تنقيدي محفل

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
شاکر صاحب یہ موضوع بہت دلچسپ ہے۔۔ لیکن میں کچھ لکھنے کی اہل نہیں ہوں۔۔۔صرف پڑھا کروں گی۔۔آپ کی غزل اچھی ہے۔۔لیکن مجھے ذاتی طور پر نظم اچھی لگتی ہے۔۔غزل ایک تو میری سمجھ میں نہیں آتی اور پھر دیا لیا گیا کے چکر میں انسان جو کہ پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنا دکھ کاغذ پر اتارنا چاہتا ہے۔۔قافیہ ردیف میں الجھ کر اور پریشان ہوجاتا ہے۔۔( یہ میرا ذاتی تجربہ ہے)

باقی آپ کی غزل کے فیصلہ کا انتظار رہے گا۔ : )

محترمہ آپ جس کو نظم کہتی ہے اس کو تو شعراء اکرم شاعری ہی نہیں مانتے اور جو اصل نظم ہے اس میں بھی کافی حد تک قافیہ ردیف ضروری ہے
 

امن ایمان

محفلین
فوٹو ٹیک81 ۔۔۔ >> بس۔۔اس کو پسند اپنی اپنی کہہ لیں۔۔۔امجد اسلام امجد اور فرحت عباس شاہ ۔۔وصی شاہ کی شاعری میں جس حد تک نظمیں ہیں۔۔۔اور جتنی یہ بکتی اور پسند کی جاتیں ہیں۔۔وہ آپ سب کو پتہ ہے۔۔۔ میرے نزدیک جو دل میں اتر جائے وہ بہترین شاعری ہے۔
اب اگر آپ سب میری ڈانٹ ڈپٹ کا ارادہ رکھتے ہیں تو پلیزز اسے ملتوی کردیں۔۔اس سے دھاگہ اپنے موضوع سے ہٹ جائے گا۔۔۔اور بعد میں پڑھنے والوں کو مشکل ہو گی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محترم جناب صدرِ محفل اعجاز عبید صاحب، گو یہ پامال سی بات سہی لیکن ایسے موقعوں پر ضرب المثل کی حد تک خدائے سخن کا جو مصرع پڑھا جاتا ہے حضور وہی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ آپ، ہم اور سبھی انہی کے قتیل ہیں

ع۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا

اور گزارشِ احوالِ واقعی بھی یہی ہے کہ عدیم الفرصتی کی بنا پر ادھر پہلے حاضر نہ ہو سکا گو اس تنقیدی محفل کے خیال سے غافل نہیں رہا۔

قبلہ محترم میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ خود کو اس قابل نہیں پاتا کہ کسی تنقیدی محفل کا حصہ بن سکوں کہ عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ تنقید سے مراد تنقیص ہے جو کہ بالکل بھی نہیں ہے اور اس بات سے بھی مجھے کلیتاً اتفاق ہے کہ تنقید کا حق اسے ہے جو موضوع بحث پر عبور رکھتا ہو اور صلاح والا اصلاح کے بھی قابل ہو اور ناچیز ان ہر دو میدانوں کا پیادہ ہے۔

خیر کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو رائے ہر گز نہیں بلکہ گزارشات بھی کہوں تو شاید مبالغے کا صیغہ درمیان میں آ جائے۔

شاعر، شاکر القادری صاحب، کی کاوش قابلِ تحسین ہے۔ اس غزل کی بحر (بحر خفیف) ایک خوبصورت بحر ہے اور مجھے ذاتی طور پر بھی بہت پسند ہے۔ (اوپر جس عذرِ گناہ کا ذکر کیا ہے وہ اسی کے متعلق ہے، بحر خفیف پر آج کل ایک مضمون لکھ رہا ہوں جو بھاری ہی ہوتا چلا جا رہا ہے انشاءاللہ جلد آپ کی خدمت میں پیش کروں گا)۔ فارسی اور ریختے کے اساتذہ سے لیکر ہمعصر اردو شعراء نے اس بحر کو خوب استعمال کیا ہے اور اس بحر میں اپنی انفرادیت قائم رکھنا واقعی 'کاوِ کاوِ سخت جانیہائے' ہے۔ شاعر اس پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس بحر کے آہنگ کو خوب نبھایا ہے۔

مولانا شبلی مرحوم 'شعر العجم' میں فرماتے ہیں کہ سترھویں صدی عیسوی کے آتے آتے، بیدل اور عرفی کے زمانے تک قدما وہ سب کچھ باندھ گئے جو کسی شاعر کے خیال میں آسکتا تھا سو اس زمانے میں 'تازہ گوئی' کی روایت پڑی جو بعد میں 'سبکِ ہندی' کے نام سے مشہور ہوئی اور نازک خیالی اور حسنِ تعلیل اسکی نمایاں خوبیاں ہیں۔ ان 'تازہ گو' شعرا نے استعارہ در استعارہ اور تشبیہ در تشبیہ کے وہ پیچ ڈالے کہ انکا کلام چیستان بن گیا۔ بعد میں آنے والوں میں غالب کو اسکا بھر پور احساس تھا اور اپنی ایک فارسی رباعی میں اسکی طرف اشارہ بھی کیا ہے کہ کہتے ہیں کہ اگلے سب کہہ گئے مگر میں اپنی طرز کا خود موجد ہوں۔ اسی خیال کو سیف الدین سیف نے کہا تھا کہ

سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

اس ساری تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر شاعرِ محترم کی غزل کے چاروں اشعار میں کوئی نئی بات نہیں تو یہ کوئی خفیف بات بالکل بھی نہیں، ہاں انہوں نے اس غزل میں اپنا الگ اندازِ بیاں دکھانے کی بھر پور اور کامیاب کاوش کی ہے۔

زیرِ بحث غزل کا مطلع سہلِ ممتنع کی اچھی مثال ہے

ہر طرف ہے اداس تنہائی
آ گئی مجھ کو راس تنہائی

ہاں اس شعر میں جو خیال ہے شاید وہ متضاد ہو گیا ہے کہ جب تنہائی راس آجاتی ہے تو پھر وہ اداس نہیں رہتی بلکہ بقولِ مومن

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

اس غزل کا دوسرا شعر

وہ کہ محوِ نشاطِ محفل ہے
اور مرے آس پاس تنہائی

شاید اس غزل کے باقی اشعار کی طرح بلند پایہ نہیں ہے اس میں مطلب کچھ ایسا ہوگیا کہ شاعر کو رشک بلکہ حسرت 'نشاطِ محفل' کی ہے۔

اب يہي چند اپنے ساتھی ہيں
آرزو، درد، ياس، تنہائی

میری نظر میں یہ شعر بیت الغزل ہے۔ آرزو، درد، یاس، تنہائی۔ قافیہ و ردیف کے ساتھ بٹھائے ہوئے الفاظ کیا رنگ جما رہے ہیں کیا سماں باندھ دیا ہے بلکہ بات محاکات تک جا پہنچتی ہے۔ اس بحر کا آہنگ اس مصرع میں عروج پر ہے۔ شاعری کا مقصد جیسے کا علما بیان کرتے ہیں کہ یہ ہوتا ہے کہ سننے والے پر بالکل وہی کیفیت طاری ہو جائے جو کہ شاعر کہ دل میں ہے اور اسکیلیے شاعری میں شدتِ جذبات از بس بہت ضروری ہیں۔ ہاں اس شعر کا مصرع اولٰی اس طرح کے شدتِ جذبات کا اظہار نہیں کر پا رہا جس طرح کے اظہار کے مصرع ثانی مقتضی ہے۔ اور یہ لفظ 'چند' سے پیدا ہو رہا ہے۔ شدتِ جذبات میں قطیعت شاید 'چند' کی بجائے 'صرف' کے لفظ سے دو چند ہو جائے۔

وحشتِ دل بڑہائے ديتی ہے
آرزو ناشناس تنہائی

آرزو ناشناس کی ترکیب اس شعر میں بہت جچ رہی ہے، بہت خوب ہے۔

مجموعی طور پر ایک انتہائی اچھی غزل ہے اور جیسا کہ شاعر محترم نے فرمایا کہ پرانی غزل ہے سو انکے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بھی دو آتشہ ہو گئی۔

اور آخر میں جناب اعجاز عبید صاحب ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اتنی محبت سے یاد کرتے ہیں کہ 'بن آئے نہ بنے'۔ آپ کی محبتوں اور خلوص کا بہت شکریہ جناب اعجاز صاحب۔
 

نوید صادق

محفلین
دوستو!!
یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
میں تو سوچ رہا تھا کہ اس دھاگہ پر بہت آراء آئیں گی۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسلہ رکتا نظر آتا ہے۔
ایک بات کہوں، صرف اتنا کہہ دینا کہ " یہ غزل اچھی ہے" ، یہ غزل اچھی نہیں" ، "یہ غزل یوں ہے"، "ووں ہے"
سب تنقید کے زمرے میں ہی تو آتا ہے۔ اور ہرگز مت سمجھئے گا کہ محض نقائص کی نشاندہی کرنا تنقید ہے، تعریف بھی تنقید کی ایک قسم ہے، یقین نہ آئے تو اعجاز بھائی او ہو!! صدرِ محترم سے پوچھ لیجے۔
تو ہو جائے ایک ایک جملہ شاکر صاحب کی غزل پر،
پہلے۔ ۔ ۔ ۔ چلئے شمشاد بھائی آپ!!!
 

نوید صادق

محفلین
اعجاز بھائی بلکہ صدرِ مجلس!!
میرا خیال ہے اب اس بحث کو سمیٹنا ہی ہو گا۔
کیونکہ میرا خیال ہے

"اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا"
 

الف عین

لائبریرین
اعجاز بھائی بلکہ صدرِ مجلس!!
میرا خیال ہے اب اس بحث کو سمیٹنا ہی ہو گا۔
کیونکہ میرا خیال ہے

"اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا"

ٹھیک ہے نوید۔ اگرچہ میری پہچان نئی ہے یہاں لیکن در اصل ہوں وہی پرانا ’استادِ محترم"۔ شاکر صاحب اور زرقا کی غزلیں پہلے ہی کاپی پیسٹ کر کے فائل بنا چکا تھا لیکن اب تک تفصیلی رائے تحریر کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ انشاء اللہ جلد ہی۔ یوں نوید تم نے بھی بہت اچھی طرح اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
الف عین صاحب!!
میں دراصل محفل میں ہی نسبتا" نیا ہوں، اس لئے ایسی باتیں کہہ گیا۔
شکریہ کہ آپ کو میری رائے پسند آئی۔
اور ہاں، آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔
 

نوید صادق

محفلین
اعجاز بھائی!
معذرت چاہتا ہوں، مجھے کم از کم ایک گھنٹے بعد دھیان آیا کہ الف- عین آپ ہیں، میں سمجھا کوئی اور صاحب ہیں۔

تو استادِ محترم! بسم اللہ کریں۔
 
میں خود مختلف دھاگوں پر یہ نئی پہچان دیکھ کر محو حیرت تھا کہ یہ کون رکن ہیں جن کی آٹھ ہزار سے زائد پوسٹس ہیں اور میں پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ :grin:
 

الف عین

لائبریرین
چلیے حاضر ہوں اب۔ دیر آید درست آید۔
پہلے تو یہ کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ اچھا شاعر اچھا ناقد نہیں ہوتا اور نہ اچھا ناقد اچھا شاعر۔ احتشام حسین اور آل احمد سرور دونوں اتنے اچھے شاعر نہیں تھے۔ خورشید الاسلام بہتر شاعر تھے اور اس لحاظ سے استثناء میں سے تھے کہ اچھے نقاد بھی تھے۔ خیر۔ مطلب یہ کہ میں تخلیق کار پہلے ہوں نوید صادق کی طرح۔ اس لئے میری تنقید کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے البتہ میری شاعری کو سنجیدگی سے لیں تو مشکور ہوں گا۔
شاکر صاحب کی نعتیں پہلے دیکھی تھیں اور پسند آئی تھیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ انھوں نے یہاں غزل پوسٹ کی ہے۔ نعتوں کے بارے میں میرا احساس تھا کہ اس میں شاکر صاحب کے احساسات زیادہ شدید تھے۔ مجھے وہ نعتیں اس غزل سے زیادہ پسند آئی تھیں۔ ویسے غزل تو اچھی ہے چھوٹی بحر میں، اور اگر سرسری طور سے پڑھ کر گزر جائیں تو بہت اچھی اور متاثرکُن لگتی ہے۔ لیکن ذرا تنقیدی نظر سے دیکھنے کی شعوری کوشش کی جائے تو کچھ خامیاں کھلتی ہیں۔

ہرطرف ہے اداس تنہائي
آگئي مجھ کو راس تنہائي
(یہ میں نے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ ا س لئے شاکر صاحب کی عربی ی کا استعمال اس میں در آیا ہے)
دونوں مصرعے علیحدہ علیٰحدہ بہت خوب ہیں۔ لیکن بطور ایک شعر کے دو مصرعے ہونے کے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ شاکر صاحب ان دونوں مصرعوں پر الگ الگ گرہیں لگائیں تو دیکھیں کیسی بات بنتی ہے۔

وہ، کہ محوِ نشاطِ محفل ھے
اور مرے آس پاس تنہائي
اچھا سیدھا سادہ شعر ہے، اگرچہ اس کا حسن محض اس ابہامی صورت میں ہے جو ’وہ۔ کہ‘ کے الفاظ میں آیا ہے۔ مطلب اگر صرف یہی لیا جائے کہ ایک جانب وہ موج منا رہا ہے، اِدھر میں تنہائی کے عذاب میں ہوں، تو یہ کافی انگریزی محاورے کے مطابق پلین جین Plain Jane ہو جاتا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ سوچیں کہ وہ، جو نشاط کی کیفیت میں ہے، ہم کو تنہا دیکھ کر خوش ہو رہا ہے، یا ہماری طرف دیکھ تک نہیں رہا ہے، یا۔۔۔۔۔ اور یہ سارے مفاہیم محذوف ہیں۔ وہ (کہ محوِ نشاطِ محفل ہے) ہماری تنہائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے۔ اس لئے یہ شعر اچھا لگا۔

اب يہي چند اپنے ساتھي ہيں
آرزو، درد، ياس، تنہائي
خیال کچھ ایسا اچھوتا بھی نہیں ۔لیکن اچھا لگتا ہے۔ البتہ اس پر فارسی لفظ ’چند‘ ہندی ’ساتھی‘ کے ساتھ چنداں اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ پہلے مصرعے کو بدل کر اور چند کی جائے ’بس‘ لفظ استعمال کیا جائے تو شعر بہت بہتر ہو سکتا ہے، میں خود تو درست مصرعہ لگا نہیں سکا، ممکن ہے شاکر صاحب کو بھی خیال آیا ہو لیکن کچھ فِٹ نہیں ہو سکا ہو یہاں۔

وحشتِ دل بڑھائے ديتي ہے
آرزو ناشناس تنہائي

آرزو نا شناس کی ترکیب مجھے بھی بہت پسند آئی۔ مجموعی طور پر بھی شعر اچھا ہے، وحشتِ دل میں اضافہ کیوں ہوتا ہے، یہ قاری کی سمجھ اور صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
 
Top