تذکرہ : نامور مصنف " محی الدین نواب " کا ۔۔۔۔۔

یوسف-2

محفلین
یہ سب مدح سرائی پڑھ کر اپنی رائے محفوظ رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ :sleep:
عثمان بھائی ! آپ چاہیں تو ’’اختلافی نوٹ‘‘ لکھ سکتے ہیں۔ یہ ادبی سیکشن ہے اور ادب میں ’’تنقید‘‘ بھی ادب کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ کوئی مذہبی یا سیاسی بحث نہیں کہ اختلاف کی صورت میں ۔۔۔:D
 

باذوق

محفلین
بھائی باذق
نواب بیتی کے بارے میں کچھ تفصیلات بتائیں، کب کہاں کس سن میں شائع ہوئی ؟
ویسے تو اس کی زیراکس کاپی میرے پاس محفوظ ہے۔ سن اور شمارہ یاد نہیں۔ اندازہ یہی ہے کہ 1991 یا 1992 کے سسپنس ڈائجسٹ میں شائع ہوئی تھی۔ پھر انڈیا کے ہما ڈائجسٹ نے بھی اسے کاپی کیا تھا شاید۔
نواب بیتی اسلیے بھی یاد ہے کہ "دوشیزہ" ڈائجسٹ میں ایک نئے قلمکار وارد ہوئے اور دوسری ہی کہانی "نواب بیتی" کو اپنی کہانی کے طور پر پیش کیا۔ یہ شاید 1994 یا 1995 کی بات ہے۔ میں نے اصل کہانی کی زیراکس ادارہ دوشیزہ کو پوسٹ کی تھی اور پھر بعد میں ذاتی ملاقات میں بھی ثبوت بتائے۔ سارق قلمکار دوبارہ پھر رسالے میں نظر نہیں آئے تھے۔
پرانے کاغذات ڈھونڈنا پڑیں گے۔ مل جائے تو آپ کو اسکین کر کے ایمیل کر دوں گا۔
 

باذوق

محفلین
اور وہ افسانہ تو لفظ بلفظ یاداشت میں محفوظ ہے ۔ صفیہ ان کے ناولز پڑھ پڑھ کر ان کی فین ہو گئی اور ایک دن ٹرین میں بیٹھ کر لاہور آگئی۔ لیکن اس سے پہلے ان کی خط وکتابت شروع ہو چکی تھی۔ خواتین کی نفسیات کو جس خوبصورت طریقے سے اس میں بیان کیا گیا ہے اس کی تعریف کیلئے الفاظ نہیں۔ ان کو پڑھنے کا چسکا تب سے ہے جب بچے ٹارزن اور عمرو عیار پڑھتے ہیں۔
افسانے کا عنوان یاد ہو تو بتائیے گا۔ ایک زمانے میں میرے پاس ان کے اس وقت تک کے تمام افسانوں کے عناوین کی فہرست ہوا کرتی تھی ۔۔۔ گردش زمانہ نے پتا نہیں کدھر اڑا دیا اسے ۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
بجا فرمایا آپ نے دوست۔۔۔ ۔! ان کا انداز تحریر آسانی سے پہچانا جاتا ہے جیسے احمد اقبال صاحب کا انداز میں چند سطروں سے پہچان جاتا ہوں۔ ۔
بالکل درست کہا۔ نواب صاحب اور احمد اقبال کے ساتھ ساتھ علیم الحق حقی کا انداز تحریر بھی ان کو تسلسل سے پڑھنے والے بآسانی پہچان سکتے ہیں۔
 

Rashid Ashraf

محفلین
بہت بہت شکریہ باذوق بھائی
دکن کے جریدے شگوفہ کا اپریل 2012 کا شمارہ شائع ہوا ہے، اس میں پروفیسر مجاہد حسین حسینی کا ابن صفی پر مضمون شامل ہے
 

نعیم ارشد

محفلین
نواب صاحب سے میں بھی سسپنس سے ہی واقف ہوا تھا اور کچھ عرصہ میں نے بھی دیوتا کو پڑھا مگر جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ دیوتا نواب صاحب کی وفات تک جاری رہنی والی کہانی ہے اس لیے اس سے جتنی جلدی کنارہ کشی اختیار کر لی جائے بہتر ہے ورنہ دیر سویر یہ کام کرنا ہی پڑنا ہے۔

نواب صاحب کی دوسری کہانیاں میں پڑھتا رہا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا مخصوص انداز کا اندازہ پہلے ہی صفحہ سے ہو جاتا ہے ۔ انتہائی مخصوص انداز ہے جو کہ میرے خیال سے چند کہانیوں کے بعد خاصی یکسانیت پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ واردات قلب کی تفصیلات میں اس طرح چلے جاتے ہیں کہ محسوس ہوتے ہیں جیسے کہانی نہ لکھ رہے ہوں بلکہ کیمرے سے ویڈیو شوٹ کر رہے ہوں۔

میں ذاتی طور پر ان کے مقابلے میں علیم الحق حقی کو زیادہ بہتر لکھاری سمجھتا ہوں گو وہ بھی صرف سسپنس میں ہی لکھتے ہیں۔
 
السلام علیکم

یہاں جب میں نے پہلی بار محی الدین نواب کے بارے میں پڑھا تو بڑی حیرت ہوئی کہ اردو کے اتنے مشہور مصنف کا کوئی خاص علیحدہ تذکرہ ، اردو محفل پر موجود ہی نہیں ہے۔

محی الدین نواب کی تعریف ۔۔۔ سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے ۔ ٹیلی پیتھی پر مبنی ان کا سلسلہ وار ناول "دیوتا" تو شائد گئینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہے ۔ دنیا ، دنیا کے ممالک ، دنیا کی سیاست اور حالاتِ حاضرہ اور مختلف ممالک کی سیاست و معاشرت ، تہذیب و ثقافت کو اگر کوئی جاننا چاہتا ہے تو اس کو "دیوتا" ضرور پڑھنی چاہئے ۔

محی الدین نواب میرے بہت ہی زیادہ پسندیدہ مصنف رہے ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے "دیوتا" سال 2001ء تک کی تمام قسطیں پڑھی ہیں۔
ان کا ایک مشہور ناول "آدھا چہرا" ہے جس میں ایک ٹکسی ڈرائیور "جانی" کی زندگی کی بھرپور عکاسی کی گئی ہے۔ اس ناول میں نواب صاحب نے انسانی نفسیات کی جو گتھیاں الجھائی / سلجھائی ہیں وہ بس انہی کا خاصہ ہے۔

نواب صاحب کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں ، جن میں سے ایک "کچرا گھر" بھی ہے۔

نواب صاحب ہمارے عہد کے ایک قدآور اور نامور ادیب ہیں۔ ان کے بارے میں اردو محفل پر ابھی تک کچھ لکھا ہی نہیں گیا ہے۔
نواب صاحب نے آپ بیتی کی شکل میں ایک طویل ناولٹ بھی لکھا تھا ، کم سے کم اسی کو تو ڈیجیٹائز کر لیا جانا چاہئے۔

نواب صاحب کے ایک اہم ناول " دل پارہ پارہ" کو فلم میں بھی ڈھالا گیا ہے جس کا اسکرین پلے بھی خود انہوں نے لکھا تھا ، مگر وہ اس فلم سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ فلم شائد معمر رانا اور جیا کی پہلی فلم بھی تھی۔
نواب صاحب کا ایک اور مشہور افسانہ وہ ہے جس میں انڈیا سے ان کی ایک فین پاکستان آتی ہے ، پھر ان سے شادی کرتی ہے پھر اس کی وفات بھی ہو جاتی ہے ۔۔۔ ۔۔ (ویسے مجھے شک ہے کہ یہ نواب صاحب کا افسانہ ہے یا علیم الحق حقی کا؟؟)

ایک کردار "اجل" کو بھی انہوں نے تخلیق کیا تھا جس کی بنیاد پر کئی عمدہ افسانے بھی لکھے ہیں انہوں نے ۔۔۔

محترمہ جیہ نے "دیوتا" کو ٹیپ کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی جو بات لکھی ہے ، اس کا ذکر نواب صاحب اپنی آپ بیتی میں کر چکے ہیں۔

نواب صاحب کے بارے میں آپ بھی اپنے تاثرات سے یہاں ضرور آگاہ فرمائیں۔

یہ کہانی علیم الحق حقی کی ہے۔کہانی کا نام تو مجھے یاد نہیں لیکن اس فین کا نام شاید "صفیہ" تھا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں نے تو یہ دھاگہ آج پہلی بار دیکھا۔ اللہ بھلا کرے محسن وقار علی کا جنہوں نے اس کی تازہ کاری کی اور یوں یہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ محی الدین نواب میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اور انکے لکھے عذاب آگہی سے تو میں اسقدر متاثر ہوا تھا کہ بڑا عرصہ کے لیئے اپنا نام میسنجرز کی دنیا پر عذاب آگہی ہی رکھ دیا۔
اندھیر نگری بھی بہت ہی خوبصورت اور کمال ہے۔ اسی طرح ایمان کا سفر بھی لاجواب۔
 
میں نے تو یہ دھاگہ آج پہلی بار دیکھا۔ اللہ بھلا کرے محسن وقار علی کا جنہوں نے اس کی تازہ کاری کی اور یوں یہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ محی الدین نواب میرے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اور انکے لکھے عذاب آگہی سے تو میں اسقدر متاثر ہوا تھا کہ بڑا عرصہ کے لیئے اپنا نام میسنجرز کی دنیا پر عذاب آگہی ہی رکھ دیا۔
اندھیر نگری بھی بہت ہی خوبصورت اور کمال ہے۔ اسی طرح ایمان کا سفر بھی لاجواب۔
شکریہ نین بھائی۔محی الدین نواب کی سب سے پہلے جو کہانی میں نے پڑھی تھی وہ "حیا نامہ"تھی۔لیکن اس سے پہلے میں دیوتا کی ایک قسط(200ویں)پڑھ چکا تھا لیکن اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ دیوتا نواب صاحب لکھتے ہیں۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شکریہ نین بھائی۔محی الدین نواب کی سب سے پہلے جو کہانی میں نے پڑھی تھی وہ "حیا نامہ"تھی۔لیکن اس سے پہلے میں دیوتا کی ایک قسط(200ویں)پڑھ چکا تھا لیکن اس وقت مجھے پتہ نہیں تھا کہ دیوتا نواب صاحب لکھتے ہیں۔
نواب صاحب تلخ حقیقتوں کو بیاں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میرے پاس انکی کافی کتب پی-ڈی-ایف میں موجود تھیں۔ آج رات اپنی ڈیجیٹل لائبریری کا جائزہ لینا پڑے گا۔ :)
 
نواب صاحب تلخ حقیقتوں کو بیاں کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میرے پاس انکی کافی کتب پی-ڈی-ایف میں موجود تھیں۔ آج رات اپنی ڈیجیٹل لائبریری کا جائزہ لینا پڑے گا۔ :)
"حیا نامہ" ان کی کتاب "کمبل" میں ہے۔
 
دیوتا آپکو PDF میں آرام سے مل جائے گی۔ :)
موجود ہے بھائی۔لیکن چونکہ زیادہ تر حصوں کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی اس لیے آج کل دوبارہ ڈاؤن لوڈ کر رہا ہوں پاکستانی پوائنٹ سے۔اب تک وہاں 12 حصے اسکین شدہ اپلوڈ ہو چکے ہیں۔
 
Top