تبصرہ کتب تفرداتِ نعیم ۔ فقیدالمثال تاریخی مجموعۂ کلام

تفرداتِ نعیم ۔ فقیدالمثال تاریخی مجموعۂ کلام
از: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
تاریخ گوئی ایک خاصا مشکل مگر دل چسپ فن ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو نثر و نظم میں تاریخ گوئی کے خوب صورت نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ جس مصرعے ، فقرے یا ترکیب سے کسی واقعے کا سال معلوم ہوتا ہے ، اُسے مادۂ تاریخ کہتے ہیں ۔اس کی دوقسمیں ہیں ،(۱) صوری اور(۲) معنوی۔ صوری تاریخ میں الفاظ سے سال کا اظہار کیا جاتا ہے اور معنوی تاریخ میں یہ اعدادحسابِ جمل یا ابجد کے حساب سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اگر اعداد پورے کرنے کے لیے کچھ الفاظ یا حروف بڑھانے پڑیں تو اس عمل کو تعمیہ اور اگر گھٹانے پڑیں تو تخرجہ کہتے ہیں ۔ بہتر تاریخ وہ ہے جو پورے مصرعے میں ہو۔
ہماری اردو شاعری میں انشاء اور مومن تاریخ گوئی میں ممتاز مانے جاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ ہمارے دیگر شعرا نے بھی نئی کتابوںکی اشاعت پر ’’قطعۂ تاریخِ طباعت‘‘ اور کسی عزیز کی وفات پر ’’قطعۂ تاریخ وفات‘‘ قلم بند کیے ہیں ۔ جو اُن کے مجموعہ ہاے کلام میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
شعرا و ادبا نے نظم کے ساتھ ساتھ تاریخی نثر نگاری بھی کی ہے ۔ بعض علماے کرام کی کتابوں کے نام ہمیں تاریخی ملتے ہیں ۔ ماضی قریب میں امام احمد رضا بریلوی کی شخصیت تاریخ گوئی کے میدان میں مثالی حیثیت رکھتی تھی۔ آپ کی معدودے چند کتب کے علاوہ بیش تر کتب کے نام تاریخی بھی ہیں اور مقفا بھی ۔ جن کے اعداد کو جوڑنے سے سالِ تصنیف ظاہر ہوتا ہے۔مثلاً چند کتابوں کے نام :
٭ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن ( ۱۳۳۰ھ)
٭معتبر الطالب فی شیون ابی طالب (۱۲۹۴ھ)
٭اطائب الاکسیر فی علم التکسیر (۱۲۹۶ھ)
٭مقامع الحدید علیٰ خد لمنطق الجدید (۱۳۰۴ھ)
٭ذیل المدعاالاحسن الوعاء (۱۳۰۶ھ)
٭حدائق بخشش (۱۳۲۵ھ)۔ وغیرہا
جیسا کہ ناچیز نے عرض کیا کہ انشاء و مومن کے علاوہ ہمارے دیگر شعرا نے بھی قطعاتِ تاریخ لکھے ہیں ۔ بعض نے صوری اعتبار سے تاریخ گوئی کواپناتے ہوئے الفاظ سے تاریخ کا اظہار کیا اور بعض نے معنوی اعتبار سے الفاظ کے اعداد کو جوڑ کرتاریخ کو بیان کیا ۔ کسی مخصوص لفظ یا الفاظ کے اعداد سے یا کہیں کہیں کسی مصرعے کے اعداد سے تاریخ کا اظہار شعرا نے کیا ۔ لیکن پوری پوری نظم کے ایک ایک مصرعے سے تاریخ کے دل کش اور منفرد اظہاریے کا نمونہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پرجناب نعیم ابن علیم(دھولیہ) کا شعری مجموعہ ’’تفرداتِ نعیم‘‘ سجا ہوا ہے۔ جو یقینا فقیدالمثال اور تاریخی قرار دئیے جانے کا مکمل استحقاق رکھتا ہے ۔ زیرِ نظر مجموعے میں شامل جملہ منظومات(حمد ، نعت، قطعات اور غزلیات)کے تمام تر مصرعے اس طرح نظم کیے گئے ہیں کہ ہر ہر مصرعے سے تاریخ کا استخراج ہوتا ہے ۔ حتیٰ کہ منظومات کے عناوین ، عناوین کے ذیل میں مختصر نوٹ اور شاعر کا نام بھی تاریخی ہے ۔تاریخی نثر کی بہ نسبت تاریخی نظم وہ بھی ہر ہر مصرعے سے تاریخ کا اظہاریہ کرناکتنا مشکل کام ہے اسے اہلِ نظر بہ خوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ مثلاً اس مجموعے کا پہلاکلام حمد باریِ تعالیٰ نشان خاطر کریں اور شاعرکی انفرادیت اور قادرالکلامی کو داد دیں ، اس حمد کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ صنعتِ توشیح پر مبنی ہے اور ساتھ ہی صنعتِ مسمط پر بھی ؎
تاریخی حمدِ باریِ تعالیٰ
۱۹۹۷ء
بے مثال و مجلا صنعتِ توشیح
۱۹۹۷ء
موزوں مصرعِ طرح ’’اپنے مالک سے مانگو جو کچھ تم کو حاجت ہی۔۔‘‘
۱۹۹۷ء
مادہ تاریخ چیدہ انیس سو ستانوے
۱۹۹۷ء
از نتیجۂ فکرِ جدید نعیم بن علیم بن کلیم پانچویں گلی نزد گھڑیال مسجد دھولیہ
۱۹۹۷ء
حمدِ یزداں نعمت ہے فصلِ شانِ و شوکت ہے
۱۹۹۷ء
اس میں آبِ عزت ہے یہ رحمت ہی رحمت ہے
۱۹۹۷ء
رب کی مدحِ پیہم میں ، جو ہوں یکساں ہر غم میں
۱۹۹۷ء
گلشن گلشن عالم میں ان کی قدر و قیمت ہے
۱۹۹۷ء
تاریخی حمدِ باری تعالیٰ کے بعد ۵ نعتیہ کلام ہیں جن کے عنوان اور تمام ترمصرعوں سے اُن کو قلم بند کرنے کا سال ظاہر ہوتاہے ۔ ’’تفرداتِ نعیم‘‘ کے مرتب جناب ڈاکٹر محمد سلیم انصاری نے اس مجموعے میں شامل ایک تاریخی نعت کے بارے میں ایک پُرلطف واقعہ نقل کیا ہے ۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ۱۹۹۷ء میں نعیم صاحب نے گونج انعامی مقابلے کے لیے ایک تاریخی نعت شریف لکھی لیکن کسی وجہ سے وہ مقابلے میں شامل نہ ہوسکی ۔ دوسرے سال ۱۹۹۸ء میں ادارۂ فرہنگِ جمہوریۂ ایران ممبئی نے ’’پیغمبرِ اسلام ﷺ‘‘ کے عنوان سے نظم و نثر کا ایک کل ہند مقابلہ منعقد کیا نعیم صاحب نے ۱۹۹۷ء میں لکھی ہوئی اُسی نعت شریف میں بڑی مشّاقی اور مہارت سے ایک خوب صورت تبدیلی یوں کی کہ ہر مصرعے میں ایک ایک عدد بڑھا کر اس کو ۱۹۹۸ء کردیا ۔ اور مقابلے میں شرکت کے لیے ارسال کردی۔ موصوف کو اس نعت شریف پر منتظمین کی طرف سے چار ہزار روپے کی خطیر رقم انعام دی گئی۔ دونوں نعتیں اس مجموعے کی زینت ہیں۔ جنھیں پڑھ کر نعیم صاحب کی تاریخ گوئی اور قادرالکلامی کے لیے دل سے داد نکلتی ہے ۔ دونوں نعتیہ کلام سے بہ طورِ نمونہ دو دو شعر خاطر نشین کریں اور زبان و بیان کی چاشنی سے لطف اندوز ہوں ؎
نازاں ہوئی بعثت کیا کہیے ، پایندہ رسالت کیا کہیے
۱۹۹۷ء
وہ حُسنِ شفاعت کیا کہیے ، وہ چشمِ عنایت کیا کہیے
۱۹۹۷ء
عالی ہیں وہاں کے شام و سحر ، اے چشمِ نگوں اے دیدۂ تر
۱۹۹۷ء
ہے سوزِ مدینہ دل میں اگر، دیدار کی لذّت کیا کہیے
۱۹۹۷ء
٭٭٭٭
نازاں ہے جو بعثت کیا کہیے ، ناہیدِ رسالت کیا کہیے
۱۹۹۸ء
وہ لطفِ شفاعت کیا کہیے ، وہ چشمِ عنایت کیا کہیے
۱۹۹۸ء
عالی ہے نصابِ شام و سحر، اے چشمِ نگوں اے دیدۂ تر
۱۹۹۸ء
ایوانِ مدینہ ہے دل میں اگر، پھر دید کی لذّت کیا کہیے
۱۹۹۸ء
نعتیہ کلام کے بعد جناب نعیم ابن علیم نے اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے ۔اسی طرح اکابر اور معاصر شعرا کے مجموعہ ہاے کلام پر جومنظوم تاریخی تاثرات نعیم صاحب نے لکھے ہیں وہ بھی اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ساتھ ہی چند تاریخی غزلیں بھی ہیں جو ان کی قادرالکلامی کو ظاہر کرتی ہیں۔ جناب نعیم ابن علیم نے تاریخی اشعار قلم بند کرنے میں کیسی عرق ریزی ، محنت اور جاں فشانی کی ہوگی اس کو صحیح طور پر وہی محسوس کرسکتے ہیں ۔ ’’تفرداتِ نعیم‘‘کے مکمل مطالعہ کے بعد آپ خود اس بات کو تسلیم کریں گے کہ اس مجموعے میں شامل جملہ منظومات جذبہ و تخیل ، خیال آفرینی، شعریت اور فنّی لحاظ سے بھی بلند پایہ ہیں۔
اس فقیدالمثال تاریخی مجموعۂ کلام کی ترتیب و اشاعت پر میں ڈاکٹر محمد سلیم انصاری کو ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے جناب نعیم ابن علیم کی ایسی اچھوتی، نادراورتاریخی شعری و فنّی کاوش سے دنیاے شعرو ادب کو روشناس کیا ۔ ساتھ ہی ساتھ صاحبِ کلام نعیم ابن علیم کو بھی گلہاے تحسین نذر کرتا ہوں ، یقینا موصوف نے لائق ستایش اور منفرد کام کیا ہے ایک ایسا کام جوانھیں شعر ی و ادبی کائنات میں ہمیشہ زندہ و پایندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
9420230235 / 9021761740
www.gravatar.com/mushahidrazvi
 
Top