تم کیا جانو۔ آزادی کی قدر و قیمت..…ڈاکٹر صفدر محمود
اس دلچسپ کتاب کی تیزی سے ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس میں اپنے قارئین کو بھی شامل کرنا چاہئے کیونکہ سوانح عمریاں اور ذاتی یادداشتیں تاریخ کا حصہ ہوتی ہیں۔ انہیں جب دہائیوں یا صدیوں بعد پڑھا جائے تو ان میں گزشتہ دور کی تصویر ملتی ہے اور بعض اوقات ماضی کی جھلک دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ اگر آج ہم اندازہ کرنا چاہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں ہندوستانی مسلمانوں کے انگریزوں بارے کیا احساسات تھے، وہ ہندوستان پر انگریز حکومت سے کس قدر نفرت کرتے تھے اور ان میں آزادی کے حصول کے لئے کتنی تڑپ تھی تو اس کی تفصیلات جاننے کے لئے اُس دور کی یادداشتیں پڑھنی پڑیں گی۔ عام طور پر تحریک آزادی پر لکھی گئی کتابیں سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں کی سرگرمیوں اور سیاسی پیش رفت پر تو خوب روشنی ڈالتی ہیں لیکن عوامی جذبات کی پوری طرح عکاسی نہیں کرتیں اور نہ ہی عوامی حریت پسندی کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ مثلاً یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ بیسویں صدی کے آغاز میں نوجوان مسلمان انگریز غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے کس قدر بے چین تھے اور جنگ عظیم اوّل میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف ترکوں کا ساتھ دینے کے لئے جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر کتنی قربانیاں دیں، کس قدر صعوبتیں برداشت کیں اور کس طرح زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر خطرات سے کھیلتے رہے۔ اپنا روشن مستقبل، شاندار تعلیمی کیریئر اور والدین کی خواہشات اور خوابوں کو ٹھکرا کر اور زندگی کی آسائشوں کو ترک کر کے جلا وطنی کی خاک چھاننا، جہاد اور جنگوں میں حصہ لینا، جیلیں کاٹنا اور اجنبی زندگی گزارنا بہرحال کوئی آسان کام نہیں۔ ہماری موجودہ نوجوان نسل نہ اُن جذبوں سے آگاہ ہے اور نہ ہی اُنہیں علم ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم آزادی کے حصول کے لئے کس قدر قربانیاں دیں اور یہ کہ موجودہ آزادی ڈیڑھ صدی کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اُنہیں یہ بھی احساس نہیں کہ اس جدوجہد میں کسی نہ کسی انداز سے عام لوگوں کی اکثریت دن رات شامل رہی اور اپنی ذات کی حد تک آزادی کے چراغ جلاتی رہی۔ آج نوجوان کوشش بھی کرے تو اندازہ نہیں کر سکتا کہ غلامی کا دور کتنا خوفناک تھا، انگریز حکومت کتنی جابر، ظالم اور ہیبت ناک تھی اور انگریز حکومت کی انتظامیہ اور روزمرہ کی زندگی پر گرفت کتنی مضبوط تھی۔ میں جب دورِ غلامی کی ڈائریاں پڑھتا ہوں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں غلامی سے رہائی دلائی ۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے آزادی کے دور میں شعور کی آنکھیں کھولیں، پاکستانی پیدا ہوا اور انشاء اللہ پاکستانی ہی مروں گا۔ اس کتاب کے حوالے سے میرے لئے یہ بھی ایک حیرت تھی کہ ہم عام طور پر گورنمنٹ کالج لاہور کو سرکار کے وفاداروں کا کالج سمجھتے ہیں اور اسلامیہ کالج لاہور کو تحریک آزادی کا حصہ سمجھتے ہیں کیونکہ گورنمنٹ کالج انگریز سرکار کی ملکیت تھا جبکہ اسلامیہ کالج کو انجمن حمایت اسلام چلاتی تھی۔ اسلامیہ کالج کی تقریبات میں علامہ اقبال بھی مہمان ہوئے اور قائد اعظم بھی تشریف لائے جبکہ قائد اعظم گورنمنٹ کالج لاہور کی تقریب میں نہیں جا سکتے تھے۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ عام تاثر کے برعکس گورنمنٹ کالج لاہور کے ذہین اور لائق طلبہ بھی اُسی طرح جذبہ حریت کی آگ میں جل رہے تھے اور انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے خطرناک پہاڑی راستوں کے ذریعے لہولہان ہو کر افغانستان چلے جاتے تھے۔ مقصد انگریز کے خلاف جہاد تھا۔ اسی جذبے کی لہر بہت سے نوجوانوں کو ترکی لے گئی جہاں انہوں نے ترک فوج کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی مولانا عبید اللہ سندھی بھی تھے جو انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کر کے افغانستان اور روس چلے گئے۔ اس کتاب کے کچھ کردار مولانا سندھی سے روس میں ملے اور اُن کے ساتھ وابستہ رہے کیونکہ اُن کی منزل ایک ہی تھی اور جذبہ مشترک تھا۔
ظفر حسن آبیک کی آپ بیتی ”خاطرات“ جسے ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے مرتب کیا ہے اُن نوجوان طالب علموں کی کہانی ہے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں اعلیٰ درجے کے طالب علم تھے، اہلیت کی بنیاد پر وظیفے حاصل کرتے تھے اور والدین کی آنکھوں کی روشنی اور مستقبل کی روشن امیدیں تھے لیکن وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر انگریز کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لئے جلا وطنی اختیار کر گئے۔ اُن میں سے کچھ بیماریوں اور حادثات کا شکار ہو کر غیرممالک ہی میں پیوند خاک ہوئے اور بہت سے واپس نہ آ سکے۔ اے کاش ہماری نوجوان نسل پر آزادی کی قیمت آشکار ہو اور اُن میں یہ شعور اجاگر کیا جائے کہ نہ جانے کتنے ستاروں کا خون ہوا، کتنے گھروں کے چراغ بجھے تب کہیں جا کر آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ بقول علامہ اقبال #
خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن سحر کی روشنی میں آنکھیں کھولنے والے خونِ صد ہزار انجم سے ناآشنا ہیں۔
ظفر حسن کے بقول وہ گورنمنٹ کالج لاہور کا لائق اور وظیفہ خوار طالب علم تھا۔ 1912ء میں جنگ بلقان ہوئی۔ مسلمانوں میں بہت بے چینی پھیلی۔ ترکوں کی حمایت میں جلسے ہونے لگے۔ نوجوان طلبہ نماز فجر کے بعد مسلمانوں کی حالت زار پر آنسو بہایا کرتے تھے۔ ہمارے حلقہ احباب میں خوشی محمد، عبدالمجید، عبدالرشید، عبدالحمید، عبداللہ، شجاع اللہ اور غلام حسین شامل تھے۔ جب یورپی حکومتیں ترکوں کے خلاف برسر پیکار ہوئیں تو مسلمان طلبہ میں جذبات بھڑک اٹھے۔ ہم نے سوچا انگریزوں سے انتقام لیں اور گورنمنٹ کالج کو آگ لگا دیں۔ شجاع اللہ نے ایک رات کالج کے کلرک کے کمرے کی کھڑکی کا شیشہ مکا مار کر توڑا اور اُن کے ساتھیوں نے مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگا دی۔ جنگ بلقان ختم ہو چکی تھی۔ مسلمان طالب علموں میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور جذبات بڑھ گئے تھے۔ ہماری ہمیشہ یہی آرزو رہتی تھی کہ انگریزوں کے خلاف کارروائی کریں۔ ہم نے کہیں سے بم حاصل کرنے کی اور بم بنانے کا گُر سیکھنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ بالآخر ہمارے گروپ نے ترک وطن کا فیصلہ کیا اور دریائے راوی میں کشتی پر بیٹھ کر رازداری اور جہاد میں شرکت کا حلف قرآن شریف پر اٹھایا۔ اس گروپ میں گورنمنٹ کالج کے ایم اے کے طالب علم میاں عبدالباری، بی اے کے طالب علم شیخ عبدالقادر، عبدالمعید، اللہ نواز، شیخ عبداللہ، عبدالرشید، عبدالرحمن، غلام حسین اور ظفر حسن آبیک ، چیف کالج سے بی اے کا طالب علم عبدالخالق، اسلامیہ کالج سے بی اے کا طالب علم محمد حسن، میڈیکل کالج سے سیکنڈ ایئر کے طالب علم خوشی محمد، عبدالحمید، رحمت علی اور شجاع اللہ شامل تھے۔ بعد میں اس گروپ میں شاہ نواز اور عبدالحق بھی شامل ہو گئے۔ 5/فروری 1915ء بروز جمعہ کا دن ہجرت اور روانگی کے لئے مقرر ہوا۔
پانچ فروری کو پہلا قافلہ جمعہ کی نماز کے بعد اور دوسرا قافلہ رات کو روانہ ہوا تاکہ گرفتاری سے بچ سکیں۔ ہزارہ سے یہ قافلہ راتوں کے اندھیروں میں، دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا، پہاڑیوں ندی نالوں سے گزرتا ہوا، مسجدوں میں راتیں بسر کرتا اور بھوک کا مقابلہ کرتے ہوئے لہو لہان کس طرح افغانستان پہنچا اور پھر افغانستان میں اُن پر کیا بیتی، اُنہیں کن قیامتوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا یہ ایک ہوشربا داستان ہے اور ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ انگریز کی غلامی سے آزادی کے لئے قوم نے کس طرح قربانیاں دیں اور جذبہ آزادی کے پروانوں نے کس طرح اپنے خون سے آزادی کی فصل سینچی۔ افسوس کہ آزاد ملک میں پیدا ہونے والے آزادی کی قدر و قیمت سے واقف ہی نہیں !!
بشکریہ:روزنامہ جنگ
 

باباجی

محفلین
بہت خوب شیئرنگ حسیب نذیر گِل
بہت آسان لگتا ہے یہ آزادی کے بارے میں پڑھنا
جن پربیتتی ہے وہی جانتے ہیں
میں صاف الفاظ میں لعنت بھیجتا ہوں (انتظامیہ سے معذرت )
ان پر جو آج عالیشان ہوٹلوں میں بیٹھ کر مرغن کھانے کھاتے ہیں
یا اپنی بنائی ہوئے مساجد کے منبروں پر بیٹھ کر رٹا رٹایا سبق دہراتے ہیں
جو بھی ہے اور جیسا بھی ہے
ہے تو اپنا ملک جہاں ہم آزادی سےرہتے ہیں
یہی لوگ یہاں آزادی سے بیان بازی کرتے ہیں
آزادی سے اپنی مرضی کی مساجد بناتے ہیں
نا آزاد ہوتے تو کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟
رہتے وہاں اقلیت بن کر کسی جھونپڑ پٹی میں
 

arifkarim

معطل
ان نام نہاد لٹیرے نما سیاست دانوں کی غلامی کرنے سے بہتر تھا کہ بندہ مغلوں اور فرنگیوں کی غلامی کر لیتا! خیر اب پچھتانے کا کیا فائدہ!
 

ساجد

محفلین
ڈاکٹر صفدر محمود اچھا لکھتے ہیں لیکن ایک بات بڑی عجیب ہے کہ یہ سارے سابقہ بیورو کریٹ ریٹائر منٹ کے بعد ہی قوم کے درد میں کیوں بلبلاتے ہیں جب کرسی پر ہوتے ہیں تب تو یہ عوام کو جانور سے بھی بد تر سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ دورانِ سروس اپنا اور بچوں کا مستقبل محفوظ کر لینے کے بعد جب ریٹائر منٹ میں فراغت ہی فراغت ہوتی ہے تو قلم کی نوک سے عوام کے زخموں کو چھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ارے بابا اتنا مال سمیٹا ہے کوئی فلاحی ادارہ بناؤ ، عوام کی تعلیم کے لئے کوئی مفت معیاری تعلیمی ادارہ بناؤ ، اپنے اثر و رسوخ کو غریب کو انصاف دلانے میں لگاؤ ، مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی تنظیم بناؤ۔ غرض کوئی ایسا کام کرو جو تمہارے شایان شان ہو۔ یہ کیا کہ قلم پکڑا اور جلتی کڑھتی عوام کی بے بسی پر جملے بازی کر کے اپنے فرض سے خود کو سبکدوش سمجھ لیا۔
 

arifkarim

معطل
ڈاکٹر صفدر محمود اچھا لکھتے ہیں لیکن ایک بات بڑی عجیب ہے کہ یہ سارے سابقہ بیورو کریٹ ریٹائر منٹ کے بعد ہی قوم کے درد میں کیوں بلبلاتے ہیں جب کرسی پر ہوتے ہیں تب تو یہ عوام کو جانور سے بھی بد تر سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ دورانِ سروس اپنا اور بچوں کا مستقبل محفوظ کر لینے کے بعد جب ریٹائر منٹ میں فراغت ہی فراغت ہوتی ہے تو قلم کی نوک سے عوام کے زخموں کو چھیلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ارے بابا اتنا مال سمیٹا ہے کوئی فلاحی ادارہ بناؤ ، عوام کی تعلیم کے لئے کوئی مفت معیاری تعلیمی ادارہ بناؤ ، اپنے اثر و رسوخ کو غریب کو انصاف دلانے میں لگاؤ ، مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے کوئی تنظیم بناؤ۔ غرض کوئی ایسا کام کرو جو تمہارے شایان شان ہو۔ یہ کیا کہ قلم پکڑا اور جلتی کڑھتی عوام کی بے بسی پر جملے بازی کر کے اپنے فرض سے خود کو سبکدوش سمجھ لیا۔
بالکل درست۔ اپنے حسن نثار صاحب کو ہی لے لیں۔ آل اولاد ساری ملک سے باہر ہے۔ خود اکیلے فارم ہاؤس میں رہتے ہیں اور رات کو ٹُن ہوکر پوری قوم کو گالیاں دینا تو انکا روز کا معمول ہے۔
 
Top