تعلیمی ادارے اور ہمارے بچوں کے مسائل

جاسمن

لائبریرین
ہمارے ہاں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے علیحدہ سکول و کالج ہوا کرتے تھے۔ لڑکیوں کے سکولوں اور کالجوں میں خواتین اساتذہ اور لڑکوں کے سکولوں اور کالجوں میں مرد اساتذہ ہوتے۔ درجہ چہارم کے ملازمین میں بھی کچھ نہ کچھ اس چیز کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔ خواتین کے تعلیمی اداروں میں مرد ملازمین دیکھ بھال کے رکھے جاتے۔ اور ان دنوں لوگوں میں شرم، غیرت زیادہ تھی اور معاشرے کا ڈر خوف بھی تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم پریکٹیکلز کی وجہ سے اپنے کالج میں چار چار بجے تک ٹھہرتے کہ بس دیر سے آتی تھی۔ ہم اس دوران کالج کے ویران گوشوں میں بھی چکر لگا آتے۔ کبھی ہاسٹل روڈ پہ۔ کبھی کہیں اور لیکن کچھ خوف نہیں تھا۔
پھر رفتہ رفتہ ماحول بدلنے لگا۔ خواتین کے تعلیمی اداروں میں مرد اساتذہ اور لڑکوں کے اداروں میں خواتین اساتذہ کی بھرتیاں ہونے لگیں۔ پھر کئی کالجز کو مخلوط بنتے دیکھا۔
پھر ہم نے ایسے واقعات ہوتے دیکھے، سنے کہ الامان الحفیظ۔
ایسے حالات میں، ہم جس حد تک والدین سے کہہ سکتے تھے/ہیں، ہم کہتے ہیں لیکن نجانے کیوں والدین ان باتوں پہ توجہ کیوں نہیں دیتے۔
میں اپنے ادارے میں سات بجے پہنچی تو ایک بچی گھر کے کپڑوں میں آئی ہوئی تھی۔ اس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ سہیلیوں نے ادارے میں ملنے کا پروگرام بنایا تھا۔ والد کو فون کیا کہ اتنی جلدی اسے ادارے میں کیوں چھوڑ کے گئے؟ کیا آپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ کوئی خاتون استانی موجود بھی ہے؟ والد نے بتایا کہ انھیں کسی ضروری کام سے جانا تھا اور بچی کا سہیلیوں کے ساتھ پروگرام تھا سو جلدی ادارے میں چھوڑ گئے۔ میں نے انھیں کہا مہذب الفاظ میں کچھ سخت باتیں کہیں۔ ادارے میں ابھی سب ملازمین بھی نہیں آئے تھے۔ خدانخواسطہ کچھ برا ہو جائے تو کون ذمہ دار ہو گا؟ والد کو بلایا۔ سہیلیوں کو فون کر کے پروگرام ختم کیا کہ اپنے گھروں میں ملو۔
بار بار ادارے میں سٹاف چکر لگاتا ہے۔ جن کمروں میں کلاس نہیں ہو رہی ہوتی، انھیں تالا لگایا جاتا ہے۔ صبح کچھ اساتذہ جلدی آتے ہیں کہ بچیوں سے پہلے موجود ہوں۔ کچھ چھٹی کے بعد بچیوں کے جانے تک رہتے ہیں۔ لیکن دل میں خوف پھر بھی رہتے ہیں۔ کیونکہ ارد گرد ایسے واقعات کی بازگشت سنتے ہیں۔
ایک بار کسی ادارے کی انکوائری کرنے والوں میں میرا نام بھی تھا۔ کلرک اور درجہ چہارم کا ملازم ملوث تھے۔ اس ادارے میں پکا سٹاف اور پرنسپل کی سیٹ خالی تھی۔ عارضی سٹاف تھا کہ جو دیر سے آتا اور جلدی جاتا۔ بچیاں ملازمین کے رحم و کرم پہ۔ وہاں کی ایک خاتون آیا نے روح فرسا حقائق سے آگاہ کیا۔ کیا لکھوں؟
استغفرُللہ!
اور انکوائری کے نتائج کے جواب میں بس تھوڑی بہت کاروائی اور تبادلہ۔
ایسے کچھ واقعات پتہ چل جاتے ہیں لیکن زیادہ چھپے رہتے ہیں۔
میری والدین سے دست بستہ گذارش ہے کہ ازراہِ کرم 1. آپ اپنے بچوں، بچیوں کو اداروں کے سپرد کر کے بے فکر ہو کے نہ بیٹھ جایا کریں۔
2. ادارے میں درست وقت پہ بچوں کو چھوڑیں اور یہ یقین کر لیں کہ اساتذہ موجود ہیں۔ اور یہ بھی تسلی کریں کہ بچی کے ادارے میں خاتون اساتذہ موجود ہیں۔
3۔ اور چھٹی سے چند منٹ پہلے پہنچیں۔ بچوں کو وقت پہ لیں۔
4۔ بچوں کو یہ نصیحت کریں کہ ادارے کے سنسان گوشوں میں کبھی مت جائیں۔
5۔ ادارے میں کہیں بھی جائیں تو گروہ کی صورت میں جائیں۔
6۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے بچوں کے دوست بنیں۔ ان سے روز کی باتیں پوچھا کریں۔
7۔ ان میں یہ یقین راسخ کریں کہ آپ ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہیں۔ خدانخواسطہ خدانخواسطہ کچھ برا بھی ہو جائے تب بھی آپ کو بتائیں تاکہ اسے وقت پہ سنبھال لیا جائے۔
8۔ شادی بیاہ کے معاملات پہ بھی بات چیت کرنے میں حرج نہیں ہے۔ پہلے دور کو بھول جائیں کہ جب بچوں سے ایسی باتیں نہیں کی جاتی تھیں۔اب بہت بہت کچھ ایک دوسرے سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے موضوعات پہ بھی کہ ہم پچھلی نسلیں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ شادی کے موضوع پہ بات چیت اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے ذہن میں جب اپنی شادی کے حوالے سے کوئی بات آئے تو ان پہ واضح ہو کہ ان کے والدین کی کیا سوچ ہے۔ اور آپ پہ بھی ان کی سوچ واضح ہو۔ آپ اور بچوں کے درمیان دوستی کی ایسی فضا ہو کہ وہ کھل کے بات کر سکیں۔ تاکہ انھیں چھُپ کے کچھ نہ کرنا پڑے۔ حد یہ کہ انھیں کوئی اچھا لگے تو تب بھی آپ کو بتا سکیں۔
 
Top