تلاشِ گمشدہ

بھلکڑ

لائبریرین
مہاراجہ کون ہے پہلے یہ بتائیں نا مجھے ذرا :eek:
اوہ یس ایک رُکن واپس آگیا ۔۔۔۔آگیا۔۔۔۔
سئیو نی میں لُڈیاں پاواں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاااااااااااااااااااااااااااااااااااااا
مہاراجہ سے انعام لے کر پھر آپ سے جرمانہ لوں گا۔۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
فلک شیربھائی میرے لیے اس قدرNegativity برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے - مجھ سے مناظروں کا حصہ نہیں بناجاتا ہے اورنہ ہی
دنگل دیکھے جاتے ہیں لہذا اپنی عافیت مجھے کنارہ کشی میں ہی نظرآتی ہے -کب تک اورکتنا نظرانداز کیا جاسکتا ہے
جب منفی رویےاورلہجے آپ کوaffect کرنے لگیں اورآپ تکلیف سے دوچارہونے لگیں تو ایسے میں خروج بہترہے -
دعاؤں میں یاد رکھیے گا -

منفیت ہمیشہ اپنے اثرات مرتب کرتی ہے جیسا کہ مثبیت کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کا وجود اک دوسرے سے قائم ہے۔ منفیت کو قتل کر دیجئے۔ مثبیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔ اک کا قائم ہونا پوری آب و تاب کے ساتھ ہی دوسرے کی بقاء کا ضامن ٹھہرتا ہے۔ تو ایسے میں جب منفیت پھیلانے والے اپنے طرز فکر اور عمل پر شان و شوکت سے قائم ہیں۔ تو مثبت طرز فکر رکھنے والے کیوں اپنی سوچوں کو محدود کیے جاتے ہیں۔ کیوں کچھوے کی مانند خول میں گردن چھپاتے ہیں۔ گردن چھپا لینے سے آنکھیں بند کرنے سے اندھیرے چھٹتے نہیں اور بڑھتے ہیں۔ گر اندھیرے کا وجود ختم ہوجائے تو روشنی کی قدر اٹھ جائے۔ میرے لیے اچھنبے کی بات ہے زبیر مرزا بھائی کہ آپ جیسا صاحب علم اور مثبت اقدار کا حامل شخص یوں چند راہ کے پتھروں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر حقائق سے نظریں چرانا چاہ رہا ہے۔ حالانکہ وہ ان سب کو اک مسکراہٹ کے ساتھ دفن کر سکتا ہے۔ جبکہ یہ اس کی راہ کی رکاوٹیں بھی نہیں۔ ساتھ کے گاؤں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے گاؤں میں صلح جوئی کا درس دینا بنتا ہے۔ نہ کہ اپنا گاؤں چھوڑ دینا بنتا ہے کہ اب ادھر بھی لڑائیاں ہونگی۔ میں جانتا ہوں کہ تخیل کا پرندہ ہمیشہ خوف کی اڑان بھرتا ہے کہ اندیشے اس کی جنم بھومی ہوتے ہیں۔ لیکن روشنی تخیل نہیں۔ وہ اک اٹل حقیقت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔ اور ہم جیسے نوآموز مراسلہ نویسوں کو آپ کی رہنمائی حاصل رہے گی۔

تارے کھا کھا پھٹیاں راتاں​
تاں نیں دن تو چٹیاں راتاں​
سورج نئیں میں قلم وکھائی​
دو دو ہتھی پٹیاں راتاں​
نہیں، @زبیرمرزا صاحب، آپ کی سوچ یک طرفہ ہے۔ سیاسی اور مذہبی مناظروں کے علاوہ اور بھی تو موضوعات ہیں۔ آپ نے مجھے کبھی کسی سیاسی یا مذہبی بحث میں کچھ لکھتے دیکھا؟ اسی طرح اور بھی کئی مہربان ہیں جو خاموش رہتے ہیں۔ آپ ایسے موضوعات سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دیگر لطیف دھاگوں میں بھی تو حصہ لے سکتے ہیں۔ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں، کیونکہ ہم آپ کے مفید مراسلات کے انتظار میں رہتے ہیں۔
@ سید زبیر
راشد اشرف
فلک شیر
نیلم
نیرنگ خیال
صد متفق سر :)

زبیر مرزا
اگر محفل میں نیگٹیویٹی ہے تو آپ پوزیٹویٹی سے وہ نیگیٹوٹی بےشک ختم نہیں کرسکتے لیکن کم از کم آپ محفل کو اپنی پوزیٹیوٹی سے بھی محروم نہ کرئے ۔:) ۔آئیں اور پوزیٹیوٹی کو پھیلائے ۔ایک سائیڈ پہ ہوجانا مسئلے کا حل تو نہیں
ہوتا :)
،،،،

خوب کہا نیلم۔۔۔

غلبےکی تمنا اور اپنا آپ منوانے کی ہوس انسان کی جبلت میں شامل ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ چاروں سمت پھیلی منفیت کا ایک بڑا حصہ اسی کا ثمر ہے..... گاہے انسان دعوٰی کرتا ہے اور اس قدر بلند کہ ہمالیہ کا سلسلہ اُس کے سامنے ہیچ ہو.......اور گاہے وہ اپنے جہل، جسے وہ علم گردانتا ہے، پہ اصرار کرتا ہے اور بے پناہ اصرار .....
اہل علم اور اہل ادب ان حالات میں ایک مسکراہٹ بکھیرتے ہیں.......اور آگے قدم بڑھا دیتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔انہیں زیب ہی یہی دیتا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ان کے ذمے روشنی پھیلانا ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔صبر اور علم پہ استوار عاجزی کے ساتھ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اللہم یبارک فیک یا اخی الکریم۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
حاضری ہوا کرے گی اب باقاعدہ:):):)

میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔ اک اضافہ اس میں کہ

موسم ہمالہ کے دامن میں بدلتے ہیں چوٹی پر نہیں۔۔۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
منفیت ہمیشہ اپنے اثرات مرتب کرتی ہے جیسا کہ مثبیت کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کا وجود اک دوسرے سے قائم ہے۔ منفیت کو قتل کر دیجئے۔ مثبیت اپنی موت آپ مرجائے گی۔ اک کا قائم ہونا پوری آب و تاب کے ساتھ ہی دوسرے کی بقاء کا ضامن ٹھہرتا ہے۔ تو ایسے میں جب منفیت پھیلانے والے اپنے طرز فکر اور عمل پر شان و شوکت سے قائم ہیں۔ تو مثبت طرز فکر رکھنے والے کیوں اپنی سوچوں کو محدود کیے جاتے ہیں۔ کیوں کچھوے کی مانند خول میں گردن چھپاتے ہیں۔ گردن چھپا لینے سے آنکھیں بند کرنے سے اندھیرے چھٹتے نہیں اور بڑھتے ہیں۔ گر اندھیرے کا وجود ختم ہوجائے تو روشنی کی قدر اٹھ جائے۔ میرے لیے اچھنبے کی بات ہے زبیر مرزا بھائی کہ آپ جیسا صاحب علم اور مثبت اقدار کا حامل شخص یوں چند راہ کے پتھروں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر حقائق سے نظریں چرانا چاہ رہا ہے۔ حالانکہ وہ ان سب کو اک مسکراہٹ کے ساتھ دفن کر سکتا ہے۔ جبکہ یہ اس کی راہ کی رکاوٹیں بھی نہیں۔ ساتھ کے گاؤں میں جھگڑا ہوجائے تو اپنے گاؤں میں صلح جوئی کا درس دینا بنتا ہے۔ نہ کہ اپنا گاؤں چھوڑ دینا بنتا ہے کہ اب ادھر بھی لڑائیاں ہونگی۔ میں جانتا ہوں کہ تخیل کا پرندہ ہمیشہ خوف کی اڑان بھرتا ہے کہ اندیشے اس کی جنم بھومی ہوتے ہیں۔ لیکن روشنی تخیل نہیں۔ وہ اک اٹل حقیقت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔


صد
فی
صد
متفق
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
Top