تحریر کا فن ....

تحریر کا فن ....

یاد رکھئے ایک صفحہ لکھنے کیلئے لازم ہے کہ سو صفحات پڑھے جاویں ایک مضمون لکھنے کیلئے سو مضامین اور ایک کتاب لکھنے کیلئے اس موضوع پر کم از کم سو کتابیں .....

جب آپ اس انداز سے مطالعہ کرینگے تو آپ کے پاس لکھنے کو اتنا مواد ہوگا کہ قلم روکنا مشکل ہو جاوے گا پھر جو تحریر نکلے گی وہ تخیل ہوگا تو ادب بن جاوے گی اور تحقیق ہوگی تو حوالہ بن جاوے گی .........

حسیب احمد حسیب
 

نور وجدان

لائبریرین
اس سے اتفاق بالکل نہیں کرتی ۔ بیشتر شاعر مصنف اوائل عمری میں مشاہدات و تجربات سے گزر کے لکھتے رہے ۔۔۔لکھنے کے لیے کتابیں نہیں علم ضروری ہے ۔ وہ علم جو مجھے کتابوں سے ملا وہ کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جو میں نے مشاہدہ کیا وہی سب کچھ ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حسیب صاحب بلاشبہ قریب تمام لوگ ایسے ہی فرماتے ہیں۔۔۔ کہ ادیب کو وسیع المطالعہ ہونا چاہیے۔۔۔۔

اس سے اتفاق بالکل نہیں کرتی ۔ بیشتر شاعر مصنف اوائل عمری میں مشاہدات و تجربات سے گزر کے لکھتے رہے ۔۔۔لکھنے کے لیے کتابیں نہیں علم ضروری ہے ۔ وہ علم جو مجھے کتابوں سے ملا وہ کچھ بھی نہیں ہے مگر وہ جو میں نے مشاہدہ کیا وہی سب کچھ ہے
آپ تو ایک Exception ہیں نور صاحبہ۔ یہ بات عمومی لوگوں کے لیے ہے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
حسیب صاحب بلاشبہ قریب تمام لوگ ایسے ہی فرماتے ہیں۔۔۔ کہ ادیب کو وسیع المطالعہ ہونا چاہیے۔۔۔۔


آپ تو ایک Exception ہیں نور صاحبہ۔ یہ بات عمومی لوگوں کے لیے ہے۔ :)

آپ نے مجھے خاص کہ کر حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں جنہوں نے لکھنے کا سفر بچپن سے کیا ہے ۔ شکریہ
ولسلام
 

محمداحمد

لائبریرین
تحریر کا فن ....

یاد رکھئے ایک صفحہ لکھنے کیلئے لازم ہے کہ سو صفحات پڑھے جاویں ایک مضمون لکھنے کیلئے سو مضامین اور ایک کتاب لکھنے کیلئے اس موضوع پر کم از کم سو کتابیں .....

جب آپ اس انداز سے مطالعہ کرینگے تو آپ کے پاس لکھنے کو اتنا مواد ہوگا کہ قلم روکنا مشکل ہو جاوے گا پھر جو تحریر نکلے گی وہ تخیل ہوگا تو ادب بن جاوے گی اور تحقیق ہوگی تو حوالہ بن جاوے گی .........

حسیب احمد حسیب

بجا فرمایا جناب آپ نے۔

اگر سرسری تحریریں لکھنی ہیں تو بس قلم اُٹھا کر شروع ہو جانا چاہیے۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تحریر واقعی تحریر ہو تو پھر مشاہدے کے ساتھ مطالعہ بھی ضروری ہے۔

مطالعے سے ہمیں علم کے علاوہ ذخیرہء الفاظ، اسلوبِ کلام اور بہت سے نادیدہ ہنر میسر آجاتے ہیں جن تک کسی اور طرح رسائی ممکن نہیں ہے۔

رہی بات تحقیق کی۔ تو تحقیق تو ہے ہی عرق ریزی کا نام!
 

نور وجدان

لائبریرین
بجا فرمایا جناب آپ نے۔

اگر سرسری تحریریں لکھنی ہیں تو بس قلم اُٹھا کر شروع ہو جانا چاہیے۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی تحریر واقعی تحریر ہو تو پھر مشاہدے کے ساتھ مطالعہ بھی ضروری ہے۔

مطالعے سے ہمیں علم کے علاوہ ذخیرہء الفاظ، اسلوبِ کلام اور بہت سے نادیدہ ہنر میسر آجاتے ہیں جن تک کسی اور طرح رسائی ممکن نہیں ہے۔

رہی بات تحقیق کی۔ تو تحقیق تو ہے ہی عرق ریزی کا نام!

میرے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ صرف مطالعہ کام نہیں آتا ۔۔ خیر مجھے آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق ہے ۔ تعداد مقرر کرنا اور اس پر ایک صفحے کا معیار بنانا ۔۔۔ میرا نقطہ یہی تھا تعداد سے کبھی لکھائی بہتر نہیں ہوتی ۔آپ ایک شاہکار ناول پڑھیں اور دس عام سے لکھاریوں کے تو بہتر کے شاہکار ناول کی پیروی کرتے اپنا نقطہ بیان کرنا چاہیے ۔ اس کے بعد اختلاف کی گنجائش تو نہیں ہے مگر ہو تو معذرت قبول کر لیجئے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ نے مجھے خاص کہ کر حوصلہ افزائی کی ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں جنہوں نے لکھنے کا سفر بچپن سے کیا ہے ۔ شکریہ
ولسلام
بالکل ایسا ہی ہوگا۔۔۔ کتنے ہی افراد ہیں جو کسی مکتب سے درس نہیں لیتے لیکن شاہکار تخلیق کرتے ہیں۔ اور چونکہ زیر موضوع بات آہی گئی ہے تو چند ایسے نام کچھ مثالوں کے ساتھ عطا فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
:)

ویسے ہم عمومی بات کر رہے تھے اور بقول نیرنگ خیال بھائی استثنائی معاملات اپنی جگہ ہیں۔

تعداد مقرر کرنا اور اس پر ایک صفحے کا معیار بنانا ۔۔۔

تعداد تو "سو سنہار کی اور ایک لوہار کی" میں بھی محاورتاً ہی مقرر کی جاتی ہے ورنہ ممکن ہے کہ سنہار کی ساٹھ کے جواب میں ہی لوہار کا ضبط جواب دے جائے۔ :) :) :)

آپ ایک شاہکار ناول پڑھیں اور دس عام سے لکھاریوں کے تو بہتر کے شاہکار ناول کی پیروی کرتے اپنا نقطہ بیان کرنا چاہیے ۔

لیکن دس عام سے ناول نہیں پڑھیں گے تو شاہکار کی قدر کیسے کریں گے۔ :)

اس کے بعد اختلاف کی گنجائش تو نہیں ہے مگر ہو تو معذرت قبول کر لیجئے

ہرگز نہیں! باقی سب باتوں پر تہہِ دل سے اتفاق ہے۔ :)
 
حسیب بھائی، آپ کی بات بجا ہے، انسان کو پڑھنے سے رغبت ہونی چاہیئے۔
نور سعدیہ شیخ کی بات سے متفق ہوں ، دراصل انسان کی قوتِ متخیلہ علوم کی ماں ہے۔یہی وہ قوت ہے جس نے تمام علومِ انسانی کی بنیاد ڈالی ہے۔ مشاہدہ اور مطالعہ اس قوت کو مہمیز تو دے سکتے ہیں مگر اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف جس قدر مطالعہ وسعی ہوگا مشاہدہ گہرا ہوگا انسان کی قوتِ متخیلہ اسی قدر بلند ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود فوقیت اسی قوت کو حاصل رہے گی۔
چونکہ کُتب ، کسی اور کی قوتِ متخیلہ ، مشاہدہِ فطرت و اشیا، قوتِ بیان اور زور قلم کی تفسیر ہے ، جو کسی طور بے کار نہیں ۔ مگر یہ کہ اگر انسانی خیال ، خیالِ سابقہ کا مرہونِ منت ہو جائے تو ارتقاکا سفر تھم جائے گا۔
جہاں تک تحریر کی بات ہے تو اس کی صورت بھی مختلف نہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
حسیب بھائی، آپ کی بات بجا ہے، انسان کو پڑھنے سے رغبت ہونی چاہیئے۔
نور سعدیہ شیخ کی بات سے متفق ہوں ، دراصل انسان کی قوتِ متخیلہ علوم کی ماں ہے۔یہی وہ قوت ہے جس نے تمام علومِ انسانی کی بنیاد ڈالی ہے۔ مشاہدہ اور مطالعہ اس قوت کو مہمیز تو دے سکتے ہیں مگر اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف جس قدر مطالعہ وسعی ہوگا مشاہدہ گہرا ہوگا انسان کی قوتِ متخیلہ اسی قدر بلند ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود فوقیت اسی قوت کو حاصل رہے گی۔
چونکہ کُتب ، کسی اور کی قوتِ متخیلہ ، مشاہدہِ فطرت و اشیا، قوتِ بیان اور زور قلم کی تفسیر ہے ، جو کسی طور بے کار نہیں ۔ مگر یہ کہ اگر انسانی خیال ، خیالِ سابقہ کا مرہونِ منت ہو جائے تو ارتقاکا سفر تھم جائے گا۔
جہاں تک تحریر کی بات ہے تو اس کی صورت بھی مختلف نہیں۔
بہت عمدگی سے میرا نقطہ نظر آپ نے بیان کر دیا ہے. آپ کی تہ ء دل سے مشکور ہوں.
 

نایاب

لائبریرین
محترم نیرنگ خیال بھائی
انتہائی حیرت کا سامنا ہوا آپ کی جانب سے اس سوال کو پڑھ کر
آپ ایسی صاحب علم و فن ہستی اور چند ناموں کی تلاش میں ۔۔۔۔

بالکل ایسا ہی ہوگا۔۔۔ کتنے ہی افراد ہیں جو کسی مکتب سے درس نہیں لیتے لیکن شاہکار تخلیق کرتے ہیں۔ اور چونکہ زیر موضوع بات آہی گئی ہے تو چند ایسے نام کچھ مثالوں کے ساتھ عطا فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
نثر اور شاعری کہنی لکھنی خدا داد صلاحیت اور انسانی مشاہدے پر پہلے پھر مطالعے پر استوار ہوتی ہے ۔
جو صرف مطالعے پر قائم رہتے لکھتے ہیں ۔ وہ نقال کہلاتے ہیں ۔ چاہے ان کی تحریر کتنی ہی مدلل اور کتنی ہی خوبصورت بنت کی حامل کیوں نہ ہو ۔۔۔۔
جو مشاہدے کے بل پر لکھتے ہیں وہی سچے "لکھاری " کہلاتے ہیں ۔ چاہے ان کی تحریر کتنی ہی بے ربط اور بے ڈھنگی بنت کی حامل کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔
سارہ شگفتہ ۔ فرزانہ نیناں ابن صفی ابن انشاء عبد اللہ حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لاتعداد نام ہیں جنہوں نے اپنے مشاہدات کے بل پر ہی لکھا ہے ۔۔۔۔۔
مطالعہ کوئی شرط نہیں ۔ بشرطیکہ مشاہدہ قوی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لباس پہننے سے مقصود صرف تن چھپانا ہوتا ہے ۔ اور اس کے لیئے صرف مشاہدے میں آئی برہنگی کا منظر کافی ہوتا ہے ۔ چاہےان سلے دو کپڑے ہی کیوں نہ ہوں ۔
ہاں زینت بڑھانے کو خوبصورت دکھنے کو مطالعے کی ضرورت کہ کپڑا درست کٹے صحیح سلے ۔ اور پہنا پیارا لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات تحقیقی مضامین یا مقالے یا کتاب کے لیے سو فیصدی درست ہے۔ تحقیقی کام اگر آپ کماحقہ مطالعہ کے بغیر کریں گے تو نا صرف اپنی بھد اڑائیں گے بلکہ یہ ناانصافی اور غیر دیانت داری بھی ہوگی۔ یہ تحقیقی کام چاہے کسی بھی موضوع پر ہو، مطالعہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اردو شاعری اور اردو نثر کی تاریخ کوئی بڑے سے بڑا شاعر یا ادیب بھی فقط اپنے مشاہدے یا خدا داد صلاحیت یا وہبی علم کی بنا پر نہیں لکھ سکتا، کتاب تو کیا چند صفحے بھی نہیں لکھ سکتا جب تک کہ کماحقہ مطالعہ نہ کر لے۔

دوسری طرف ایک اچھی ادبی یا تخیلاتی تحریر کے لیے اچھا مطالعہ ایک اضافی اور بہت اچھی اضافی چیز ہے لیکن مطلق اور لازمی چیز نہیں ہے۔ اساتذہ یہ فرماتے ضرور ہیں کہ اچھا شاعر بننے کے لیے شاعری کا اچھا مطالعہ ضروری ہے لیکن یہاں چونکہ تخیل درمیان میں آ پڑتا ہے سو یہاں دو جمع دو چار والا فارمولا نہیں لگ سکتا، یہاں بغیر مطالعے کے بھی کام چل جاتا ہے اور بعض دفعہ تو اچھا خاصا چل جاتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
محترم نیرنگ خیال بھائی
انتہائی حیرت کا سامنا ہوا آپ کی جانب سے اس سوال کو پڑھ کر
آپ ایسی صاحب علم و فن ہستی اور چند ناموں کی تلاش میں ۔۔۔۔


نثر اور شاعری کہنی لکھنی خدا داد صلاحیت اور انسانی مشاہدے پر پہلے پھر مطالعے پر استوار ہوتی ہے ۔
جو صرف مطالعے پر قائم رہتے لکھتے ہیں ۔ وہ نقال کہلاتے ہیں ۔ چاہے ان کی تحریر کتنی ہی مدلل اور کتنی ہی خوبصورت بنت کی حامل کیوں نہ ہو ۔۔۔۔
جو مشاہدے کے بل پر لکھتے ہیں وہی سچے "لکھاری " کہلاتے ہیں ۔ چاہے ان کی تحریر کتنی ہی بے ربط اور بے ڈھنگی بنت کی حامل کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔
سارہ شگفتہ ۔ فرزانہ نیناں ابن صفی ابن انشاء عبد اللہ حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لاتعداد نام ہیں جنہوں نے اپنے مشاہدات کے بل پر ہی لکھا ہے ۔۔۔۔۔
مطالعہ کوئی شرط نہیں ۔ بشرطیکہ مشاہدہ قوی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لباس پہننے سے مقصود صرف تن چھپانا ہوتا ہے ۔ اور اس کے لیئے صرف مشاہدے میں آئی برہنگی کا منظر کافی ہوتا ہے ۔ چاہےان سلے دو کپڑے ہی کیوں نہ ہوں ۔
ہاں زینت بڑھانے کو خوبصورت دکھنے کو مطالعے کی ضرورت کہ کپڑا درست کٹے صحیح سلے ۔ اور پہنا پیارا لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
نایاب بھائی میں تو ان سے ہوں جن کا مکتب سے کوئی دور پار کا بھی تعلق نہیں۔ اس لیے نور کی گئی تعریف ہم پر پوری اترتی ہے۔ چند ناموں کا تقاضا اس لیے کہ کیا ہمارے علاوہ کون کون ہے جو بنا مطالعے کے لکھنے کا عادی ہے۔ امید ہے میرا نکتہ سمجھ گئے ہوں گے۔ :) آپ کی محبتوں کا مقروض۔ جزاک اللہ خیرا
 

نایاب

لائبریرین
میں تو ان سے ہوں جن کا مکتب سے کوئی دور پار کا بھی تعلق نہیں۔
اسی لیئے تو اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں آپ میرے محترم بھائی
اور اختلاف کرتے کچھ نہ کچھ علم پلے پڑ ہی جاتا ہے ۔
مطالعے اور مشاہدے بارے کیا خوب بیان کیا محترم محمد وارث بھائی نے
بلا شک مشاہدے اور مطالعے سے ابھری مکمل دلیل ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں

آپ کی بات تحقیقی مضامین یا مقالے یا کتاب کے لیے سو فیصدی درست ہے۔ تحقیقی کام اگر آپ کماحقہ مطالعہ کے بغیر کریں گے تو نا صرف اپنی بھد اڑائیں گے بلکہ یہ ناانصافی اور غیر دیانت داری بھی ہوگی۔ یہ تحقیقی کام چاہے کسی بھی موضوع پر ہو، مطالعہ ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اردو شاعری اور اردو نثر کی تاریخ کوئی بڑے سے بڑا شاعر یا ادیب بھی فقط اپنے مشاہدے یا خدا داد صلاحیت یا وہبی علم کی بنا پر نہیں لکھ سکتا، کتاب تو کیا چند صفحے بھی نہیں لکھ سکتا جب تک کہ کماحقہ مطالعہ نہ کر لے۔

دوسری طرف ایک اچھی ادبی یا تخیلاتی تحریر کے لیے اچھا مطالعہ ایک اضافی اور بہت اچھی اضافی چیز ہے لیکن مطلق اور لازمی چیز نہیں ہے۔ اساتذہ یہ فرماتے ضرور ہیں کہ اچھا شاعر بننے کے لیے شاعری کا اچھا مطالعہ ضروری ہے لیکن یہاں چونکہ تخیل درمیان میں آ پڑتا ہے سو یہاں دو جمع دو چار والا فارمولا نہیں لگ سکتا، یہاں بغیر مطالعے کے بھی کام چل جاتا ہے اور بعض دفعہ تو اچھا خاصا چل جاتا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اسی لیئے تو اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں آپ میرے محترم بھائی
اور اختلاف کرتے کچھ نہ کچھ علم پلے پڑ ہی جاتا ہے ۔
مطالعے اور مشاہدے بارے کیا خوب بیان کیا محترم محمد وارث بھائی نے
بلا شک مشاہدے اور مطالعے سے ابھری مکمل دلیل ہے ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
:lovestruck::bighug::bighug::bighug:
 
سب سے پہلے تو تمام محفلین کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے نا چیز کی چند بے ربط لکیروں پر تبصرہ کرکے اسے اعزاز بخشا ......

اب آتے ہیں نفس مضمون کی جانب جیسا کہ وارث بھائی نے فرمایا کہ تحقیق کے باب میں مطالعہ لوازمات میں سے ہے اور کوئی بھی بلا تحقیق تحریر اپنی ذات میں حوالہ نہیں بن سکتی یعنی اسے تحقیق تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اسکی بنت مضبوط حوالوں پر نہ ہو ......
 
جہاں تک سوال ہے مشاہدے کا اور مطالعہ کا ......

میری ناقص عقل کے مطابق کچھ بھی تحریر کرنے کیلئے صلاحیت تو بنیادی مطلوب جوہر ہوتی ہی ہے لیکن علم کے بغیر صلاحیت کوئی شئے نہیں اب علم کا حصول کیسے ہو ....

علم کا حصول دو بنیادی طرق سے ہو سکتا ہے یا علم کی دو بنیادی اقسام ہو سکتی ہیں

١. علم لدنی
٢.علم کسبی

جہاں تک معاملہ علم لدنی کا ہے کہ وحی ، الہام ، کشف اور معرفت کے باب سے ہے
اور جہاں معاملہ علم کسبی کا ہے اس کے دو بنیادی راستے ہیں

پہلا مشاہدہ
اور دوسرا مطالعہ

مشاہدہ زمان و مکان اور حواس خمسہ کا محتاج ہے آپ وہی کچھ دیکھتے ہیں کہ جو آپ کو دکھایا جاتا ہے یا پھر جو کچھ دیکھنے کی صلاحیت آپ میں موجود ہوتی ہے مشاہدہ ناقص ہو سکتا
چاہے وہ شاہد کی کوتاہ نظری ہو
یا کہ وہ منظر نامہ جو شاہد کے سامنے ہے اس کی تنگی

کسی بھی مخصوص علاقے ، مخصوص ماحول اور کسی خاص دور میں رہنے والے کسی نہ کسی درجے میں اپنے دور اپنے ماحول اور اپنی علاقائی تہذیب و ثقافت میں مقید ہوتے ہیں ......

مطالعہ آپ کو اس قید سے آزادی دلاتا ہے

" اقبال اپنے زمانے میں رومی سے فیض حاصل کرتا ہے "

یہاں ایک بات اور عرض کر دوں کہ مطالعہ صرف اور صرف " کتب " میں ہی مقید نہیں بلکہ ......

یہاں تحصیل علم کے دو درجات ہیں

اوّل اکتساب
ثانی اکتتاب

اب چاہے وہ شخصیات کو پڑھنا ہو کہ جیسے

استاد قمر جلالوی دنیوی (کتابی ) تعلیم سے عاری ہونے کے باوجود باکمال شاعر تھے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جس کتاب کو پڑھا وہ ان کے استاد محترم تھے یعنی جیتی جاگتی چلتی پھرتی کتاب .......

شخصیات سے علمی فیض بھی زمان و مکان کا پابند ہوتا ہے لیکن

" اکتتاب " زمان و مکان کی حدود و قیود سے ماوراء ہے

حضرت عثمان علی ہجویری رح " کشف المحجوب " میں فرماتے ہیں " جسے کامل شیخ میسر نہ ہو اس کو یہ کتاب کفایت کرے گی "

اس سے آگے جائیں آج ہمارا اپنے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صل الله علیہ وسلم اور اپنے دین کتاب الله سے تعلق بھی کتابی ہی ہے .......

دوسری جانب میرا مشاہد مجھے ایک منظر دکھاتا ہے میں شاعر ہو اس منظر کو شعر کر دیتا ہوں
میں مصور ہوں اس منظر کو تصویر کر دیتا ہوں میں افسانہ نگار ہوں اس منظر کو افسانہ بنا دیتا ہوں میں ادیب ہو وہ منظر میرے مشاہدے میں آکر کہانی بن جاتا ہے میں کالم نگار ہوں اس منظر کو کالم کی شکل میں ڈھال دیتا ہوں میں موسیقار ہوں اس منظر کو سروں سے مزین کر دیتا ہوں ......

لیکن وہ منظر بہت سوں نے پہلے بھی دیکھا ہے مجھ سے زیادہ وضاحت اور مجھ سے زیادہ وسعت نظری کے ساتھ دیکھا ہے .......

اب " مطالعہ " ہی وہ اوزار ہے کہ جو بتلاتا ہے کہ

میری کہانی
میرا افسانہ
میرا مضمون
میری تصویر
میری موسیقی

کہاں کہاں ، کب کب ، مجھ سے پہلے اور مجھ سے بہتر بن چکی ہے اور اس علم و ادب کے میدان میں رواں دواں قافلے میں آخر " میں " کس مقام پر کھڑا ہوں .
 
دوسری جانب جیساکہ ادب دوست بھائی سے فرمایا ...

چونکہ کُتب ، کسی اور کی قوتِ متخیلہ ، مشاہدہِ فطرت و اشیا، قوتِ بیان اور زور قلم کی تفسیر ہے ، جو کسی طور بے کار نہیں ۔ مگر یہ کہ اگر انسانی خیال ، خیالِ سابقہ کا مرہونِ منت ہو جائے تو ارتقاکا سفر تھم جائے گا۔
جہاں تک تحریر کی بات ہے تو اس کی صورت بھی مختلف نہیں۔

جہاں تک سوال خیال کے ارتقاء کا ہے یہ صرف ارتقاء کا ہی ہے اس کی عمارت پہلے سے موجود ڈھانچے پر ہی کھڑی ہوتی ہے یعنی کہ ارتقاء اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ عدم سے وجود میں نہیں آتا بلکہ سالوں سے جاری ایک عمل کا حصہ ہوتا ہے .....

ادبی ارتقاء یا علمی ارتقاء بھی پہلے سے موجود عمارت کی اگلی منزل سے زیادہ کچھ نہیں .......

لیکن الہام علمی یا الہام دینی ایک نئی دنیا سے متعارف کروا سکتا ہے

کشف سے مراد کسی عقدہ کا کھل جانا ہے سوچ کا کوئی نیا در وا ہونا کسی نئی بات کا سمجھ آنا یا کسی پرانی بات کی کوئی نئی تعبیر کا سوجھ جانا ..........

کشف علمی امور دینیہ میں بھی ہوتا ہے اور امور دنیوی میں بھی یہ مسلمان کو بھی ہو سکتا ہے اور غیر مسلم کو بھی ......
علمی مکاشفات کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا کسی بھی مسلے پر تنہائی میں یا کسی عالم کی صحبت میں ، موجودات کی اس تغیر پذیر دنیا میں بےشمار ایسی ایجادات ہیں جب موجد دریافت کچھ اور کرنا چاہتا تھا اور ہو کچھ اور گیا ایک سیب کے گرنے سے نیوٹن کی توجہ لاء آف گراویٹی کی طرف مبذول ہوجانا کشف علمی کی ہی ایک مثال ہے ......

دوسری جانب جہاں تک معاملہ ہے پرواز تخیل کا وہ میری ، آپ کی ، وارث بھائی کی یعنی ہر ہر منفرد کی منفرد ہوگی .........

لیکن کسی ایک ہی عنوان پر دو اشخاص کے تخیل کی پرواز نے انہیں کہاں تک پہنچایا کون پہلے آسمان تک پہنچا کون دوسرے پہ رکا کون تیسرے تک بلند ہوا کس کی قوت متخیلہ چوتھے پر جاکر تھکی کس کے تخیل نے پانچویں پر کمند ڈالی کون چھٹے تک عروج کرتا چلا گیا اور کس خوش نصیب کو مشیت ایزدی نے ساتویں تک راستہ دیا .............

رجال کی یہ تفریق " کتاب " یا " الکتاب " بتلاتی ہے .
 
آخری تدوین:
Top