تصور شعر

اکمل زیدی

محفلین
یہ میرا منصب اور اہلیت تو نہیں کہ اس طرح کے موضوع پر گفتگو کر سکوں نہ ہی میں اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں بس کچھ سیکھنے کی جستجو رہتی ہے ایک علمی تشنگی سی ہے اور یہاں اس تشنگی کی آسودگی کے کئی اسلوب موجود ہیں جس سے استفادے کی راہیں نکلتی ہیں اسی ضمن میں ایک معروف نام جاوید اقتدار صاحب سامنے آیا جو میرے لیے تو نیا ہے مگر شاید اہل علم ان سے کافی واقفیت رکھتے ہوں احباب جانتے ہیں مجھے شعر سے ایک شغف ہے اور گاہے بگاہے کچھ کہنے کی کوشش بھی کر چکا ہوں مگر احساس ہوا کہ شاید ابھی ایک عمر چاہیے اس دشت کی سیاحی میں ۔۔خیر تو اقتدار جاوید صاحب کا ایک تبصرہ نظر سے گذرا اچھا لگا متاثر کن لگا شاید میرے متاثر ہونے کا لیول ابھی اتنا بلند نہ ہوا ہو پھر بھی مزید سیکھنے کی غرض سے اسے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں کچھ احباب کو خصوصی ٹیگ کرونگا ۔۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

تصور شعر میں بنیادی اہمیت اس تصور کی ہے جو ایک تصویر کا حامل ہے اسے امیج سازی کہنا بہتر ہے۔ امیج یا تصویر کا تصور وہ بنیادی خاکہ ہے جس پر شعر نے تعمیر ہونا ہے۔ امیج واضح، غیر مہمل، کنکریٹ اور tangible ہونے کے اوصاف رکھنے کی وجہ سے شعر کی ساخت کو قوت فراہم کرتا ہے اور قاری کا ذہن اس امیج کو بآسانی دوبارہ خلق کر سکتا ہے۔ قلم عفو، صحرائے قرار، غبار عشق اور دشت ہوس جیسی تراکیب غزل کے قاری کے لئے آسانی سے سمجھ آنے والی ہیں۔ مگر ان کو ذرا نزدیک ہو کر دیکھنے اور غور کرنے سے کھلے گا کہ عفو کا قلم، صحرا کا قرار، عشق کا غبار اور ہوس کا دشت کہیں وجود نہیں رکھتا۔ یہ شعر کا سٹیریو ٹائپ تصور ہے جو شمال سے آیا اور یہاں رائج ہی نہیں ہوا بلکہ سکہ رائج الوقت ہوگیا۔ اردو شاعر اسی فارسی غزل کےتتبع میں اسی کو اپنائے ہوئے ہے۔ غزل کے قاری کے لئے وہ تصورِشعر جو اس سٹیریو ٹائپ تصور سے جدا ہوگا اس سے حظ نہیں اٹھا سکے گا۔ ایک مشہور ترکیب دشت تنہائی ہے۔ اس ترکیب میں ایک مرئی اور ایک غیر مرئی شے ہے جن کو مرکب بنایا گیا ہے۔ دشت کی پراسراریت کی تصویر متصور کی جاسکتی ہے۔ مگر تنہائی کے دشت کی کوئی تصویر ذہن نہیں بنا سکتا۔جب شے موجود ہی نہ ہو تو اس کا تصور کیا ہوگا۔ یہ سٹیریو ٹائپ تصور ملک فارس سے آیا اور ہمارے شعری ذہن کی پرداخت کا بنیادی پتھر بن گیا۔سٹیریو ٹائپ کا ایک معنی دقیانوسی تصور ہے۔ اسے عام لفظوں میں بھیڑ چال کہنا زیادہ فصیح ہے۔ جس شاعر کے عقب میں تصور ناپید یا مستعار یا بھیڑ چال کا زائد ہ ہی سٹیریو ٹائپ ہے اور از کار رفتہ اور دقیانوسی ہے۔ تصورِ شعر کی ساخت میں ذات اور اجتماعی ذات پر دو برابر کی اہمیت کی حامل ہیں۔ اجتماعی ذات سے تخلیق کا ر اپنا شعری رزق حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ وہاں سے کیا حاصل کرتا ہے۔ سٹیریو ٹائپ خیالات یا شعر کا وژن ایک استعاراتی نظام ہی معنی کوگہرا اور پیچیدہ بناتا ہے۔
جس شعر کے عقب میں تصور شعر کارفرما نہیں ہوتا یاتصور شعر کی طاقت نہیں ہوتی وہ شعر بلاتخصیص کوئی بھی کہہ سکتا ہے یہی سٹیریو ٹائپ شعر ہے۔ اس میں سب سے بڑی حماقت چلتے فیشن کو اختیار کرنا ہے۔ ایک ہی طرح کا اظہار تخلیق کار کی موت کا تو باعث بنتا ہی ہے اس کا بچا کھچا شعری سرمایہ بھی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ شعری سرمائے کا افلاس اسی مروج فیشن کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ شعری افلاس شاعر کی مصرع سازی کی بناوٹ میں ہی ظاہرہو جاتا ہے اور مصرع سازی شاعر کی ساری صلاحیتیں کھا جاتی ہے۔ اس ضمن میں میں ما بعد جدید نظریات کے شارح فہیم اعظمی کی ایک بات کوٹ کیا کرتا ہوں کہ ’’مصرع سازی اور محض اوزان کی نوک پلک درست کرنے والے میرے مخاطب ہی نہیں، تصورِ شعر وہ فکری نظام ہے جو ایک شاعر خود ہی خلق کرتا ہے اور خود ہی اس کی پیروی بھی کرتا ہے۔ اس فکری نظام کا وہ خود ہی موجد اور خاتم ہوتا ہے۔ جونہی اس فکری نظام کی کوئی دوسرا پیروی کرتا ہے وہ اپنے لئے کلیشےکا ازخود انتظام کر رہا ہوتا ہے۔ اسے عام لفظوں میں مکھی پر مکھی مارنا کہتے ہیں‘‘۔
ہر دور میں معدودے چند شاعر ہوتے ہیں جو آسانی سے آرکی ٹائپ سے اپنی مرضی کا انتخاب کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اطلاقی طور پر کہو تو شاعروں کی کثیر تعداد اس پر قادر نہیں ہے۔ ایک طرح کی شاعری اور ایک طرح کے شعر کہنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ان کا تصورِشعر ناقص یااوسط درجے کا ہوتا ہے۔ اس میں برا منانے کی ضرورت نہیں کہ تاریخ شعر میں ایسا ہی ہوتے آیا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ یہ وقتی چھان بورا ہوتا ہے، اس پر اکتفا کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو تصور شعر کی حرکیات کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے متصف نہیں ہوتے اور اپنا وقت مصرع سازی اور شعر کو ضرب المثل بنانے کی نادانستہ کوشش میں مصروف کار ہوتے ہیں۔ سٹیریو ٹائپ کےمعنی ایک پلیٹ سے کئی پرنٹ نکالنا ہے۔ مگر اس سے متعلق ایک اور لفظ سٹیریو فونک ہے اس کا مطلب ٹیپ ریکارڈر ہے۔ شاعروں کی نئی نسل کے لئے شاید ٹیپ ریکارڈر کا معنی واضح نہ ہو مگر وہ یہ ضرور سمجھ جائیں گے کہ ایک ہی گانا بار بار دہرایا جانا کیا معنی رکھتا ہے۔
شعری نظام ہی تصور شعر ہے جس تشکیل کے پیچھے ذات، ذات اجتماعی، (روایت، جدید نظریات سے تعلق، مابعد نو آبادیات مسائل اور بہت کچھ) شاعر کے ممد ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے شعر کا شعری نظام ترتیب پاتا ہے۔ تصور شعر کا ایک ٹول یا فن تراکیب سازی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو شاعر کو بھٹکا سکتا ہے کہ ہماری روایت ترکیب سازی بھی سکھاتی ہے۔ ترکیب سازی دو الفاظ کا مرکب ہے جو شعر میں ممد کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔غرقاب سراب دار، بحر بے کراں، بحر ذخار اور ہجر دعا یا ہجر شب کو لیں۔ ان میں پہلی ترکیب سب سے زیادہ مبہم، نقصان دہ، لایعنی اور بے سروپا ہے۔ سراب کی بنیاد سرب ہے جو عربی الاصل ہے اور جس کا معنی خفیہ راستہ ہے جیسے قرآن مجید میں آیا ہے ’’فَاتَّخَذَ سَبِيلَہ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا‘‘۔ زمین دوز راستہ جو پار نہ ہو، تہ خانہ، جنگلی جانور کا بل یا بھٹ، مشکیزے سے بہنے والے پانی کو اسی لئے اسراب کہتے ہیں۔ اگر اس کے لغوی معنی دھوکے کو دھیان میں لائیں جو شاعر کا مقصود ہے ’’وہ سولی کے دھوکے میں ڈوبا ہوا ہے‘‘۔ جب شاعر بحر بیکراں کو شعر میں استعمال کرے گا تو اس کے سامنے ایک لمبے چوڑے، طوفان پرور سمندر کی تصویر ہوگی۔ اسی طرح بحر ذخار کی مثال ہے۔ مگر ادبی روایت کے تتبع جب بحر دعا یا بحر ہجر استعمال ہوگا تو یقیناً شاعر کے ذہن میں کہیں اس کا تصور پیدا ہی نہیں ہوگا کہ دعا کے سمندر یا جدائی کے سمندر کا وجود ہی کہیں نہیں ہے۔ اس کا مطلب مصرع میں الابلاشامل کرنا ہے۔
موجودہ دور میں تصور کی ایک عمدہ مثال ظفر اقبال کی پہلی دو کتابوں آب رواں اور گلافتاب کا تصور شعر اس قدر روایت شکن تھا کہ راشد اور فیض جیسے نظم نگار اور غزل گو اس کو پوری طرح گرفت میں لینے سے ناکام رہے۔ راشد ان دو کتابوں کی اشاعت کے بعد تیرہ سال اور فیض بیس بائیس سال زندہ رہے۔ ان دونوں نے اس تصور شعر کی نہ صرف تحسین نہیں کی بلکہ اس کے حق یا استرداد میں ایک لفظ نہ کہا۔ اس لئے کہ یہ تصورِ شعر ان کے غزلیہ اسلوب اور پامال تصور پر ایک کاری ضرب تھی۔

 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اکمل ، مجھے تہِ ٹیگ کرنے کا شکریہ!
یہ تحریر دو دفعہ پڑھی ۔ پہلی دفعہ پڑھنے کے بعد میرا تاثر یہ تھا کہ فاضل مصنف نے کچھ کہنے کی کوشش کی ہے جو میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ دوسری دفعہ بغور پڑھنے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ یہ تحریر مصنف نے شاید دو پلیٹ بریانی اور ایک بڑا ساگلاس لسی کا نوش فرمانے کے بعد قیلولے کے دوران لکھی ہے ۔:) معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ نہایت بے ربط تحریر ہے جس میں بیک وقت کئی مختلف موضوعات اور نکات پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن آخر تک یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مدعا کیا ہے۔ادھر سے ادھر چھلانگیں ماری گئی ہیں ۔آخر تک یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ترکیب سازی کے بارے میں فاضل مصنف کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ آیا وہ مذکورہ قسم کی تجریدی ترکیب سازی کے مخالف ہیں یا اس سے متفق؟ اگر آپ سمجھ سکے ہوں تو مجھے بھی بتائیے۔
 

علی وقار

محفلین
یہ میرا منصب اور اہلیت تو نہیں کہ اس طرح کے موضوع پر گفتگو کر سکوں نہ ہی میں اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں بس کچھ سیکھنے کی جستجو رہتی ہے ایک علمی تشنگی سی ہے اور یہاں اس تشنگی کی آسودگی کے کئی اسلوب موجود ہیں جس سے استفادے کی راہیں نکلتی ہیں اسی ضمن میں ایک معروف نام جاوید اقتدار صاحب سامنے آیا جو میرے لیے تو نیا ہے مگر شاید اہل علم ان سے کافی واقفیت رکھتے ہوں احباب جانتے ہیں مجھے شعر سے ایک شغف ہے اور گاہے بگاہے کچھ کہنے کی کوشش بھی کر چکا ہوں مگر احساس ہوا کہ شاید ابھی ایک عمر چاہیے اس دشت کی سیاحی میں ۔۔خیر تو اقتدار جاوید صاحب کا ایک تبصرہ نظر سے گذرا اچھا لگا متاثر کن لگا شاید میرے متاثر ہونے کا لیول ابھی اتنا بلند نہ ہوا ہو پھر بھی مزید سیکھنے کی غرض سے اسے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں کچھ احباب کو خصوصی ٹیگ کرونگا ۔۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

تصور شعر میں بنیادی اہمیت اس تصور کی ہے جو ایک تصویر کا حامل ہے اسے امیج سازی کہنا بہتر ہے۔ امیج یا تصویر کا تصور وہ بنیادی خاکہ ہے جس پر شعر نے تعمیر ہونا ہے۔ امیج واضح، غیر مہمل، کنکریٹ اور tangible ہونے کے اوصاف رکھنے کی وجہ سے شعر کی ساخت کو قوت فراہم کرتا ہے اور قاری کا ذہن اس امیج کو بآسانی دوبارہ خلق کر سکتا ہے۔ قلم عفو، صحرائے قرار، غبار عشق اور دشت ہوس جیسی تراکیب غزل کے قاری کے لئے آسانی سے سمجھ آنے والی ہیں۔ مگر ان کو ذرا نزدیک ہو کر دیکھنے اور غور کرنے سے کھلے گا کہ عفو کا قلم، صحرا کا قرار، عشق کا غبار اور ہوس کا دشت کہیں وجود نہیں رکھتا۔ یہ شعر کا سٹیریو ٹائپ تصور ہے جو شمال سے آیا اور یہاں رائج ہی نہیں ہوا بلکہ سکہ رائج الوقت ہوگیا۔ اردو شاعر اسی فارسی غزل کےتتبع میں اسی کو اپنائے ہوئے ہے۔ غزل کے قاری کے لئے وہ تصورِشعر جو اس سٹیریو ٹائپ تصور سے جدا ہوگا اس سے حظ نہیں اٹھا سکے گا۔ ایک مشہور ترکیب دشت تنہائی ہے۔ اس ترکیب میں ایک مرئی اور ایک غیر مرئی شے ہے جن کو مرکب بنایا گیا ہے۔ دشت کی پراسراریت کی تصویر متصور کی جاسکتی ہے۔ مگر تنہائی کے دشت کی کوئی تصویر ذہن نہیں بنا سکتا۔جب شے موجود ہی نہ ہو تو اس کا تصور کیا ہوگا۔ یہ سٹیریو ٹائپ تصور ملک فارس سے آیا اور ہمارے شعری ذہن کی پرداخت کا بنیادی پتھر بن گیا۔سٹیریو ٹائپ کا ایک معنی دقیانوسی تصور ہے۔ اسے عام لفظوں میں بھیڑ چال کہنا زیادہ فصیح ہے۔ جس شاعر کے عقب میں تصور ناپید یا مستعار یا بھیڑ چال کا زائد ہ ہی سٹیریو ٹائپ ہے اور از کار رفتہ اور دقیانوسی ہے۔ تصورِ شعر کی ساخت میں ذات اور اجتماعی ذات پر دو برابر کی اہمیت کی حامل ہیں۔ اجتماعی ذات سے تخلیق کا ر اپنا شعری رزق حاصل کرتا ہے۔ یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ وہاں سے کیا حاصل کرتا ہے۔ سٹیریو ٹائپ خیالات یا شعر کا وژن ایک استعاراتی نظام ہی معنی کوگہرا اور پیچیدہ بناتا ہے۔
جس شعر کے عقب میں تصور شعر کارفرما نہیں ہوتا یاتصور شعر کی طاقت نہیں ہوتی وہ شعر بلاتخصیص کوئی بھی کہہ سکتا ہے یہی سٹیریو ٹائپ شعر ہے۔ اس میں سب سے بڑی حماقت چلتے فیشن کو اختیار کرنا ہے۔ ایک ہی طرح کا اظہار تخلیق کار کی موت کا تو باعث بنتا ہی ہے اس کا بچا کھچا شعری سرمایہ بھی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ شعری سرمائے کا افلاس اسی مروج فیشن کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ شعری افلاس شاعر کی مصرع سازی کی بناوٹ میں ہی ظاہرہو جاتا ہے اور مصرع سازی شاعر کی ساری صلاحیتیں کھا جاتی ہے۔ اس ضمن میں میں ما بعد جدید نظریات کے شارح فہیم اعظمی کی ایک بات کوٹ کیا کرتا ہوں کہ ’’مصرع سازی اور محض اوزان کی نوک پلک درست کرنے والے میرے مخاطب ہی نہیں، تصورِ شعر وہ فکری نظام ہے جو ایک شاعر خود ہی خلق کرتا ہے اور خود ہی اس کی پیروی بھی کرتا ہے۔ اس فکری نظام کا وہ خود ہی موجد اور خاتم ہوتا ہے۔ جونہی اس فکری نظام کی کوئی دوسرا پیروی کرتا ہے وہ اپنے لئے کلیشےکا ازخود انتظام کر رہا ہوتا ہے۔ اسے عام لفظوں میں مکھی پر مکھی مارنا کہتے ہیں‘‘۔
ہر دور میں معدودے چند شاعر ہوتے ہیں جو آسانی سے آرکی ٹائپ سے اپنی مرضی کا انتخاب کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔ اطلاقی طور پر کہو تو شاعروں کی کثیر تعداد اس پر قادر نہیں ہے۔ ایک طرح کی شاعری اور ایک طرح کے شعر کہنا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ان کا تصورِشعر ناقص یااوسط درجے کا ہوتا ہے۔ اس میں برا منانے کی ضرورت نہیں کہ تاریخ شعر میں ایسا ہی ہوتے آیا ہے اور ایسے ہی ہوتا رہے گا۔ یہ وقتی چھان بورا ہوتا ہے، اس پر اکتفا کرنے والے وہی ہوتے ہیں جو تصور شعر کی حرکیات کا ادراک کرنے کی صلاحیت سے متصف نہیں ہوتے اور اپنا وقت مصرع سازی اور شعر کو ضرب المثل بنانے کی نادانستہ کوشش میں مصروف کار ہوتے ہیں۔ سٹیریو ٹائپ کےمعنی ایک پلیٹ سے کئی پرنٹ نکالنا ہے۔ مگر اس سے متعلق ایک اور لفظ سٹیریو فونک ہے اس کا مطلب ٹیپ ریکارڈر ہے۔ شاعروں کی نئی نسل کے لئے شاید ٹیپ ریکارڈر کا معنی واضح نہ ہو مگر وہ یہ ضرور سمجھ جائیں گے کہ ایک ہی گانا بار بار دہرایا جانا کیا معنی رکھتا ہے۔
شعری نظام ہی تصور شعر ہے جس تشکیل کے پیچھے ذات، ذات اجتماعی، (روایت، جدید نظریات سے تعلق، مابعد نو آبادیات مسائل اور بہت کچھ) شاعر کے ممد ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے شعر کا شعری نظام ترتیب پاتا ہے۔ تصور شعر کا ایک ٹول یا فن تراکیب سازی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹول ہے جو شاعر کو بھٹکا سکتا ہے کہ ہماری روایت ترکیب سازی بھی سکھاتی ہے۔ ترکیب سازی دو الفاظ کا مرکب ہے جو شعر میں ممد کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے۔غرقاب سراب دار، بحر بے کراں، بحر ذخار اور ہجر دعا یا ہجر شب کو لیں۔ ان میں پہلی ترکیب سب سے زیادہ مبہم، نقصان دہ، لایعنی اور بے سروپا ہے۔ سراب کی بنیاد سرب ہے جو عربی الاصل ہے اور جس کا معنی خفیہ راستہ ہے جیسے قرآن مجید میں آیا ہے ’’فَاتَّخَذَ سَبِيلَہ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا‘‘۔ زمین دوز راستہ جو پار نہ ہو، تہ خانہ، جنگلی جانور کا بل یا بھٹ، مشکیزے سے بہنے والے پانی کو اسی لئے اسراب کہتے ہیں۔ اگر اس کے لغوی معنی دھوکے کو دھیان میں لائیں جو شاعر کا مقصود ہے ’’وہ سولی کے دھوکے میں ڈوبا ہوا ہے‘‘۔ جب شاعر بحر بیکراں کو شعر میں استعمال کرے گا تو اس کے سامنے ایک لمبے چوڑے، طوفان پرور سمندر کی تصویر ہوگی۔ اسی طرح بحر ذخار کی مثال ہے۔ مگر ادبی روایت کے تتبع جب بحر دعا یا بحر ہجر استعمال ہوگا تو یقیناً شاعر کے ذہن میں کہیں اس کا تصور پیدا ہی نہیں ہوگا کہ دعا کے سمندر یا جدائی کے سمندر کا وجود ہی کہیں نہیں ہے۔ اس کا مطلب مصرع میں الابلاشامل کرنا ہے۔
موجودہ دور میں تصور کی ایک عمدہ مثال ظفر اقبال کی پہلی دو کتابوں آب رواں اور گلافتاب کا تصور شعر اس قدر روایت شکن تھا کہ راشد اور فیض جیسے نظم نگار اور غزل گو اس کو پوری طرح گرفت میں لینے سے ناکام رہے۔ راشد ان دو کتابوں کی اشاعت کے بعد تیرہ سال اور فیض بیس بائیس سال زندہ رہے۔ ان دونوں نے اس تصور شعر کی نہ صرف تحسین نہیں کی بلکہ اس کے حق یا استرداد میں ایک لفظ نہ کہا۔ اس لئے کہ یہ تصورِ شعر ان کے غزلیہ اسلوب اور پامال تصور پر ایک کاری ضرب تھی۔

میں اس قابل تو نہیں کہ اس موضوع پر تبصرہ کر سکوں مگر آپ کی جانب سے ٹیگ کیا گیا ہے تو کچھ تو لکھنا پڑے گا۔ میری نظر میں یہ مضمون اس موقف کی حمایت میں لکھا گیا ہے جس میں نئی لسانی تشکیل کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ تحریک کافی حد تک ناکام ثابت ہوئی تھی۔ آفتاب اقبال صاحب کے والد محترم ظفر اقبال کی کتاب کا عنوان گلافتاب گُل اور آفتاب کو جوڑ کر بنایا گیا تھا، اور یہ کتاب شاید ستر کی دہائی میں لکھی گئی تھی۔ دیگر عجیب و غریب تراکیب کا تو معاملہ ہی الگ ہے (اگر کہیں گے تو ان الفاظ کی شراکت کی کوشش کروں گا)، مگر کتاب کا عنوان یعنی گلافتاب بھی تو کئی دہائیاں گزرنے کے بعد رائج نہ ہو پایا، اس لیے یہ لسانی تحریک ایک طرح سے دم توڑ گئی تھی اور دیگر شعراء کے کیے گئے تجربے اور روایت سے ہٹ کر کی گئی شاعری کو یہاں زیادہ پذیرائی نہ مل پائی۔ لسانی تحریک اور جدید اردو شاعری کے علم بردار شاعر بھی مروجہ معرب و مفرس تراکیب اور شاعری میں عربی و فارسی سے مستعار الفاظ و تراکیب سے بے زار تھے اور نئی تراکیب وضع کی جاتی تھیں مگر میرے خیال میں اردو زبان میں یہ دیدہ دانستہ اور غیر فطری تبدیلی کم از کم بڑے شعراء میں رواج نہ پا سکی اور عوامی سطح پر بھی اسے زیادہ پذیرائی نہ مل پائی اور یہ تراکیب اجنبی اور نا مانوس رہیں۔ معلوم نہیں، جناب جاوید اقتدار صاحب کا یہ مضمون کس دور کا ہے۔ ویسے میں خود بھی یہاں تک تو سمجھتا ہوں کہ شاعری کلیشے زدہ نہ ہو مگر آپ دیکھ لیجیے کہ یہاں ہم ایسے شعراء کا کلام پڑھتے ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ یہ جو اس مراسلے سے اوپر ایک مراسلہ ایک صاحب نے کیا ہے، ان کی شاعری ہی دیکھ لیجیے۔ روایت سے جڑی ہوئی، مگر اس کے باوجودہ کلام میں تازگی اور ندرت ایسی ہے کہ کیا کہنے۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تصورِ شعر بڑا دقت طلب موضوع ہے اور تحقیق کا بھی متقاضی ہے جس پر گفتگو سے قبل یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ ہر شاعر کی قوتِ پرواز اپنی اپنی ہوتی ہے، کچھ چڑیوں اور کچھ عقاب کی طرح اڑ سکتے ہیں جس سے ان کے دائرہ کار کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ سو تصورِ شعر ہر بار اگر بدلتا ہی جائے گا تو بے سمتی کا رجحان جو موجودہ دور میں بے انتہا بڑھ چکا ہے، اسے مزید تقویت ملے گی۔ بقول تخلیق کار: تصورِ شعر وہ فکری نظام ہے جو ایک شاعر خود ہی خلق کرتا ہے اور خود ہی اس کی پیروی بھی کرتا ہے۔ اس فکری نظام کا وہ خود ہی موجد اور خاتم ہوتا ہے۔اس طرح تو ہر شخص نت نئے تصورِ شعر کو جنم دے دے کر اس قدر زیادہ تصوراتِ شعر جنم دینے کا باعث بنتا جائے گا کہ بالآخر شعر کیا ہوتا ہے؟ اس کی پہچان ہی کہیں ختم نہ ہو کر رہ جائے۔ بہرحال ، بہتر سے بہتر کی تلا ش ضروری ہے ، وہ کرنی بھی چاہئے، اس سے متفق ہوں۔
 
Top