ساغر صدیقی "ترانہ"

ترانہ
چمن چمن کلی کلی روش روش پکار دو
وطن کو سر فروش دو وطن کا جاں نثار دو

جو اپنے غیض بے کراں سے کوہسار پیس دیں
جو آسماں کو چیر دیں ہمیں وہ شہسوار دو

یہی ہے عظمتوں کا اک اصول جاوداں حضور
امیر کو شجاعتیں غریب کو وقار دو

نظر نظر میں موجزن تجلیوں کے قافلے
وہ جذبہ حیات نو بشر بشر ابھار دو

شعور کے لباس میں صداقتیں ہیں منتظر
خلوص و اعتبار کے جہان کو نکھار دو

تصورات زندگی کو پھر لہو کا رنگ دیں
چلو جنوں کی وسعتوں پہ دانشوں کو وار دو

فضائیں جس کی نکہتوں سے ہوں وقار گلستاں
تو ایسے ایک پھول کو ستارہِ بہار دو

جو قلب و دل کے ساتھ ساتھ میکدے کو پھونک دے
مجھے خدا کے واسطے وہ جام پر شرار دو

چھلک رہا ہے خلوتوں میں ساغر مشاہدات
اٹھو سخنورو ! زمیں پہ کہکشاں اتار دو
ساغرؔ صدیقی
 
آخری تدوین:
Top