تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو! بھولے بسرے چہرے!

فرقان احمد

محفلین
شوبز کی چمچماتی اور رنگین دنیا میں عام طور پر وہی افراد توجہ کا مرکز ٹھہرتے ہیں جو تواتر کے ساتھ نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں اور جو اک ذرا پردہء سکرین سے سرک جائیں تو گویا ذہن و دل سے بھی محو ہو جاتے ہیں۔ اس لڑی میں ایسے بھولے بسرے چہروں کو یاد کیا جائے گا جو کسی خاص وقت میں منظرنامے پر چھائے ہوئے تھے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بوجوہ پردہء سکرین سے غائب ہو گئے۔ رفتہ رفتہ ان کے عکس بھی دھندلاتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ وقت کی گرد میں کہیں گم ہو گئے۔ اس فہرست میں مرحومین کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے تاہم یاد رہے کہ اس لڑی میں ایسی شخصیات کو زیربحث نہ لایا جائے تو مناسب رہے گا جو اس نوعیت کی شہرت حاصل کر چکے ہیں کہ انہیں بھولے بسرے چہروں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
 

فرقان احمد

محفلین
واہ بھیا !
زبردست موضوع گفتگو ہے ،بلیک اینڈ وائٹ شوبز کی بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کو یاد کر کے اپنے گزر زمانے کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔
 
آخری تدوین:
screenshot_406.png

سکینہ سموں نے کراچی مرکز سے فنی سفرشروع کیا تواس وقت ٹی وی ڈراموں میں کام کرنیوالے بہترین فنکاروں کی فہرست بہت طویل تھی، لیکن سکینہ سموں نے اپنی عمدہ اداکاری سے نا صرف سینئراورساتھی فنکاروں سے داد حاصل کی بلکہ ناظرین کی بڑی تعداد کواپنا گرویدہ بنا لیا۔
 
روحی بانو !
بھارت کے مشہور طبلہ نواز اللہ رکھا کے گھر جنم لینے والی روحی بانو نے اپنی حقیقی اداکاری کے لئے ’پرائڈ آ ف پرفارمنس‘ سمیت بے شمار ایوارڈز جیتے لیکن پروفیشنل زندگی میں عروج دیکھنے والی روحی بانو کی ذاتی زندگی ناکام رہی۔
screenshot_410.png
 

فرقان احمد

محفلین
ستر اور اسی کی دہائی میں اداکار لیاقت درانی نے کئی ڈراموں میں یادگار کردار ادا کیا۔ مکالمے کی ادائیگی میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ایک ڈرامے میں ان کے کردار کا نام 'شمسی صاحب' تھا جو کہ ان کی پہچان اور حوالہ بن گیا۔ اب تو خیر بہت کم لوگ ان کے نام سے واقف ہوں گے!

13418893_1101240343281576_2321432061320479662_n.jpg
 
screenshot_412.png
خالدہ ریاست 70 اور80 کی دہائی کا ایک چمکتا ہوا تارہ جو اپنی ہم عصرخاتون فنکاروں، روحی بانو اور عظمیٰ گیلانی سے کسی طور بھی کم نہیں۔پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نامور اداکارہ عائشہ خان، خالدہ کی بڑی بہن ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اپنی ہم عصر ساتھی فنکاراؤں کے مقابلے میں انہوں نے کم کام کیا لیکن جو کردار ادا کیا، ایسا کیا گویا کہ یہ خالدہ ریاست نہیں بلکہ وہ کردار خود چیخ چیخ کر اپنی موجودگی ثابت کر رہا ہو۔ جید اور تجربہ کار فنکاروں کا اپنا ایک معیار ہوا کرتا ہے لیکن خالدہ کے ہاں معیار کا بھی ایک اپنا ہی معیار ہے۔وہ ایسے کہ انہوں نے اپنی اداکاری کا کوئی ایک معیار مقرر ہی نہیں کیا ۔ اُن کے ہاں تو ہر ایک ڈرامے اور ہر ایک کردار کا اپنا ہی علیحدہ معیار ہوا کرتا تھا۔ اداکاری میں کردار کواپنے اوپر حاوی کر کے سامنے لے آنا کوئی مذاق نہیں۔ دیوانگی کی حد تک کردار میں ڈوب کر اپنی روح کے کرب کو سامنے لانے کی شدید ترین تکلیف اور کسی کے بس کا روگ نہیں ۔
 

فرقان احمد

محفلین
screenshot_416.png
فریدنوازبلوچ کا شمار کراچی پی ٹی وی کے سینئر اداکاروں میں ہوتا تھا ، انہیں سنجیدہ اور مزاحیہ کردار ادا کرنے میں مہارت حاصل تھی اور سندھی وڈیرے کے کردار کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ انہوں نے پی ٹی وی کے بے شمار ڈرامہ سیریلز میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے ۔
 
screenshot_418.png
آغا طالش ایک مشہور پاکستانی اداکار تھے۔ ان کا اصل نام آغا علی عباس قزلباش تھا وہ 5 جنوری 1927ء کو لدھیانہ بھارت میں پیدا ہوئے۔
اپنے چالیس سالہ فلمی کیرئیر میں بے شمارپاکستانی فلموں میں کئی یادگار کردار ادا کرنیوالے آغا طالش19 فروری 1998کو انتقال کرگئے مگر ان کی اداکاری مداحوں کو آج بھی یاد ہے۔
 
screenshot_420.png

سلیم ناصر 15 نومبر، 1944ء کو ضلع مردان کے پشتون سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید شیرخان تھا اور اپنی زبان پشتو ہونے کے باوجود اردو پر انہیں کمال عبور حاصل تھا یہی وجہ تھی کہ اکثر لوگ انہیں پشتو بولتا دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ گریجویشن کے بعد وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی میں بحیثیت افسر شعبہ تعلقات عامہ لگ گئے، مگر اس شعبے کو اپنی منزل نہ سمجھتے ہوئے اداکاری کے شعبے کی طرف مائل ہوگئے۔ سلیم ناصر نے اپنی فنی زندگی کا آغاز پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور مرکز کے ایک ڈرامے لیمپ پوسٹ سے کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے تقریباً 400 انفرادی ڈراموں اور 27 سیریلز میں کام کیا۔ ان کے مشہور ٹی وی سیریلز میں سفید سایہ، جھوک سیال، پل، زنجیریں، جزیرہ، دستک، بندش، آخری چٹان،ان کہی، آنگن ٹیڑھا اورجانگلوس کے نام سرفہرست تھے۔سلیم ناصر نے دس فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے جن میں ایک پنجابی فلم بھی شامل تھی۔
 
screenshot_422.png

جمیل فخری نے فنی سفر کا آغاز تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں سے کیا۔ٹی وی ڈراموں میں قدم رکھا تو متاثر کن اداکاری سے لاکھوں دلوں پر راج کرنے لگے۔ شہرہ آفاق ڈرامے ’’اندھیرا اجالا‘‘ میں انسپکٹر جعفر حسین کا دلچسپ کردار انہیں امر کر گیا۔
’اندھیرا اجالا‘ ہی نہیں، ’وارث‘،’ لازوال‘،’ جنجال پورہ‘،’ دلدل‘ اور دیگر کئی ڈراموں کے کردار بھی انتہائی مقبول ہوئے۔
 

فرقان احمد

محفلین
طلعت اقبال 1968ء سے ڈراما انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ طلعت اقبال کو ڈراما سیریل "آخری چٹان" میں "طاہر بن یوسف" کے کردار سے خوب شہرت ملی۔ بیس برس سے دیارِ غیر میں مقیم تھے جہاں ان کی اہلیہ سنبل طلعت اقبال کا 2014ء میں انتقال ہوا۔ گزشتہ برس وہ پاکستان پلٹ آئے۔ ممکن ہے ہم انہیں جلد دوبارہ کسی ڈرامہ سیریل میں اداکاری کرتے ہوئے دیکھ پائیں۔
22045812_1652330938172511_7510681390047034811_n.jpg

 

فرقان احمد

محفلین
بارعب شخصيت اور گرجدار آواز کے مالک افضال احمد کا نام ايک دور ميں ڈرامے اور فلم کی کامیابی کا ضامن تھا۔ ٹی وی، فلم اور تھیٹر ہر جگہ افضال احمد اپنی مثال آپ تھے۔ تھیٹر پلے جنم جنم کی میلی چادر نے انہیں مقبولیت کی نئی بلندیوں پر پہنچایا ليکن اب لاچارگي کا ايسا عالم ہے کہ 6 فٹ کا شخص وہيل چيئر پر ہے اور جاندار مکالمے ادا کرنیوالا اب بولنے سے بھی قاصر ہوچکا ہے۔ 2001ء میں افضال احمد پر فالج کا حملہ ہوا جس کے بعد مشکلات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہوگيا، بيماری کے دوران چند دن تو شوبز کے ساتھيوں نے ہمت بڑھائی ليکن پھر نہ تو کبھی پرانے ہمدم پوچھنے آئے نہ ہی حکومتی نمائندوں نے حال جانا۔ فلم ٹی وی اور تھيٹر پر اپنی صلاحيتوں کے جوہر دکھانیوالے افضال احمد بلاشبہ نوجوان نسل کیلئے اکيڈمی کا درجہ رکھتے ہيں اور فنکار برادری کا مطالبہ ہے کہ حکومت کوئی ايسا لائحہ عمل بنائے جس کے ذريعے ماضی کے ان ستاروں کو بڑھاپے ميں در بدر کی ٹھوکروں سے بچايا جاسکے۔

ربط

22045812_1652330938172511_7510681390047034811_n.jpg
 
screenshot_424.png
راحت کاظمی کا شمار انتہائی پڑھے لکھے فنکاروں میں ہوتا ہے پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے پڑھے لکھے اداکاروں میں ایک نام راحت کاظمی کا بھی ہے جو 30 جون 1946ءمیں بھارت کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔ 1968ءمیں سول سروس جوائن کی اور انفارمیشن آفیسر مقرر ہوئے تاہم 1976ءمیں اس نوکری سے استعفیٰ دیدیا ۔1976 میں نوکری سے استعفی دے کر اداکاری شروع کر دی۔ راحت کاظمی نےپاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے قُربتیں اور فاصلے، تیسرا کنارا، پرچھائیاں، ذِکر ہے کئی سال کا، ننگے پاؤں وغیرہ میں کامیاب اور لازوال اداکاری کے جوہر دیکھ لائے۔ راحت کاظمی نے کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں بطور استاد بھی خدمات انجام دی ہیں ۔
 
screenshot_426.png

عظمیٰ گیلانی پاکستان کی مشہور اداکارہ عظمیٰ گیلانی کا تعلق دہلی کے ایک ذی علم گھرانے سے ہے تاہم ان کی پیدائش میرٹھ کی ہے۔ عظمیٰ گیلانی کی فنی زندگی کا آغاز اشفاق احمد کی سیریز قلعہ کہانی کے کھیل ’’پاداش‘‘ سے ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے لاتعداد سیریلز، سیریز اور انفرادی ڈراموں میں کام کیا جن میں نشیمن، ایک محبت سو افسانے ، الف لیلہ، وارث، سمندر، دہلیز، دھوپ جلی ، پناہ ، امربیل، تجھ پہ قربان اور خالی آنکھیں کے نام سرفہرست ہیں۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کی پہلی اداکارہ تھیں جنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں 23 مارچ 1980ء کو ملا۔ عظمیٰ گیلانی کے افسانوں کا مجموعہ ع عورت، م مرد اور سوانح عمری ’’جو ہم پہ گزری‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے ، ان دنوں وہ آسٹریلیا میں مقیم ہیں ۔
 
screenshot_428.png

بیگم خورشید مرزا 4 مارچ 1918ء بھارت کی سابق فلمی اداکارہ اور پاکستان ٹیلی وژن کی ممتاز فنکارہ بیگم خورشید مرزا کی تاریخ پیدائش ہے۔ بیگم خورشید مرزا کا اصل نام خورشید جہاں تھا اور ان کا تعلق علی گڑھ کے ایک ممتاز گھرانے سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ ان کی دیگر بہنیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔ خورشید جہاں کی شادی، سترہ برس کی عمر میں ایک پولیس آفیسر اکبر حسین مرزا سے ہوئی۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ بمبئی میں دیویکارانی اور ہمانسورائے کے فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ ان کے توسط سے جب دیویکا رانی کی ملاقات خورشید جہاں سے ہوئی تو انہوں نے انہیں اپنی فلموں میں اداکاری کی دعوت دی۔ یوں خورشید جہاں نے رینوکا دیوی کے نام سے فلموں میں کام کرنا شروع کردیا۔ ان کی مشہور فلموں میں جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی شامل تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد خورشید جہاں، جو اب بیگم خورشید مرزا بن چکی تھیں پاکستان آگئیں اور انہوں نے یہاں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ریڈیو کے کئی پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی۔ ٹیلی وژن پر ان کی مشہور سیریلز میں کرن کہانی، زیر زبر پیش،انکل عرفی، پرچھائیں، رومی،افشاں اور انا کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ڈرامہ ماسی شربتے میں بھی ان کا کردار بڑا یادگار سمجھا جاتا ہے۔1984ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شائع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی لبنیٰ کاظم نے تحریر کی ہے۔ 8 فروری 1989ء کو بیگم خورشید مرزا لاہور میں وفات پاگئیں اور میاں میر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں ۔
 
Top