تجارت سے خلافت تک

تجارت سے خلافت تک

مسلمانوں کا عروج، غلبہ اور خلافت ہر چیز معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور اس کیلئے مسلمانوں کو اپنی تجارت، صنعت و حرفت کو فروغ دینا ہوگا۔ یہودیوں سے دنیا کی معیشت چھیننا ہو گا۔ آج جس طرح پوری دنیا یہودیوں کے سودی نظام کی اسیر ہوکر تڑپ رہی ہے بالکل یہی حالت حضور ﷺ کے زمانے میں بھی تھا۔ اس وقت بھی پورے عرب اور معروف دنیا کی معیشت پر یہودی بنئے قابض تھے۔

اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ کسی نبی کو بھی بغیر ان کی محنت اور سعی کے کچھ عطا نہیں کیا۔ جب مکہ میں مشکلات عروج پر پہنچی تو حضور اکرم ﷺ کے حکم سے صحابہ کرام حبشہ ہجرت کر گئے۔ حبشہ میں مسلمانوں کو کوئی پریشانی نہیں تھی اور اگر آپ ﷺ چاہتے تو خود بھی حبشہ ہجرت کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کی ویژن (vision) بہت وسیع تھی۔ آپ ﷺ یثرب (مدینہ المنورہ) کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کیوں؟

کیونکہ اس دور میں یثرب (مدینہ المنورہ) ایک ایسی سٹریٹیجک لوکیشن (strategic location) تھی جہاں سے پورے عرب کی معیشت کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ یثرب میں رہتے ہوئے عرب کے بری اور بحری تجارتی تجارتی راستوں کو کنٹرول کرنا ممکن تھا۔ تجارتی اور عمرہ و حج کے قافلے حدودِ یثرب سے ہو کر ہی مکہ مکرمہ پہنچتا تھا۔ پھر یثرب (مدینہ المنورہ) میں یہودی آباد تھے جو صدیوں سے پورے عرب کی معیشت کو شراب، جوا، سودی نظام اور اپنے اصلحے کی تجارت کے ذریعے کنٹرول کئے ہوئے تھے۔

اگر آپ ﷺ حبشہ ہجرت کرجاتے تو وہاں سے نہ ہی مکہ مکرمہ کو کنٹرول کرنا ممکن ہوتا اور نہ ہی عرب دنیا سے یہودیوں کی سیاسی، مذہبی اور معاشی غلبہ کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے حبشہ میں مسلمانوں ہجرت کئے جانے اور وہاں سازگار حالات ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے حبشہ کو ترجیح نہیں دی اور یثرب کو اسلام کا گہوارہ بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں سات سال بعد یہ کامیابی ملی جب بیعت وقبہ ثانی ہوئی۔ جس کے بعد مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلا اور وہاں مسلمانوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پیدا ہو گئی جو اسلام کے سچے شیدائی تھے۔

پھر اللہ کے حکم سے آپ ﷺ یثرب تشریف لے گئے۔ آپ جس ویژن کے تحت کام کر رہے تھے اس میں کامیابی ملی اور یثرب بدل کر مدینۃ النبی ﷺ بن گئی جہاں سے مکہ مکرمہ اور پورے عرب پر کنٹرول کرنا ممکن ہوا۔

آپ ﷺ دین اسلام کی تبلیغ کے ساتھ صحابہ کرام کو بہترین تاجر بھی بنایا تھا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ کی حکمت عملی سے خالی ہاتھ یثرب پہنچنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف پانچ سال کے اندر مدینہ کی پوری تجارت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تجار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ملٹی نیشنل کمپنیاں قائم کیں اور یہودیوں کی جھوٹ، دغا، فریب و مکاری اور خیانت کو اپنی صداقت و امانتداری اور ایمانداری سے شکست دے کر تجارت کے میدان میں اپنا سکہ جمایا۔ یوں یہودیوں کے ہاتھ سے عرب دنیا کی تجارت و معیشت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور یہودیوں کو مدینہ سے بے دخل کرکے ان کی مذہبی اور سیاسی بالادستی کو بھی ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ محض 5 سال میں مکمل ہوا۔

5 ہجری کے بعد عرب دنیا کی پوری تجارت و معیشت مسلمانوں کے کنٹرول میں آگئی۔ عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جو انکم ہوتی تھیں ان سے ہی جہاد کیلئے اور مدینہ کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے فنڈز فراہم کئے جاتے تھے۔

کون سی ایسی غزوہ ہے جس میں تجار صحابہ کرامؓ نے دل کھول کر فنڈز فراہم نہ کیا ہو۔ لیکن افسوس پچھلے ایک صدی سے چاہے انگریزوں سے جنگ آزادی ہو یا پھر کشمیر، افغانستان، عراق و شام وغیرہ کو دشمنوں کے تلسط سے چھڑانا ہو، مسلمانوں نے صرف جہاد کیا ہے اور اپنے لوگوں کو مروایا ہے۔ تجارت اور صنعت و حرفت کو یکسر نظر انداز کرکے دشمنوں کے خلاف جہاد میں کودنا خوکشی تھی اور مسلمانوں نے خودکشی کی۔

آج پوری دنیا کی سیاست، تجارت و معیشت پر یا تو یہودی قابض ہیں یا پھر چائنیز یا ہندو بنیے اور عرب کی تاریک دور کی طرح آج پھر پوری انسانیت کو سود، جوا و شراب اور بے حیائی میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسانیت آج پھر سسک رہی ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ مسلمانوں میں وہ قابلت نہیں جو بڑھ کر دنیا کی تجارت و معیشت کو اپنی قبضے میں لے سکیں۔

لہذا اگر مسلمانوں کو عروج ، غلبہ اور خلافت چاہئے تو تو تجارت، صنعت و حرفت کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے صفوں میں صحابہ کرامؓ کے جیسے صادق و امین ملٹی ملینیئر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک تجار پیدا کرنے ہوں گے جو ملک کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے بھی فنڈنگ کریں گے اور ضرورت پڑنے پر جہاد کیلئے بھی فنڈز فراہم کریں گے۔ پھر جا کے دنیا کی سیاست، تجارت و معیشت پر مسلمانوں کا کنٹرول ہوگا اور مسلمان سپر پاور بن پائیں گے۔

لہذا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ تجارت کا پیشہ اختیار کرے۔ مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر تجارت کو فروغ دیں۔ جن کے ایک شہر میں تجارت ہے وہ دوسرے شہروں تک اپنی تجارت کو پھیلائیں اور پھر دیگر ممالک میں اپنی تجارت کو وسیع کریں۔

ایک وقت تھا جب مسلمان تاجر اپنی امانت و صداقت کی وجہ کر پوری دنیا میں چھائے ہوئے تھے اور دین کی تبلیغ کام بھی نہایت ہی خوش اصلوبی سے سر انجام دیتے تھے، وہ اپنی قول سے زیادہ اپنے کردار سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے اور ان کی سچائی اور امانت داری کو دیکھ کر ہی غیر مسلم اسلام لے آتے تھے۔ ہم مسلمان تو اپنی تاریخ بھی نہیں جانتے اور دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر یہی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے۔ نہیں جناب اسلام مسلمان تاجروں کی صداقت اور امانت کی وجہ کر پھیلا ہے۔

آپ بھی بڑے تاجر بنئے اور صداقت و امانت کے ساتھ تجارت کیجئے تاکہ آپ کو دیکھ کر غیر مسلم حلقہ بغوش اسلام ہوں اور آخرت میں آپ کا انجام انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو۔

نہ جانے کب سے ہم مسلمانوں کے اذہان میں یہ منفی سوچ بیٹھ گئی ہے کہ ’’اب جھوٹ کے بغیر تجارت ممکن نہیں‘‘۔

اللہ کے بندو! کیوں ایسی باتیں سوچتے ہو جو تمہارے دین و ایمان کی منافی ہے۔ آج جب کفار بھی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو ہم تو مسلمان ہیں، ہمارے لئے تجارت میں سچائی اور دیانتداری کو اپنانا آج کیسے ممکن نہیں رہا؟ آج اس دنیا میں سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے اور کل آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھی بن جائے۔

جیسا کہ پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر (آخرت میں) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔ (سنن ترمذی: حدیث نمبر 1209)

اللہ تعالٰی ہمیں اور آپ کو سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر بنائے تاکہ آخرت میں ہمارا انجام انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

تحریر: #محمد_اجمل_خان
 

سیما علی

لائبریرین
تجارت سے خلافت تک

مسلمانوں کا عروج، غلبہ اور خلافت ہر چیز معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور اس کیلئے مسلمانوں کو اپنی تجارت، صنعت و حرفت کو فروغ دینا ہوگا۔ یہودیوں سے دنیا کی معیشت چھیننا ہو گا۔ آج جس طرح پوری دنیا یہودیوں کے سودی نظام کی اسیر ہوکر تڑپ رہی ہے بالکل یہی حالت حضور ﷺ کے زمانے میں بھی تھا۔ اس وقت بھی پورے عرب اور معروف دنیا کی معیشت پر یہودی بنئے قابض تھے۔

اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہے کہ کسی نبی کو بھی بغیر ان کی محنت اور سعی کے کچھ عطا نہیں کیا۔ جب مکہ میں مشکلات عروج پر پہنچی تو حضور اکرم ﷺ کے حکم سے صحابہ کرام حبشہ ہجرت کر گئے۔ حبشہ میں مسلمانوں کو کوئی پریشانی نہیں تھی اور اگر آپ ﷺ چاہتے تو خود بھی حبشہ ہجرت کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کی ویژن (vision) بہت وسیع تھی۔ آپ ﷺ یثرب (مدینہ المنورہ) کی طرف دیکھ رہے تھے۔ کیوں؟

کیونکہ اس دور میں یثرب (مدینہ المنورہ) ایک ایسی سٹریٹیجک لوکیشن (strategic location) تھی جہاں سے پورے عرب کی معیشت کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ یثرب میں رہتے ہوئے عرب کے بری اور بحری تجارتی تجارتی راستوں کو کنٹرول کرنا ممکن تھا۔ تجارتی اور عمرہ و حج کے قافلے حدودِ یثرب سے ہو کر ہی مکہ مکرمہ پہنچتا تھا۔ پھر یثرب (مدینہ المنورہ) میں یہودی آباد تھے جو صدیوں سے پورے عرب کی معیشت کو شراب، جوا، سودی نظام اور اپنے اصلحے کی تجارت کے ذریعے کنٹرول کئے ہوئے تھے۔

اگر آپ ﷺ حبشہ ہجرت کرجاتے تو وہاں سے نہ ہی مکہ مکرمہ کو کنٹرول کرنا ممکن ہوتا اور نہ ہی عرب دنیا سے یہودیوں کی سیاسی، مذہبی اور معاشی غلبہ کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ اس لئے حبشہ میں مسلمانوں ہجرت کئے جانے اور وہاں سازگار حالات ہونے کے باوجود آپ ﷺ نے حبشہ کو ترجیح نہیں دی اور یثرب کو اسلام کا گہوارہ بنانے کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں سات سال بعد یہ کامیابی ملی جب بیعت وقبہ ثانی ہوئی۔ جس کے بعد مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلا اور وہاں مسلمانوں کی ایک ایسی بڑی جماعت پیدا ہو گئی جو اسلام کے سچے شیدائی تھے۔

پھر اللہ کے حکم سے آپ ﷺ یثرب تشریف لے گئے۔ آپ جس ویژن کے تحت کام کر رہے تھے اس میں کامیابی ملی اور یثرب بدل کر مدینۃ النبی ﷺ بن گئی جہاں سے مکہ مکرمہ اور پورے عرب پر کنٹرول کرنا ممکن ہوا۔

آپ ﷺ دین اسلام کی تبلیغ کے ساتھ صحابہ کرام کو بہترین تاجر بھی بنایا تھا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺ کی حکمت عملی سے خالی ہاتھ یثرب پہنچنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف پانچ سال کے اندر مدینہ کی پوری تجارت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ تجار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ملٹی نیشنل کمپنیاں قائم کیں اور یہودیوں کی جھوٹ، دغا، فریب و مکاری اور خیانت کو اپنی صداقت و امانتداری اور ایمانداری سے شکست دے کر تجارت کے میدان میں اپنا سکہ جمایا۔ یوں یہودیوں کے ہاتھ سے عرب دنیا کی تجارت و معیشت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی اور یہودیوں کو مدینہ سے بے دخل کرکے ان کی مذہبی اور سیاسی بالادستی کو بھی ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ محض 5 سال میں مکمل ہوا۔

5 ہجری کے بعد عرب دنیا کی پوری تجارت و معیشت مسلمانوں کے کنٹرول میں آگئی۔ عشرہ مبشرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے جو انکم ہوتی تھیں ان سے ہی جہاد کیلئے اور مدینہ کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے فنڈز فراہم کئے جاتے تھے۔

کون سی ایسی غزوہ ہے جس میں تجار صحابہ کرامؓ نے دل کھول کر فنڈز فراہم نہ کیا ہو۔ لیکن افسوس پچھلے ایک صدی سے چاہے انگریزوں سے جنگ آزادی ہو یا پھر کشمیر، افغانستان، عراق و شام وغیرہ کو دشمنوں کے تلسط سے چھڑانا ہو، مسلمانوں نے صرف جہاد کیا ہے اور اپنے لوگوں کو مروایا ہے۔ تجارت اور صنعت و حرفت کو یکسر نظر انداز کرکے دشمنوں کے خلاف جہاد میں کودنا خوکشی تھی اور مسلمانوں نے خودکشی کی۔

آج پوری دنیا کی سیاست، تجارت و معیشت پر یا تو یہودی قابض ہیں یا پھر چائنیز یا ہندو بنیے اور عرب کی تاریک دور کی طرح آج پھر پوری انسانیت کو سود، جوا و شراب اور بے حیائی میں جکڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسانیت آج پھر سسک رہی ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ مسلمانوں میں وہ قابلت نہیں جو بڑھ کر دنیا کی تجارت و معیشت کو اپنی قبضے میں لے سکیں۔

لہذا اگر مسلمانوں کو عروج ، غلبہ اور خلافت چاہئے تو تو تجارت، صنعت و حرفت کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے صفوں میں صحابہ کرامؓ کے جیسے صادق و امین ملٹی ملینیئر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک تجار پیدا کرنے ہوں گے جو ملک کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے بھی فنڈنگ کریں گے اور ضرورت پڑنے پر جہاد کیلئے بھی فنڈز فراہم کریں گے۔ پھر جا کے دنیا کی سیاست، تجارت و معیشت پر مسلمانوں کا کنٹرول ہوگا اور مسلمان سپر پاور بن پائیں گے۔

لہذا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ وہ تجارت کا پیشہ اختیار کرے۔ مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر تجارت کو فروغ دیں۔ جن کے ایک شہر میں تجارت ہے وہ دوسرے شہروں تک اپنی تجارت کو پھیلائیں اور پھر دیگر ممالک میں اپنی تجارت کو وسیع کریں۔

ایک وقت تھا جب مسلمان تاجر اپنی امانت و صداقت کی وجہ کر پوری دنیا میں چھائے ہوئے تھے اور دین کی تبلیغ کام بھی نہایت ہی خوش اصلوبی سے سر انجام دیتے تھے، وہ اپنی قول سے زیادہ اپنے کردار سے لوگوں کو متاثر کرتے تھے اور ان کی سچائی اور امانت داری کو دیکھ کر ہی غیر مسلم اسلام لے آتے تھے۔ ہم مسلمان تو اپنی تاریخ بھی نہیں جانتے اور دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر یہی سمجھتے اور سمجھاتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے۔ نہیں جناب اسلام مسلمان تاجروں کی صداقت اور امانت کی وجہ کر پھیلا ہے۔

آپ بھی بڑے تاجر بنئے اور صداقت و امانت کے ساتھ تجارت کیجئے تاکہ آپ کو دیکھ کر غیر مسلم حلقہ بغوش اسلام ہوں اور آخرت میں آپ کا انجام انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو۔

نہ جانے کب سے ہم مسلمانوں کے اذہان میں یہ منفی سوچ بیٹھ گئی ہے کہ ’’اب جھوٹ کے بغیر تجارت ممکن نہیں‘‘۔

اللہ کے بندو! کیوں ایسی باتیں سوچتے ہو جو تمہارے دین و ایمان کی منافی ہے۔ آج جب کفار بھی سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو ہم تو مسلمان ہیں، ہمارے لئے تجارت میں سچائی اور دیانتداری کو اپنانا آج کیسے ممکن نہیں رہا؟ آج اس دنیا میں سچائی اور دیانتداری کے ساتھ تجارت کیجئے اور کل آخرت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھی بن جائے۔

جیسا کہ پیارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر (آخرت میں) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا“۔ (سنن ترمذی: حدیث نمبر 1209)

اللہ تعالٰی ہمیں اور آپ کو سچائی کے ساتھ معاملہ کرنے والا امانت دار تاجر بنائے تاکہ آخرت میں ہمارا انجام انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو۔ آمین یا رب العالمین۔

تحریر: #محمد_اجمل_خان
آمین یا رب العالمین
 
Top