تنِ تنہا سوئے منزل رواں ہوں

تنِ تنہا سوئے منزل رواں ہوں
خود اپنی ذات میں اک کارواں ہوں

ترے جلووں میں اتنا کھو گیا ہوں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہاں ہوں

ہزار نغمے ہیں موجِ نفس میں
کئی خاموشیوں کا ہم زباں ہوں

تری تخلیق کا ہوں اک کرشمہ
تری ہستی کا اک بیّن نشاں ہوں

وفا کی رفعتوں کو چھو رہا ہوں
اِنہی پامالیوں کا آسماں ہوں

کون ہے دل میں دھڑکنوں کی طرح
کس کی آغوش کا خواہاں ہوں

تمہیں خود کی قسم اتنا بتادو
ستارہ ہوں کہ گردِ کارواں ہوں

کشتِ جاں کو سدا بہار کیا
اپنے خونِ جگر پہ نازاں ہوں

جسے دعوی ہو غوّاصی کا آئے
تلاطم خیز بحرِ بے کراں ہوں

غمِ جاناں کے مداوے کیلئے
ہر نفس محوِ غمِ دوراں ہوں​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے یہ تو بتا دوں کہ مستعمل بحر جو زیادہ تر مصرعوں میں استعمال ہوئی ہے، وہ ہے
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
(بحر کے نام کے لئے اوور ٹو وارث)
جب کہ کئی مصرعوں میں فاعلاتن مفاعلن فعلن بھی استعمال ہوئی ہے، کچھ مصرعے کسی بحر میں درست نہیں آتے۔
پہلی بحر سے خارج مصرع (جو ممکن ہے کہ دوسری بحر میں ہوں، لیکن اس غزل میں نہیں) وہ یہ ہیں:

ہزار نغمے ہیں موجِ نفس میں
کون ہے دل میں دھڑکنوں کی طرح
کس کی آغوش کا خواہاں ہوں
کشتِ جاں کو سدا بہار کیا
اپنے خونِ جگر پہ نازاں ہوں

اس کے علاوہ دو شعروں کے دونوں مصرعے ’ہوں‘ پر ہی ختم ہو کر ردیف کا شائبہ دیتے ہیں۔ ان کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ میں مشورہ دوں کہ پہلے تم ہی دوسرے مصرعے کہہ لو، تو میں دیکھ لیتا ہوں کہ درست ہیں یا نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اس پر منحصر ہے کہ آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔۔ اپنے گیت یا اپنی سانسیں۔۔۔ ویسے سانسیں بہتر ہے۔
 
Top