'ترجمۂ تفسیرِ طبری' - قرآن کا اولین فارسی ترجمہ

حسان خان

لائبریرین
ابی جعفر محمد بن جریر طبری ۲۲۴ ہجری میں طبرستان کے شہر آمل میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کی وفات چھیاسی سال کی عمر میں ۳۱۰ ہجری میں شہرِ بغداد میں واقع ہوئی۔ اُنہوں نے جامع البیان فی تفسیر القرآن کے نام کے قرآن شریف کی ایک تفسیر عربی زبان میں تالیف کی ہے جس کا شمار قرآن کی قدیم ترین، دقیق ترین اور اہم ترین تفسیروں میں ہوتا ہے۔ بعد میں اس کتاب نے زیادہ تر تفسیرِ طبری کے نام سے شہرت پائی۔ زیادہ وقت نہیں گذرا کہ منصور بن نوح سامانی کے دورِ حکومت (۳۵۰ تا ۳۶۶ ہجری) میں اس کتاب کا علمائے ماوراءالنہر کے ہاتھوں فارسی میں ترجمہ ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب قرآن کا فارسی سمیت کسی زبان میں کامل ترجمہ ہوا تھا۔ بہتر ہو گا کہ اس ترجمے کا ماجرا اسی کتاب کے مقدمے سے نقل کر دیا جائے:

و اين كتاب تفسير بزرگست از روايت محمد بن جرير الطّبرى رحمة اللَّه عليه ترجمه كرده بزبان پارسى و درى راه راست، و اين كتاب را بياوردند از بغداد چهل مصحف بود. اين كتاب نبشته بزبان تازى و باسنادهاى دراز بود، و بياوردند سوى امير سيد مظفّر ابو صالح منصور بن نوح بن نصر بن احمد بن اسمعيل رحمة اللَّه عليهم اجمعين. پس دشخوار آمد بروى خواندن اين كتاب و عمارت كردن آن بزبان تازى و چنان خواست كه مرين را ترجمه كند بزبان پارسى.
پس علماء ما وراء النهر را گرد كرد و اين ازيشان فتوى كرد كه روا باشد كه ما اين كتاب را بزبان پارسى گردانيم. گفتند روا باشد خواندن و نبشتن تفسير قرآن بپارسى مر آن كس را كه او تازى نداند از قول خداى عزّ و جل كه گفت: وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسانِ قَوْمِهِ. گفت من هيچ پيغامبرى را نفرستادم مگر بزبان قوم او و آن زبانى كايشان دانستند. و ديگر آن بود كاين زبان پارسى از قديم باز دانستند از روزگار آدم تا روزگار اسمعيل پيغامبر عليه السلام، همه پيغامبران و ملوكان زمين بپارسى سخن گفتندى، و اول كس كه سخن گفت بزبان تازى اسمعيل پيغامبر بود عليه السلام، و پيغامبر ما صلّى الله عليه وآله وسلّم از عرب بيرون آمد و اين قرآن بزبان عرب بر او فرستادند، و اينجا بدين ناحيت زبان پارسى است و ملوكان اين جانب ملوك عجم‏اند.
پس بفرمود ملك مظفّر ابو صالح تا علماى ما وراء النهر را گرد كردند، از شهر بخارا چون فقيه ابو بكر بن احمد بن حامد و چون خليل بن احمد السجستانى، و از شهر بلخ ابو جعفر بن محمد بن على، و از باب الهندو فقيه الحسن بن على مندوس را و ابو الجهم خالد بن هانى المتفقّه را، و هم ازين گونه‏ از شهر سمرقند و از شهر سپيجاب و فرغانه و از هر شهرى كه بود در ماوراءالنّهر و همه خطها بدادند بر ترجمه اين كتاب كه اين راه راست است.
پس بفرمود امير سيّد ملك مظفر ابو صالح اين جماعت علما را تا ايشان از ميان خويش هر كدام فاضل‏تر و عالم‏تر اختيار كنند تا اين كتاب را ترجمه كنند. پس ترجمه كردند و از جمله اين مصحف اسنادهاى دراز بيفكندند و اقتصار كردند بر متون اخبار و اين را بيست مجلّد ساختند، از جمله اين چهارده مجلّد فرو نهادند، تا جمله همه تفسير قرآن باشد از پس وفات پيغامبر عليه السلام تا آن گه كه محمد بن جرير ازين جهان بيرون شد و آن اندر سال سيصد و چهل و پنج بود از هجرت پيغامبر عليه السلام، و شش مجلد ديگر فرو نهادند تا اين بيست مجلد تمام شد. و تفسير قرآن و قصّه‌‏هاى ياران پيغامبر كه بودند از پس او، و قصه‏‌هاى اميران مؤمنان كه بودند تا بدين وقت ياد كرديم اندر هفت‏ مجلد۔۔۔ و باللّه التوفيق و العصمة.

"اور یہ کتاب محمد بن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ تفسیرِ بزرگ ہے جس کا زبانِ فارسیِ دری میں براہِ راست ترجمہ کیا گیا ہے۔ اور اس کتاب کو بغداد سے لایا گیا، اور اس کی چالیس جلدیں تھیں۔ یہ کتاب عربی زبان میں لکھی ہوئی تھی اور دراز اسناد کی حامل تھی۔ اور اسے امیر سید مظفر ابو صالح منصور بن نوح بن نصر بن احمد بن اسمعیل رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے پاس لایا گیا۔ پس اُس کے لیے یہ کتاب عربی میں پڑھنا اور اُس کے مطابق عمل کرنا دشوار ہوا اور اُس نے یہ چاہا کہ اس کا زبانِ فارسی میں ترجمہ کر دیا جائے۔
پس اُس نے علمائے ماوراءالنہر کو جمع کیا اور اُن سے فتویٰ چاہا کہ کیا روا ہے کہ ہم اس کتاب کو فارسی میں منتقل کر دیں؟ اُنہوں نے کہا کہ اُس شخص کے لیے تفسیرِ قرآن کو فارسی میں پڑھنا اور لکھنا روا ہے جو عربی نہ جانتا ہو۔ اور یہ قولِ خدائے عز و جل ہے کہ: وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ۔ (خدا نے) کہا کہ میں نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اُسی کی قوم کی زبان میں اور اُس زبان میں جو وہ لوگ جانتے تھے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں آدم کے زمانے سے اسماعیل پیغمبر علیہ السلام کے زمانے تک اس فارسی زبان کو لوگ جانتے تھے۔ اور تمام پیغمبر اور بادشاہانِ زمین فارسی میں بات کرتے تھے، اور وہ پہلے شخص جنہوں نے عربی میں بات کی وہ اسماعیل پیغمبر علیہ السلام تھے، اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب سے ظاہر ہوئے تھے اور یہ قرآن عربی زبان میں اُن پر نازل ہوا تھا، جبکہ اس دیار کی زبان فارسی ہے اور یہاں کے ملوک عجمی ملوک ہیں۔
پس ملک مظفر ابو صالح نے حکم دیا کہ علمائے ماوراءالنہر کو جمع کیا جائے۔ جیسے شہرِ بخارا سے فقیہ ابوبکر بن احمد بن حامد اور خلیل بن احمد السجستانی، اور شہرِ بلخ سے ابوجعفر بن محمد بن علی، اور باب الہند سے فقیہ الحسن بن علی مندوس اور ابوالجہم خالد بن ہانی المتفقہ کو، اور اسی طرح سمرقند، سپیجاب، فرغانہ اور ماوراءالنہر کے جو بھی شہر تھے (وہاں سے علماء بلائے گئے)۔ سب نے اس کتاب کے ترجمے کے متعلق یہی لکھا کہ یہ سیدھی راہ ہے۔
پس امیر سید ملک مظفر ابو صالح نے اس علما کی جماعت کو حکم دیا کہ یہ اپنے درمیان میں سے فاضل ترین اور عالم ترین لوگوں کو چنیں تاکہ وہ اس کتاب کا ترجمہ کریں۔ پس اس کا ترجمہ کیا گیا اور اس کی طویل اسناد کو چھوڑ دیا گیا اور متونِ اخبار کا خلاصہ کیا گیا اور اس ترجمے کی بیس جلدیں بنائی گئیں۔ اُن میں سے چودہ جلدیں تحریر کی گئی ہیں، جو سب کی سب تفسیرِ قرآن پر مشتمل ہیں، پیغمبر علیہ اسلام کی وفات کے بعد سے لے کر اُس وقت تک کہ جب محمد بن جریر نے اس جہان کو ترک گیا تھا اور یہ واقعہ ہجرتِ پیغمبر علیہ السلام کے تین سو پینتالیس سال بعد پیش آیا تھا۔۔۔ اور پھر چھ جلدیں مزید تحریر کی گئیں یہاں تک کہ بیس جلدیں تمام ہو گئیں۔ اور تفسیرِ قرآن اور پیغمبر کے بعد موجود یارانِ پیغمبر کے قصے، اور اس وقت تک کے مومنوں کے امیروں کے قصے سات جلدوں میں ہم نے یاد کیے ہیں۔۔۔ وباللہ التوفیق والعصمۃ۔"

یہ کتاب فارسی کے قدیم ترین نثری نمونوں میں سے ہے۔ اس کتاب کی باب بندی کی روش اس طرح ہے کہ پہلے چند آیات کا ترجمہ آیا ہے، پھر اُن آیات سے مربوط تفسیر اور قصے تشریح کی شکل میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض قصے تو آیات کے شانِ نزول پر مشتمل ہیں اور کچھ ایسے قصے ہیں جو شرح و تفسیر کے ساتھ بیشتر بیان کیے جاتے ہیں۔ البتہ ان قصوں کے درمیان اسرائیلیات بھی کم نہیں ہیں۔ کچھ قصے تاریخِ صدرِ اسلام پر مشتمل بھی ہیں۔ اور یہ سب عربی زبان میں لکھی تفسیرِ طبری کا ترجمہ ہی ہے، بس سلسلۂ روایات اور اسناد حذف کی گئی ہیں۔ بہر صورت، اس بات کی سعی کی گئی ہے کہ قصص و اخبار و تاریخ کا ترجمہ بلیغ و شیریں زبان میں کیا جائے تاکہ اسے سب لوگ پسند کریں۔ قرآن کی آیات کا ترجمہ کرتے وقت تحت اللفظی روش اپنائی گئی ہے یعنی جملوں میں حتی الامکان اصل عربی متن کی پیروی کی گئی ہے۔ مثلاً:
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
اینست کتاب، نیست شک اندران، راه‌نمای پرهیزکاران را۔
ممکن ہے آج ترجمے کی یہ روش منسوخ ہو گئی ہو لیکن پرانے لوگ رعایتِ امانت کی دلیل سے اسی روشِ ترجمہ کو اپناتے تھے اور جتنے بھی قدیم ترجمے تفسیر کی ضمن میں ہمارے پاس ہیں، وہ سب تحت اللفظی ترجمے ہیں۔

ترجمۂ تفسیرِ طبری کی ارزش:
ترجمۂ تفسیرِ طبری چند وجوہات کی بنا پر اہمیت کا حامل ہے: اول تو یہ کہ یہ کتاب فارسی زبان میں قرآن کا پہلا ترجمہ ہے اور اس نے دوسرے ترجموں کے لیے راہ کھولی ہے۔ دوم یہ کہ اس میں آیاتِ قرآنی کے علاوہ اُس زمانے کی بزرگ ترین تفسیر کا بھی ترجمہ ہے اور چونکہ سب ایرانی عربی زبان سے آشنا نہیں تھے، اس ترجمے نے انہیں قرآن اور اُس کی تفسیر سے آشنا کرایا اور قرآن کے معارف کو ایرانی لوگوں میں رواج دیا۔ سوم اس کتاب نے ترجمہ کے دوران کامل امانت داری برتی ہے اور مذہبی متون کے ترجمے کے مسلّم اصولوں کی پابندی کی ہے جو بعد میں آنے والوں کے لیے سرمشق بنا۔ چہارم یہ کتاب فارسیِ دری کے زمانۂ آغاز کے اُن معدودے چند آثار میں سے ہے جو ہمارے ہاتھوں تک پہنچے ہیں اور یہ کتاب تاریخِ بلعمی، شاہنامۂ فردوسی، مقدمۂ شاہنامۂ ابومنصوری اور رودکی و شہید بلخی و کسائی مروزی جیسے شعراء کے اشعار کی طرح لغت و ادب و زبانِ فارسی میں تحقیقات کے لیے بڑی قیمتی ہے۔

نثری اسلوب کی خصوصیات:
سامانی دور کے نثری اسلوب کی خصوصیات کا ان نکات کی مدد سے خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اس دور کی نثر میں عربی الفاظ نسبتاً کم اور متروک فارسی الفاظ زیادہ ہیں۔
۲۔ ایران کے مختلف قدیم لہجوں کے الفاظ بھی اس دور کی نثر میں مل جاتے ہیں۔
۳۔ صنائع لفظی کا بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔
۴۔ بعض ایسے دستوری قواعد کی خلاف ورزی بھی بہت دیکھنے کو ملتی ہے، جن کی خلاف ورزی بعد کے ادوار میں مجاز نہیں رہی تھی۔
۵۔ عربی الفاظ کے لیے قواعدِ زبانِ عربی کی پیروی کی جاتی ہے۔
۶۔ اس زمانے کی نثر میں تکرار کو کبھی بھی مخلِ فصاحت نہیں سمجھا جاتا اور بیانِ مقصود کے لیے کسی بھی قسم کی تکرار سے چشم پوشی نہیں کی جاتی۔
۷۔ جملے تا حدِ مقدور کوتاہ ہیں۔ البتہ یہ کوتاہ جملے مقصود کو بخوبی بیان کر دیتے ہیں اور بعد کے ادوار میں جملوں کی درازی کی وجہ سے جو تعقیدات پیدا ہوتی ہیں وہ اس زمانے کی نثر میں نظر نہیں آتی ہیں۔

ترجمۂ تفسیرِ طبری کی نثر کا نمونہ:

سورۂ فاتحہ:
۱۔ بنامِ خدای مهربانِ بخشاینده
۲۔ شکر خدای را خداوندِ جهانیان
۳۔ مهربانِ بخشاینده
۴۔ پادشاهِ روزِ رستخیز
۵۔ ترا پرستیم و از تو یاری خواهیم
۶۔ راهنمای ما را راهِ راست
۷۔ راهِ آن کسهای که منّت نهادی بر ایشان نه آن کسهای که خشم گرفته‌ای -یعنی جهودان- بر ایشان، و نه گمشدگان از راه - یعنی ترساان-


سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات:
۱۔ منم خدای دانا
۲۔ اینست کتاب، نیست شک اندران، راه‌نمای پرهیزکاران را
۳۔ آن کسهای که بگروند بنهانی، و بپای دارند نماز، و زانچه روزی کردیم‌شان هزینه کنند
۴۔ و آن کسهای که بگروند بدانچه فرستاده آمد سوی تو، وآنچه فرستاده آمد از پیشِ تو، و بدان جهان ایشانند بی‌گمانان
۵۔ ایشانند بر راهِ راست از خداوندشان، وایشانند ایشان رستکاران


سورۂ قدر:
۱۔ ما فرو فرستادیم آن را اندر شبِ قدر
۲۔ و چه دانا کرد ترا که چیست شبِ قدر
۳۔ شبِ قدر بهتر است از هزار ماه
۴۔ فرود آیند فریشتگان و روح - یعنی جبریل - اندر آن شب بفرمانِ خدای ایشان از هر کاری
۵۔ سلام آن تا برآمدنِ بامداد


سورۂ عصر:
۱۔ سوگند یاد کنم بنمازِ دیگر
۲۔ که مردمان اندر زیان‌کاری‌اند
۳۔ مگر آن کسها که بگرویدند و کردند نیکیها، و وصیت کردند براستی، و وصیت کردند بشکیبایی


ماخذِ اول
ماخذِ دوم

=================
محمد وارث تلمیذ زبیر مرزا محمود احمد غزنوی سید عاطف علی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فارسی زبان کو آج صرف ایران سے مخصوص سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبانِ فارسیِ دری کا مولد و منشاء ماوراءالنہر (موجودہ تاجکستان اور ازبکستان) ہے۔ فارسی کی جتنی بھی اولین تصانیف ہیں وہ اسی خطے میں اسی خطے کے اہلِ قلم کے ہاتھوں رشتۂ تحریر میں آئی تھیں۔ موجودہ ایران میں اُس زمانے میں قدیم پہلوی لہجے بولے جاتے تھے۔ فارسیِ دری ماوراءالنہر ہی سے پہلے خراسان، اور اُس کے بعد موجودہ ایران میں منتقل ہوئی تھی۔ اور ماوراءالنہر و ترکستان ہی کے ترک النسل حکمران اس زبانِ بسیار شیریں کو موجودہ ایران سمیت آس پاس کے علاقوں میں لے کر گئے تھے۔

ترجمۂ تفسیرِ طبری کو یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے:
ترجمه تفسیر طبری
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
فارسی زبان کو آج صرف ایران سے مخصوص سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ زبانِ فارسیِ دری کا مولد و منشاء ماوراءالنہر (موجودہ تاجکستان اور ازبکستان) ہے۔ فارسی کی جتنی بھی اولین تصانیف ہیں وہ اسی خطے میں اسی خطے کے اہلِ قلم کے ہاتھوں رشتۂ تحریر میں آئی تھیں۔ موجودہ ایران میں اُس زمانے میں قدیم پہلوی لہجے بولے جاتے تھے۔ فارسیِ دری ماوراءالنہر ہی سے پہلے خراسان، اور اُس کے بعد موجودہ ایران میں منتقل ہوئی تھی۔ اور ماوراءالنہر و ترکستان ہی کے ترک النسل حکمران اس زبانِ بسیار شیریں کو موجودہ ایران سمیت آس پاس کے علاقوں میں لے کر گئے تھے۔
بچپن میں ہم بھی فارسی کو ایرانی زبان اور ایران تک محدود سمجھتے تھے۔کچھ بڑے ہوئے تو افغانستان تک اس کی وسعت کا پتہ چلا۔
اب حسان خان کی تحقیق فارسی کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اور بڑا کر رہی ہے۔
بہتری کلاسیکل آرٹیکل حسان۔
 

تلمیذ

لائبریرین
شکریہ حسان خان جی۔
بہت عمدہ اور معلوماتی مراسلہ۔خصوصاً سورہ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات کا ترجمہ، جس کی کافی حد تک سمجھ آئی ہے، پڑھ کر علم میں اضافہ ہوا۔
کافی عرصہ کے بعد، آپ نے اپنے اوتار کے لئے بہت عمدہ تصویر کا انتخاب کیاہے۔ براہ کرم اسے ذرا لمبے عرصے تک رکھیں تاکہ ہم بھی اس عظیم ہستی کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا تے رہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
آیا لفظ "گرویدن" حالا متروک است؟
مصدرِ 'گرویدن' معاصر فارسی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بی بی سی فارسی سے ایک مثال دیکھیے:
"ساکنانِ این مناطق از زمانِ ورودِ تُجّارِ مسلمان در قرنِ سیزدهمِ میلادی به تدریج به اسلام گرویدند."

بسیار خوب مقاله است
معیاری فارسی میں یہ جملہ کچه یوں کہا جائے گا:
مقالهٔ بسیار خوبی‌ست


فارسی میں صفت موصوف سے قبل نہیں آتی۔
 
Top