے طلب و تقاضا شروع ہوا۔ استعمال سے پہلے اسباب خانہ داری کے بکنے کی نوبت پہنچی تو کلیم خواب غفلت سے بیدار ہوا۔ لیکن اب اس کا تنبہ کچھ چنداں سود مند نہ تھا۔ اس کے یار دوست، دستور کے موافق اس کے پاس آنا جانا قاطبتہ ترک کر چکے تھے۔ نوکر چاکر بھی گھر بیٹھ رہے تھے اور جو تھے وہ تنخواہ کے نہ ملنے سے ایسے گستاخ ہو گئے تھے کہ کار خدمت تو درکنار، رو در رو جواب دیتے تھے۔ جو چیز جس کی تحویل میں تھی، وہ ہیکڑی سے اس کو اپنا مال سمجھتا تھا۔ کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ دو چار قرض خواہ اس کے در دولت پر نہ ہوں۔ کلیم نے چاہا کہ چپکے سے چل دے، مگر اس کے بغلی دشمنوں یعنی نوکروں کی وجہ سے اس کا منصوبہ فاش ہو گیا اور جوں پہر رات گئے وہ نوکروں کا لباس بدل کر باہر نکلا تھا کہ سر ہنگاں دیوانی کے پنجہ غضب میں گرفتار ہو گیا۔ اس غفلت شعار کو اب معلوم ہوا کہ کئی ڈگریاں یک طرف اس پر جاری ہیں۔

ان پیادوں کی حراست میں جس کیفیت سے کلیم نے رات گزاری وہ ایسی سخت و ناگوار تھی کہ اس کو بار بار ظاہر دار بیگ کی مسجد کا اعتکاف شبینہ حسرت کے ساتھ یاد آتا تھا۔ اگلے دن کچہری کے پیادوں نے کلیم کو لے جا کر حاکم عدالت کے روبرو حاضر کیا۔ احاطہ کچہری میں پہنچتے ہی پہلے نصوح سے مڈبھیڑ ہوئی۔ کلیم باپ کو دیکھ کر بے اختیار رو دیا، مگر پیادوں کے خوف اور اپنی ندامت کے سبب کچھ نہ کہہ سکا۔ نصوح کا کچہری میں آنا بھی انہی حضرت کی وجہ سے تھا۔ ؂فطرت نے اس بیع نامہ فرضی کا ایک طومار بنا کھڑا کیا اور دو چار نمک حرام کارندون کا گانٹھا اور چند کاشت کارں کو بیگھ پیچھے دو دو چار چار آنے کمی کر کے استماری پٹے کر دیے۔ دلی شہر کے چند آبروباختہ غنڈے ساتھ لے، گاؤں پر زبردستی دخل کر لیا۔ نوبت بہ عدالت پہنچی۔ مقدمے میں کچھ ایسے پیچ پڑتے گئے کہ دروغ کو فروغ ہو گیا۔ کلیم نے تو اپنے نزدیک ایک کھیل کیا تھا، نصوح بے چارے کو مفت میں پانچ چھ ہزار کا گاؤں ہارنا پڑا۔

اسی تقریب سے نصوح کچہری تھا کہ کلیم اس کو دوسرے مرتبہ سرکاری پیادوں کے ہاتھ میں گرفتار نظر آیا۔ گو باپ بیٹے میں بالمشافہ بات چیت تو درکنار دعا سلام کا بھی اتفاق نہیں ہوا، لیکن ایک دوسرے کی کیفیت معلوم ہو گئی۔ باپ نے ابھی کچہری کے احاطے سے پاؤں باہر نہیں رکھا تھا کہ بیٹا جیل خانے جا داخل ہوا۔ کلیم نے ہر چند شاعری اور امیر زادگی کے چند در چند استحقاق ثابت کئے، مگر مالکان مجس نے ایک نہ مانی اور اس کو ایسا ایسا رگیدا کہ دوسرے ہی دن چیں بول گیا۔ اس بے کسی میں کلیم کو باپ یاد آ گیا اور اگرچہ اپنی حرکات پر نظر کرنے سے بالکل ناامیدی تھی مگر الفریق ینشبت باھحشیش مرتا کیا نہ کرتا۔ بے غیرتی کا ٹھیکرا آنکھوں پر رکھ کر باپ کو ایک خط لکھا۔ وہ یہ تھا : مجھ کو حیرت ہے کہ میں کون ہوں اور کس کو یہ خط لکھتا ہوں اور یقین ہے کہ اس خط کے پہنچنے پر مجھ سے زیادہ حیرت آپ کو ہو گی۔ اتنی گستاخی، اتنی نافرمانی، اتنی بے حیائی، اتنی مخالفت پر جو مجھ نالائق، نابکار، ناہنجار، کشتنی، گردن زدنی، ننگ خاندان، ع :

بدنام کنندہ نکونا مے چند

سے سرزد ہوئی، میں کیا کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو آپ کے ساتھ نسبت فرزندی باقی رہی۔ پس نہ تو یہ خط خط ہے، اور نہ بیٹے کی طرف سے ہے، اور نہ باپ کے نام ہے۔ بلکہ یہ معذرت نامہ ہے، عرضی اعتراف ہے، توبہ کا وثیقہ اور استغفار کی دستاویز، ندامت کا اقرار اور حاجت مندی کا اظہار ہے، گنہگار، روسیاہ و شرمسار، ظالم، جفا کار، تبہ روزگار کلیم کی طرف سے، صاحب کرم عمیم و خلق عظیم، برد بادو حلیم، رؤف و رحیم، محسن ولی نعمت، مہربان سراپا شفقت، نیکو کار، کم آزار، خیر خواہ بلا اشتباہ کے نام۔ ہر چند میری رسوائی یہاں تک پہنچی کہ جب سے مردور و مطرود ہوا، طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا اور انواع و اقسام کی ذلتوں میں گرفتار ہوں، لیکن یہ سمجھنا کہ میں جیسا کیا ویسا پایا بے جا اور غلط ہے، کہ کیا ہزار تو پایا ایک، کیا من تو بھگتا چھٹانک۔ بلکہ ایک اور چھٹانک بھی نہیں، حاشا نہیں، زیہنار نہیں۔ ہر چند میں معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ میرے دل میں ہے وہ کہیں زیادہ ہے اس سے جو عبارت میں ہے لیکن خود مجھ کو اپنی توبہ سے تشفی اور ندامت سے تسلی نہیں، اس واسطے کہ میری توبہ درماندگی کی توبہ اور ندامت حالت ابتلا کی ندامت ہے۔ تو طیہ برطرف، تمہید یک سو۔ نہ مجھ کو توبہ پر تکیہ، نہ ندامت پر ناز۔ خدا کو، جس کا میں آپ سے بڑھ کر گنہگار ہوں، اپنا شفیع قرار دیتا ہوں، ع :

اور دیکھتا ہوں تا کرم اور چہا کند ۔ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یُحِبُ المحسنین۔

قطعہ

شاہاز کرم برمن درویش نگر
بر حال من خستہ و دلریش نگر
ہر چند نیم لائق بخشائش تو
برمن منگر بر کرم خویش نگر

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
علیم کسی پادری سے ایک مذہبی کتاب لے آیا تھا۔ اس میں اتفاق سے ایک جملہ مجھ کو نظر پڑا اور پسند آیا۔ وہ یہ تھا کہ توبہ ربڑ ہے اور گناہ پنسل کی تحریر۔ پس جب کہ توبہ و ندامت نے مجھ کو آلودگی گناہ سے پاک کر دیا تو پھر میں آپ کا برخودار ہوں اور آپ میرے والد بزرگوار، مجھ کو آپ سے ہر طرح کا دعوی اور آپ کو مجھ سے ہر قسم کی توقع ہے۔ سات سو کے عوض میں اس وقت میری جان پر بنی ہے۔ آپ مجھ کو اگر للہ، صدقہ، زکوۃ، خیرات جان کر نہ دیں تو قرض حسنہ دیں۔ قیدی کے چھڑانے، غلام کے آزاد کرنے کا ثواب آپ پر مخفی نہیں ہے۔ اگر روپیہ کل تک نہیں آیا تو میری زندگی دشوار ہے۔

کلیم شاعر تو تھا ہی باتوں کا جادو بنانے کی اس نے یہاں تک مشق بہم پہنچائی تھی کہ اس کے جھوٹے ڈھکوسلوں پر تمام مجلس کو وجد ہوتا تھا۔ باپ کے اس نے توبہ ریائی کا ایسا مضمون سوچا کہ اس کا خط گویا سات سو روپیہ کی درشنی ہنڈی تھی۔ جانے کی دیر تھی اور روپیہ ملنے کی دیر نہ تھی۔ لیکن مشکل یہ درپیش تھی کہ قاصد نہیں، نامہ بر نہیں، خط جائے توکیسے جائے۔ ہانسی حصار کی طرف کا ایک سپاہی کچھ حرف آشنا سا تھا، اور جب اس کو پہرے وغیرہ سے فراغت ہوتی تو وہ قصہ شام روم و سپاہی زادہ، بنجارہ نامہ، کنز المصلی منظوم، اس قسم کے اردو رسالے، نثر کو پریشان، نظم کو ناموزوں کر کے اپنی کرخت سنگلاخ بولی میں پڑھا کرتا تھا۔ کلیم کو شاعری کے ذریعے سے اس سپاہی کے ساتھ تعارف پیدا کر لینا کچھ دشوار نہ تھا۔ منت سماجت سے کلیم نے اس کو خط پہنچا دینے پر آمادہ کیا اور اجرت یہ ٹھہری کہ کلیم، اس کے اور اس کے دو بیٹوں کے نام کے سجع بنا دے۔ نام ان کم بختوں کے، اتفاق سے ایسے ٹیڑھے تھے کہ بے چارہ کلیم بہتیرا غور کرتا تھا، کسی ڈھب سے نہیں کھپتے تھے اور واقع میں نتھے خاں، جمن خان، جاہل کندہ ناتراش، پسند کرنے والا سخن فہم۔ کلیم بہتر سے بہتر سجع کہہ کر لے جاتا، وہ سن کر ہنس دیتا اور کہتا کہ بھائی جی، یہ تو ٹھیک نہیں بیٹھا۔ بڑی بڑی خرابیوں سے کوئی چھ سات دن میں کلیم نے نتھے خاں کی فرمائش پوری کی۔

غرض کلیم کا خط باپ تک پہنچا۔ وہ اس طرح کی طلب نہ تھی اس میں امروز و فردا کی گنجائش ہو۔ نصوح مے خط پڑھتے کے ساتھ، ساتوں کے ساتوں سو روپے بے عذر گن دیے۔ کلیم اس مرتبہ بھی باپ سے نہ چوکا۔ ضرورت تھی پانسو کی اور منگوائے سات سو۔ پانسو دے کر تو رہائی پائی۔ باقی بچے دو سو، اس میں کھڑے کھڑے سامان سفر درست کر اسی وقت دولت آباد کا راستہ لیا۔

***********

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
فصل یازدھم

کلیم نوکری کی جستجو میں دولت آباد گیا اور فوج میں بھرتی ہو گیا، لڑائی میں زخمی ہوا اور مردونکی طرح چار کہاروں پر لد کر دہلی آیا۔ یہ ایک چھوٹی ہندوستانی ریاست ہے۔ البتہ کوئی پانچ چھ لاکھ روپیہ سال کا محاصل اس میں ہو سکتا تھا۔ لیکن ایک نوجوان ناتجربہ کار مسند نشین ہوا۔ خوشامدی صلاح کار، لچے مصاحب، موقع پا کر آ جمع ہوئے اور دولت آباد کو چھوٹا لکھنؤ بنا دیا۔ جہاں جہاں اس مذاق کے لوگ تھے سب کو فری میسن کی طرح ریاست دولت آباد کے حالات معلوم تھے۔ کلیم بھی سن سن کر دولت آباد کا ایسا مشتاق تھا، جیسے زاہد مرتاض جنت کا۔

غرض کلیم دو منزلہ طے کرتا ہوا دولت آباد پہنچا اور قبل اس کے کہ کسی سے تعارف پیدا کرے، اس نے اپنا سامان ظاہر درست کر پھر ایک مرتبہ سرائے میں امیری ٹھاٹھ لگا دیے۔ مدح رئیس میں قصیدہ تو اس نے سفر ہی میں کہنا شروع کر دیا تھا۔ صرف عرض حال اور قطعہ دعائیہ باقی تھا۔ جلدی جلدی تمام کر، اسی قصیدے کو ذریعہ تقریب قرار دے، درِ دولت پر جا کر حاضر ہوا۔مگر شامتِ اعمال اور باپ کی ناخوشی کا وبال، اس کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اس کے دولت پور پہنچنے سے چند روز پہلے یہاں بساط الٹ چکی تھی۔ بدنظمی ریاست کی خبریں صاحب ریذیڈنٹ کو پہنچیں، اور انہوں نے بہ ذات خاص دولت آباد پہنچ کر رئیس سے کل اختیارات متنزع کر، امور ریاست کا اہتمام ایک کمیٹی کو تفویض کیا، جس میں ریاست کے چند قدیم نمک خوار تھے، کہ وہ رئیس کی بے اعتدالیاں دیکھ کر ترکِ خدمت کر کے گھر بیٹھ رہے تھے۔ اور اس کمیٹی کے میر مجلس، انتظام الدولہ مدبر الملک نواب بیدار دل خاں بہادر، والی عافیت نگر، قرار دیئے گئے، کہ وہ رشتے میں رئیس دولت آباد کے ماموں بھی تھے اور ان کا حسنِ انتظام ان اطراف میں ضرب المثل تھا اور خود صاحب رزیڈنٹ بہادر بھی بلاناغہ ماہ بہ ماہ اپنی شرکت سے کمیٹی کی آبرو افزائی کیا کرتے تھے۔ رئیس کو مصارف ضروری کے لیے کمیٹی سے دست برداشتہ کچھ روپیہ ملتا تھا۔ نابکار مصاحب ایک ایک کر کے نکالے جا چکے تھے۔ غرض جس چاٹ پر کلیم دوڑا آیا تھا وہ بات اب باقی نہ تھی۔

ناواقفیت کی وجہ سے کلیم نے اطلاع کرائی تو فورا قاصد کی طرح طلبی آئی۔ یہ تو اس توقع سے خوشی خوشی اندر گیا کہ بانکے ٹیڑھے، رنگیلے سجیلے، وضع دار لوگ دیکھنے میں ائیں گے مگر جا کر دیکھتا ہے تو بڑے بڑے ریشائیل مولوی، پگڑ اور عمامے باندھے بیٹھے ہیں۔ کوئی درس دے رہا ہے، کوئی کتاب دیکھ رہا ہے کوئی اور اد میں مصروف ہے۔ اندر قدم رکھتے ہی کلیم نے یہ برجستہ مطلع پڑھا :

جاتے تھے جستجوئے بت خانہ و صنم میں
بہکے تو جا کے نکلے ہم بھی کہاں حرم میں​

مولویوں کی شکل دیکھ کر قریب تھا کہ کلیم اس طرح بھاگ کھڑا ہو جیسے لاحول سے شیطان مگر اس کو خیال ہوا کہ امیرون کے کارخانے ہیں، عجب کیا ہے کہ یہ کوئی خانقاہ ہو۔ ع :

مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے​

چلو ذرا احوال تو دریافت کریں۔ بارے قریب جا کر اس نے ایک پیر مرد کو " مجرا عرض کرتا ہوں" کہہ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔

لفظ " مجرا" سن کر ان حضرت کے کان کھڑے ہوئے اور فورا آنکھ سے عینک اتار سیدھے ہو کر کلیم کو دیکھنے لگے۔ تب اس نے زائد از رکوع جھک کر ان کو سلام کیا، یعنی اپنا مجرا دکھایا۔ اس بزرگ نے فرمایا۔

" و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ مں ابن انت فی ارفالک احسن اللہ بحالک۔

کلیم : حضرت قبلہ، میں فہم عربی سے قاصر ہوں۔

مولوی صاحب : کہاں سے اتفاقِ محبی ہوا؟

کلیم : دہلی سے۔

مولوی صاحب : تقریب؟

کلیم : مدحت طرازی اربابِ دول

مولوی صاحب : غرض و غایت؟


کلیم : تحصیل جاہ و ثروت

تب اس بزرگ نے مختصر طور پر کلیم کو وہاں کے حالات سے مطلع کر دیا اور کہا کہ رئیس لاشے محض ہے، وہ بھی لابشرط شی نہیں بلکہ شرط لاشے اور بے اجازت خاص حضرت مولانا صدر اعظم کے کسی کو اس تک پہنچنے کا امکان نہیں۔

کلیم : صدر اعظم صاحب کہاں تشریف رکھتے ہیں؟

مولوی صاحب : دیکھو یہیں کہیں ہوں گے۔

کلیم : ان کی شناخت؟

مولوی صاحب : سیما ھُم فی وُجُوبھم من اثر السُجُود۔

کلیم : میں نہیں سمجھا۔

مولوی صاحب : ایک بڈھے منحنی سے آدمی ہیں۔ نیلی لنگی اوڑھے ہوئے حجرہ شمالی کے صحن میں طلبہ کو درس دے رہے ہوں گے، یا فصلِ خصومات میں مصروف ہوں گے۔

کلیم : ان کو کیا خدمت سپرد ہے؟

مولوی صاحب : جیسے حرفِ ندا، اللفظ ادعوا، کا قاتم مقام ہوتا ہے، اسی طرح مولانا صاحب ادام اللہ فیوضہم نائب الرئیس ہیں۔

کلیم : میں ان کی خدمت میں جا سکتا ہوں؟

مولوی صاحب : لاباس بھہ۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
غرض کلیم صدر اعظم کی خدمت میں گیا تو وہ اس کی نظر میں کچھ بھی نہ جچے۔ یہ سمجھا تھا کہ وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں تو بڑے کروفر کے ساتھ ہوں گے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ولایتی نکا ایکقے بڈھے سے مولوی ہیں، وراثت کا ایک جھگڑا ان کے روبرو درپیش ہے اور بیٹھے اپنے ہاتھ سے حساب مناسخہ لگا رہے ہیں۔ کلیم کو ایک اجنبی صورت دیکھ کر انہوں نے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں سے فارغ ہوں تو آپ سے بات کروں۔ جب تم مقدمہ پیش رہا، کلیم غور سے دیکھتا اور سنتا رہا۔ مولوی صاحب بلا کیموشگافیاں کر رہے تھے۔ تب تو کلیم نے سمجھا کہ واقع میں یہ شخص بڑی پائے گاہ کا آدمی ہے اور منصب وزارت کے قابل ہے۔ بارے جب مقدمہ طے ہو چکا تو صدر اعظم صاحب کلیم کی طرف مخاطب ہوئے کہ ہاں حضرت فرمائیے۔

کلیم : بندہ ایک غریب الوطن ہے۔ رئیس کی جود و سخا کا شہرہ سن کر مدت سے مشتاق تھا۔ یہ حال ہے، باقی میری صورت سوال ہے۔

صدر اعظم : آپ کی سماعت صحیح لیکن اگرچہ جود صفتِ محمود ہے مگر اعتدال شرط ہے۔ شامتِ اسراف سے ٹنی باقی نہ رہا۔ فرنگیوں نے حفظِ ریاست کی نظر سے رئیس کو ممنوع التصرفات، مسلوب الاختیارات کر رکھا ہے۔

کلیم : میں طالبِ گنجینہ نہیں، سائلِ خزینہ۔

صدف کو چاہیے کیا ایک قطرہ چشمہ یم سے
بجھا لیتا ہے اپنی پیاس کام غنچہ شبنم سے​

کلیم نے اس طرح کڑک کر بے دھڑک شعر پڑھا کہ تمام حاضرین اس کی یہ حرکت خارج از سیاق ادب دیکھ کر متعجب ہوئے۔ صدر اعظم صاھب ما منصب، ان کا علم و فضل اور ان کی پیری اور وہ ہیبت جو ان کی تہذیب کو لازم تھی، یعنی صدر اعظم کی حالت مجموعی اور اس سے قطع نظر خود کلیم کی حالت، اس می مقتضی تھی کہ وہ پاسِ ادب ملحوظ رکھتا۔ مگر وہ ایسی ہی بے باکی کو ہنر لسانی اور صفت حاضر جوابی سمجھتا تھا۔ شعر اس کا تکیہ کلام تھا۔ بات کہتا تو مقعی، کلام کرتا تو موزوں۔ گفتگوئے روزمرہ میں بھی اس کی یہی کیفیت تھی اور جو کوئی کبھی اس کو ٹوکتا تو وہ جواب دیتا کہ ع :

شاعری تو شعار ہے اپنا​

کلیم کو صدر اعظم کے حضور بے باکانہ شعر پڑھتے ہوئے دیکھ کر لوگوں کو حیرت ہوئی۔ لیکن جو امر ان کی حیرت کا موجب تھا، وہی ان کو کلیم کے روکنے اور باز رکھنے سے بھی مانع تھا، یعنی صدر اعظم کی ہیبت۔ لوگوں سے زیادہ صدر اعظم کو حیرت ہوئی ہو گی مگر ان کی تہذیب اس درجے کی تھی کہ انہوں نے کلیم کو نظر بھر کر بھی تو نہیں دیکھا، اظہار ناخوشی و ناپسندیدگی تو بڑی بات ہے۔

صدر اعظم : رئیس سے تو توقع عبث ہے۔ مگر انتظامِ جدید درپیش ہے۔ اگر میں سمجھوں کو کوئی خدمت آپ انجام دے سکیں گے تو انشا اللہ مجلسِ شوریٰ میں، جس کو لوگ کمیٹی منتظم ریاست کہتے ہیں، آپ کے استحقاق پیش کر دیئے جائیں گے اور غالب ہے کہ کوئی خدمت آپ کو مفوض ہو جائے۔ متعدد مناصب خالی ہیں، خصوصا انتظام فوج داری حدودِ ریاست میں۔

کلیم : چندے حضور مجھ کو اپنی خدمت خاص میں رکھیں اور اس نالائق کی ہنر مندی اور بے ہنری حضور پر منکشف ہو جائے، تو پھر جس خدمت کے لیے ارشاد ہو گا بسر و چشم اس کو بجا لائے گا، اگرچہ خدمت فوج داری ہی کیوں نہ ہو۔

طالب ہوں علم کا کہ علم سے ہے ہم رقم
نیز سمجھ کے لیتا ہوں میں ہاتھ میں قلم​

صدر اعظم : فرنگیوں نے جو انتظام کیا ہے وہ ایسی تنگ درزی کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں بہت تھوڑی گنجائش ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں آپ کو اپنے پاس کی کوئی خدمت دوں مجھ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کس کام کی انجام دہی پر قدرت رکھتے ہیں۔

کلیم : بقول غالب

آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گو و خوش گفتار

صدر اعظم : لیکن انتظام جدید کے مطابق ریاست میں کوئی خدمت شاعری باقی نہیں

کلیم :

" گر سخن گو نہیں تو خاک نہیں
سلطنت ہے عروسِ بے زینت "​

صدر اعظم : جو کچھ آپ سمجھیں۔

کلیم : لیکن ریاست پر کیا منحصر ہے، حضور بھی تو وزیر اعظم اور نائب الرئیس ہیں۔ آپ کی سرکار میں کیا کمی ہے۔ ع :

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر​

صدر اعظم : " نعوذ باللہ المنان من فات اللسان۔"

میں بے چارہ نام کا نائب الرئیس اور وزیر ہوں، ورنہ فی الحقیقت ایک ذرہ حقیر ہوں۔

کلیم : یہ حضور کا کسر نفس ہے۔ بقول ظہوری :

سر خدمت بر آستاں دارد
پائے رفعت بر آسماں دارد​

میں بھی اس بلاد دور دست اور دیار اجنبی میں اتفاق سے آ نکلا ہوں اور میں دیکھتا ہوں تو آپ کی سرکار بااقتدار میں ایک شاعر کی ضرورت بھی ہے، جو آپ کے مہامد اوصاف کو مشتہر کر کے خیر خواہان دولت کو راسخ العقیدت اور اور دشمنان روسیاہ کو مبتلائے ہیبت کرتا رہے۔

صدر اعظم : یہ آپ کی کریم النفسی ہے ورنہ " من آنم کہ من دانم۔" مجھ کو اگر ضرورت ہے تو ایسے شخص کی ہے جو مجھ کو میرے عیوب پر مطلع کیا کرے۔

کلیم : اگر مدح و ستائش پسند نہیں ہے تو بندہ وصل و ہجر و شوق و انتظار و ناز و نیاز و واسوخت و رباعی و تاریخ و سجع و چیستان و معاملہ بندی و تضمین و محاکمہ و بزم و تشبیہ و استعارات و تجنیس و تمثیلات و سراپا، ہر طرح کے مضامین پر قادر ہے۔ جو طرز مرغوب طبع ہو اسی میں طبع آزمائی کرے گا۔

رکھتا ہوں اگرچہ عیب تعلٰی سے عار ہوں
بس مغتنم ہوں منتخب روزگار ہوں​

صدر اعظم : آپ کے ہنر مند بے نظیر بے مانند ہونے میں شک نہیں لیکن افسوس ہے کہ مجھ کو اس فن کی طرف رغبت نہیں۔

کلیم : حضور جیسے عالمِ با کمال کا ایسے فن شریف سے (ع) کہ ہم خط نفس ست و ہم قوت روح، رغبت نہ رکھنا (ع) میری قسمت کی نارسائی ہے۔

صدر اعظم : اگرچہ میں اپنے نفس میں انواع و اقسام کی خباثتیں پاتا ہوں لیکن خداوند کریمکا شکر گزار ہوں کہ اب تو خیر ایسی باتوں سے محترز رہنے کی میری عمر ہی ہے، عنفوان شباب میں بھی خدا کے فضل سے میں ایسی باتوں کو نہایت ناپسند کرتا تھا۔

کلیم : ع ۔ سبب کیا وجہ کیا موجب جہت کیا؟

صدر اعظم : جہاں تم میں سمجھتا ہوں ایسے مضامین میں اشغال و انہماک رکھنے سے ذہول و غفلت، استخفاف معصیت، استحسان لہو و لہب، اختیار مالا یعنی کے سوائے کچھ اور بھی حاصل ہے؟

کلیم : اب اس خصوص میں کچھ عرض کرنا سواء ادب ہے۔ وہی خدمت فوج داری مجھ کو تفویض فرمائی جائے۔

صدر اعظم : مجھ کو کچھ عذر نہیں۔ مگر آپ مجھ سے استشارہ کریں تو یہ حکم المستشار موتمن، میں صلاح نہیں دے سکتا۔ اس واسطے کہ رئیس کے ضعف حکومت نے ان ٹھاکروں کو جو مستقر الریاست سے دور رہتے ہیں، ایسا عسیر الانقیاد کر دیا ہے کہ کوئی قسط بے جنگ و جدال وصول نہیں ہوتی اور ملازمان فوج داری کو ہمیشہ ان کے ساتھ معرکہ آرائی کرنی پڑتی ہے۔ آپ کے ذمے ریاست کے حقوق سوابق نعمت ثابت نہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ ابتدا ایسی خطرناک خدمت اختیار کی جائے۔

کلیم : حالت اضطرار کو کیا کیا جائے؟

صدر اعظم : اگر اضطرار ہے تو بیس روپیہ ماہانہ کا جمع خرچ نوپس مداخل، ایک منصب جدید ہونے والا ہے، چندے آپ اس پر قناعت کریں۔ میرے نزدیک کنجِ عافیت کے یہ بیس، فوج داری کے پچاس پر ترجیح رکھتے ہیں۔

کلیم : یہ حضور کی مسافر نوازی ہے لیکن بندہ اس خدمت سے معاف رکھا جائے۔ ع :

ہر کسے را بہر کارے ساخستد​

یہ کچھ لالہ بھائیوں ہی کو زیبا ہے۔

صدر اعظم : میں اتماما للحجت پھر آپ سے کہتا ہوں کہ جس خدمت کے آپ خواستگار ہیں فی نفسہ، خصوصا اس وقت میں محل خطر ہے۔

کلیم : " ع "

" از خطر نیندیشد ہر کہ ہمتش عالی ست۔"​

صدر اعظم : اچھا تو آپ مال کار کی نسبت تامل صحیح کر لیجئے، پھر دیکھا جائے گا۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
غرض کلیم، صدر اعظم سے رخصت ہو کر اپنی جگہ واپس آیا، مگر حصول مطلب سے مایوس، صدر اعظم سے بد عقیدت، یہاں سرائے میں بعض لوگوں نے اس سے صدر اعظم کی ملاقات کی کیفیت پوچھی تو اس نے نہایت حقارت سے کہا : " اجی بس، شعر فہمی عالم بالا معلوم شد۔ آواز دہل ازدور۔ چوں دم بر داشتم مادہ خر برآمد۔ کوڑ مغز، جسد بے روح، جماد بے حس، افسردہ، دل مردہ۔ ع :

سگ نشیند بجائے گیپائی​

زمانہ ناہنجار کے انقلاب دیکھیے، ایوان ریاست کیا ہے، فتح پوری کی مسجد ہے۔

اگرچہ کلیم کو ایسی دل برداشتگی بہم پہنچی تھی کہ وہ کسی طرح ایسی ریاست کی نوکری پسند نہیں کرتا تھا، مگر مجبوری یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا خرچ نہیں تھا کہ کسی دوسری جگہ کا قصد کرے۔ حاجت اس کو صدر اعظم کے پاس جانے پر مجبور کرتی تھی، مگر مخالفت رائے اس کو مانع ہوتی تھی ۔ یہاں تک کہ اسی حیض بیض میں پورے دن گزر گئے اور کمیٹی منتظم ریاستکے انعقاد کا وقت آ پہنچا، لیکن اس بندہ خدا نے صدا اعظم کی طرف رخ نہ کیا۔ بارے یکایک نہیں معلوم کیا خیال اس کے دل میں آیا کہ سپاہیانہ لباس پہن، ہتھیار لگا، مونچھوں پر تاؤ دے، خدمت فوج داری میں امیدوار بن کر کمیتی کے روبرو جا کھڑا ہوا۔ آدمی تھا ماشاٗ اللہ وجیہ اور اس پر کسان، ایک دم سے فوج میں کپتان مقرر ہو گیا۔ شاعروں کو ایک پھٹکار یہ ہوتی ہے کہ اکثر خود پسند ہوتے ہیں، کیوں کہ ہمیشہ تعریف و آفرین اور داد و تحسین کے امیدوار رہتے ہیں۔ کلیم بھی اس مرض میں مبتلا تھا۔ اب جو اس کو دفعتا منصب کپتانی مل گیا تو اس کی نخوت کو تائید مزید پہنچ۔ بقول میر، ع :

سمند ناز پہ اک اور تازیانہ ہوا​

جب دیکھو، اردلی میں دس پندرہ سوار، شہر میں گھوڑے کداتے پھر رہے ہیں۔

چار پانچ مہینے کلیم نے بڑے چین سے گزارے اور چوں کہ باپ کو چھیڑنا منظور تھا، دہلی میں دوست آشناؤں کے پاس کپتان صاحب کے خط پر خط چلے آتے تھے۔ یہاں تک کہ زور آور سنگھ، ایک ٹھاکر نے اپنے علاقے کی قسط وقت پر ادا نہ کی۔ تنگ طلبی ہوئی تو وہ پھر بیتھا۔ اس کو سرکوبی کے واسطے دولت آباد سے فوج روانہ ہوئی۔ اس میں کلیم بھی تھا۔ جوانی کی عمر، نئی نئی نوکری، مزاج میں بے باکی و تہور۔ پہلے ہی حملے میں میاں زخمی ہوئے تو کیسے سخت کہ دست بخیر، گھٹنے کی چپنی پر گولی بیٹھی تو اندر ہی اندر بن ران تک تیر گئی۔ معلوم نہیں نسوں میں کس طرح کا تعلق خدا تعالے نے رکھا ہے کہ ایک پاؤں کے مجروح ہونے سے سارے کا سارا دھڑ بے کار ہو گیا۔

قاعدہ فوج کے مطابق میدان جنگ سے لوتھ کر اٹھا کر دارالشفا میں پہنچایا۔ جراحوں نے زخم کو دیکھا تو ایسا کاری پایا کہ فورا پاؤں کاٹنا لازم ایا۔ اگرچہ اس وقت تک جراحوں نے پاؤں کو جان کا فدیہ تجویز کیا لیکن کلیم بے چارہ، ناز و نعمت کا پلا ہوا تھا، اس صدمہ کا متحمل نہ ہو سکا اور روز بہ روز اس کی حالت ردی ہوتی گئی۔ تپ آنے لگی، زخم بگڑا، ناسور پڑے۔ اتنا بڑا ڈھو جوان، ایک ہی مہینے میں گھل گھل کر پلنگ سے لگ گیا۔ جب پاؤں کی طرح اس کی زیست کی امید منقطع ہو گئی تو ناچار لوگوں نے اس کو دہلی میں پہنچانے کی صلاح کی اور یہ بھی خیال ہوا کہ گھر کے جانے کی مسرت اور تبدیلی آب و ہوا کی فرحت سے عجب نہیں کہ اس کے دل کو تقویت پہنچے۔ صدر اعظم صاحب حسبتہ للہ مصارف ہوئے اور دولت آباد سے دہلی تک برابر کہاروں کی ڈاک بیٹھ گئی۔

کلیم دہلی میں پہنچا تو راہ میں انیس بیس کا فرق اس کی حالت میں ہو گیا تھا، مگر ناتوانی اس درجے کی تھی دن رات میں سات پہر بے ہوشی میں گزرتے تھے۔ جب کہاروں نے اس کی ڈولی نصوح کے دروازے پر جا اتاری تو اس پر غشی طاری تھی۔ نصوح بالا خانے پر مصروف عبادت تھا۔ پہلے زنان خانے میں خبر ہوئی۔ فہمیدہ بے تاب ہو کر بے حجاب باہر نکل آئی۔ جو پالکی کے پت کھول کر دیکھا تو بیٹے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اس طرح بلک کر روئی کہ سننے والوں کے کلیجے ہل گئے۔ فہمیدہ نے اس بےقراری میں جو بین کئے، ان کے لکھنے سے پہلے قلم کا سینہ شق ہے، اور چشم دوات سے اشک جاری ہیں۔ خلاصہ یہ کہ فہمیدہ کے قلق و اضطراب نے محلے میں حشر برپا کر دیا۔

اگرچہ نصوح گریہ و بکا کی آواز سن کر کھٹکا تھا مگر اس طرح کا مستقل مزاج، ضابطہ آدمی تھا کہ اسی ترتیل کے ساتھ معمولی تلاوت کو پورا کیا اور اس کے بعد نیچے اتر کر پالکی کے پاس آیا۔ فہمیدہ کا رونا سن کر اور بیٹے کی ردی حالت دیکھ کر بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو چلے آتے تھے اور بار بار ٹھنڈی سانسیں بھرتا تھا، مگر کچھ بولتا نہ چالتا تھا۔ آدھ گھنٹے کامل اس کی یہی کیفیت رہی۔ اس کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا :

انا للہ و انا الیہ راجعون۔ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ انما اشکو ابثی و حرنی الی اللہ۔ اللھم افرغ علینا صبرا و ثبت اقدامنا۔ اللھم بون علیہ سکراتہ و کفر عنہ سیاتہ۔

اس کے بعد بی بی کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں تم کو رنج کرنے سے منع نہیں کرتا۔ تمہار رنج ایک اقتصائے طبیعت ہے کہ انسان اس میں مجبور ہے۔ لیکن مجھ کو تمہارا اضطرار دیکھ کر اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ مبادا تمہارے خیالات منجر بہ کفران ہو جائیں۔ اگر مصیبت کے وقت انسان کے دل میں، نعوذ باللہ، بوئے نارضامندی بھی خواند بے نیاز کی طرف سے پیدا ہو تو پھر کہیں اس کا ٹھکانا نہیں۔ خسر الدنیا و الاخرۃ۔ ذالک ھو الخسران المبین۔ کیا ہم نئے آدمی اور یہ انوکھی مصیبت ہے؟ برزگان دین پر اس سے کہیں زیادہ مصیبتیں نازل ہوئیں۔ زندہ دہکتی ہوئی آگ میں جھونک دیے گئے، سر پر آرے چلے، سولی چڑھے، قتل ہوئے، قید رہے، ماریں پڑیں، کوڑے سہے، گالیا کھائیں، بیگاریں بھگتیں، ذلتیں اٹھائیں، رسوائیاں جھیلیں۔ مگر خدا ان کو جزائے خیر دے، کیسے سچے بندے تھے کہ رضا و تسلیم کے حبلِ متین کو ہاتھ سے نہ دیا ۔ یہ کچھ مصیبت اور دل بہ رضا جوئی حضرت ربوبیت۔ یہ کچھ ایذا اور زبان سپاس گزار منت۔ شکر کا مقام ہے کہ خداوند کریم نے ہمارے ضعف پر رحم فرما کر امتحان سخت میں مبتلا نہیں کیا۔ اگر بندہ صوف یسر و رفاہ کی حالت میں خدا سے راضی ہے اور تکلیف و اذیت میں شاکی، تو وہ بندہ، بندہ خدا نہیں، بلکہ بندہ غرض اور مطلب پرست ہے۔ اے بی بی رنج کرو لیکن صبر کے ساتھ اور مصیبت پر روؤ مگر شان عبودیت لیے ہوئے۔ دنیا میں جتنی ایذا اور جتنی مصیبت ہے، پاداشِ گناہ و وبال معصیت ہے۔ اسی واسطے توبہ و استغفار کو لکھا ہے کہ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں۔ سب سے بہتر ہمدردی جو ہم اس شخص کی اس تباہ حالت میں کر سکتے ہیں، یہ ہے کہ ہم اس کے گناہوں کی معافی کے لیے خداوند کریم کے حضور میں بہ منت و سماجت دعا کریں۔ یہ شخص تم بھی اس بات کو تسلیم کرو گی، اپنے ہاتھوں اس نوبت کو پہنچا کہ جو اس کو دیکھے گا، بہ اقتضائے انسانیت تاسف کرے گا۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں، تمام دنیا کا رحم، خدا کی رحمت کاملہ کے آگے ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ہے۔ اگرچہ ہم لوگوں کے دیکھنے میں اس کی حالت ہی زبوں ہے لیکن کوئی شخص اس سے بڑھ کر خوش قسمت نہیں، اگر اس کی یہ تکلیفیں، عند اللہ، اس کے گناہوں کا کفارہ سمجھی جائیں۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
نصوح کے وعظ کا سحر حلال ایسا نہ تھا کہ کوئی اس کو سنے اور متاثر نہ ہو۔ فہمیدہ فورا منہ پوچھ، سیدھی ہو بیٹھی اور اب میاں بی بی لگے آپس میں صلاح کرنے کیا کیا جائے۔

نصوح : اس کو محلے کے شفا خانے میں پہنچا دینا چاہیے۔ ہر وقت ڈاکٹر کے پیش نظر رہے گا۔
مکان بہت پرفضا ہے، اس کی طبیعت کو بھی تفریح ہو گی۔

فہمیدہ : ہے ہے! اور میرا دل کیوں کر صبر کرے گا؟

نصوح : تمہارا یہ کہنا بھی واجب مگر بیمار کی حالت ایسی ردی ہے کہ کسی وقت اس سے طبیعت کا مفارقت کرنا مناسب نہیں۔

فہمیدہ : حکیم جی شوق سے آئیں جائیں، مگر سہ دری میں پردہ کیے بیٹھی رہوں گی۔

نصوح : زخموں کا علاج کچھ ڈاکٹروں ہی سے خوب بن پڑتا ہے۔ یونانی طبیب تو اس کوچے سے محض نابلد ہیں۔ رہے جراح، ان کو دوچار مرہم ضرور معلوم ہیں مگر تشریح سے جیسے یونانی طبیب بے خبر، ویسے ہی جراح ناواقف۔ بہتر ہو گا کہ اس کو نعیمہ کے گھر لے چلیں۔ سرکاری شفاخانہ بھی قریب ہے اور میاں عیسٰی کہ اس وقت ہندوستانی جراحوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، دیوار بیچ ان کا گھر ہے۔

فہمیدہ نے بھی اس صلاح کو پسند کیا اور کیسا سامان، کس کی تیاری، گھر کا گھر کلیم کی پالکی کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ یہاں سے کوئی چھ سات پیسے ڈولی نعیمہ کی سسرال تھی۔ کہاروں نے پالکی اٹھائی تو کہیں کاندھا تک نہیں بدلا، دھر نعیمہ کے گھر جا اتاری۔

یاد ہو گا کہ نعیمہ ماں سے لڑ کر، بے ملے، صالحہ کے ساتھ خالہ کے یہاں چلی گئی تھی۔ پھر چار مہینے وہاں رہی۔ نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی برکت، خدا نے اس کو ہدایت دی اور وہ بھی نیک بن گئی :

سگ اصحاب کہف روزے چند
پئے نیکاں گرفت و مردم شد​

نیک بنے پیچھے ممکن نہ تھا کہ ماں باپ کی نارضامندی گوارا کرتی۔ اس نیماں باپ کو شاد اور خدا نے اس کو اپنے گھر میں آباد کیا۔ اس کو سسرال گئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم کو چار کہاروں کے کندھے پر لاد کر اس کے گھر لے گئے۔ چوں کہ نعیمہ کے گھر آباد ہونے کا تذکرہ آ گیا، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے نعیمہ کا حال لکھا جائے اور کلیم کو ، جو دنیا میں اب مہمان چند روزہ ہے، پیچھے دیکھ لیا جائے گا۔
***********
(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
فصل دوازدھم

نعیمہ خالہ کے یہاں رہ کر خود بہ خود درست ہو گئی۔ اس نے ماں باپ سے اپنی خطا معاف کرائی اور خدا نے اس کا مدتوں کا اجڑا ہوا گھر پھر آباد کیا۔ کلیم نے بہن کے گھر وفات پائی۔ قصے کا خاتمہ نعیمہ اور کلیم، اس اعتبار سے دونوں کی کچھ ایک ہی سی کیفیت تھی، کہ زیادہ عمر ہو جانے کی وجہ سے عادتیں دونوں کی راسخ ہو چکی تھیں۔ بیاھے ہوئے اور صاحبِ اولاد دونوں تھے۔ کلیم کو بی بی سے کچھ انس نہ تھا تو نعیمہ کا شوہر سے بگاڑ تھا۔ نعیمہ اگرچہ کلیم کی طرح سب میں بڑی نہ تھی مگر بڑی بیٹی تھی۔ لیکن پھر بھی کلیم فولاد تھا تو نعیمہ اس کے مقابلے میں سیسا، بلکہ رانگا سمجھنا چاہیے۔ کلیم مرد تھا، قسی القلب نعیمہ عورت، نرم دل۔ کلیم باہر کا چلنے پھرنے والا سینکڑوں آدمیوں سے تعارف، ہزاروں سے جان پہچان۔ نعیمہ بے چاری پردے کی رہنے والی۔ میل ملاپ سمجھو تو اور پیار اخلاص سمجھو تو، ماں، بہن، خالہ، نانی، کنبے، کی عورتوں سے وہ بھی گنتی کی۔ کلیم اور نعیمہ، دل دونوں کے بیمار تھے۔ لیکن کلیم کے دل کو ذاتی روگ کے علاوہ صدہا بیماریاں اس قسم کی تھیں جو متعدی کہلاتی ہیں، یعنی ایک سے اڑ کر دوسرے کو لگ جاتی ہیں۔ اس کلیم کے مزاج میں چند در چند خرابیاں تھیں جو اس نے بری صحبتوں میں بیٹھ کر اپنے پیچھے لگا لی تھیں۔ نعیمہ میں جو کچھ برائی تھی، وہ ماں باپ کے لاڈ پیار، علم کی ناداری اور عقل کی کوتاہی کی وجہ سے تھی۔ کلیم دلیر و بے باک اور عیار و چالاک تھا۔ نعیمہ بے وقوف، بھولی اور ڈرپوک، دل کی بودی۔ کلیم کے سر پر ایک سخت بلا مسلط تھی یعنی اس کے جلیس و ہم نشیں، اور نعیمہ اس سے بالکل محفوظ تھی۔ کلیم میں اس قسم کے بےہودہ عیوب تھے جن میں آج کل کے کم بخت نوجوان شریف زادے کثرت سے مبتلا پائے جاتے ہیں، یعنی عورتوں کی طرح درپے تزئین رہنا اور بناؤ سنگھار رکھنا۔ پہر دن چڑھے سو کر اٹھے۔ ضرورتوں سے فارغ ہو کر آئینے کی تلاوت شروع ہوئی تو دوپہر کر دیا۔ اگرچہ رات کو مانگ اور پٹیوں کے لحاظ سے رومال باندھ کر اور سر کو الگ تھلگ رکھ کر سوئے تھے، مگر آئینے میں منہ دیکھا تو زلف کی پریشانی پر اس قدر تاسف کیا کہ سر اسحاق نیوٹن صاحب، نے بھی اپنے اوراق می ابرری پر اتنا افسوس نہ کیا ہو گا۔ بارے اگر اصلاح کا دن نہ ہوا تو گھنٹوں کی محنت میں، وہ بھی اپنے اکیلے کی نہیں، بال ٹھکانے لگے اور مانگ درست ہوئی، اور اگر کہیں اصلاح کا زور منحوس ہوا تو سارا دن گزر گیا۔ ایک وضع خاص پر سر جھکائے جھکائے گردن شل ہو گئی۔ داڑھی اور مونچھوں کے ترشوانے میں منہ کو لقوہ مار گیا۔ حجام کی آنکھوں کے تلے اندھیرا آنے لگا مگر پھر بھی ان کا خط خاطر خواہ نہ بنا۔ کپڑے بدلنے کی نوبت پہنچی۔ ٹوپی قالب سے اتر کر آئی تو سر پیٹ لیا، مگر ایسی احتیاط سے کہ بال نہ بگڑیں۔ اس کے بعد انگرکھے کی چنٹ پر چیں بہ جبیں ہوئے۔ پھر تو ادھر انگرکھے کی آستینوں اور ادھر پائجامہ کی تنگ مہریوں کے ساتھ ہاتھ پائی شروع ہوئی۔ مشکل یہ آ کر پڑی کہ کپڑا کشاکش کا متحمل نہیں، ذرا زور پڑا اور مسکا اور ہاتھ پاؤں کہتے ہیں کہ ہم ان چیونٹی کے بلوں میں گھسنے کے نیہں۔ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط۔ بارے کاغذ کے سہارے سے ہولے ہولے پھسلاتے پھسلاتے کہیں پہروں میں جا کر مشکل آسان ہوئی۔ اب ملبوس خاص زیب تن تو ہوا، مگر کس کیفیت سے کہ تنگی اور چستی کے مارے مشکیں الگ کسی ہوئی ہیں، پاؤں علیحدہ جکڑے ہوئے ہیں اور سارا بدن گویا شکنجے میں ہے۔ کھانسنا، چھینکنا، جمائی، انگڑائی تو درکنار، گھنڈی تکمے کے لحاظ اور بندوں کے پاسِ خاطر سے اچھی طرح سانس بھی نہیں لے سکتے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ لباس سے غرض اصلی بدن ڈھانکنا اور آسائش پہنچانا ہے۔ اس میں کبر و نخوت کو دخل دے کر کیا ناس مارا ہے کہ غرض اصلی گئی گزری ہوئی، اور تکلیف و ایذا الٹی گلے مڑھی گئی۔ مقصود تھی پردہ پوشی، ان بزرگ ذات نے اس میں تراش خراش اور وضع داری کو ایسا شامل کیا کہ کپڑوں نے اندرون دل تک کا لفافہ ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اب ان کے حالات لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صورت ببیں حالش مپرس۔

کلیم بھی ایک اس طرح کا چھیلا تھا، بد وضع، آوارہ، جس کے اطوار و عادات جا بہ جا لکھے جا چکے ہیں۔ اس خصوص میں نعیمہ شرفا کی بہو بیٹیوں کی طرح کالدُر المکنُون، محفوظ و مصئون تھی۔ اس میں اور کلیم میں بے مبالغہ فرشتہ اور شیطان کی نسبت سمجھنی چاہیے۔ غرض نعیمہ کا روبراہ ہونا دشوار مگر نہ کلیم کی طرح محال : مشکل البتہ تھا، لیکن نہ کلیم کی مانند متعذر۔ خالہ کے یہاں ڈولی سے اتری تو جوں خالہ کی شکل دور سے نظر پڑی کہ بھوں بھوں رونا شروع کیا۔ دیہات کی مستورات کا تو یہ قاعدہ ہے کہ اگر کوئی مہمان یا مسافر بہت دنوں کے بعد آتا ہے تو اس مل کر رونے لگتی ہیں، اس واسطے کہ اس وقت ان کو مفارقت کی سختیاں اور تکلیفیں اور یادگاری و انتظار کی زحمتیں یاد آتی ہیں۔ مگر دھلی کا یہ دستور نہیں ہے۔ یہاں کی عورتیں اسی حالت میں روتی ہیں جب کہ طرفین میں سے کسی کا کوئی عزیز و قریب زمان جدائی میں مر گیا ہو۔ ورنہ یوں مہمان و مسافر کے آنے پر رونا دلی والیاں منحوس سمجھتی ہیں۔ گو خالہ کو دیکھ کر نعیمہ کے دل میں جوش پیدا ہوا تھا مگر اس کو ضبط کرنا چاہیے تھا۔ لیکن نہ تو نعیمہ کو اتنی عقل تھی کہ اتنی بات سمجتھی، اور شاید سمجھتی بھی ہو تا ہم وہ دل پر اس قدر ضابطہ نہ تھی۔ خالہ نے جو اس کو روتے دیکھا سخت تعجب کیا۔ بھانجی کی عادت سے واقف تھیں۔ سمجھ تو گئیں کہ ماں سے روٹھ کر آئی ہے، اسی کا یہ رونا ہے۔ لیکن جلدی سے دوڑ کر بھانجی کو گلے سے لگا لیا اور پیار چمکار کر بہت کچھ تسلی دی اور سمجھایا کہ اللہ رکھے بیٹے کی ماں ہوئیں، اب تمہاری عمر بچوں کی طرح رونے کی نہیں ہے۔ ہمسایے کی عورتیں سنیں گی تو کیا کہیں گی؟ جانے دو بس کرو، طبیعت کو سنبھالو، جی کو مضبوط رکھو۔

نعیمہ : اماں جان نے مجھے مارا، اوں اوں۔

خالہ : مارا تو کیا ہوا؟ ماں باپ ہزار بار لاڈ کرتے ہیں تو نصیحت کے واسطے مار بھی بیٹھتے ہیں۔ ماں باپ کی مار، مار نہیں سنوار ہے۔ تمہاری نانی، خدا جنت نصیب کرےہ بڑی ہتھ چھٹ تھیں۔ تم اس بات کو سچ ماننا کہ اب ہم ان کی مار کو ترستے ہیں۔ ماں باپ کی مار کیا ہر ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ جنھیں خدا کو بہتر کرنا منظور ہوتا ہے، وہ ماں باپ کی مار کھاتے ہیں۔ بھلا تم نے اس بات کا خیال کیا۔ ہوش میں آؤ تو دیکھو کہ تمہارا بیٹا بھی تمہارے رونے پر ہنستا ہے۔ (ننھے بچے کی طرف مخاطب ہو کر) کیوں جی بڑے میاں! تم کچھ اپنی اماں جان کو نہیں سمجھاتے؟

بچہ : آغوں !

خالہ : آغوں غوٹے، دودھ پی پی کر میاں ہوئے موٹے۔

غرض خالہ نے نعیمہ کے رونے کو باتوں میں ٹال دیا۔ نعیمہ چندے جھینپتی سی رہی۔ مگر پھر تو ہنسی خوشی رہنے لگی۔ اگرچہ خالہ نے بھانجی سے رونے کا سبب مصلحتا دریافت نہیں کیا، مگر موقع سے صالحہ کو الگ لے جا کر ساری حقیقیت پوچھی اور جب اس کو بہن کے گھر دین داری کی چھیڑ چھاڑ کا ہونا معلوم ہوا تو اس کو اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان نہیں آ سکتی اور اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ جب تک نعیمہ کو پکی دین دار نہ بنا دے، گھر سے رخصت نہ کرے۔ خالہ کے گھر رہ کر نعیمہ کی عادتوں کا خود بہ خود درست ہو جانا، عمدہ مثال ہے۔ اس کی صحبت سے بڑھ کر تعلیم کو کائی اچھا طریقہ نیہں، ماں کے گھر چند خاص باتیں نعیمہ کی اصلاح میں خلل انداز تھیں۔ اول تو اس نے ماں اور تمام خاندان کو بے دینی کی حالت میں مدتوں زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھا، بس بالضرور ان کی نصیحت کو وہ وقعت نہیں ہو سکتی تھی جو یہاں خالہ کی باتوں کی تھی۔ دوسرے، ماں کے گھر بھائی بہن نوکر چاکر پاس پڑوس والے، کتنے لوگ تھے جو نعیمہ کو ابتدائے عمر سے ایک طرزِ خاص پر دیکھ چکے تھے۔ نعیمہ کو ان کے روبرو طرزِ جدید اور جدید بھی کیسا کہ طرزِ سابق سے مخالف، اختیار کرتے ہوئے، عار آتی تھی۔ تیسرے، ماں کے یہاں اتفاق سے اس کو ایک سختی بھی پیش آ گئی تھی اور وہ سختی اس کی حالت کو کسی طرح مناسب نہ تھی۔ چوتھے، اس کو ماں پر بڑا ناز تھا، یعنی ان کی خدمت میں شدت سے گستاخ تھی اور ان کے کہنے کی مطلق پروا نہ کرتی تھی۔ خالہ کے یہاں آ کر رہی تو کسی نے بھول کر بھی اس سے تذکرہ نہ کیا کہ دین داری بھی کوئی چیز ہے، یا خدا کی پرستش بھی انسان کا ایک فرض ہے۔ مگر تھا کیا، کہ چھوٹے بڑے سب ایک رنگ میں رنگے تھے۔ صبغتہ اللہ و من احسنُ من اللہ صبغط اور ان کی تمام حرکات و سکنات شان دین داری لیے ہوئے تھیں۔ ان کی نشست و برخاست، ان کی رفتار و گفتار، ان کا قول، ان کی بات چیت، ان کا میل جول، ان کا لڑائی جھگڑا، ان کا کھانا پینا، ان کی خوشی، ان کا رنج، کوئی ادا ہو، وہ ایک نرانی دین دارانہ ادا تھی۔ نعیمہ کو خالہ کا گھر ایک نئی دنیا معلوم ہوتا تھا۔ اگرچہ ابتداً وہ یہاں کے اوضاع کو حقارت سے دیکھتی تھی، لیکن جوں جوں وہ ان دستورات سے مانوس ہوتی گئی، ان کی عمدگی اور بہتری اس کے ذہن میں بیٹھتی گئی اور آخر اس کو ثابت ہوا کہ بے دین زندگی، محض ایک بے اطمینان، بے سہارے زندگی ہے۔ اگر رنج و ایذا ہے، تو کوئی وجہ تسلی، کوئی ذریعہ تشفی نہیں اور اگر آرام و خوشی ہے تو اس کو ثبات پائیداری و قرار نہیں۔ فاقہ ہے تو صبر نہیں، کھانا ہے تو سیری نہیں۔ بدی کو سزا نہیں، نیکی کی جزا نہیں ہے۔ بے دین آدمی ایسا ہے، جیسے بے نکیل کا اونٹ، بے ناتھ کا بیل، بے لگام کا گھوڑا، بے ملاح کی ناؤ، بے ریگولیٹر کی گھری، بے شوہر کی عورت، بے باپ کا بچہ، بے تھیوے کی انگوٹھی، بے لالی کی مہندی، بے خوشبو کا عطر، بے باس کا پھول، بے طبیب کا بیمار، بے آئینے کا سنگھار، یعنی دین نہیں تو دنیا و مافیہا سب ھیچ اور عبث اور فضول اور پوچ اور لچر ہے۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
نعیمہ نے رفتہ رفتہ خود بہ خود خالہ کی تقلید شروع کی۔ وہ ہمیشہ پہر سوا پہر دن چڑھے سو کر اٹھتی تھی اور یہاں گھر بھر، چھوٹے بڑے، منہ اندھیرے اٹھ، ضرورتوں سے فارغ ہو، عبادت الہٰی میں مصروف ہوتے تھے۔ گھر بھر کا اٹھنا اور وہ بھی نرا اٹھنا اور چارپائیوں پر لدے بیٹھے رہنا نہیں بلکہ چلنا پھرنا، کام کاج کرنا ہر چند نعیمہ کی وجہ سے احتیاط کی جاتی تھی مگر کہاں تک، کچھ نہ کچھ آہٹ آواز ہوتی ہی تھی۔ بعد چندے نعیمہ کی آنکھ بھی سب کے ساتھ کھلنے لگی، اور جاگی تو ممکن نہ تھا کہ اس کو اپنی حالت پر تنبہ نہ ہو۔ اس واسطے کہ وہ اپنے تئیں دیکھتی تھی کہ بچے کی نجاست میں لتھڑی ہوئی پڑی انگڑائیاں لے رہی ہے مست، اداس، مضمحل، نیند کے خمار سے کسل مند، اور دوسرے ہیں کہ چاق و چوبند، چست و چالاک، تازہ دم، پاک صاف، خدا کی درگاہ میں شکر کے سجدے کر رہے ہیں۔ کہ رات امن چین سے کٹی اور دعائیں مانگ رہے ہیں کہ بارِ الہٰا ! ہم کو روزی دے، اتنی کہ فراغت سے کھائیں اور رزق دے، ایسا کہ دوسرے کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں، حاجت نہ لے جائیں۔ بارِ خدایا ! بیماروں کو شفا، گم راہوں کو ہدایت، قیدیوں کو رہائی، مسافروں کو امن، بھوکوں کو روزی، قحط زدوں کو ارزائی رزق، تشنہ کاموں کو پانی، مایوسوں کو امید، ناکاموں کو کام یابی کو نوید، مفلسوں کو قناعت، تونگروں امیر کو سخاوت، بے اولادوں کو اولاد، نامرادوں کو مراد، جاہلوں کو علم، عالموں کو عمل، زاہدوں نیک کو اخلاص، حاکم وقت کو توفیقِ عدل و داد، رعیت شاد، ملک آباد، کیا اپنے کیا غیر، جل جہان کی خیر۔

متنبہ ہوئے پیچھے نعیمہ کی اصلاح ہوئی ہوائی تھی۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ دین دار خدا پرست بن گئی۔ نماز روزے کی پابند، واعظ و نصیحت کی دلدادہ، منکسر، متواضع، ملن سار، صلح جو، نیک خو شائستہ باوجودے کہ نعیمہ ایک آسودہ حال گھر کی بیٹی تھی اور اس نے ناز و نعمت میں پرورش پائی تھی اور ماں باپ کو اس کی دل جوئی اور خاطر داری ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی، بایں ہمہ وہ اپنے مزاج، اپنی عادات، اپنے خیالات کے پیچھے سدا ناخوش رہا کرتی تھی۔ اور چوں کہ طبیعت میں برداشت مطلق نہ تھی، ذرا سی تکلیف کو وہ مصیبت کا پہاڑ بنا لیتی۔ اگر کسی نوکر نے مرضی کے مطابق کوئی چھوٹا سا کام نہ کیا، یا مثلا کھانے میں نمک پھیکا یا تیز ہو گیا، یا روٹی کو چتی لگ گئی۔ یا کپڑے کی سلائی اس کی خاطر خواہ نہ ہوئی، یا بچہ کسی وقت رونے لگا، ان میں سے ایک ایک بات کا سارے سارے دن اس کو جھگڑا لگ جاتا تھا۔ اور جو کہیں خدانخواستہ خود اس کی طبیعت یونہی سے علیل ہو گئی، یا اس کو اپنی خانہ ویرانی کا کبھی خیال آ گیا تو ہفتوں گھر کا عیش منغض ہوا۔ اب خیالات دین داری کے ساتھ اس کو عافیت اور اطمینان کا مزہ ملا۔ دنیوی کوئی تکلیف نہ تھی جو اس کو ایذا دیتی ہو۔ مگر ہاں ماں باپ کی نارضامندی اس کے دل میں کانتے کی طرح کھٹکتی تھی اور ایک ایک لمحہ اس پر شاق تھا۔

اسی اثنا میں خدا نے اپنے فضل سے نعیمہ کی خانہ آبادی کی صورت بھی نکال دی۔ نعیمہ کا شوہر بڑا دین دار تھا اور اس کو بی بی ملی نعیمہ جو ان دنوں دین سے مطلق بے بہرہ اور خدا پرستی سے کلیتہ بے نصیب تھی۔ ہر چند وہ نعیمہ کے حسن صورت پر فریفتہ تھا مگر اختلافِ عادات، اختلافِ عقائد ایک ایسا پردو تھا کہ وہ دونوں میں اتحاد کے پیدا ہونے کا مانع تھا۔ ساس نندیں، میاں بی بی کی اتنی ناموافقت کا سہارا پا کر ایسے بے رخ ہوئیں کہ نعیمہ کا رہنا دشوار کر دیا۔ اب نعیمہ کی تبدیل حالت کے تھوڑے ہی دن بعد صالحہ کے چچا کے گھر شادی کی تقریب پیش آئی۔ نعیمہ کو دہرا بلاوا آیا۔ ایک تو صالحہ کے رشتے سے، دوسرا سسرال کی طرف سے، صالحہ کی چچا زاد بہن اور نعیمہ، دیورانی جٹھانی بھی تھیں۔ شادی کے مجمع میں اور عورتوں نے تو اپنی رات گیت گانے اور لایعنی باتیں بنانے میں ضائع کی، اور نعیمہ نے نماز عشا سے فارغ ہو کر صلواۃ التسبیح کی نیت باندھی تو آدھی رات ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر سو کر تہجد پرھنے کھڑی ہوئی تو صبح کر دی۔ نعیمہ کی شب بیداری اور تہجد گزاری کی کبر جب اس کے شوہر نے سنی تو غایت درجہ محظوظ ہوا۔ اور اگرچہ وہ کبھی کبھی سسرال آتا جاتا تھا اور اپنی ذات سے بی بی کا بڑا خیال رکھتا تھا، لیکن بی بی کے بے دین ہونے کی وجہ سے، اس کو، اپنی ماں بہنوں کے مقابلے میں، اس کی طرف داری کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ اب جو اس نے بی بی کا دین دار ہونا سنا، تو ڈولی لے کر دوڑا ہوا سسرال آیا۔

نعیمہ ماں کے رضا مند کرنے کے لیے بیتاب تو تھی ہی، شادی میں جو دونوں ایک جگہ جمع ہوئیں تو نعیمہ دور سے ماں کو دیکھ دوڑ کر قدموں پر گر پڑی۔ ادھر فہمیدہ " باقتضائے مہرمادری " من جانے کے لیے بہانہ ڈھونڈھتی تھی۔ بیٹی کو جھکتے دیکھ کر جلدی سے اٹھ، گلے لگا لیا۔ اور جب بہن اور بھانجی سے نعیمہ کا حال اور رات کے وقت اس کو خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت الہٰی کرتے دیکھا، تو اس نے نہ صرف بیٹی کی خطا سے درگزر کی، بلکہ پہلے سے زیادہ ریجھ ریجھ کر اس کو پیار کیا۔ اور جب شادی کے مہمان رخصت ہوئے تو بہن بھانجی کا بہت بہت شکریہ ادا کر کے بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لوا لائی، اور محلے کی بیبیوں کو جمع کر کے ایک ایک سے اس کو ملوایا۔ ادھر نعیمہ، ساری بیبیوں میں کشادہ پیشانی سے اپنے قصور کا اظہار کر کے، کبھی تو ماں کے پاؤں سر رکھ رکھ دیتی تھی اور کبھی حمیدہ کو گود میں لے لے کر پیار کرتی تھی، اور اس کی پیشانی پر جہاں کیل کا داغ تھا، بوسے دیتی تھی۔ کبھی بیدارا کو بلا بلا کر پاس بٹھاتی اور دولتی کے بدلے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑتی تھی۔ آج شام کو تو نعیمہ ماں کے گھر آئی، اگلے دن بڑے سویرے اس کا میاں ڈولی لے آ موجود ہوا۔ نعیمہ چندے سسرال جا کر رہی تو نہ صرف میاں بلکہ ساس، نندیں، سارے کا سارا کنبہ، اس کی نیکی کا مرید و معتقد تھا۔

نعیمہ کو اپنے گھر آئے دوسرا مہینہ تھا کہ کلیم، اس حالت سے کہ اوپر بیان کی گئئ، بہن کے یہاں پہنچا۔ بھائی کی ایسی ردی حالت دیکھ کر بہن پر اور بہن بھی کیسی خدا ترس، جو صدمہ ہوا قابل بیان نہیں۔ کلیم اسی کیفیت سے بہن کے گھر رہا۔ ایک چھوڑ دو دو ڈاکٹر، شہر کے نامی جراح، مل کر اس کا علاج کرتے تھے مگر اس کے زخموں کا بگاڑ کم نہ ہوتا تھا۔ صبح و شام تھوڑی دیر کے لیے کبھی کبھی اس کو ہوش آ جاتا تھا، اور ضرور اس نے سمجھا ہو گا کہ کہاں ہے اور کون لوگ اس کی تیمارداری کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی ناتوانی اور نقاہت دیکھ کر کوئی اس سے کسی قسم کا تذکرہ نہیں کرتا تھا۔ باتیں کرتے بھی تھے تو تسلی و تشفی کی۔ یہاں تک کہ زخموں کا فساد انتہا کر پہنچ گیا، اور اس کی مدت حیات پوری ہو چکی۔ مرنے سے پہلے یکایک ایسی اس کی حالت بہتر ہو گئی کہ وہ اچھی خاصی طرح آپ سے آپ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور خلاف عادت اس نے فرمائش کر کے دو گوشتہ پلاؤ پکوایا اور تندرستوں کی طرح وہ گھر والوں کے ساتھ بہت دیر تک پکار پکار کر باتیں کرتا رہا۔ اس نے اپنے تمام حالات، جب سے کہ وہ گھر سے نکلا اور جب تک کہ وہ مجروح ہو کر پھر دہلی آیا، ذرا ذرا بیان کیے اور بھائی بہن، ایک ایک کر کے سب کا حال پوچھا۔ اس وقت وہ اپنے افعال پر تاسف کر کے اتنا رویا اتنا رویا کہ اس کو غش آ گیا۔

(جاری ہے ۔۔۔)
 

شمشاد

لائبریرین
بڑی دیر کے بعد ہوش میں آیا تو اس نے ماں سے کہا کہ آج کی غیر معمولی توانائی جو تم مجھ میں دیکھتی ہو، میں خوب سمجھتا ہوں کہ یہ میری آخری توانائی ہے۔ خون جو مدارِ حیات ہے، مطلق میرے بدن میں باقی نہیں رہا۔ بلکہ میں جانتا ہوں کہ شاید میری ہڈیوں کے اندر کا گودا بھی پگھل پگھل کر فنا ہو چکا ہے۔ گو تم لوگ میری تقویت کی نظر سے تسلی و تشفی کی باتیں کرتے ہو مگر میں سمجھ چکا ہوں کہ میں اس مرض سے جاں بر ہونے والا نہیں۔ میں اپنے مرنے کو ترجیح دیتا ہوں، اس نالائق زندگی پر جو میں نے بسر کی۔ اگرچہ میں نے اپنی زندگی، خرابی اور رسوائی اور فضیحت اور والدین کی نارضامندی اور خدا کی نافرمانی میں کاتی، اور ایسی ایسی ہزاروں لاکھوں زندگیاں ہوں تو بھی اس نقصان کی تلافی کی امید نہیں، جو اس چند روزہ زندگی میں، مجھ کو اپنی بدکرداری سے پہنچا، مگر مجھ کو تین طرح کی تسلی ہے۔ اول یہ کہ میں مرتا ہوں نادم، پشیمان، خجل، متاسف، دوسرے یہ کہ سفر عاقبت شروع کرتے وقت ایسے لوگوں میں ہوں جو اس راہ کے منزل شناس اور میرے دل سوز اور ہم درد اور شفیق اور مہربان حال ہیں۔ تیسرے یہ کہ غالبا میری زندگی دوسروں کے لیے نمونہ عبرت ہو گی، کہ اس صورت میں، گو اپنی زندگی سے میں خود مستفید نہیں ہوا لیکن اگر دوسروں کو کچھ نفع پہنچے تو میں ایسی زندگی کو رائیگاں اور عبث نہیں کہہ سکتا۔ ع :

من نہ کر دم شما حذر بہ کنید​

اب مجھ کو دنیا میں سوائے اس کے اور کوئی آرزو باقی نہیں کہ میں ابا جان سے اپنا قصور معاف کرا لوں۔

یہ کہہ کر اس پر بڑے زور کی رقت طاری ہوئی۔ بے چارے کی طاقت تو مدتوں سے سلب ہو ہی چکی تھی، رونا تھا کہ بے ہوش ہو گیا، اور اسی بے ہوشی میں اس کا سانس اکھڑ گیا اور لگا ہاتھ پاؤں توڑنے۔ نبضیں چھوٹ گئیں، ہچکیاں لینے لگا، ناک کا بانسہ پھر گیا۔ عورتیں تو یہ حالت دیکھ کر رونے پیٹنے لگیں۔ باہر مردانے سے نصوح دوڑا آیا اور عورتوں کو علیحدہ کر کے جزع و فزع نامشروع سے منع کیا اور صبر جمیل کی تلقین کی اور بیٹے کے سرہانے بیٹھ کر یاسین پڑھنی شروع کی۔ منہ میں شربت ٹپکایا، اور اس کو قبلہ رو لٹایا۔ کلمہ پڑھ کر سنایا۔ شربت کا حلق سے اترنا تھا کہ کلیم نے آنکھیں کھول دیں اور باپ کو نگاہِ حسرت آلود سے دیکھ کر اس نے ہاتھ جوڑے، اور اسی حالت میں اس نے جاں بہ حق تسلیم کی۔ ع :

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا​

اس میں شک نہیں کہ اگر کلیم بچ جاتا تو وہ نیکی اور دین داری میں اپنے سب بھائی بہنوں پر سبقت لے جاتا۔ اس نے مصیبتیں اٹھا کر اپنئ رائے کو بدا تھا، اور آفتیں جھیل کر تنبہ حاصل کیا تھا۔ پس وہ مجتہد تھا اور دوسرے مقلد، وہ محقق تھا اور دوسرے ناقل۔ اس کا سا انجام خدا سب کو نصیب کرے۔

کلیم کا جوان مرنا ایک ایسی بھاری موت تھی کہ ماں باپ تو دونوں گویا اس کے ساتھ زندہ درگور ہو گئے۔ بھائیوں کا بازو ٹوٹ گیا۔ بہنوں کے سر سے ایک بڑا سرپرست اٹھ گیا۔ لیکن بہ تقاضائے دین داری سب نے صبر جمیل کیا اور ہر شخص نے بجائے خود عبرت پکڑی۔ کلیم کے ساتھ نصوح کی وہ تمام کوششیں بھی تمام ہوئیں جو اس کو اصلاحِ خاندان کے لیے کرنی پڑتی تھیں۔ کیوں کہ کلیم مرحوم کے سوا سب چھوٹے بڑے اس کی رائے میں آ چکے تھے۔ یا تو ابتدا علیم کے انٹرنس پاس کرنے کے لالے پڑے تھے، یا اس نے بی۔اے پاس کیا۔ ایک سے ایک عمدہ نوکری گھر میں بیٹھے اس کے لیے چلی آتی تھی، مگر اس نے نیک نہادی کی وجہ سے، سر رشتہ تعلیم کو یہ سمجھ کر پسند کیا کہ ہم وطنوں کو نفع پہنچانے کا قابو ملے۔ سلیم بڑا ہو کر طبیب ہوا تو کیسا کہ آج جو دلی کے بڑے نامی طبیب ہیں وہ اسی کی بیاض کے نسخوں سے مطب کرتے ہیں۔ ولیئہ مادرزاد حمیدہ، قرآن اس نے حفظ کیا، حدیث اس نے پڑھی۔ اور اگر سچ پوچھئے، تو شہر کی مستورات میں جو کہیں کہیں لکھنے پڑھنے کا چرچا ہے، یا عورتیں خدا اور رسول کے نام سے واقف ہیں، یہ سب بی حمیدہ کی بدولت۔

جزاھا اللہ، عنا خیر الجزا۔

۔۔۔اختتام۔۔۔
 
Top