تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے - برائے اصلاح

تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
وہ ہے رنگین اک دهوکہ فقط اور عاشقی کیا ہے

وہ امیدوں کی سب شمعیں بجهاتا جا رہا ہے تو
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے

بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
کهلا یہ راز یوں کہ آرزو اک ان کہی کیا ہے

یا حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے

وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہی تو ہے بے خودی کیا ہے

پلٹتے ہیں مرے دن یوں ہوئے دشمن مرے اپنے
یہی بس دیکھ کر جانا ہے کہ آخر مخلصی کیا ہے

بے ایمانی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں پر تو
مرے اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے

وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
وہ ہے رنگین اک دهوکہ فقط اور عاشقی کیا ہے
÷÷دوسرا مصرع کمزور ہے، نثر میں سمجھنا چاہیں تو یوں ہے کہ عاشقی سوائے ایک رنگین دھوکے کے اور کچھ نہیں۔ اول اس تشبیہ کو بدل دیجے کہ عاشقی اور رنگین دھوکہ برابر ہیں، یہ کسی ہندی گانے میں استعمال ہوئی تھی جہاں تک مجھے یا دپڑتا ہے۔ اس کے بعد ہی کچھ کہہ سکوں گا۔
وہ امیدوں کی سب شمعیں بجهاتا جا رہا ہے تو
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
÷÷ وہ امیدوں کی سب شمعیں بجھا کر جا چکا کب کا۔۔۔۔
بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
کهلا یہ راز یوں کہ آرزو اک ان کہی کیا ہے
÷÷ اول تو کہ اس میں کے ہوگیا ہے جو مجھے جائز نہیں لگتا۔ اور مصرع ثانی کمزور اس لحاظ سے بھی ہے کہ اگر اس کو نثری جملہ بھی سمجھیں تو یہ جملہ بے ربط ہوگیا ہے۔یوں مجھ پر منکشف ہے اک تمنا ان کہی کیا ہے، ہوسکتا ہے۔
یا حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے
÷÷ پہلے مصرعے میں پہلے یا کاالف گر گیا جو جائز نہیں۔ اس کی جگہ یہ لکھ سکتی ہیں۔ یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں۔۔ یوں مصرع تو مکمل ہوجائے گا، لیکن بندگی کا ان سب سے کوئی تعلق نہیں۔ معنوی اعتبار سے مسئلہ ہے۔
یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں ۔۔ صلہ یہ بندگی کا ہے تو آخر بندگی کیا ہے؟ ۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔
وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہی تو ہے بے خودی کیا ہے
÷÷÷ مگر یہ ہوش میں آنا ہے، پھر یہ بے خودی کیا ہے؟ ÷÷ شاید معنی بدل دے لیکن قدرے بہتر لگ رہا ہے اس وقت۔۔
پلٹتے ہیں مرے دن یوں ہوئے دشمن مرے اپنے
یہی بس دیکھ کر جانا ہے کہ آخر مخلصی کیا ہے
÷÷ اول تو دن پلٹنا مثبت بات لگتی ہے مجھے، پھر مخلصی کیا کا سوال نہیں تھا۔ شاعرہ کو پوچھنا چاہئے مخلصی کب ؟ لیکن ردیف مجبور کرتا ہے کہ کب کو کیا کیاجائے، یہ درست نہیں۔
بے ایمانی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں پر تو
مرے اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
÷÷بے ایمانی میں بے کا ے گر گیا، جائزہے کہ نہیں، الگ بات۔ لیکن رواں نہیں لگتا۔ اور دوسرے مصرعے میں مرے کی جگہ مگر لکھا جائے تو بہتر ہوگا۔
وہ یہ کہتا ہے اس جگ میں نہیں دوجا کوئی مجھ سا
نہیں ہے یہ اگر تو پهر کہو کہ سادگی کیا ہے
÷÷ سادگی سے پہلے جو کہ ہے، وہ کے ہوچکا ہے، یہ بھی جائزیا ناجائز؟؟ دوجا، ہندی ہے، بہتر ہے بدلاجائے: وہ یہ کہتا ہے دنیا میں نہیں ہے دوسرا مجھ سا۔۔۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ نہیں یہ سادگی اس کی تو آخر سادگی کیا ہے؟ ÷÷÷ ممکن ہے۔
 

بہت شکریہ!
جی آپ کی تمام باتوں پر غور کروں گی.
میں اتنے ہندی گانے نہیں سنتی کہ ان سے inspiration لوں :( ایک سے لے کر ایک غزل لکھی تهی مگر اس گانے کی شاعری تهی بهی بہت اچهی :)

دن پلٹنے والے شعر میں یہ ہی کہنے کی کوشش کی ہے. دراصل ایسا ہوا ہے ابهی حال میں.کل تک کے دشمن آج کے "دوست" سو حالات کل پهر پلٹ سکتے ہیں. اب ہر دوست میں دشمن نظر آتا ہے. اور یہ کہ دشمنی بهی کی جائے تو sincerely کرنی چاہیئے ؛)
 

الف عین

لائبریرین
شاہد کی اکثر باتوں سے متفق ہوں، یہ ’کہ‘ اور ’نہ‘ کو دو حرفی بنانا چھوڑ دو تو اچھا ہی ہے،
اس کے علاوہ ’پہ‘ کے بارے میں میرے تحفظات ہیں۔ درست استعمال ’مگر‘ کے لئے ہوتا ہے، اور بمعنی’ پر‘ کی کچھ استثنائی سورتوں میں ہی اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حرفی ہی بندھے تب۔ بطور دو حرفی جب ’پر‘ کے معنوں میں ہو، تو پھر ’پہ باندھنے کی ضرورت کیا ہے؟
بہر حال شاہد کی اصلاح پر غور کر کے کچھ تبدیلیاں کر سکو اور پوسٹ کرو تو میں اس کو دیکھ لوں گا۔
 
بے ایمانی والے شعر کو کیسے ٹھیک کروں؟ "مرے" کی جگہ "مگر" واقعی بہت اچھا لگے گا شکریہ جناب شاہد شاہنواز صاحب۔

پلٹتے ہیں مرے دن تو بنے اپنے تھے جو دشمن
یہی بس دیکھ کر سوچا کہ کس کی مخلصی کیا ہے۔۔۔

پتہ نہیں ایسے کوئی مطلب بنتا ہے یا نہیں۔

سر الف عین جی آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
 
شاہد کی اکثر باتوں سے متفق ہوں، یہ ’کہ‘ اور ’نہ‘ کو دو حرفی بنانا چھوڑ دو تو اچھا ہی ہے،
اس کے علاوہ ’پہ‘ کے بارے میں میرے تحفظات ہیں۔ درست استعمال ’مگر‘ کے لئے ہوتا ہے، اور بمعنی’ پر‘ کی کچھ استثنائی سورتوں میں ہی اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حرفی ہی بندھے تب۔ بطور دو حرفی جب ’پر‘ کے معنوں میں ہو، تو پھر ’پہ باندھنے کی ضرورت کیا ہے؟
بہر حال شاہد کی اصلاح پر غور کر کے کچھ تبدیلیاں کر سکو اور پوسٹ کرو تو میں اس کو دیکھ لوں گا۔

جی سر کرتی ہوں تبدیلیوں کے بعد پوسٹ۔ بہت شکریہ!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
بے ایمانی والے شعر کو کیسے ٹھیک کروں؟ "مرے" کی جگہ "مگر" واقعی بہت اچھا لگے گا شکریہ جناب شاہد شاہنواز صاحب۔

پلٹتے ہیں مرے دن تو بنے اپنے تھے جو دشمن
یہی بس دیکھ کر سوچا کہ کس کی مخلصی کیا ہے۔۔۔

پتہ نہیں ایسے کوئی مطلب بنتا ہے یا نہیں۔

سر الف عین جی آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
نہیں۔ مخلصی کا قافیہ چھوڑ دیاجائے تو اچھا ہوگا۔۔۔ مجھے اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بقول شخصے: کیسا سرمہ لگا لیا اس نے، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔

ہے بے ایمانی، حق تلفی ہے، چوری ہے جہاں دیکھیں
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے۔۔۔
۔۔۔ بے ایمانی توٹھیک ہوگیا، کچھ اور رہ گیا ہو تو معلوم نہیں ۔۔۔​
 
نہیں۔ مخلصی کا قافیہ چھوڑ دیاجائے تو اچھا ہوگا۔۔۔ مجھے اس کی کوئی صورت نظر نہیں آتی بقول شخصے: کیسا سرمہ لگا لیا اس نے، کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔

ہے بے ایمانی، حق تلفی ہے، چوری ہے جہاں دیکھیں
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے۔۔۔
۔۔۔ بے ایمانی توٹھیک ہوگیا، کچھ اور رہ گیا ہو تو معلوم نہیں ۔۔۔​

ٹھیک ہے، مخلصی والا شعر نکال دیتی ہوں۔
دوسرے شعر کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت بہت شکریہ
 

باباجی

محفلین
گو کہ میرا تجربہ کچھ نہیں
لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ مطلوبہ تبدیلیوں کے بعد
یہ کلام اور با معنی و پُر اثر ہوجائے گا

بہت اچھی کوشش
اورجاری رکھیئے کہ آپکو لفاظی آتی ہے
یہ استادادانِ گرامی کی مہربانی ہے کہ ہمیں مخلصانہ سکھاتیں ہیں
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شکریہ جناب :) مگر عمدہ کہاں ہے بہت سی غلطیاں ہیں. .
بہت سی غلطیاں صرف کہیں کہیں ہیں جن سے بہرحال کم تجربہ ہونے کی وجہ سے آگے بھی سامنا ہوگا۔ لیکن حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ آپ کا کلام کہاں عمدہ ہے، یہ بتائے بغیر اتنا کہہ دینا کافی ہوگا آپ کے لیے کہ کہیں کہیں تو ضرور عمدہ ہے۔ ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ عمدگی بڑھے گی اور غلطیاں کم ہوجائیں گی ان شاء اللہ۔۔۔
 
اب اس غزل کا یہ بن چکا، دو اشعار اڑا دیئے ہیں:

تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
یہ شیوا ہے دیوانوں کا فقط اور عاشقی کیا ہے



وہ امیدوں کی سب شمعیں بجها کر جا چکا کب کا
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے



بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
یوں مجھ پر منکشف ہے اک تمنا ان کہی کیا ہے



وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہے پهر یہ بے خودی کیا ہے



دغا بازی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو!
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے


یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے


جناب شاہد شاہنواز صاحب، جناب الف عین صاحب

 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اب اس غزل کا یہ بن چکا، دو اشعار اڑا دیئے ہیں:

تماشا ہے یہ لفظوں کا وگرنہ شاعری کیا ہے
یہ شیوا ہے دیوانوں کا فقط اور عاشقی کیا ہے
۔۔۔ اگر دیوانوں کا یے گرانا ہی مقصود ہے تو دِوانوں کا لکھ سکتی تھیں کیونکہ بعض ہندوستان کے شعراء کو اور اپنے دوست اسد اللہ اسد کو یہ کرتے دیکھا ہے۔ اور اگر نہیں گرانا اور نہ گرانا ہی بہتر ہے تو ایسا بھی کرسکتی ہیں:
یہ دیوانوں کا شیوہ ہے فقط اور عاشقی کیا ہے ۔۔۔ لیکن معنوی اعتبار سے یہ کوئی بہت اچھا مطلع نہیں کہاجاسکتا۔۔۔۔ اور اس کی ایک صورت جو شاعری سے جوڑنے کی مجھے سمجھ میں آتی ہے، اس سے بھی میں مطمئن نہیں یعنی:
یہ دیوانوں کا شیوہ ہے ، سخن کی عاشقی کیا ہے ۔۔۔ دیکھئے استاد محترم کیا کہتے ہیں ۔۔۔



وہ امیدوں کی سب شمعیں بجها کر جا چکا کب کا
مرے گهر میں مگر پھیلی ہوئی یہ روشنی کیا ہے
÷÷درست



بہت خاموش بیٹھے تهے وہ میرے نام پہ چونکے
یوں مجھ پر منکشف ہے اک تمنا ان کہی کیا ہے
÷÷ مزید بہتر شاید ۔۔۔ شاید یہ ہو ’’ہوا یوں منکشف مجھ پر تمنا ان کہی کیا ہے ۔۔۔ ‘‘



وہ مجھ پہ کهل رہے ہیں راز کہ دیوانہ کرتے ہیں
مگر یہ ہوش میں آنا ہے پهر یہ بے خودی کیا ہے
۔۔۔کہ پہلے مصرعے میں پھر کے کی طرح پڑھاجارہا ہے۔ اسے تبدیل کرنا پڑے گا۔۔۔
÷÷اگر یہ ہوش میں آنا ہے تو پھر بے خودی کیا ہے؟



دغا بازی ہے حق تلفی ہے چوری ہے یہاں ہر سو!
مگر اس شہر میں پھیلی ہوئی یہ خامشی کیا ہے
÷÷ پہلا مصرع ویسے تو ٹھیک ہے بس ہے اور حق تلفی مل کر کچھ ححق تلفی جیسا منظر پیش کررہے ہیں، یہ جائز ہے تو ایسے ہی رہنے دینا درست ہوگا۔
یہ حوریں ہیں، محل ہیں یا ہیں میٹھے دودھ کی نہریں
خدا کو ہی منانا ہے فقط اور بندگی کیا ہے
۔۔۔ معنوی اعتبار سےقابل غور ہے۔ بندگی کا صلہ حوریں، محل اور میٹھے دودھ کی نہریں ہوتی ہیں۔ بندگی خدا کو منانے کا نام ہے۔ آپ اگر یہ کہنا چاہتی ہیں کہ خدا کو منانے کا صلہ طلب نہیں کرنا چاہیے تو یہ واضح نہیں۔ ایک واضح بات علامہ اقبال نے فرمائی ہے، وہ بھی ملاحظہ کرلیں شاید آپ کو کچھ مدد ملے:
سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے۔۔۔ اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے۔۔۔

جناب شاہد شاہنواز صاحب، جناب الف عین صاحب
 
Top