تحریر کا فن ....

اگر تحریری شکل میں ، کتابی شکل میں لائیں تو ،
ابتدائی مضمون کے طور پر میرا ، اختلافی نوٹ بھی ہوگا ؟
:):)
اگر شامل مکالمہ محفلین اجازت دیں تو تمام آرگومنٹ کو مختلف زاویوں کے تحت تحریر کا حصہ بنایا جا سکتا ہے
 
پہلے تو یہ بتائیے ، کہ آپ انسان کی قوتِ متخیلہ کو کسی گنتی میں نہیں رکھتے ؟
ہر انسان کی پرواز تخیل اس کی فکری استعداد کی محتاج ہے اور یہ فکری استعداد لاشعور میں موجود مطالعہ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے .......
 
میرا ناقص ترین خیال یہ ہے کہ کہ حسیب بھائی کی بات بالکل جامع اور وزن دار ہے۔
لیکن اس میں کچھ چیزوں کا خلط اور کچھ کی تخصیص و تحدید ہو گئی ہے۔
ایک حصہ علم کے حصول کے لیے دس حصہ عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ترسیل کا بھی ہے۔ علم کی ترسیل بغیر علم کے ممکن نہیں۔ انسان جو کچھ سیکھتا ہے اس کے صرف دسویں حصہ ہی کا ابلاغ کر سکتا ہے۔ پھر ابلاغ ایک الگ مستقل علم ہے۔ جو کہ ریاضت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ تحریر خود بھی "تحریرِ محض" کے علم کا نام نہیں ہے۔ تحریر اپنی فنی جہت (artistic perspective) میں ایک الگ شئے ہے۔ جبکہ اس میں موجود مواد ایک الگ شئے۔
اب تحریر میں موجود مواد کو کاغذ پر لکھ ڈالنا ایک بات ہوتی ہے۔ جبکہ اس سے ایک فن پارہ قائم کرنا دیگر شئے ہے۔ اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتہائی اعلی الفاظ کا چناؤ، جذباتی گھیراؤ اور جمالیاتی گیرائی سے پُر ایک تحریر ہوتی ہے۔ لیکن علمی حیثیت اس تحریر کی کچھ نہیں ہوتی۔ اس کے بر عکس کچھ تحریروں میں سطر بہ سطر علمی نکات پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن ابلاغ سے ساقط شدہ اور غیر دلچسپ انداز میں لکھا گیا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا دونوں صورتیں علم ہی کی ہیں۔ ایک میں تحریر کی فنی اور جمالیاتی گہرائی ہے۔ دوسری صورت میں نہیں ہے۔
تاہم ایک مزید بات یہ بھی ہے کہ جہاں کوئی خالص علمی موضوع ہوتا ہے تو اکثر لفظ گری کا فن دماغ سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اور اس کے بر عکس ہو تو بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ دونوں کو ساتھ لے کر چلنا اکثر مشکل ہوتا ہے۔ اور بہت کم نظر آتا ہے۔ ابو الکلام آزاد کے یہاں، نطشے اور ول ڈیوراں کے یہاں اس کمال کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں تحریر کا حسن بھی ہے۔ اور علمی نکات بھی کہیں نہیں جاتے۔
 
Top