تقلید کیاہے حصہ اول

فہرستِ مضامین

نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر
۱ تقلید کیاہے 4
۲ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے 6
۳ نماز میں رفع یدین کرنا کیسا 9
۴ نماز میں ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھیں 12
۵ امام کے پیچھے قرأت کرنا منع اورناجائز ہے 13
۶ نماز میں بسم اللہ شریف آہستہ پڑھنا 17
۷ امام اورمقتدیوں کو آہستہ آمین کہنا سُنّت ہے 18
۸ رکوع وسجود کی تسبیح کامسئلہ 21
۹ تشہد کے الفاظ 22
۱۰ اقامت کا بیان 23
۱۱ وتر کی تین رکعتیں ہیں 24
۱۲ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں 25
۱۳ نمازِ جنازہ میں قرأت جائز نہیں 26
۱۴ غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں 26
۱۵ ننگے سر نماز پڑھنا کیسا 28
۱۶ قربانی صرف تین دن ہے 29
۱۷ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا 30
نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا ل ایسی قوت دے میرے قلم میں
کہ بد مذہبوں کو سُدھارا کروں میں
سرکارِ اعظم ا قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر نورِ حق کی طرف لائے اوراسلام جیسا پاکیزہ اورپیارا مذہب عطا فرمایا جس میں ہر مسائل کا حل موجود ہے ۔
قرآنِ مجید میں ہر چیز کا علم پوشیدہ ہے مگر ہماری ایسی بصیرت نہیں کہ ہم ا س میں سے علم کے خزانے تلاش کرسکیں لہٰذا ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے احادیثِ مصطفی ا کے محتاج ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی علوم کے خزانے موجود ہیں مگر احادیث کو سمجھنے کے لئے ہم فقہ کے محتاج ہیں فقہ کے ذریعہ احادیث کو سمجھنا نہایت ہی آسان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث کے فیصلے کو مدّنظر رکھ کر جن مسائل کاآسان حل پیش کیا گیا ہے اُسے فقہ کہتے ہیں۔
(1) تقلید کیا ہے ؟
تقلید کا اصل مطلب پیروی ہے جیسا کہ ہم مسلمان حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ص کی تقلید یعنی پیروی کرتے ہیں۔
تقلید اسلام کی حفاظت کی وہ شمع ہے جس کی روشنی سے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فیض حاصل کیا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان سے تابعین منّور ہوئے اورتابعین سے تبع تابعین نے دین کو سیکھا کیونکہ ان کا راستہ اللہ تعالیٰ تک لے جاتاہے جس کے بارے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
تیرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ چراغ لے کے چلے
جوان کے نقشِ قدم پر چلتاہے وہ کبھی بھٹک نہیں سکتا۔ تبع تابعین میں سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمداور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کے مطابق دین آسان کرکے سمجھایا۔
قرآن مجید اور تقلید (پیروی) :
ترجمہ: اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اوران کا جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔ (سورۂ نساء ،آیت 59)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ، اپنے محبوب ااور صاحبِ امر (علمائے ربّانین) کی اطاعت یعنی پیروی کا حکم دیا۔
دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اوراس کی راہ چل جو میری طرف رجو ع لایا۔(سورۂ لقمان ،آیت15)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہر اس شخص کی پیروی اوراطاعت کر جو تیرا رابطہ مجھ سے کرادے۔
تیسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگرتمہیں علم نہ ہو۔ (سورۂ انبیاء ،آیت7)
ا س آیت سے بھی تقلید (پیروی) کا وجوب ثابت ہوتاہے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان براہِ راست سرکارِ اعظما سے دین کا علم حاصل کیا کرتے تھے اس لئے اُنہیں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں تھی ۔ سرکارِ اعظم ا کے ظاہری وصال کے بعد صحابہ کرام اورتابعین بھی اپنے درمیان موجود زیادہ صاحبِ علم صحابی کی تقلید کیا کرتے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ص حضرت عبداللہ بن مسعود ص کے بارے میں فرماتے تھے جب تک یہ عالم تمہارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔(بحوالہ بخاری شریف)
یہی تقلیدِ شخصی ہے جو دورِ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی موجود تھی ۔
لہٰذا تمام دلائل وبراہین سے ثابت ہوا کہ تقلید(پیروی) جائز ہے ۔
(2) تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے؟
حدیث شریف: حضرت براء بن عازب ث سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم اجب نماز شروع کرنے کے لئے تکبیر فرماتے تھے تو ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ ا کے دونوں انگوٹھے کانوں کی لو تک ہوتے ۔(بحوالہ : طحاوی ، ابو داؤد)
حدیث شریف: حضرت مالک بن حویرث ص سے مروی ہے کہ فرمایا سرکارِ اعظم ا جب تکبیر فرماتے توہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کانوں تک پہنچ جاتے۔
(مُسلم شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل بن حجر ص نے فرمایا میں نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے تھے۔
(بحوالہ: صحیح مُسلم،جلداوّل ،صفحہ 173، مسند امام اعظم صفحہ82)
اس حدیث شریف کو نسائی ، طبرانی ، دارقطنی اوربیہقی نے بھی روایت کیا ہے ۔
(زجاجۃ المصابیح باب صفۃ الصلوٰۃ جلد اوّل صفحہ 569)
حدیث شریف: حضرت عبدالجبار بن وائل ص فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کرتے کہ آپ ا کے ہاتھوں کے انگوٹھے دونوں کانوں کی لو کے مقابل ہوجاتے ۔
(بحوالہ: نسائی جلد اوّل صفحہ 102، ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 104،سنن الکبریٰ للبیہقی ،جلد دوم صفحہ 25)
امام حاکم نے حضرت انس بن مالک ص سے اسی طرح روایت کی اور فرمایا ، اس حدیث کی سند صحیح ہے اوریہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ (بحوالہ : مستدرک للحاکم جلد اوّل صفحہ 226، سُنن دارقطنی جلد اوّل صفحہ 345)
حدیث شریف: حضرت ابو سعید ساعدی ص سے مروی ہے کہ بیشک وہ اصحابِ رسول
ا سے فرمایا کرتے تھے میں تم میں سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کی نماز کو جانتاہوں جب آپ ا نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر فرماتے اوردونوں ہاتھ اپنے چہرہ کے مقابل اُٹھاتے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل ص سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا جب تم نماز ادا کرو توہاتھوں کو کانوں کے برابر کرو اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ ہاتھوں کو سینے کے برابر کریں۔ (بحوالہ : نمازِ حبیب کبریا صفحہ 79،بحوالہ :معجم طبرانی کبیر جلد 22)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھوں کو کاندھوں تک نہیں بلکہ کانوں کی لُو تک اُٹھاتے تھے اب آپ کے سامنے غیر مقلدین کے دلائل اور اُن کے جوابات پیش کئے جائیں گے ۔
غیر مقلدین کے دلائل:
غیر مقلدین کانظریہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کاندھوں تک اُٹھایا جائے اس ضمن میں غیر مقلدین تین حدیثیں لاتے ہیں۔
پہلی حدیث : حضرت علی ص رسول اللہ ا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ ا جب نماز مکتوبہ کے لئے تکبیر کہتے تودونوں ہاتھ کاندھوں تک اُٹھاتے ۔
(طحاوی)
دوسری حدیث: حضرت سالم ص اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو ہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ کاندھے کے مقابل آتے۔(طحاوی)
تیسری حدیث: حضرت جابرص سے مروی ہے کہ میں نے سالم بن عبداللہ ث کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو کاندھے تک ہاتھ اُٹھاتے ، پس میں نے اس کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا کہ میں نے ابنِ عمر ث کو دیکھا کہ وہ ایسا کرتے ہیں اورحضرت عبداللہ ص نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ا کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات:
پہلی حدیث کا جواب: حدیث علی ص کا دو طریقے سے جواب دیا گیا ہے اولاً یہ کہ حدیث میں فی نفسہٖ سقم ہے کیونکہ ابنِ خزیمہ یہی حدیث اوراسی ابن ابی الزناد کی سند سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں ہاتھ اُٹھانے کا مطلقاً ذکر نہیں ہے ۔ اسی طرح عاصم ابن کلیب کی روایت میں بھی اصلاً ہاتھ اُٹھانے کا ذکر نہیں ہے ۔ ثانیاً حدیث ابن ابی الزناد میں خطاہے اور جس حدیث میں خطا ہو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔
دوسری اورتیسری حدیث کا جواب: یہ دونوں حدیثیں عذر پر محمول ہیں کیونکہ سخت سردی کی وجہ سے سرکارِ اعظم اسرپر چادرڈال کر نماز پڑھ رہے تھے اس لئے ہاتھ زیادہ نکالنا مشکل تھا۔ حضرت وائل بن حُجرص اپنی حدیث میں خود اس کی وضاحت فرماتے ہیں جوکہ طحاوی شریف میں موجود ہے ۔
(3) نماز میں رفع یدین کرنا کیسا؟
رفع یدین کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بعد رکوع میں جاتے وقت ، رکوع سے اُٹھتے وقت ہاتھوں کو اُٹھانے کو رفع یدین کہتے ہیں۔
احادیث کی رُو سے نماز میں رفع یدین جائز نہیں بلکہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے پھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔
حدیث شریف: حضرت علقمہ ص سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص نے فرمایا ، کیا میں تمہیں سرکارِ اعظم ا کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اورسوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں ہاتھ نہ اُٹھائے ۔
(سنن ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 109، سنن نسائی جلدا وّل صفحہ 119، شرح معانی الاثارجلد اول صفحہ 132، مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ 771، مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ236)
امام ترمذی ص فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور سرکارِ اعظم ا کے متعدد صحابہ اورتابعین کرام اسی کے قائل ہیں۔ (بحوالہ: جامع ترمذی ،جلد اوّل صفحہ 64)
فائدہ: تمام راویوں میں حضرت عبداللہ ابنِ مسعود ص کی حدیث پر ہم اس لئے عمل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کے قریب تھے اتنے قریب تھے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اُن کو سرکارِ اعظم ا کے اہلبیت میں سے سمجھتے تھے لہٰذا جب قریب ہوئے تو سرکارِ اعظم ا کو سب سے زیادہ نماز پڑھتے دیکھا اور وہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا کو نماز کے شروع میں صرف ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے پھر پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاتے ۔
حدیث شریف: حضرت براء ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے اورپھر دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے۔
(ابو داؤدجلد اوّل صفحہ 109، شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 132، سنن دارقطنی جلد اول صفحہ 293، ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ 236)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن مسعود ص فرماتے ہیں میں نے سرکارِ اعظم ا ، سیدنا صدیقِ اکبر ص ، سیّدنا فاروق اعظم ص کے ساتھ نماز پڑھی ان میں سے کسی نے بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہ کیا۔
(بحوالہ: سُنن دارقطنی جلد اول صفحہ295، سنن الکبریٰ للبیہقی جلد دوم)
حدیث شریف: حضرت مجاہد ص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے سوائے تکبیر تحریمہ کے پوری نماز میں ہاتھ نہیں اُٹھائے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عاصم اپنے والد حضرت کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ص صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے اس کے علاوہ نہیں۔
(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ث سرکارِ اعظم ا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات جگہوں پر ہاتھ اُٹھاناسنت ہے تکبیر تحریمہ کے وقت، استلام حجرِ اسود کے وقت، صفا پر ، مروہ پر، عرفات میں، مقامین میں جمرتین کے پاس۔
(بحوالہ: جزء رفع الیدین للبخاری)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا نے نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھائے اس کے بعد پوری نماز میں ہاتھ نہ اُٹھائے۔
رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا:
حدیث شریف: حضرت جابر بن سمرہ ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم اہمارے پاس تشریف لائے اورفرمایا ،میں دیکھتا ہوں کہ تم نماز کے دوران رفع یدین کرتے ہو جیسے سرکش گھوڑے اپنی دُمیں ہلاتے ہیں نماز سکون سے ادا کیا کرو۔
(صحیح مُسلم باب الامربالسکون فی الصّلوٰۃ جلد اول ،صفحہ181سُنن نسائی جلد اول ،صفحہ176)
حدیث شریف: حضرت مجاہدص سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی ہے وہ تکبیر تحریمہ کے سوا نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
امام طحاوی ص نے فرمایا ، یہی عبداللہ ابن عمر ص ہیں جنہوں نے سرکارِ اعظم ا کو رفع یدین کرتے دیکھا(جس کا ذکر بخاری و مُسلم میں ہے ) پھر خود اُنہوں نے رفع یدین ترک کردیا کیونکہ وہ منسوخ ہوگیا تھا۔(شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 133، زجاجۃ جلد اول صفحہ577،مصنف ابنِ ابی شیبہ جلد اول صفحہ 237)
حدیث شریف: حضرت عبد اللہ بن عباس ص فرماتے ہیں وہ دس صحابہ کرام علیہم الرضوان جنہیں سرکارِ اعظم ا نے جنت کی بشارت دی یعنی عشرہ مبشرہ میں سے کوئی بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہیں کرتاتھا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد پنجم صفحہ272)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوگیا کہ رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔ لہٰذا اب رکوع میں جاتے وقت اوررکوع سے اُٹھتے وقت دونوں ہاتھ اُٹھانا خلاف سنت اورممنوع ہے ۔
(4) نماز میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھیں
نماز میں مرد کے لئے داہنی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پشت پر ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے ۔
حدیث شریف: حضرت ابو حجیفہ ص سے مروی ہے کہ بیشک حضرت علی ص نے فرمایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے ۔(ابو داؤد :مطبوعہ بیروت)
بد مذہبوں کی خیانت:
مندرجہ بالا ابوداؤد شریف کی حدیث شریف جو ہم نے بیان کی یہ حدیث ابو داؤد شریف کے بیروت کے نسخے میں موجود ہے مگر بد مذہبوں نے اس حدیث کو نکال دیا ہے تاکہ سو سال گزرنے کے بعد مسلمان اس حدیث کو بھول جائیں۔
حدیث شریف: علقمہ بن وائل بن حجر ص اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ہو ا دیکھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ،صفحہ 390)
حدیث شریف: حضرت ابو وائل ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ص فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا ہے ۔(ابو داؤد ،مطبوعہ بیروت)
حدیث شریف: حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں افطاری جلدی کرنا ، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔(حاشیہ ابو داؤد شریف ، عمدۃ القاری)
حدیث شریف : دارقطنی اورعبداللہ ابن احمد نے حضرت علی ص سے روایت کی کہ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اورایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ بائیں پررکھنا ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقیہ حصہ ثانی میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
تقلیدکیا ہے حصہ ثانی

(5) امام کے پیچھے قرأت کرنا منع اور ناجائز ہے
باجماعت نماز کے وقت امام کے پیچھے مقتدی کو قرآن شریف پڑھنا سخت منع اورناجائز ہے اورخاموش رہنا ضروری ہے ۔
القرآن: وَراذَاقُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
ترجمہ: اورجب قرآن پڑھا جائے تواسے کان لگا کر سنو اورخاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔
(سورۂ اعراف آیت نمبر204)
تفسیر: حضرت عبداللہ ابن عباس ث فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ جب نماز میں قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سُننا اورخاموش رہنا واجب ہے ۔
جمہور صحابہ کرام وتابعین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں جو حکم مذکور ہے وہ نماز سے متعلق ہے یعنی مقتدی نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرے۔
(تفسیر مدارک التنزیل ، زجاجۃ المصابیح باب القرأۃ فی الصلوٰۃ )
اب احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں۔
حدیث شریف: حضرت ابو موسیٰ ص فرماتے ہیں کہ ہمیں سرکارِ اعظم انے نماز سکھائی اورفرمایا جب امام قرأت کرے توتم خاموش رہو۔(صحیح مُسلم جلد اول صفحہ174)
حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے ارشاد فرمایا جب امام قرأت کرے توتم خاموش رہو۔ امام مُسلم نے فرمایا یہ حدیث صحیح ہے ۔
(صحیح مسلم جلد اوّل صفحہ 174)
حدیث شریف: حضرت ابوہریرہ ص سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتاہے کہ اس کی پیروی کی جائے توجب وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔
(ابو داؤد جلد اول صفحہ89، نسائی جلد اول صفحہ 93، ابن ماجہ صفحہ63، مسند احمد جلد دوم صفحہ376)
حدیث شریف: حضرت جابر ص روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا جس کے لئے امام ہو پس بیشک امام کی قرأت مقتدی کی قرأت ہے ۔ (بحوالہ: ابن ماجہ)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ جب امام قرأت کرے تو مقتدی کا خاموش رہنا ضروری ہے ۔ اب آپ کے سامنے غیر مقلدین کے دلائل نقل کرتے ہیں پھر اُس کا جواب بھی دیں گے ۔
غیر مقلدین کے دلائل:
غیر مقلدین کا نظریہ یہ ہے کہ امام بھی قرأت کرے اور مقتدی بھی قرأت کرے اس ضمن میں غیر مقلدین تین احادیث لاتے ہیں۔
پہلی حدیث: حضرت عبادہ بن صامت ص سے مروی ہے سرکاراعظم انے فرمایا اس کی نماز کامل نہیں جو سورۂ فاتحہ اورکوئی سورت نہ پڑھے۔(ابو داؤد)
دوسری حدیث: حضرت ابوہریرہ ص روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایاکہ جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز بے جان ہے ،بے جان ہے ، بے جان ہے یعنی نامکمل ہے ۔(مُسلم ، ابو داؤد)
تیسری حدیث: حضرت علاء بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ بیشک اُنہوں نے ابو سائب ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ سے سنا۔وہ کہتے ہیں ،میں نے حضرت ابوہریرہ ص سے سُنا آپ فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھے اور سورۂ فاتحہ نہ پڑھے تووہ بے جان ہے ، بے جان ہے ، بے جان ہے ۔ یعنی نامکمل ہے میں نے کہا ابو ہریرہ ص ! کبھی میں امام کے پیچھے رہتا ہوں ،آپ نے فرمایا کہ اے فارسی! تواسے اپنے دل میں پڑھ۔ (ابو داؤد)
غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات:
پہلی حدیث کا جواب: غیر مقلدین کا مذہب امام کے پیچھے صرف سورۂ فاتحہ پڑھنا ہے اس کے علاوہ مقتدی کوئی سورت نہیں پڑھے گا۔ پیش کردہ حدیث میں الفاظ کہ سورۂ فاتحہ اوراس کے علاوہ کچھ پڑھے لہٰذا یہ حدیث ان کی دلیل نہیں بن سکتی ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے خلاف ہے ۔
ان کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس حدیث کی سند میں حضرت سفیان علیہ الرحمہ ہیں ۔
امام ابو داؤد علیہ الرحمہ اس حدیث کے نقل کے بعد حضرت سفیان علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ یہ حدیث یعنی سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اس کے لئے ہے جو تنہا پڑھ رہا ہو لہٰذا یہ حدیث احناف کے لئے دلیل بن سکتی ہے لیکن غیر مقلدین کے لئے نہیں کیونکہ ان کے نزدیک امام کے پیچھے قرأت فرض ہے اوراحناف کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اورمطلقاً قرأت فرض ہے ۔
دوسری اورتیسری حدیث کا جواب:
دوسری اورتیسری حدیث میں ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نامکمل رہتی ہے اورجن چیزوں سے نماز نامکمل رہے وہ واجباتِ نماز میں سے ہے لہٰذا ان دونوں حدیثوں سے سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ثابت ہوسکتا ہے لیکن فرض نہیں۔ جب کہ غیر مقلدین کے نزدیک سورۂ فاتحہ پڑھنا فرض ہے اس لئے یہ دونوں حدیثیں ان کے حق میں مفید نہیں ہے بلکہ یہ دونوں حدیثیں احناف کے مذہب یعنی سورۂ فاتحہ کے واجب ہونے پر دلیل ہے ۔
تیسری حدیث میں فرمایا اے فارسی ص تواسے دل میں پڑھ لیا کر یہ حضرت
ابو ہریرہ ص کاقول ہے اوراس کا یہ مطلب ہے کہ تم اس پر غور وفکر کرلیا کرو۔
(6) نماز میں بسم اللہ شریف آہستہ پڑھنا
نمازی سورۂ فاتحہ سے پہلے اول بسم اللہ شریف آہستہ پڑھے یہ سنت ہے پھر الحمدللہ سے قرأت شروع کرے۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک ص سے روایت ہے کہ میں نے سرکارِ اعظم ا اورسرکارِ صدیقِ اکبر اورفاروق اعظم ث کے پیچھے نماز یں پڑھیں ان میں سے کسی کو نہ سُناکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوں۔(مسلم شریف، بخاری شریف، امام احمد)
معلوم ہوا کہ بسم اللہ پڑھتے نہ سُنا اگروہ بلند آواز سے پڑھتے تو سُنتے لیکن آہستہ پڑھی اس لئے نہ سُنی ۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک ص سے روایت ہے کہ میں نے سرکارِ اعظم ا ، حضرت ابو بکر و عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی ان حضرات میں سے کسی کو بسم اللہ شریف اونچی آواز سے پڑھتے نہ سُنا۔(نسائی ، طحاوی شریف، ابن حبّان)
حدیث شریف: ابن ابی شیبہ ص نے حضرت عبداللہ ابن مسعود ص سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص بسم اللہ شریف اورتعوذ اورربنالک الحمد آہستہ پڑھا کرتے تھے۔(ابن ابی شیبہ)
اِن احادیث سے یہ ثابت ہوا کہ بسم اللہ شریف آہستہ پڑھنی چاہیے اس کے علاوہ عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بسم اللہ بلند آواز سے نہ پڑھی جائے کیونکہ سورتوں کے اول میں جو بسم اللہ لکھی ہوتی ہے وہ ان سورتوں کا جُز نہیں ۔ فقط سورتوں میں فصل کرنے کے لئے لکھی گئی ۔
(7) امام اور مقتدیوں کو آہستہ آمین کہنا سنت ہے
ہر نمازی خواہ امام ہو یا مقتدی یا اکیلا اورنماز جہری ہویا نماز سرّی ہو آہستہ آمین کہے اتنی آواز سے آمین کہے کہ خود اُس کے کان سُنیں برابر میں نماز پڑھنے والا بھی نہ سُنے۔
القرآن: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَغَرُّ عًا وَّ خُفْیَۃً۔
ترجمہ: اپنے رب سے دعا کرو گڑ گڑاتے (عاجزی سے) اورآہستہ۔
(سورۂ اعراف ،آیت55)
تفسیر: اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا آہستہ آواز میں مستحب ہے ۔ آمین کے معنی ہیں ’’اے اللہ ل ! اسے قبول فرما ۔‘‘ پس آمین دُعا ہے اوراسے آہستہ ہی کہنا چاہیے۔
القرآن: وَاِذَا سَءَا لَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْب اُجِیب دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔
ترجمہ: اے محبوب ا! جب لوگ آپ سے میرے متعلق پوچھیں تومیں بہت نزدیک ہوں مانگنے والے کی دعا قبول کرتاہوں جو مجھ سے دعا کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ چیخ کر دُعا اس سے کی جاتی ہے جو ہم سے دور ہو اللہ ل توہماری شہ رَگ سے بھی زیادہ قریب ہے پھر چیخ کردورانِ نماز سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہنا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے اس لئے کہ آمین بھی دُعا ہے اب آپ کے سامنے احادیث کی روشنی میں آہستہ آمین کہنا ثابت کریں گے ۔
حدیث شریف: حضرت علقمہ بن وائل ص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
سرکارِ اعظم ا نے جب ’’غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ‘‘ پڑھا توآپ نے آہستہ آواز میں آمین کہی۔ (جامع ترمذی ابو اب الصّلوٰۃ جلد او ل ،صفحہ63)
اس حدیث کو امام حاکم ، امام احمد ، ابو داؤد الطیالسی، ابو یعلیٰ ، طبرانی اوردارقطنی نے بھی روایت کیا ہے ۔ امام حاکم نے کہا یہ حدیث بخاری ومُسلم کی شرط کے موافق صحیح ہے ۔(مستدرک للحاکم جلد دوم صفحہ 232زجاجۃ المصابیح جلد اول صفحہ 652)
حدیث شریف: حضرت ابو وائل ص فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ص اور حضرت علی ص تسمیہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم)اورآمین بُلند آواز سے نہ کہتے تھے ۔
(بحوالہ: عمدۃ القاری شرح بخاری)
حدیث شریف: حضرت عمر فاروق ص فرماتے ہیں کہ امام کو چار چیزیں آہستہ کہنی چاہیے۔ ثناء (سبحانک اللھم) ، تعوذ (اعوذ باللہ) ، تسمیہ (بسم اللہ) اور آمین۔
(مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ87)
لہٰذا تمام دلائل کی روشنی میں ثابت ہوا کہ آمین آہستہ کہی جائے ۔ عقل کا بھی تقاضا ہے کہ آمین آہستہ کہی جائے کیونکہ آمین قرآن کریم کی آیت یا کلمۂ قرآن نہیں اور نہ ہی جبریل امین اسے لائے بلکہ دعا اور ذکر ہے جس طرح ثناء، تسبیحاتِ رکوع وسجود ، التحیات، دردود ابراہیم اور دعا ماثورہ وغیرہ آہستہ پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی آمین بھی آہستہ ہونی چاہیے۔ چیخ کر زور دار آواز میں آمین کہنا قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
غیر مقلدین کے دلائل :
غیر مقلدین کا نظریہ یہ ہے کہ آمین چیخ کر کہی جائے اس ضمن میں غیر مقلدین کے دلائل اورپھر اُن کے جوابات نقل کئے جائیں گے ۔
پہلی حدیث: حضرت وائل حجر ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا جب ولاالضالین پڑھتے تھے تو اپنی آواز کھینچ کر آمین کہتے ۔(ترمذی شریف)
دوسری حدیث: حضرت عطا نے فرمایا کہ آمین دعا ہے ۔ابنِ زبیرص نے آمین کہا اور آپ کے پیچھے والوں نے یہاں تک کہ مسجد گونج اُٹھی۔(بخاری شریف)
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب :
پہلی حدیث کا جواب: حضرت وائل بن حجر ص کی روایت ہم نے بھی نقل کی کہ سرکارِ اعظما نے آہستہ آمین کہی اوراس حدیث میں ہے کہ آواز کو بلند فرمایا۔ لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے مابین تطبیق یوں نکلی وہ یہ کہ آپ ا نے آمین کو مَدِّعا رض کے ساتھ ادا کیا نہ کہ مَدِّقصر کے ساتھ ۔ایسی صورت میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اوراحناف اسی تطبیق پر عمل کرتے ہوئے آمین آہستہ کہتے ہیں۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بلند آواز سے آمین کہنا اتفاقیہ ہے قصداًنہیں معمول کے مطابق آمین آہستہ کہنا ثابت ہے ۔
اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا بیان تعلیم کے لئے ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ امام اورمقتدی دونوں کے لئے آمین آہستہ کہنا سنت ہے ۔
دوسری حدیث کاجواب : بخاری شریف کی اس حدیث کو سمجھنے کے لئے پوری روایت ذہن نشین کریں اور وہ یہ ہے کہ حضرت ابن جریج نے حضرت عطاء سے روایت کی کہ میں نے ان سے پوچھا کیا حضرت عبداللہ ابن زبیر ص سورۂ فاتحہ کے اختتام پر آمین کہتے تھے آپ نے فرمایا جی ہاں۔ اوروہ لوگ بھی آمین کہتے تھے جو آپ کے پیچھے ہوتے تھے یہاں تک کہ مسجد میں آواز گونج جاتی تھی پھر فرمایا کہ آمین دعا ہے ۔
اس پوری روایت کے بعد یہ احتمال بھی پیدا ہوتاہے کہ نماز کا کہیں ذکر نہیں ہے ۔ جب قاری خارج نماز تلاوت کرتاہے تب بھی سورۂ فاتحہ کے اختتام پر تالی اورسامع آمین کہتا ہے ممکن ہے کہ وہی کیفیت مُراد ہو۔ باقی رہا کہ وَمَنْ وَّرَاءَہُسے کچھ اشارہ ملتاہے کہ نماز میں آمین کہنا مُراد ہے لیکن یہ اشارہ بھی یوں خارج ہے کہ قاری جب تلاوت کرتاہے تولوگ ا س کے گرد حلقہ بنا کر بیٹھتے ہیں ایسی صورت میں کچھ لوگ پیچھے بھی ہوتے ہیں ممکن ہے کہ انہی لوگوں کو وَمَنْ وَّرَاءَ ہٗ یعنی پیچھے والے لوگوں سے تعبیر فرمارہے ہوں اس احتمال کے بعد حدیث مذکور سے استدلال باقی نہیں رہتا۔
اگر مذکورہ صورت نہ بھی ہوتب بھی یہ روایت درایت کے خلاف ہے کیونکہ اس وقت مسجد کی چھت کھجور کے پتوں وغیرہ سے بنائی جاتی تھی اور ایسی چھت میںآواز گونجتی نہیں ہے اس لئے یہ روایت درایت کے خلاف ہے ۔
(8) رکوع وسجود کی تسبیح کا مسئلہ
رکوع میں کم از کم تین مرتبہ ’’سبحان ربی العظیم‘‘ اورسجدہ میں کم از کم ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کہنا سنت ہے اس کے علاوہ جو دعائیں منقول ہیں وہ سب نوافل کے لئے ہیں۔
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن مسعود ص سے مروی ہے کہ بے شک سرکارِ اعظم ا نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص رکوع کرے تو اپنے رکوع میں تین مرتبہ ’’سبحان ربی العظیم‘‘ کہے پس اس کا رکوع مکمل ہوگیا اوریہ اس کی ادنیٰ مقدار ہے اورجب سجدہ کرے تو اپنے سجدے میں تین مرتبہ ’’سبحان ربی الاعلٰی‘‘ کہے پس ا س کا سجدہ مکمل ہوگیا اوریہ اس کی ادنیٰ مقدار ہے ۔
(ترمذی شریف، ابو داؤد شریف، ابن ماجہ)
حدیث شریف: حضرت حذیفہ ص سے روایت ہے کہ بے شک اُنہوں نے سرکارِ اعظم ا کے ساتھ نماز پڑھی۔ پس سرکارِ اعظم ا اپنے رکوع میں ’’سبحان ربی العظیم‘‘ اور اپنے سجدے میں ’’سُبحان ربی الاعلٰی‘‘ پڑھتے اورکسی آیت رحمت پر نہ آتے مگر وقف کرتے اورسوال کرتے اورکسی آیت عذاب پر نہ آتے مگر وقف کرتے اور اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرتے۔ (ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ)
حدیث شریف: حضرت عُقبہ بن عامرص فرماتے ہیں کہ جب (قرآن کی آیت) ’’فسبح باسم ربک العظیم‘‘ نازل ہوئی تو سرکارِ اعظم ا نے فرمایا اسے اپنے رکوع میں رکھ لو اورجب (قرآن کی آیت) ’’سبح اسم ربک الاعلٰی‘‘ نازل ہوئی تو آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ اسے سجدہ میں رکھ لو۔(ابو داؤد ، ابنِ ماجہ)
(9) تشہد کے الفاظ
حدیث شریف: حضرت شقیق بن سلمہ ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ص روایت کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ سرکارِ اعظم ا کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو’’السّلام علی جبریل ومیکائیل اور السّلام فلاں فلاں کہتے تھے ‘‘پس آپ ا ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ سلام ہے پس تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے توچاہیے کہ وہ یوں کہے ۔’’التحیات للّٰہ الخ (پوری التحیات)
پس جب تم یہ کہہ لو گے۔ توتمہارا سلام زمین وآسمان پر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو پہنچے گا۔پھر اشھدان لاالہ الا اللّٰہ واشھدان محمداعبدہ ورسولہ‘‘ کہے ۔
(بخاری ، مسلم، ترمذی، ابو داؤد ، نسائی ، ابنِ ماجہ)
حدیث ابنِ مسعود ص کی برکت:
حضرت خصیف ص فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں سرکارِ اعظم ا کی زیارت کی ۔ میں نے کہا کہ یارسول ا لوگوں میں تشہد کے الفاظ سے متعلق شدید اختلاف پایا جاتاہے کس حدیث شریف پر عمل کیا جائے آپ ا نے ارشاد فرمایاکہ حدیثِ ابن مسعود ص کو لازم پکڑلو۔(عمدۃ القاری ، البسوط سرخسی)
(10) اقامت کا بیان
اقامت مثلِ اذان کے ہے صرف ’’قدقامت الصّلٰوۃ‘‘ کا اضافہ ہے ۔ اس میں اذان کی طرح دودوکلمات ہیں۔
حدیث شریف: حضرت عبداللہ بن زید ص بیان کرتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا کی اذان کے کلمات دو دو مرتبہ تھے ۔ اذان اوراقامت دونوں میں۔ (بحوالہ: ترمذی شریف)
حدیث شریف: حضرت اسود ص حضرت بلال ص سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ ص اذان اوراقامت میں دودو مرتبہ ادا فرماتے تھے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت ابو محذورہ ص روایت کرتے ہیں کہ بیشک سرکارِ اعظم ا نے اُنہیں اقامت میں دو دو کلمات سکھائے ۔ (طحاوی شریف ، ترمذی شریف )
لہٰذا احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہوگئی کہ اقامت مثلِ اذان ہے اقامت میں بھی اذانِ کی طرح دودو کلمات ہیں ۔
(11) وتر کی تین رکعتیں ہیں
وتر کی نماز ایک سلام سے تین رکعت ہیں۔
حدیث شریف: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکارِ اعظم ا رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد اد انہیں فرماتے تھے آپ چار رکعت (تہجد) ادا کرتے پھر آپ تین رکعت(وتر) ادا فرماتے۔
(بخاری کتاب التہجد،جلد اول صفحہ 154مسلم شریف جلد اول صفحہ254)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ص ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم انے تین مرتبہ دودو رکعت کرکے چھ رکعت (تہجد) پڑھی اوراس کے بعد آپ انے تین رکعت وتر ادا کئے ۔(صحیح مُسلم جلد اول صفحہ261)
حدیث شریف: حضرت ابی بن کعب ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا نماز وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلیٰ ،دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون اورتیسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھتے اورتینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے ۔
(سنن نسائی جلد اول صفحہ175)
حدیث شریف: حضرت علی ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔ امام ترمذی علیہ الرحمہ نے کہا اہل علم صحابہ کرام وتابعین کرام علیہم الرضوان
کا یہی مذہب ہے ۔(جامع ترمذی ابواب الوتر جلد اول صفحہ110،زجاجۃ المصابیح باب الوتر جلد 2صفحہ263)
اِن تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی ایک نہیں بلکہ تین رکعتیں ہیں جس پر سرکارِ اعظم ا اورصحابہ کرام علیہم الرضوان کاعمل رہا ہے ۔
(12) تراویح کی بیس رکعتیں ہیں
تراویح کی بیس رکعتیں ہیں اور اسی پر سرکارِ اعظم ا اورصحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل رہا ہے ۔
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ص سے روایت ہے کہ بیشک سرکارِ اعظم ا رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعت پڑھتے تھے ۔
(بحوالہ: بیہقی ،کتاب برہان الصّلوٰۃ صفحہ42)
حدیث شریف: حضرت سائب بن یزید ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ص کے زمانے میں بیس رکعت تراویح ہوتی تھی اورحضرت عثمان و علی ث کے دور میں بھی بیس رکعت تراویح ہوتی تھیں ۔ ( موطا امام مالک ، بیہقی شریف)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ص نے فرمایاکہ سرکارِ اعظم ا ماہِ رمضان میں بغیر جماعت کے بیس رکعت تراویح اورنماز وتر ادا فرماتے ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ جلد 2صفحہ394،زجاجۃ المصابیح)
جامع ترمذی جلدا ول صفحہ 139پر ہے کہ امام ترمذی ص فرماتے ہیں کہ اکثر اہلِ علم کا مذہب بیس رکعت تراویح ہے جو حضرت علی ص ، حضرت عمر ص اور
سرکارِاعظم ا کے دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے مروی ہے ۔(جامع ترمذی)
جو لوگ آٹھ رکعت والی حدیث لاتے ہیں ان احادیث میں تراویح کا کہیں ذکر نہیں بلکہ وہ آٹھ رکعت تہجد کی ہیں جنہیں احادیث میں بیان کیا گیا ہے لہٰذا یہ بات ثابت ہوئی کہ تراویح بیس رکعت پڑھنا سنّتِ مصطفی اہے ۔
(13) نمازِ جنازہ میں قرأت جائز نہیں
نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ یا کوئی اور سورت بطورِ قرأت جائزنہیں ، اس میں ثناء ،
درود اور دعائے مغفرت کرنا سنت ہے ۔
حدیث شریف: حضرت نافع ص فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ث نمازِ جنازہ میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتے تھے ۔
(موطا امام مالک صفحہ210، مصنف ابن ابی شیبہ جلد3صفحہ299)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ بن مسعود ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا نے نماز جنازہ میں قرآن کریم سے کچھ مقرر نہیں فرمایا ۔(بحوالہ: زجاجۃ المصابیح کتاب الجنائز)
حضرت امام ترمذی ص فرماتے ہیں کہ بعض اہلِ علم نے فرمایا ہے کہ نمازِ جنازہ میں قرأت نہیں کرنی چاہیے نمازِ جنازہ تواللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے ، پھر سرکارِ اعظم ا پر درود پڑھنا ہے اور پھر میّت کے لئے دعا مانگنا ہے ۔
(جامع ترمذی ، ابواب الجنائز جلد اول صفحہ 199)
(14) غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں
امام اعظم ابو حنیفہ ص کے نزدیک غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں ہے لہٰذا حنفیوں کو غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
حدیث شریف: رواہ ابنِ ماجہ عن عامر بن ربیعہ ص ، سرکارِ اعظم ا نے ارشاد فرمایا ہر گز کوئی میّت تم میں نہ مرے جس کی اطلاع مجھے نہ دوا س لئے کہ اس پر میری نماز موجب رحمت ہے ۔
فائدہ: سرکارِ اعظم ا کے زمانے میں سیکڑوں صحابہ کرام علیہم الرضوان نے وفات پائی کسی صحیح صریح حدیث سے ثابت نہیں کہ سرکارِ اعظم انے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی ۔ اگر نمازِ جنازہ غائبانہ جائز ہوتی تو سرکارِ اعظم ا ضرور پڑھتے ۔
(از کتاب: غائبانہ نمازِ جنازہ صفحہ 39/38،مصنف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)
نجاشی کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے میں حکمت:
دلیل نمبر1: حضرت نجاشی ص کی غائبانہ نمازِ جنازہ جب سرکارِ اعظم ا نے پڑھائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان نے آنکھوں سے دیکھا کہ نجاشی ص کاجنازہ آپ ا
کے سامنے حاضر کیا گیا اوریہ سرکارِ اعظم ا کا خاصہ تھا۔
دلیل نمبر2: صحیح ابن حبان میں عمران بن حصین ص وعن الصحابہ جمیعا سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا تمہارا بھائی نجاشی وصال کرگیا اُٹھو اس پر نماز پڑھو پھر سرکارِ اعظم ا کھڑے ہوئے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پیچھے صفیں باندھیں سرکارِ اعظم انے چار تکبیریں کہیں۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے دیکھا کہ نجاشی کا جنازہ سرکارِ اعظم ا کے سامنے تھا۔
دلیل نمبر3: صحیح ابو عوانہ میں اُنہی سے روایت ہے کہ ہم نے سرکارِ اعظم ا کے پیچھے نماز پڑھی اورہم یہی اعتقاد کرتے تھے کہ جنازہ آگے موجود ہے۔
(از کتاب: غائبانہ نمازِ جنازہ صفحہ 40)
دلیل نمبر3: اس حدیث مرسل اصولی کی کہ امام واحدی نے اسباب نزول قرآن میں حضرت عبداللہ ابن عباس ث سے ذکر کی کہ فرمایا۔
حضرت نجاشی ص کاجنازہ سرکارِ اعظم ا کے لئے ظاہر کردیا گیا سرکارِ اعظم ا نے اُسے دیکھا اوراس پر نماز پڑھی۔
(15) ننگے سرنماز پڑھنا کیسا
سرکارِ اعظم ا سے لے کر صحابہ کرام علیہم الرضوان ، تابعین ، تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین اورخیر القرون سے لے کر آج تک بغیر ٹوپی کے نماز پڑھنے کے متعلق کسی نے بھی فتویٰ نہیں دیا۔
فقہاء کرام نے ننگے سر ہوکر نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے ۔
(درمختار جلد اول صفحہ 151، بحر الرائق جلد سوم صفحہ34)
سرپر عمامہ باندھ کر نماز پڑھنا بہت افضل ہے چنانچہ عمامہ شریف کے متعلق فضائل وبرکات حدیثوں میں موجود ہے ۔
حدیث شریف: حضرت ابو درداء ص سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ اوراس کے فرشتے جمعہ میں عمامہ پہنے والوں پر درود بھیجتے ہیں ۔
حدیث شریف: حضرت انس بن مالک ص سے روایت ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا کہ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھنا دس ہزار نیکیوں کے برابر ہے ۔ (دیلمی)
حدیث شریف: حضرت جابر ص سے روایت ہے کہ سرکارِاعظم ا نے فرمایا کہ عمامہ کے ساتھ دو رکعتیں بے عمامہ کی ستر رکعتوں سے افضل ہیں ۔ (مسند الفردوس)
فقہاء کرام نے ننگے سرنماز کی تین قسمیں بیان کی ہیں:
1)۔۔۔دل میں خیال ہوکہ نماز کوئی ایسی عبادت تونہیں کہ وہ سر کوڈھانپ کرادا کروں یعنی اس نے نماز کو حقیرجانا اس لحاظ سے ننگے سرنماز پڑھنا کفر ہے ۔
2)۔۔۔سُستی وکاہلی کی وجہ سے ننگے سرنماز ادا کرنا مکروہ ہے ۔
3)۔۔۔اگر عاجزی وانکساری کی وجہ سے ننگے سرنماز پڑھی تو جائز ہے ۔
مگر افسوس کہ آج کل لوگ سُستی وکاہلی اورشرم آنے کی وجہ سے ٹوپی نہیں پہنتے ۔
عام حالت میں تو درکنار حالت نماز میں بھی ٹوپی نہیں پہنتے ۔
(16) قربانی صرف تین دن ہے
الحمد للہ چودہ سوسال سے لوگ صرف عیدالالضحیٰ میں تین دن قربانی کرتے ہیں اور یہی سنّتِ رسول ا ہے ۔
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابنِ عمر ث نے فرمایا کہ قربانی یوم الضحیٰ یعنی دس ذی الحجہ کے بعد دودن ہے ۔ امام مالک ص نے اس کو روایت کیاہے ۔
(بحوالہ: مشکوٰۃ شریف)
حدیث شریف: حضرت علی المرتضیٰ ص فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں پہلا دن افضل ہے ۔(بحوالہ: موطا امام مالک)
پوری دنیا میں حرمین طیبین ، پاکستان ، ہندوستان ، انڈونیشیا، عراق ، مصر ، افغانستان ، بنگلہ دیش، سوڈان ، عمان ، اُردن اورلبنان میں صرف تین دن یعنی ذی الحجہ کی دس ،گیارہ، اوربارہ تاریخ ہی کے دن قربانی ہوتی ہے ۔
بعض لوگ ایّام تشریق کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ ایّام تشریق عیدالاضحی کے چوتھے دن پڑھی جاتی ہے لہٰذا چوتھے دن قربانی بھی جائز ہے ۔ حالانکہ اگر ایّام تشریق کو بنیاد بنایا جائے تو ایّام تشریق نو ذی الحجہ سے شروع ہوجاتے ہیں پھر تو نو ذی الحجہ کو بھی قربانی کرنی چاہیے۔
اس لئے یاد رکھئے کہ ایّام قربانی ایّام تشریق پر منحصر نہیں بلکہ قربانی کے ایّام صرف تین دن ہیں جو کہ دس ذی الحجہ سے شروع ہوکر بارہ ذی الحجہ کی عصر تک ختم ہوتے ہیں چوتھے دن قربانی نہیں ہے ۔
(17) کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا
کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر قرآنِ مجید میں سے کچھ سورتیں پڑھی جائیں اوراس کے بعد ایصالِ ثواب اور دعا کی جائے یہ عمل جائز ہے ۔
دلیل نمبر1:۔۔۔بخاری شریف اورمُسلم شریف میں ایک طویل حدیث ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ سرکارِ اعظم ا اُمِّ سلیم کے گھر تشریف لے گئے تواُنہوں نے روٹی توڑ کر اس پر گھی ڈال کر سرکارِ اعظم ا کی خدمت میں پیش کی آگے مُسلم شریف کے الفاظ یہ ہیں۔
یعنی اس کھانے پر سرکارِ اعظم ا نے کچھ دعائیہ کلمات کہے اور جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ پڑھتے رہے ۔(مسلم جلد دوم)
دلیل نمبر2:۔۔۔ اما م نووی علیہ الرحمہ کتاب الاذکار صفحہ نمبر102میں بروایت ابن النسی، عبداللہ بن عمرو بن عاص ص سے روایت کرتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا کے سامنے جب طَعام آتا تو آپ یہ دعا پڑھتے :
اللھم بارک لنا فیھا رزقتنا وقنا عذاب النار بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
اے اللہ تعالیٰ تونے ہمیں جو رزق دیا ہے ، ا س میں برکت فرما اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
دلیل نمبر3:۔۔۔حضرت ابو ہریرہ ص کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک میں لوگ جب گرسنہ ہوگئے تو حضرت عمر ص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ا لوگوں کا بچا کھچا کھانا منگوائیے اوراس کھانے پر اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا کیجئے، سرکارِ اعظم انے ارشاد فرمایا ہاں ! آپ ا نے دستر بچھوایا اورفرمایا کسی کے پاس جو کچھ بچا ہے لے آؤ ۔کوئی مٹھی بھر جو ار لایا، کوئی مٹھی بھر کھجور لایا، کوئی روٹی کا ٹکڑا لے آیا یہاں تک کہ دستر خوان پر تھوڑا بہت ذخیرہ ہوگیا پھر آپ انے اس پر برکت کی دعا فرمائی اورفرمایا کہ اپنے اپنے برتن بھرلو۔ آخر حدیث تک۔(بحوالہ: مُسلم شریف)
اِن تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ کھانا سامنے رکھ کر کلام پاک یا دعائیہ کلمات پڑھنا سرکارِ اعظم ا کی سنّتِ مبارکہ ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
کسی دینی کتاب کو یونی کوڈ میں کنورٹ کرتے وقت ﷺ، رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رحمۃ اللہ علیہ، علیہ السلام وغیرہ کو درست کر دینا چاہئے۔ اس مواد میں ’ص‘ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، بلکہ درست رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، جب کہ ’الف‘ سے مراد صلعم ہے۔ اس طرح بغیر دیکھےکرنے سے تعظیم عو تکریم پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔
کیا یہ کتاب مکمل ہو گئی؟
 
Top