اقبال ابن اقبال
محفلین
فہرستِ مضامین
نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر
۱ تقلید کیاہے 4
۲ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے 6
۳ نماز میں رفع یدین کرنا کیسا 9
۴ نماز میں ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھیں 12
۵ امام کے پیچھے قرأت کرنا منع اورناجائز ہے 13
۶ نماز میں بسم اللہ شریف آہستہ پڑھنا 17
۷ امام اورمقتدیوں کو آہستہ آمین کہنا سُنّت ہے 18
۸ رکوع وسجود کی تسبیح کامسئلہ 21
۹ تشہد کے الفاظ 22
۱۰ اقامت کا بیان 23
۱۱ وتر کی تین رکعتیں ہیں 24
۱۲ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں 25
۱۳ نمازِ جنازہ میں قرأت جائز نہیں 26
۱۴ غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں 26
۱۵ ننگے سر نماز پڑھنا کیسا 28
۱۶ قربانی صرف تین دن ہے 29
۱۷ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا 30
نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا ل ایسی قوت دے میرے قلم میں
کہ بد مذہبوں کو سُدھارا کروں میں
سرکارِ اعظم ا قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر نورِ حق کی طرف لائے اوراسلام جیسا پاکیزہ اورپیارا مذہب عطا فرمایا جس میں ہر مسائل کا حل موجود ہے ۔
قرآنِ مجید میں ہر چیز کا علم پوشیدہ ہے مگر ہماری ایسی بصیرت نہیں کہ ہم ا س میں سے علم کے خزانے تلاش کرسکیں لہٰذا ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے احادیثِ مصطفی ا کے محتاج ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی علوم کے خزانے موجود ہیں مگر احادیث کو سمجھنے کے لئے ہم فقہ کے محتاج ہیں فقہ کے ذریعہ احادیث کو سمجھنا نہایت ہی آسان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث کے فیصلے کو مدّنظر رکھ کر جن مسائل کاآسان حل پیش کیا گیا ہے اُسے فقہ کہتے ہیں۔
(1) تقلید کیا ہے ؟
تقلید کا اصل مطلب پیروی ہے جیسا کہ ہم مسلمان حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ص کی تقلید یعنی پیروی کرتے ہیں۔
تقلید اسلام کی حفاظت کی وہ شمع ہے جس کی روشنی سے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فیض حاصل کیا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان سے تابعین منّور ہوئے اورتابعین سے تبع تابعین نے دین کو سیکھا کیونکہ ان کا راستہ اللہ تعالیٰ تک لے جاتاہے جس کے بارے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
تیرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ چراغ لے کے چلے
جوان کے نقشِ قدم پر چلتاہے وہ کبھی بھٹک نہیں سکتا۔ تبع تابعین میں سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمداور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کے مطابق دین آسان کرکے سمجھایا۔
قرآن مجید اور تقلید (پیروی) :
ترجمہ: اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اوران کا جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔ (سورۂ نساء ،آیت 59)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ، اپنے محبوب ااور صاحبِ امر (علمائے ربّانین) کی اطاعت یعنی پیروی کا حکم دیا۔
دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اوراس کی راہ چل جو میری طرف رجو ع لایا۔(سورۂ لقمان ،آیت15)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہر اس شخص کی پیروی اوراطاعت کر جو تیرا رابطہ مجھ سے کرادے۔
تیسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگرتمہیں علم نہ ہو۔ (سورۂ انبیاء ،آیت7)
ا س آیت سے بھی تقلید (پیروی) کا وجوب ثابت ہوتاہے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان براہِ راست سرکارِ اعظما سے دین کا علم حاصل کیا کرتے تھے اس لئے اُنہیں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں تھی ۔ سرکارِ اعظم ا کے ظاہری وصال کے بعد صحابہ کرام اورتابعین بھی اپنے درمیان موجود زیادہ صاحبِ علم صحابی کی تقلید کیا کرتے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ص حضرت عبداللہ بن مسعود ص کے بارے میں فرماتے تھے جب تک یہ عالم تمہارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔(بحوالہ بخاری شریف)
یہی تقلیدِ شخصی ہے جو دورِ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی موجود تھی ۔
لہٰذا تمام دلائل وبراہین سے ثابت ہوا کہ تقلید(پیروی) جائز ہے ۔
(2) تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے؟
حدیث شریف: حضرت براء بن عازب ث سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم اجب نماز شروع کرنے کے لئے تکبیر فرماتے تھے تو ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ ا کے دونوں انگوٹھے کانوں کی لو تک ہوتے ۔(بحوالہ : طحاوی ، ابو داؤد)
حدیث شریف: حضرت مالک بن حویرث ص سے مروی ہے کہ فرمایا سرکارِ اعظم ا جب تکبیر فرماتے توہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کانوں تک پہنچ جاتے۔
(مُسلم شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل بن حجر ص نے فرمایا میں نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے تھے۔
(بحوالہ: صحیح مُسلم،جلداوّل ،صفحہ 173، مسند امام اعظم صفحہ82)
اس حدیث شریف کو نسائی ، طبرانی ، دارقطنی اوربیہقی نے بھی روایت کیا ہے ۔
(زجاجۃ المصابیح باب صفۃ الصلوٰۃ جلد اوّل صفحہ 569)
حدیث شریف: حضرت عبدالجبار بن وائل ص فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کرتے کہ آپ ا کے ہاتھوں کے انگوٹھے دونوں کانوں کی لو کے مقابل ہوجاتے ۔
(بحوالہ: نسائی جلد اوّل صفحہ 102، ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 104،سنن الکبریٰ للبیہقی ،جلد دوم صفحہ 25)
امام حاکم نے حضرت انس بن مالک ص سے اسی طرح روایت کی اور فرمایا ، اس حدیث کی سند صحیح ہے اوریہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ (بحوالہ : مستدرک للحاکم جلد اوّل صفحہ 226، سُنن دارقطنی جلد اوّل صفحہ 345)
حدیث شریف: حضرت ابو سعید ساعدی ص سے مروی ہے کہ بیشک وہ اصحابِ رسول
ا سے فرمایا کرتے تھے میں تم میں سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کی نماز کو جانتاہوں جب آپ ا نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر فرماتے اوردونوں ہاتھ اپنے چہرہ کے مقابل اُٹھاتے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل ص سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا جب تم نماز ادا کرو توہاتھوں کو کانوں کے برابر کرو اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ ہاتھوں کو سینے کے برابر کریں۔ (بحوالہ : نمازِ حبیب کبریا صفحہ 79،بحوالہ :معجم طبرانی کبیر جلد 22)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھوں کو کاندھوں تک نہیں بلکہ کانوں کی لُو تک اُٹھاتے تھے اب آپ کے سامنے غیر مقلدین کے دلائل اور اُن کے جوابات پیش کئے جائیں گے ۔
غیر مقلدین کے دلائل:
غیر مقلدین کانظریہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کاندھوں تک اُٹھایا جائے اس ضمن میں غیر مقلدین تین حدیثیں لاتے ہیں۔
پہلی حدیث : حضرت علی ص رسول اللہ ا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ ا جب نماز مکتوبہ کے لئے تکبیر کہتے تودونوں ہاتھ کاندھوں تک اُٹھاتے ۔
(طحاوی)
دوسری حدیث: حضرت سالم ص اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو ہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ کاندھے کے مقابل آتے۔(طحاوی)
تیسری حدیث: حضرت جابرص سے مروی ہے کہ میں نے سالم بن عبداللہ ث کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو کاندھے تک ہاتھ اُٹھاتے ، پس میں نے اس کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا کہ میں نے ابنِ عمر ث کو دیکھا کہ وہ ایسا کرتے ہیں اورحضرت عبداللہ ص نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ا کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات:
پہلی حدیث کا جواب: حدیث علی ص کا دو طریقے سے جواب دیا گیا ہے اولاً یہ کہ حدیث میں فی نفسہٖ سقم ہے کیونکہ ابنِ خزیمہ یہی حدیث اوراسی ابن ابی الزناد کی سند سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں ہاتھ اُٹھانے کا مطلقاً ذکر نہیں ہے ۔ اسی طرح عاصم ابن کلیب کی روایت میں بھی اصلاً ہاتھ اُٹھانے کا ذکر نہیں ہے ۔ ثانیاً حدیث ابن ابی الزناد میں خطاہے اور جس حدیث میں خطا ہو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔
دوسری اورتیسری حدیث کا جواب: یہ دونوں حدیثیں عذر پر محمول ہیں کیونکہ سخت سردی کی وجہ سے سرکارِ اعظم اسرپر چادرڈال کر نماز پڑھ رہے تھے اس لئے ہاتھ زیادہ نکالنا مشکل تھا۔ حضرت وائل بن حُجرص اپنی حدیث میں خود اس کی وضاحت فرماتے ہیں جوکہ طحاوی شریف میں موجود ہے ۔
(3) نماز میں رفع یدین کرنا کیسا؟
رفع یدین کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بعد رکوع میں جاتے وقت ، رکوع سے اُٹھتے وقت ہاتھوں کو اُٹھانے کو رفع یدین کہتے ہیں۔
احادیث کی رُو سے نماز میں رفع یدین جائز نہیں بلکہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے پھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔
حدیث شریف: حضرت علقمہ ص سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص نے فرمایا ، کیا میں تمہیں سرکارِ اعظم ا کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اورسوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں ہاتھ نہ اُٹھائے ۔
(سنن ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 109، سنن نسائی جلدا وّل صفحہ 119، شرح معانی الاثارجلد اول صفحہ 132، مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ 771، مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ236)
امام ترمذی ص فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور سرکارِ اعظم ا کے متعدد صحابہ اورتابعین کرام اسی کے قائل ہیں۔ (بحوالہ: جامع ترمذی ،جلد اوّل صفحہ 64)
فائدہ: تمام راویوں میں حضرت عبداللہ ابنِ مسعود ص کی حدیث پر ہم اس لئے عمل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کے قریب تھے اتنے قریب تھے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اُن کو سرکارِ اعظم ا کے اہلبیت میں سے سمجھتے تھے لہٰذا جب قریب ہوئے تو سرکارِ اعظم ا کو سب سے زیادہ نماز پڑھتے دیکھا اور وہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا کو نماز کے شروع میں صرف ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے پھر پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاتے ۔
حدیث شریف: حضرت براء ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے اورپھر دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے۔
(ابو داؤدجلد اوّل صفحہ 109، شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 132، سنن دارقطنی جلد اول صفحہ 293، ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ 236)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن مسعود ص فرماتے ہیں میں نے سرکارِ اعظم ا ، سیدنا صدیقِ اکبر ص ، سیّدنا فاروق اعظم ص کے ساتھ نماز پڑھی ان میں سے کسی نے بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہ کیا۔
(بحوالہ: سُنن دارقطنی جلد اول صفحہ295، سنن الکبریٰ للبیہقی جلد دوم)
حدیث شریف: حضرت مجاہد ص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے سوائے تکبیر تحریمہ کے پوری نماز میں ہاتھ نہیں اُٹھائے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عاصم اپنے والد حضرت کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ص صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے اس کے علاوہ نہیں۔
(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ث سرکارِ اعظم ا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات جگہوں پر ہاتھ اُٹھاناسنت ہے تکبیر تحریمہ کے وقت، استلام حجرِ اسود کے وقت، صفا پر ، مروہ پر، عرفات میں، مقامین میں جمرتین کے پاس۔
(بحوالہ: جزء رفع الیدین للبخاری)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا نے نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھائے اس کے بعد پوری نماز میں ہاتھ نہ اُٹھائے۔
رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا:
حدیث شریف: حضرت جابر بن سمرہ ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم اہمارے پاس تشریف لائے اورفرمایا ،میں دیکھتا ہوں کہ تم نماز کے دوران رفع یدین کرتے ہو جیسے سرکش گھوڑے اپنی دُمیں ہلاتے ہیں نماز سکون سے ادا کیا کرو۔
(صحیح مُسلم باب الامربالسکون فی الصّلوٰۃ جلد اول ،صفحہ181سُنن نسائی جلد اول ،صفحہ176)
حدیث شریف: حضرت مجاہدص سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی ہے وہ تکبیر تحریمہ کے سوا نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
امام طحاوی ص نے فرمایا ، یہی عبداللہ ابن عمر ص ہیں جنہوں نے سرکارِ اعظم ا کو رفع یدین کرتے دیکھا(جس کا ذکر بخاری و مُسلم میں ہے ) پھر خود اُنہوں نے رفع یدین ترک کردیا کیونکہ وہ منسوخ ہوگیا تھا۔(شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 133، زجاجۃ جلد اول صفحہ577،مصنف ابنِ ابی شیبہ جلد اول صفحہ 237)
حدیث شریف: حضرت عبد اللہ بن عباس ص فرماتے ہیں وہ دس صحابہ کرام علیہم الرضوان جنہیں سرکارِ اعظم ا نے جنت کی بشارت دی یعنی عشرہ مبشرہ میں سے کوئی بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہیں کرتاتھا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد پنجم صفحہ272)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوگیا کہ رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔ لہٰذا اب رکوع میں جاتے وقت اوررکوع سے اُٹھتے وقت دونوں ہاتھ اُٹھانا خلاف سنت اورممنوع ہے ۔
(4) نماز میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھیں
نماز میں مرد کے لئے داہنی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پشت پر ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے ۔
حدیث شریف: حضرت ابو حجیفہ ص سے مروی ہے کہ بیشک حضرت علی ص نے فرمایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے ۔(ابو داؤد :مطبوعہ بیروت)
بد مذہبوں کی خیانت:
مندرجہ بالا ابوداؤد شریف کی حدیث شریف جو ہم نے بیان کی یہ حدیث ابو داؤد شریف کے بیروت کے نسخے میں موجود ہے مگر بد مذہبوں نے اس حدیث کو نکال دیا ہے تاکہ سو سال گزرنے کے بعد مسلمان اس حدیث کو بھول جائیں۔
حدیث شریف: علقمہ بن وائل بن حجر ص اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ہو ا دیکھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ،صفحہ 390)
حدیث شریف: حضرت ابو وائل ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ص فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا ہے ۔(ابو داؤد ،مطبوعہ بیروت)
حدیث شریف: حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں افطاری جلدی کرنا ، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔(حاشیہ ابو داؤد شریف ، عمدۃ القاری)
حدیث شریف : دارقطنی اورعبداللہ ابن احمد نے حضرت علی ص سے روایت کی کہ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اورایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ بائیں پررکھنا ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقیہ حصہ ثانی میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمبر شمار مضمون صفحہ نمبر
۱ تقلید کیاہے 4
۲ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے 6
۳ نماز میں رفع یدین کرنا کیسا 9
۴ نماز میں ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھیں 12
۵ امام کے پیچھے قرأت کرنا منع اورناجائز ہے 13
۶ نماز میں بسم اللہ شریف آہستہ پڑھنا 17
۷ امام اورمقتدیوں کو آہستہ آمین کہنا سُنّت ہے 18
۸ رکوع وسجود کی تسبیح کامسئلہ 21
۹ تشہد کے الفاظ 22
۱۰ اقامت کا بیان 23
۱۱ وتر کی تین رکعتیں ہیں 24
۱۲ تراویح کی بیس رکعتیں ہیں 25
۱۳ نمازِ جنازہ میں قرأت جائز نہیں 26
۱۴ غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں 26
۱۵ ننگے سر نماز پڑھنا کیسا 28
۱۶ قربانی صرف تین دن ہے 29
۱۷ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا 30
نحمدہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
خدا ل ایسی قوت دے میرے قلم میں
کہ بد مذہبوں کو سُدھارا کروں میں
سرکارِ اعظم ا قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر نورِ حق کی طرف لائے اوراسلام جیسا پاکیزہ اورپیارا مذہب عطا فرمایا جس میں ہر مسائل کا حل موجود ہے ۔
قرآنِ مجید میں ہر چیز کا علم پوشیدہ ہے مگر ہماری ایسی بصیرت نہیں کہ ہم ا س میں سے علم کے خزانے تلاش کرسکیں لہٰذا ہم قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے احادیثِ مصطفی ا کے محتاج ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں بھی علوم کے خزانے موجود ہیں مگر احادیث کو سمجھنے کے لئے ہم فقہ کے محتاج ہیں فقہ کے ذریعہ احادیث کو سمجھنا نہایت ہی آسان ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث کے فیصلے کو مدّنظر رکھ کر جن مسائل کاآسان حل پیش کیا گیا ہے اُسے فقہ کہتے ہیں۔
(1) تقلید کیا ہے ؟
تقلید کا اصل مطلب پیروی ہے جیسا کہ ہم مسلمان حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ص کی تقلید یعنی پیروی کرتے ہیں۔
تقلید اسلام کی حفاظت کی وہ شمع ہے جس کی روشنی سے صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فیض حاصل کیا۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان سے تابعین منّور ہوئے اورتابعین سے تبع تابعین نے دین کو سیکھا کیونکہ ان کا راستہ اللہ تعالیٰ تک لے جاتاہے جس کے بارے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
تیرے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ چراغ لے کے چلے
جوان کے نقشِ قدم پر چلتاہے وہ کبھی بھٹک نہیں سکتا۔ تبع تابعین میں سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام احمداور امام مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کے مطابق دین آسان کرکے سمجھایا۔
قرآن مجید اور تقلید (پیروی) :
ترجمہ: اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اورحکم مانو رسول کا اوران کا جو تم میں صاحبِ امر ہیں۔ (سورۂ نساء ،آیت 59)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ، اپنے محبوب ااور صاحبِ امر (علمائے ربّانین) کی اطاعت یعنی پیروی کا حکم دیا۔
دوسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اوراس کی راہ چل جو میری طرف رجو ع لایا۔(سورۂ لقمان ،آیت15)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہر اس شخص کی پیروی اوراطاعت کر جو تیرا رابطہ مجھ سے کرادے۔
تیسرے مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگرتمہیں علم نہ ہو۔ (سورۂ انبیاء ،آیت7)
ا س آیت سے بھی تقلید (پیروی) کا وجوب ثابت ہوتاہے ۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان براہِ راست سرکارِ اعظما سے دین کا علم حاصل کیا کرتے تھے اس لئے اُنہیں کسی کی تقلید کی ضرورت نہیں تھی ۔ سرکارِ اعظم ا کے ظاہری وصال کے بعد صحابہ کرام اورتابعین بھی اپنے درمیان موجود زیادہ صاحبِ علم صحابی کی تقلید کیا کرتے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ص حضرت عبداللہ بن مسعود ص کے بارے میں فرماتے تھے جب تک یہ عالم تمہارے درمیان موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔(بحوالہ بخاری شریف)
یہی تقلیدِ شخصی ہے جو دورِ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں بھی موجود تھی ۔
لہٰذا تمام دلائل وبراہین سے ثابت ہوا کہ تقلید(پیروی) جائز ہے ۔
(2) تکبیرِ تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اُٹھایا جائے؟
حدیث شریف: حضرت براء بن عازب ث سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم اجب نماز شروع کرنے کے لئے تکبیر فرماتے تھے تو ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ ا کے دونوں انگوٹھے کانوں کی لو تک ہوتے ۔(بحوالہ : طحاوی ، ابو داؤد)
حدیث شریف: حضرت مالک بن حویرث ص سے مروی ہے کہ فرمایا سرکارِ اعظم ا جب تکبیر فرماتے توہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ دونوں ہاتھ کانوں تک پہنچ جاتے۔
(مُسلم شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل بن حجر ص نے فرمایا میں نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے تھے۔
(بحوالہ: صحیح مُسلم،جلداوّل ،صفحہ 173، مسند امام اعظم صفحہ82)
اس حدیث شریف کو نسائی ، طبرانی ، دارقطنی اوربیہقی نے بھی روایت کیا ہے ۔
(زجاجۃ المصابیح باب صفۃ الصلوٰۃ جلد اوّل صفحہ 569)
حدیث شریف: حضرت عبدالجبار بن وائل ص فرماتے ہیں کہ میرے والد نے دیکھا کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اس قدر بلند کرتے کہ آپ ا کے ہاتھوں کے انگوٹھے دونوں کانوں کی لو کے مقابل ہوجاتے ۔
(بحوالہ: نسائی جلد اوّل صفحہ 102، ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 104،سنن الکبریٰ للبیہقی ،جلد دوم صفحہ 25)
امام حاکم نے حضرت انس بن مالک ص سے اسی طرح روایت کی اور فرمایا ، اس حدیث کی سند صحیح ہے اوریہ بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق ہے اوراس میں کوئی ضعف نہیں ہے ۔ (بحوالہ : مستدرک للحاکم جلد اوّل صفحہ 226، سُنن دارقطنی جلد اوّل صفحہ 345)
حدیث شریف: حضرت ابو سعید ساعدی ص سے مروی ہے کہ بیشک وہ اصحابِ رسول
ا سے فرمایا کرتے تھے میں تم میں سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کی نماز کو جانتاہوں جب آپ ا نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر فرماتے اوردونوں ہاتھ اپنے چہرہ کے مقابل اُٹھاتے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت وائل ص سے مروی ہے کہ سرکارِ اعظم ا نے فرمایا جب تم نماز ادا کرو توہاتھوں کو کانوں کے برابر کرو اور عورتوں کو چاہیے کہ وہ ہاتھوں کو سینے کے برابر کریں۔ (بحوالہ : نمازِ حبیب کبریا صفحہ 79،بحوالہ :معجم طبرانی کبیر جلد 22)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھوں کو کاندھوں تک نہیں بلکہ کانوں کی لُو تک اُٹھاتے تھے اب آپ کے سامنے غیر مقلدین کے دلائل اور اُن کے جوابات پیش کئے جائیں گے ۔
غیر مقلدین کے دلائل:
غیر مقلدین کانظریہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کاندھوں تک اُٹھایا جائے اس ضمن میں غیر مقلدین تین حدیثیں لاتے ہیں۔
پہلی حدیث : حضرت علی ص رسول اللہ ا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک آپ ا جب نماز مکتوبہ کے لئے تکبیر کہتے تودونوں ہاتھ کاندھوں تک اُٹھاتے ۔
(طحاوی)
دوسری حدیث: حضرت سالم ص اپنے والد حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع فرماتے تو ہاتھ بلند فرماتے یہاں تک کہ کاندھے کے مقابل آتے۔(طحاوی)
تیسری حدیث: حضرت جابرص سے مروی ہے کہ میں نے سالم بن عبداللہ ث کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو کاندھے تک ہاتھ اُٹھاتے ، پس میں نے اس کے بارے میں پوچھا توآپ نے فرمایا کہ میں نے ابنِ عمر ث کو دیکھا کہ وہ ایسا کرتے ہیں اورحضرت عبداللہ ص نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ا کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
غیر مقلدین کے دلائل کے جوابات:
پہلی حدیث کا جواب: حدیث علی ص کا دو طریقے سے جواب دیا گیا ہے اولاً یہ کہ حدیث میں فی نفسہٖ سقم ہے کیونکہ ابنِ خزیمہ یہی حدیث اوراسی ابن ابی الزناد کی سند سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں ہاتھ اُٹھانے کا مطلقاً ذکر نہیں ہے ۔ اسی طرح عاصم ابن کلیب کی روایت میں بھی اصلاً ہاتھ اُٹھانے کا ذکر نہیں ہے ۔ ثانیاً حدیث ابن ابی الزناد میں خطاہے اور جس حدیث میں خطا ہو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ۔
دوسری اورتیسری حدیث کا جواب: یہ دونوں حدیثیں عذر پر محمول ہیں کیونکہ سخت سردی کی وجہ سے سرکارِ اعظم اسرپر چادرڈال کر نماز پڑھ رہے تھے اس لئے ہاتھ زیادہ نکالنا مشکل تھا۔ حضرت وائل بن حُجرص اپنی حدیث میں خود اس کی وضاحت فرماتے ہیں جوکہ طحاوی شریف میں موجود ہے ۔
(3) نماز میں رفع یدین کرنا کیسا؟
رفع یدین کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بعد رکوع میں جاتے وقت ، رکوع سے اُٹھتے وقت ہاتھوں کو اُٹھانے کو رفع یدین کہتے ہیں۔
احادیث کی رُو سے نماز میں رفع یدین جائز نہیں بلکہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے پھر دوبارہ نہیں اُٹھاتے۔
حدیث شریف: حضرت علقمہ ص سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص نے فرمایا ، کیا میں تمہیں سرکارِ اعظم ا کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اورسوائے تکبیر تحریمہ کے کہیں ہاتھ نہ اُٹھائے ۔
(سنن ابو داؤد جلد اوّل صفحہ 109، سنن نسائی جلدا وّل صفحہ 119، شرح معانی الاثارجلد اول صفحہ 132، مصنف عبدالرزاق جلد دوم صفحہ 771، مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ236)
امام ترمذی ص فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور سرکارِ اعظم ا کے متعدد صحابہ اورتابعین کرام اسی کے قائل ہیں۔ (بحوالہ: جامع ترمذی ،جلد اوّل صفحہ 64)
فائدہ: تمام راویوں میں حضرت عبداللہ ابنِ مسعود ص کی حدیث پر ہم اس لئے عمل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود ص سب سے زیادہ سرکارِ اعظم ا کے قریب تھے اتنے قریب تھے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان اُن کو سرکارِ اعظم ا کے اہلبیت میں سے سمجھتے تھے لہٰذا جب قریب ہوئے تو سرکارِ اعظم ا کو سب سے زیادہ نماز پڑھتے دیکھا اور وہ فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا کو نماز کے شروع میں صرف ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاتے پھر پوری نماز میں ہاتھوں کو نہ اُٹھاتے ۔
حدیث شریف: حضرت براء ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم ا جب نماز شروع فرماتے تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر تک اُٹھاتے اورپھر دوبارہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے۔
(ابو داؤدجلد اوّل صفحہ 109، شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 132، سنن دارقطنی جلد اول صفحہ 293، ابن ابی شیبہ جلد اول صفحہ 236)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن مسعود ص فرماتے ہیں میں نے سرکارِ اعظم ا ، سیدنا صدیقِ اکبر ص ، سیّدنا فاروق اعظم ص کے ساتھ نماز پڑھی ان میں سے کسی نے بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہ کیا۔
(بحوالہ: سُنن دارقطنی جلد اول صفحہ295، سنن الکبریٰ للبیہقی جلد دوم)
حدیث شریف: حضرت مجاہد ص کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے سوائے تکبیر تحریمہ کے پوری نماز میں ہاتھ نہیں اُٹھائے ۔(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عاصم اپنے والد حضرت کلیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ص صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے اس کے علاوہ نہیں۔
(طحاوی شریف)
حدیث شریف: حضرت عبداللہ ابن عباس ث سرکارِ اعظم ا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا سات جگہوں پر ہاتھ اُٹھاناسنت ہے تکبیر تحریمہ کے وقت، استلام حجرِ اسود کے وقت، صفا پر ، مروہ پر، عرفات میں، مقامین میں جمرتین کے پاس۔
(بحوالہ: جزء رفع الیدین للبخاری)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ سرکارِ اعظم ا نے نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اُٹھائے اس کے بعد پوری نماز میں ہاتھ نہ اُٹھائے۔
رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہوگیا:
حدیث شریف: حضرت جابر بن سمرہ ص فرماتے ہیں کہ سرکارِ اعظم اہمارے پاس تشریف لائے اورفرمایا ،میں دیکھتا ہوں کہ تم نماز کے دوران رفع یدین کرتے ہو جیسے سرکش گھوڑے اپنی دُمیں ہلاتے ہیں نماز سکون سے ادا کیا کرو۔
(صحیح مُسلم باب الامربالسکون فی الصّلوٰۃ جلد اول ،صفحہ181سُنن نسائی جلد اول ،صفحہ176)
حدیث شریف: حضرت مجاہدص سے مروی ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر ث کے پیچھے نماز پڑھی ہے وہ تکبیر تحریمہ کے سوا نماز میں کہیں بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔
امام طحاوی ص نے فرمایا ، یہی عبداللہ ابن عمر ص ہیں جنہوں نے سرکارِ اعظم ا کو رفع یدین کرتے دیکھا(جس کا ذکر بخاری و مُسلم میں ہے ) پھر خود اُنہوں نے رفع یدین ترک کردیا کیونکہ وہ منسوخ ہوگیا تھا۔(شرح معانی الاثار جلد اول صفحہ 133، زجاجۃ جلد اول صفحہ577،مصنف ابنِ ابی شیبہ جلد اول صفحہ 237)
حدیث شریف: حضرت عبد اللہ بن عباس ص فرماتے ہیں وہ دس صحابہ کرام علیہم الرضوان جنہیں سرکارِ اعظم ا نے جنت کی بشارت دی یعنی عشرہ مبشرہ میں سے کوئی بھی تکبیر تحریمہ کے سوا رفع یدین نہیں کرتاتھا۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد پنجم صفحہ272)
ان تمام احادیث سے ثابت ہوگیا کہ رفع یدین ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔ لہٰذا اب رکوع میں جاتے وقت اوررکوع سے اُٹھتے وقت دونوں ہاتھ اُٹھانا خلاف سنت اورممنوع ہے ۔
(4) نماز میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھیں
نماز میں مرد کے لئے داہنی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پشت پر ناف کے نیچے باندھنا سنت ہے ۔
حدیث شریف: حضرت ابو حجیفہ ص سے مروی ہے کہ بیشک حضرت علی ص نے فرمایا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا سنت ہے ۔(ابو داؤد :مطبوعہ بیروت)
بد مذہبوں کی خیانت:
مندرجہ بالا ابوداؤد شریف کی حدیث شریف جو ہم نے بیان کی یہ حدیث ابو داؤد شریف کے بیروت کے نسخے میں موجود ہے مگر بد مذہبوں نے اس حدیث کو نکال دیا ہے تاکہ سو سال گزرنے کے بعد مسلمان اس حدیث کو بھول جائیں۔
حدیث شریف: علقمہ بن وائل بن حجر ص اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ میں نے سرکارِ اعظم ا کو نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا ہو ا دیکھا۔(مصنف ابن ابی شیبہ جلد اول ،صفحہ 390)
حدیث شریف: حضرت ابو وائل ص بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ ص فرماتے ہیں کہ نماز میں ناف کے نیچے ہتھیلی پر ہتھیلی رکھنا ہے ۔(ابو داؤد ،مطبوعہ بیروت)
حدیث شریف: حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں افطاری جلدی کرنا ، سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پرناف کے نیچے رکھنا۔(حاشیہ ابو داؤد شریف ، عمدۃ القاری)
حدیث شریف : دارقطنی اورعبداللہ ابن احمد نے حضرت علی ص سے روایت کی کہ نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اورایک روایت میں ہے داہنا ہاتھ بائیں پررکھنا ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے ۔
ان تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بقیہ حصہ ثانی میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔