تعارف ایک خسر کا

وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نا کچھ لگتے تھے، جس زمانے میں میرے خسر نہیں بنے تھے تو پھو پا ہوا کرتے تھے۔ اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا اس سے پہلے بھی یقینا وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مرادآباد اور کانپور میں رشتے ناطے ابلی ہوئ سویوں کی طرح الجھے ہوئے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں، ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تو میری عمر آدھی ادھر، آدھی ادھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہوگی۔ لیکن صاحب ! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چھٹ پن میں ہوتی تھی، ویسی ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہے گی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی ؟ با لکل خون کبوتر ! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جنے کیوں۔ گالی ان کا تکیہ کلام تھا۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔ ۔ رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغز قلم سے ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا جہیں وہ بوجوہ گالی نہیں دے سکتے تھے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے ، لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئ تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئ شخص ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کر لیتا تو فورا اپنی رائے تبدیل کر کے الٹے اس کے سر ہو جاتے۔

ارے صاحب ! بات اور گفتگو تو بعد کی بات ہے، بعض اوقات محض سلام سے مشتعل ہو جاتے تھے ! آپ کچھ بھی کہیں، کیسی ہی سچی اور سامنے کی بات کہیں، وہ اس کی تردید ضرور کریں گے، کسی کی رائے سے اتفاق کرنے میں اپنی سبکی سمجھتے تھے۔ ان کا ہر جملہ "نہیں" سے شروع ہوتا تھا۔ ایک دن کانپور میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی تھی، میرے منہ سے نکل گیا کہ "آج بڑی سردی ہے" بولے "نہیں، کل اس سے زیادہ پڑے گی"۔ ۔ ۔

وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الحذر لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئ۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا ۔" قبول ہے؟" ان سے سامنے منہ سے ہاں کہنے کی جرات نہ ہوئ، بس اپنی ٹھوڈی سے دو مودبانہ ٹھونگیں مار دیں جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے نا کافی سمجھا۔ قبلہ کڑک کر بولے "لونڈے بولتا کیوں نہیں؟ " ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے "جی قبول ہے" کہھ دیا۔ آواز یک لخت اتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا۔ قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنا رہے تھے کہ اتنے زور کی "ہاں" سے بیٹی والوں کی ہیٹی ہوتی ہے۔ بس تمام عمر ان کا یہی حال رہا، اور تمام عمر میں کرب قرابت داری و قربت قہری دونوں میں مبتلا رہا۔ ۔ ۔

حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی۔ اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے، لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولھا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باہر نہیں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا اور پیدل چل کر عقد گاہ تک آتے گا۔ عقدگاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئ تھی کہ مجھے تو عروسی چھپرکھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا انہوں نے یہ شرط بھی لگائ کہ براتی پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد یہ ہرگز نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈیوڑھی نہیں پڑی۔ خوب سمجھ لو، میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہرگز نہیں بجے گا اور تمہیں رنڈی نچوانی ہے تو اپنے کوٹھے پر نچواؤ۔ ۔ ۔

کسی زمانے میں راجپوتوں اور عربوں میں لڑکی کی پیدائش نحوست اور قہر الہی کی نشانی تصور کی جاتی تھی ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے گھر برات چڑھے۔ داماد کے خوف سےوہ نوزائیدہ لڑکی کو زندہ گاڑ آتے تھے۔ قبلہ اس وحشیانہ رسم کے خلاف تھے۔ وہ داماد کو زندہ گاڑ دینے کے حق میں تھے۔ ۔ ۔

یوسفی کا شاہکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کرتے تھے۔ اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا اس سے پہلے بھی یقینا وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مرادآباد اور کانپور میں رشتے ناطے ابلی ہوئ سویوں کی طرح الجھے ہوئے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں،
 

تعبیر

محفلین
یہ میں نے کچھ وقت پہلے یہیں پڑھی تھی پر جواب آج دے رہی ہوں۔اسے پڑھ کر مجھے میرے نانا ابا یاد آگئے۔انہی کے بچھڑے بھائی لگ رہے ہیں۔ انہون نے بھی جیسے بابا کو اپنی بیٹی دیکر بہت بڑا احسان کیا ہے بابا پر
 
Top