تبسم تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر ۔ صوفی تبسم

فرخ منظور

لائبریرین
تمھی کہو کہاں لے جائے کوئی جنسِ ہنر
نہ تجھ میں ذوقِ نظر ہے نہ مجھ میں ذوقِ نظر

بھٹک کے رہ گئی منزل پلٹ گئے راہی
نہ جانے ختم کہاں ہو گا رہبروں کا سفر

ہوا کا ہلکا سا جھونکا ہو، کانپ جاتے ہیں
یہ سوکھے پتے ہیں، ان کھنکھناہٹوں سے نہ ڈر

کبھی تو آ کے زمیں کے نشیب زار بھی دیکھ
کبھی تو اپنے فلک کی بلندیوں سے اُتر

تہی خدائی خرابوں کے کیوں نہ ہوں کشکول
کہ اب تراوش سلویٰ رہی نہ بارشِ زر

میّسر آئے اسے کیسے جستجوئے خُدا
ابھی تلاشِ بشر ہی میں گھومتا ہے بشر

یہ کس جہاں کی خبریں سنا رہا ہے تُو
نہ تجھ کو میری خبر ہے نہ مجھ کو تیری خبر

ہمارے حال سے یہ بے نیازیاں یارب
کہ ایک ذرّہ بھی ہوتا نہیں اِدھر سے اُدھر

ہمارے حالِ شب و روز پر تبسّمؔ آج
نہ جانے کس لیے خندہ زناں ہیں شمس و قمر

(صوفی تبسمؔ)
 
Top