تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!

ایک تازہ غزل پیش ہے :
ق
سبھی چاہتے ہیں کوشش سے حصول ہو زیادہ !
اسی دھن میں سب لگے ہیں، یہی مستقل ارادہ!

یہ یقین اک مکمل، یہ بلا کی سادہ لوحی
یہ حقیقتیں ذرا کم، یہ مبالغہ زیادہ!
-----
مرے ساتھ ہی کھڑی تھیں، مری لغزشیں وہیں پر
مرے تجربوں کا جس دم ہوا آئینہ کشادہ!

ترے حق میں یہ دعا ہے، تجھے جستجو ہو پیہم
تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!

وہ نصیب کا تھا صفحہ ،میں نے غور سے جو دیکھا
کہیں نامہ مختصر سا، کہیں حاشیہ کشادہ!

تو زباں سے کہہ رہا ہے میں تو ساتھ ہوں تمھارے
مجھے کیا خبر کہ کیا ہے ترا باطنی ارادہ!

مرے ساتھ آ کے خوش ہے، یہ فریب ہی دے مجھ کو
جو ہے زیرِ لب تبسّم، اسے اور کر کشادہ!

وہ تعلقات میں جب، ذرا ڈھیل دے رہاتھا
مرا ذہن منتشر تھا، میں تناؤ میں تھا زیادہ!

وہ لبھا رہی تھی گلچیں کو لچک لچک کے پیہم
کبھی گُل نہ جان پایا ،کسی شاخ کا ارادہ!

اسی دم اجل چلی آ، مجھے تھامنے کو فوراََ
اسے ایک پل بھی بھولوں، کبھی میں جو بے ارادہ!

ہے جو دَر فنا کا آگے، یہ ہے امتحانِ آخر!
ذرا خوف رکھ الگ کو، ذرا ذہن کر کشادہ!!

وہ غُبارِ طُور اُڑ کر ،یہی کہہ رہا تھا کاشف !
یہ جمالِ مختصر تھا ،مری تاب سے زیادہ!!

سیّد کاشف
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! بہت خوب کاشف بھائی ! خوب غزل ہے !
لیکن اگر میری بے لاگ رائے پوچھیں تو مزا نہیں آیا ۔ آ پ کی دیگر غزلوں کی نسبت ان اشعار میں حشو و زوائد کی کثرت ہے ۔ اکثر اشعار کی بندش بہت ڈھیلی ڈھالی ہے ۔
 

فاخر رضا

محفلین
واہ ! بہت خوب کاشف بھائی ! خوب غزل ہے !
لیکن اگر میری بے لاگ رائے پوچھیں تو مزا نہیں آیا ۔ آ پ کی دیگر غزلوں کی نسبت ان اشعار میں حشو و زوائد کی کثرت ہے ۔ اکثر اشعار کی بندش بہت ڈھیلی ڈھالی ہے ۔
سلام
زیادہ کو زادہ پڑھنا کیا درست ہے

مرا ذہن منتشر تھا، میں تناؤ میں تھا زیادہ!
 
جی نہیں ۔ زیادہ کا وزن فعولن ہے ۔ کاشف صاحب نے یہاں اسے نے ٹھیک نہیں باندھا ۔
شکریہ ظہیر بھائی !
آپ کا بے لاگ تبصرہ سر آنکھوں پر !
مجھے زیادہ کے وزن کا اندازہ تھا، لیکن بر وقت کوئی بہتر صورت شعر کے لئے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
یہ شعر ترمیم کی لسٹ میں پہلے سے ہی شامل ہے !
:)
جزاک اللہ !
 
واہ ! بہت خوب کاشف بھائی ! خوب غزل ہے !
لیکن اگر میری بے لاگ رائے پوچھیں تو مزا نہیں آیا ۔ آ پ کی دیگر غزلوں کی نسبت ان اشعار میں حشو و زوائد کی کثرت ہے ۔ اکثر اشعار کی بندش بہت ڈھیلی ڈھالی ہے ۔
آپ کی بے لاگ رائے مجھے عزیز ہے۔ ایک آپ ہی ہیں جس نے دو لفظ تبصرے کے لکھے ورنہ یار لوگ تو "در گزر" کے جرسومے کے مبتدی مریض لگتے ہیں !:p جزاک اللہ !
کچھ اور فرمائیں تو میرے لئے تصحیح کی صورت نکلے !
شکریہ !
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کی بے لاگ رائے مجھے عزیز ہے۔ ایک آپ ہی ہیں جس نے دو لفظ تبصرے کے لکھے ورنہ یار لوگ تو "در گزر" کے جرسومے کے مبتدی مریض لگتے ہیں !:p جزاک اللہ !
کچھ اور فرمائیں تو میرے لئے تصحیح کی صورت نکلے !
شکریہ !
کاشف ، اشعار میں عروضی یا لسانی سقم تو کوئی نہیں ۔ بس اشعار کی بندش چست نہیں لگی مجھے ۔ طویل بحر میں حشو و زوائد تھوڑے بہت تو آہی جاتے ہیں لیکن یہاں کچھ ضرورت سے زیادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس وجہ سے کئی اشعار میں ابہام بھی پیدا ہوگیا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اشعار کی نشاندہی کرتا ہوں ۔

سبھی چاہتے ہیں کوشش سے حصول ہو زیادہ !
اسی دھن میں سب لگے ہیں، یہی مستقل ارادہ!

۔۔۔ یہاں کم محنت یا کم کوشش کا محل ہے ۔ اس کے بغیر بات نامکمل ہوگی ۔


یہ یقین اک مکمل، یہ بلا کی سادہ لوحی
یہ حقیقتیں ذرا کم، یہ مبالغہ زیادہ!

۔۔۔۔ ایک ہی بات کے لئے پہلے مصرع میں واحد کا صیغہ اور دوسرے میں جمع کا ۔ مبہم ہے شعر ۔


مرے ساتھ ہی کھڑی تھیں، مری لغزشیں وہیں پر
مرے تجربوں کا جس دم ہوا آئینہ کشادہ!

۔۔۔ لغزشوں کو کھڑا کرنے سے بہتر ہے کہ گرادیا جائے ۔ :):):) ۔ اس مذاق کے لئے معذرت ! بس یونہی بات زبان پر آگئی ۔

ترے حق میں یہ دعا ہے، تجھے جستجو ہو پیہم
تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!

۔۔۔۔ اچھا شعر ہے ۔ بہت خوب!!

وہ نصیب کا تھا صفحہ ،میں نے غور سے جو دیکھا
کہیں نامہ مختصر سا، کہیں حاشیہ کشادہ!

۔۔۔ یہ نہین کھلتا کہ کس کاغذ کی بات ہورہی ہے ۔ اگر کسی کے خط کی بات ہورہی ہے تو ’’ کہیں نامہ مختصر سا‘‘ کی یہاں کوئی تُک نہیں ۔ نامے کے بجائے تحریر مختصر سی ہونی چاہئے ۔


وہ لبھا رہی تھی گلچیں کو لچک لچک کے پیہم
کبھی گُل نہ جان پایا ،کسی شاخ کا ارادہ!

۔۔۔۔ مبہم اور الجھا ہوا خیال ہے ۔ گل شاخ پر ہے ، شاخ جھک جھک کر گلچیں کو لبھا رہی ہے اور گل کو یہ نہیں معلوم کہ شاخ ایسا کیوں کررہی ہے ؟!! میں نہیں پہنچ پایا اس شعر تک۔

اسی دم اجل چلی آ، مجھے تھامنے کو فوراََ
اسے ایک پل بھی بھولوں، کبھی میں جو بے ارادہ!

۔۔۔۔ اچھا شعر ہے ۔ واہ!

وہ غُبارِ طُور اُڑ کر ،یہی کہہ رہا تھا کاشف !
یہ جمالِ مختصر تھا ،مری تاب سے زیادہ!!

۔۔۔ جمال مختصر یا طویل نہیں ہوتا ۔ یہاں جلوہ کا محل ہے ۔

کاشف بھائی ، میں نے اپنے ناقص فہم کی رو سے یہ کچھ باتیں لکھ دی ہیں ۔ شاید کوئی کام کی بات ہو ان میں ۔ ویسے یہ درگزر کے کے جرثومے والی بات خوب کہی آپ نے ۔ :):):)
اللہ آپ کو خوش رکھے!
 
کاشف ، اشعار میں عروضی یا لسانی سقم تو کوئی نہیں ۔ بس اشعار کی بندش چست نہیں لگی مجھے ۔ طویل بحر میں حشو و زوائد تھوڑے بہت تو آہی جاتے ہیں لیکن یہاں کچھ ضرورت سے زیادہ نظر آرہے ہیں ۔ اس وجہ سے کئی اشعار میں ابہام بھی پیدا ہوگیا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اشعار کی نشاندہی کرتا ہوں ۔

سبھی چاہتے ہیں کوشش سے حصول ہو زیادہ !
اسی دھن میں سب لگے ہیں، یہی مستقل ارادہ!

۔۔۔ یہاں کم محنت یا کم کوشش کا محل ہے ۔ اس کے بغیر بات نامکمل ہوگی ۔


یہ یقین اک مکمل، یہ بلا کی سادہ لوحی
یہ حقیقتیں ذرا کم، یہ مبالغہ زیادہ!

۔۔۔۔ ایک ہی بات کے لئے پہلے مصرع میں واحد کا صیغہ اور دوسرے میں جمع کا ۔ مبہم ہے شعر ۔


مرے ساتھ ہی کھڑی تھیں، مری لغزشیں وہیں پر
مرے تجربوں کا جس دم ہوا آئینہ کشادہ!

۔۔۔ لغزشوں کو کھڑا کرنے سے بہتر ہے کہ گرادیا جائے ۔ :):):) ۔ اس مذاق کے لئے معذرت ! بس یونہی بات زبان پر آگئی ۔

ترے حق میں یہ دعا ہے، تجھے جستجو ہو پیہم
تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!

۔۔۔۔ اچھا شعر ہے ۔ بہت خوب!!

وہ نصیب کا تھا صفحہ ،میں نے غور سے جو دیکھا
کہیں نامہ مختصر سا، کہیں حاشیہ کشادہ!

۔۔۔ یہ نہین کھلتا کہ کس کاغذ کی بات ہورہی ہے ۔ اگر کسی کے خط کی بات ہورہی ہے تو ’’ کہیں نامہ مختصر سا‘‘ کی یہاں کوئی تُک نہیں ۔ نامے کے بجائے تحریر مختصر سی ہونی چاہئے ۔


وہ لبھا رہی تھی گلچیں کو لچک لچک کے پیہم
کبھی گُل نہ جان پایا ،کسی شاخ کا ارادہ!

۔۔۔۔ مبہم اور الجھا ہوا خیال ہے ۔ گل شاخ پر ہے ، شاخ جھک جھک کر گلچیں کو لبھا رہی ہے اور گل کو یہ نہیں معلوم کہ شاخ ایسا کیوں کررہی ہے ؟!! میں نہیں پہنچ پایا اس شعر تک۔

اسی دم اجل چلی آ، مجھے تھامنے کو فوراََ
اسے ایک پل بھی بھولوں، کبھی میں جو بے ارادہ!

۔۔۔۔ اچھا شعر ہے ۔ واہ!

وہ غُبارِ طُور اُڑ کر ،یہی کہہ رہا تھا کاشف !
یہ جمالِ مختصر تھا ،مری تاب سے زیادہ!!

۔۔۔ جمال مختصر یا طویل نہیں ہوتا ۔ یہاں جلوہ کا محل ہے ۔

کاشف بھائی ، میں نے اپنے ناقص فہم کی رو سے یہ کچھ باتیں لکھ دی ہیں ۔ شاید کوئی کام کی بات ہو ان میں ۔ ویسے یہ درگزر کے کے جرثومے والی بات خوب کہی آپ نے ۔ :):):)
اللہ آپ کو خوش رکھے!
جزاک الله ظہیر بھائی
آپکی گزارشات سر آنکھوں پر ۔۔
ان شا الله اس غزل پر دوبارہ نئے سرے سے کام کرتا ہوں ۔۔ الله آپ کو سلامت رکھے ۔آمین۔
 

الف عین

لائبریرین
ظہیراحمد ظہیر میری مدد کے لیے پابندی سے آیا کریں نا!!! میں تو آج کل محض سرسری طور پر اصلاح کرتا ہوں۔ اور اکثر اغلاط کو در گزر کر دیتا ہوں یا وہ میری سرسری نظر میں ہی نہیں آتیں!
جمال مختصر تو ممکن ہے کہ اگر محبوب کا قد مختصر ہو تو؟
حقیقتیں واقعی غلط استعمال ہے، لیکن اس شعر میں کہپں ہے، ہیں وغیرہ کا استعمال نہیں۔ بات مکمل نہ ہو تو ابلاغ درست نہیں ہوتا۔
مطلع میرے خیال میں درست ہے۔ چل سکتا ہے یوں بھی۔
لغزشوں کی مرضی کہ وہ کھڑی ہوں یا گریں لیکن آئینہ تنگ یا کشادہ؟
گلچیں والا شعر بھی مجھے قبول ہے
 
ظہیراحمد ظہیر میری مدد کے لیے پابندی سے آیا کریں نا!!! میں تو آج کل محض سرسری طور پر اصلاح کرتا ہوں۔ اور اکثر اغلاط کو در گزر کر دیتا ہوں یا وہ میری سرسری نظر میں ہی نہیں آتیں!
جمال مختصر تو ممکن ہے کہ اگر محبوب کا قد مختصر ہو تو؟
حقیقتیں واقعی غلط استعمال ہے، لیکن اس شعر میں کہپں ہے، ہیں وغیرہ کا استعمال نہیں۔ بات مکمل نہ ہو تو ابلاغ درست نہیں ہوتا۔
مطلع میرے خیال میں درست ہے۔ چل سکتا ہے یوں بھی۔
لغزشوں کی مرضی کہ وہ کھڑی ہوں یا گریں لیکن آئینہ تنگ یا کشادہ؟
گلچیں والا شعر بھی مجھے قبول ہے
جزاک الله استاد محترم
حقیقتوں والاشعر فی الحال نکال ہی دیتا ہوں ۔ آئینہ در حقیقت خود احتسابی کے عمل کی جانب اشارہ ہے ۔ انسان اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل ماضی میں کی گئی غلطیوں کو نظر میں رکھ کر ہی بناتا ہے سو جس قدر اغلاط ہونگی اس قدر تجربہ ہوگا اور بہتر پلاننگ کی جا سکے گی ۔ اور یہ غلطیاں انسان کے ساتھ تا عمر رہتی ہیں سبق دیتی ہیں، حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔۔۔ میرے خیال میں شاید اب زیادہ آسانی ہو اس شعر کو سمجھنے میں ۔
جمال مختصر کے بابت ظہیر بھائی کا مشورہ صائب ہے ۔
ان شاءاللہ جلد ہی درستی کرتا ہوں ۔
شکریہ
 

منیب الف

محفلین
واہ، کاشف بھائی! بہت زبردست۔ پہلا شعر تو نہایت حسب حال ہے۔ کوئی شخص بھی کم پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔ ایک دوڑ لگی ہے زیادہ سے زیادہ کے حصول کی۔ خواہ دین ہو دنیا ہو، دھن دولت ہو یا ثواب اور نیکیاں، زیادہ سے زیادہ ہی چاہییں۔
 
واہ، کاشف بھائی! بہت زبردست۔ پہلا شعر تو نہایت حسب حال ہے۔ کوئی شخص بھی کم پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں۔ ایک دوڑ لگی ہے زیادہ سے زیادہ کے حصول کی۔ خواہ دین ہو دنیا ہو، دھن دولت ہو یا ثواب اور نیکیاں، زیادہ سے زیادہ ہی چاہییں۔
شکریہ منیب بھائی !
 
Top