تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے....برائے اصلاح

اسد قریشی

محفلین
غالب کی زمین میں ایک غزل پر گزارشِ اصلاح
کرتے ہیں عنایات وہ منظورِنظر پر
نے ان کو غرض مجھ سے نہ آشفتہ سروں سے
ناطق ہیں یہاں سارے تو نقّاد سبھی ہیں
"تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے"
یا رب نہ کوئی اہلِ سخن، اہلِ نظر ہے
اچھے ہیں جو نابینا ہیں ان دِیدَہ وَروں سے
محصور ہیں محبوس شب و روز یہ میرے
ہے بخت کو تعبیر مری تیرہ شبوں سے
حسرت ہی رہی مجھ کو نوازیں گے کبھی وہ
کرتے ہیں نوازش وہ محض شاہ وروں سے
اک حوصلہ رکھتے ہیں وہ تخلیق کا ہر دم
نسبت ہے اسد مجھکو یہی کوزہ گروں سے
Oct 4
 
Top