تشریحاتِ میر

نوید صادق

محفلین
دوستو!
یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں روز میر کے ایک شعر کی شرح اپلوڈ کر دیا کروں۔
یہ شرح شمس الرحمٰن فاروقی کی "شعر شور انگیز" سے لے رہا ہوں۔
مکمل شعرِ شور انگیز کی بجائے صرف اپنی پسند کے اشعار اور ان کی شرح پیش کروں گا۔ اسے ایک انتخاب کہا جا سکتا ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
سینہ تو کیا فضلِ الٰہی سے سبھی چاک
ہے وقتِ دعا میر کہ اب دل کو لگا ہوں

(میر)

اس شعر میں "فضلِ الٰہی" کی ترکیب پورے پورے شعروں پر بھاری ہے۔اس کا جواب اگر ممکن ہے تو صرف مصرع ثانی کے "دل کو لگا ہوں" میں ممکن ہے۔ "فضلِ الٰہی " میں کارکنانِ قضا و قدر کے انتظام پر طنز بھی ہے اور دور سے کہیں تشکر کی جھلک ہے۔کہ خدا کے فضل کے بغیر ایسا کارنامہ ممکن نہ تھا۔اس شخص کی بدنصیبی بھی کس غضب کی ہو گی جس کے لیے فضلِ الٰہی چاکِ سینہ کی شکل میں نمودار ہوا۔ اور اضطرار اور مجبوری کس غضب کی ہے کہ اس بات کا احساس ہے کہ جان کا زیاں کر رہے ہیں۔لیکن اس زیاں کو روک نہیں سکتے۔ دوسرے مصرعے میں وقتِ دعا بھی خوب ہے۔ یہ بات واضح نہیں کی کہ دعا کس بات کے لیے ہے۔کیا اس بات کی دعا درکار ہے کہ متکلم اب بھی سمجھ جائے۔اور جاں کا زیاں کرنے سے باز رہے۔؟ یا اس بات کی دعا درکار ہے کہ جس طرح فضلِ الٰہی کے ذریعہ سینہ چاک چاک کیا، اسی طرح فضلِ باری شاملِ حال ہو تا کہ دل بھی پارہ پارہ کر سکیں؟ یا اس بات کی دعا کرنا مقصود ہے کہ اب متکلم کا کام تمام ہونے ہی والا ہے۔ اب اس کے حق میں مغفرت چاہی جائے؟ ابہام نے عجب تناوء پیدا کر دیا ہے۔
" دل کو لگا ہوں" میں جنون کی شدت، ذہن کا ارتکاز، ایک طرح کی mindless قوت اور خود کو تباہ کرنے کی دھن کا ایسا زبردست اظہار ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایسا شعر اچھے اچھوں سے بھی برسوں میں ہوتا ہے۔
قائم نے اس سے ملتا جلتا مضمون باندھ لیا ہے لیکن ان کے یہاں وہ وحشیانہ محویت اور طنز نہیں ہے۔ اپنی حد تک قائم کا شعر، خاص کر مصرع ثانی بہت ہی خوب ہے۔

گریباں کی تو قائم مدتوں دھجیں اڑائی ہیں
یہ خاطر جمع اس دن ہووے جب سینے کو ہم چیریں
(قائم)

اس مضمون کو قائم نے ایک بار اور کہا، لیکن یہاں وہ بات بھی نہ آئی جو گزشتہ شعر میں ہے

ٹک گریباں آج پھٹ کر دھجیئیں ہو لے تو پھر
چاک پر سینے کے قائم پیش دستی کیجئے

(قائم)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

انتخاب پیش کرنے کے حوالے سے اچھی تجویز ہے نوید بھائی اردو کے پرچہ میں اشعار کی تشریح کرنے سے تو میری جان جاتی تھی :happy:

 

فاتح

لائبریرین
قبلہ نوید صاحب! میں تو اس دھاگے میں آج آپ کا نیا مراسلہ سیکھ کر خوشی خوشی اس طرف آیا تھا کہ ایک مزید شعر کی تشریح جاننے کا موقع دے رہے ہیں آپ۔ یقین کیجیے بے حد خوشی ہوئی تھی آپ کی جانب سے یہ دھاگا دیکھ کر۔
شعر پار بات کرنے کی استطاعت نہیں پاتا۔
 

نوید صادق

محفلین
آوارگی کی سب ہیں یہ خانہ خرابیاں
لوگ آویں دیکھنے کو بہت ہم جو گھر رہیں
(میر تقی میر)

شرح:
میر کو اس بات کا شاید بہت زیادہ احساس تھا کہ وہ مغتنم ہیں۔ لہٰذا یہ مناسب ہی ہے کہ لوگ ان سے ملنے اور انہیں دیکھنے کے لیے آئیں۔بظاہر ان کے مزاج میں یار باشی بھی تھی۔بعض اشعار اور بعض نظموں کی وجہ سے لوگوں نے یہ مشہور کر دیا کہ وہ بہت بددماغ تھے اور لوگوں سے ملتے جلتے نہ تھے۔اس بات کو آبِ حیات میں مذکور بعض قصوں نے اور بھی شہرت دی۔۔لیکن ان کے پورے کلام کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ مرجوعہء خلق ہونا پسند کرتے تھے۔(ممکن ہے یہ ازراہِ رعونت ہو، کہ ہم چو من دیگرے نیست) بہرحال ان کے پورے کلام سے تاثر یہی حاسل ہوتا ہے کہ لوگ ان سے ملتے جلتے تھے۔وہ لوگون میں اٹھتے بیٹھتے تھے۔ اور انہیں معاشرے کے معمورے کا خاصا احساس تھا۔
میر کے ایک اور شعر میں ہم میر کے دروازے پر ایک انبوہ دیکھتے ہیں جو میر کے دیدار کے لیے جمع ہے، لیکن میر خود اپنے آپ سے بے خبر کسی اور منزل مین گم ہیں، شعر یر بحث میں اس کا الٹا منظر ہے۔ کہ گھر ویران پڑا ہے۔ لیکن یہ اس وجہ سے ہے کہ آوارگی کے ہاتھوں متکلم دشت و شہر میں مارا مارا پھرتا ہے۔اگر وہ گھر پر رہے تو لوگ اسے دیکھنے جوق در جوق آئیں۔ یہاں تک کہ اس کے جنازے پر بھی جمِ غفیر ہوتا ہے۔ (اس مضمون کو بھی کئی بار کہا ہے)

زیادہ حد سے تھی تابوتِ میر پر کثرت
ہوا نہ وقت مساعد نماز کرنے کو
(دیوانِ اول)
دونوں مضمون باالکل نئے ہیں۔ شعرِ یرِ بحث کے مضمون کو بدل بدل کر میر نے کئی بار نظم کیا

چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میر کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے (دیوانِ اول)

چل ہم نشیں بنے تو ایک آدھ بیت سنئے
کہتے ہیں بعد مدت، میر اپنے گھر رہے ہیں ( دیوانِ دوم)

چلو میر کے تو تجسس کے بعد
کہ وے وحشی تو اپنے گھر میں بھی ہیں (دیوانِ سوم)

آ ہم نشیں بنے تو آج ان کنے بھی چلئے
کہتے ہیں میر صاحب، مدت میں کل گھر آئے (دیوانِ سوم)


شعرِ زیرِ بحث میں خوبی یہ ہے کہ خانہ خرابی، اور متکلم کا مرجوعہ ہونا، دونوں باتیں اس میں مذکور کر دی ہیں۔
 

نوید صادق

محفلین
تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمہیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں

شرح:
یہ شعر تعریف و تجزیہ سے مستغنی ہے۔ میر کو "کبھی" چاہنے کا مضمون خود ہی اس قدر پر معنی ہے کہ اگر شعر میں اور کچھ نہ ہوتا تو بھی یہ شعر قابلَ قدر ہوتا۔ "کبھی" بمعنی "ایک بار" فرض کیجئے تو "چاہو" کے دو معنی نکلتے ہیں۔
1۔تمہارے دل میں میر کی محبت پیدا ہو
2۔ تم میر سے اختلاط کرو

"کبھی" بمعنی "کسی وقت" فرض کیجئے تو مفہوم یہ ہوا کہ کسی بھی وقت سہی، لیکن ایک بار میر کو اپنے پاس بلا لو۔ "کبھی" بمعنی "کسی موقعے پر" فرض کیجئے تو معنی ہوئے کہ میر تمہیں عرصے سے چاہتے ہیں۔کبھی وہ دن بھی آ جائے جب تم میر کو چاہنے لگو۔

دوسرے مصرعے میں میر کے خاص رنگ کا روزمرہ زندگی والا ماحول ہے۔ کچھ لوگ ہیں، ممکن ہے وہ خود معشوق صفت لوگ ہوں، لیکن وہ میر سے بے تکلف نہیں ہو سکتے، کیوں کہ وہ میر کا ادب کرتے ہیں۔لیکن یہ بات بھی ہے کہ میر کو بھی ان سے کوئی محبت نہیں، کیوں کہ میر کو تو مخاطب سے عشق ہے ( یعنی اس معشوق سے جس کو مخاطب کر کے یہ کلام کیا گیا۔) لہٰذا اگر متکلم لوگوں کو میر سے محبت ہو بھی ، تو بے فائدہ ہے، کیوں کہ میر تو کسی اور کو چاہتے ہیں۔ ادب کرنے میں یہ نکتہ بھی ہے کہ "چاہنا" جہاں ہو وہاں ادب دیر تک نہیں رہتا۔ جہاں اختلاط شروع ہوا اور معاملاتِ عشق کی بے تکلفی آئی، ادب کی بساط تہ ہوئی۔ ادب کا ذکر اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ " چاہو" میں صرف افلاطونی محبت نہیں ہے۔بلکہ معاملاتِ اختلاط بھی ہیں۔

پھر سوال یہ ہے کہ لوگ میر کا ادب کیوں کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں میر بہت پیرانہ سال بزرگ یا کوئی خشک مزاج عالم ہیں۔لہٰذا میر کا ادب ان کی عاشقی کے مرتبے کی بنا پر ہے۔ اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ لوگ میر کا ادب ان باتوں کی بنا پر کرتے ہیں عاشقی جن سے عبارت ہے۔مثلا" یہ کہ میر سوز و الم کی انتہائی منزل کو پہنچ گئے ہیں۔ شدید غم ہمیشہ تقدس کا حامل ہوتا ہے اور احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ آسکر وائلڈ جیسے شخص نے بھی محسوس کیا کہ جہاں غم ہے وہاں تقدس ہے۔Where there is sorrow, there is holy ground ممکن ہے اس کا یہ خیال والٹر پیٹر سے مستعار رہا ہو جہاں اس نے ڈاونچی کی مونا لیزا کے بارے میں لکھا ہے۔ بہرحال یہ بات مشرق و مغرب میں عرصے سے مانی گئی ہے کہ غم میں تقدس کا رنگ ہوتا ہے اور وہ احترام کا تقاضا کرتا ہے۔

یا پھر میر کا ادب شاید اس وجہ سے لازم ہو کہ ان کی دیوانگی حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ دیوانوں کو غیر انسانی ، بلکہ الوہی فیضان سے مشرف سمجھنا بھی مشرق و مغرب میں عام بات رہی ہے۔ارسطو نے شعرا میں ایک طرح کی دیوانگی بے وجہ ہی نہیں دریافت کی تھی۔ اور شیکسپیئر نے اپنے ایک کردار کی زبان سے بے مطلب ہی یہ بات نہ کہلائی تھی کہ دیوانہ ، عاشق، اور شاعر تینوں سر تا سر تخیل ہیں، تخیل ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ مائیکل فوکو نے اپنی کتاب میڈ نیس اینڈ سوی لائزیشن میں لکھا ہے کہ دیوانوں کو مقدس سمجھنے کی روایت مغرب میں کم و بیش انیسویں صدی تک قائم رہی۔ فوکو نے اس معاملے پر بحث دوسرے نقطہ نظر سے کی ہے، لیکن یہاں مجھے صرف اس قدر کہنا مقصود ہے کہ دیوانوں ، مجوبوں اور مستغرق فی الخیال لوگوں کی تقدیس بہت مشہور مسئلہ ہے۔

تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میر سراسر عشق ہیں( پر عشق بھر رہا ہے ایک ایک میری نس میں) ایسے شخص کا ادب لازمی ہے، کیوں کہ عشق کی اپنی روحانیت ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص کمال عشق کے درجے پر فائز ہو تو پھر کیا کہنا ہے۔

اس طرح یہ شعر محض عشقیہ مضمون کا نہیں۔ بلکہ اس میں ایک پورا تصورِ حیات اور لائحہ زیست آ گیا ہے۔ عزیز قیسی کے یہاں یہ مضمون بہت محدود ہو گیا ہے، اس لئے معنی بھی کم ہیں

اک تمہی ہم سے کھنچے ہو ورنہ
چاہنے والوں کو سب چاہتے ہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
نوید صادق بھائی شاید اس شعر میں ادب ہے لیکن الف آپ سے چھوٹ گیا۔ براہِ مہربانی درست کر لیجیے۔ :)
تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمہیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں

 
Top