"تبدیلی" پر کچھ خیالات

نیرنگ خیال

لائبریرین
لیکن بھیا تشفی تو ابھی بھی نہیں ہوئی :confused2: اردو لغت کچھ اور کہہ رہی ہے اور اگر آپ گوگل پہ سرچ کریں تو آپ کو ہزار ہا نتائج مل جائیں گے جہاں درستگی کا لفظ استعمال ہوا ہے -- کتب میں بھی یہ لفظ نظر سے گزرا ہے :confused2:
سر کو آواز تو دی تھی۔۔ اب دیکھو۔۔۔ ویسے نوراللغات میں رات کو دیکھوں گا۔۔۔
 

نیلم

محفلین
خوداحتسابی کا موقع ملنا اور خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کتنی راتیں گزری ہیں زندگی کی جن میں آپ نے سونے سے قبل محاسبہ کیا ہے۔ کہ آج کیا برا کیا۔ کیا اچھا کیا۔ جھوٹ، کو مذاق اور بےایمانی کو بازار میں رائج قانون کا نام دے کر ہم نے کس کس گرہ سے دامن نہیں چھڑا رکھا۔ جہاں موقع ملا وہاں ہم نے کب کسی سے رعایت برتی۔ اور اب آجاتے ہیں فرعون والی بات کی طرف۔ ۔۔
فرعون اک تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ دولت تھی۔ اقتدار تھا۔۔ اس کے باوجود بھی وہ ہدایت پر نہ آیا۔۔ حالانکہ اللہ کا رسول اس کے ہدایت لے کر آیا۔ تو پھر سوچیئے۔۔۔ اک ایسا آدمی جس کے پاس نہ مال ہے، نہ طاقت کی انتہا، اور نہ اقتدار۔۔۔ وہ کس برتے پر یہ سب کر رہا ہے۔۔ جب کہ اس کے پاس سب سے مقرب نبی کی کتاب موجود ہے۔ "الفرقان"۔۔ جس کو وہ بچپن سے پڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن اک لفظ بھی اس کے دل کے اندر آگ نہیں جلا پا رہا۔۔ کیوں کہ جو تاثیر ان الفاظ سے اس کے وجود میں آنی چاہیے تھی۔۔ اس کا سارا رس مسجد کا خطیب چوس گیا۔ اب اس کے لیے وہ اک کتاب،، قسمیں اٹھانے، اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہے۔ وہ بھول گیا کہ اس کے اندر فلسفہ حیات ہے۔
اور اب ذرا آجائیں۔۔ ہدایت کی طرف۔۔ کہ جی ہدایت کے موقع ملتے ہیں۔ مغرب نے تحقیق کے علم کی بنیاد رکھی۔۔ شک پر۔۔ شک کرو۔۔ پرکھو۔۔ جانچو۔۔۔ سمجھو۔۔ اور پھر اگر سمجھ میں آئے عمل کرو۔۔ دین نے کہا تجسس نہ کرو۔۔ ہم نے دین کی بات نہ مانی۔۔۔ ہم نے تجسس کیا۔۔ ہم نے شک کیا۔۔۔ اور ہر چیز کی تاویل تلاشنے لگے۔۔ یوں رفتہ رفتہ وہ علم ہم سے کھنچتا چلا گیا۔ شعلہ نوائی رہ گئی۔ عمل کی دولت چھن گئی۔ کیوں کہ علم پر اعتبار نہ رہا تو عمل بھی خاک کی چادر تان کر سو گیا۔۔۔
اب آجائیں ملک کے معاملات کی طرف۔۔۔ اک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوا۔۔۔ لیکن در بدر ٹھوکریں۔۔۔ داخلے کے لیے۔۔۔ آخر باپ نے سفارش ڈھونڈی اور داخلہ کرا دیا۔۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا۔۔ جو شاندار عمارت وجود میں آنی تھی۔۔ اس کی بنیاد میں اک اینٹ سفارش کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔ وہ ہزاروں اینٹیں بیکار گئی۔۔ کیوں کہ انہوں نے پہلے مطلوبہ نتائج نہ دیے تھے۔ تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر اک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔۔۔ اب جن لوگوں نے اس وقت سفارش کی تھی۔ ان کے بچے آنا شروع ہوگئے۔ بقیہ زندگی ان کی سفارش کرتے گزر گئی۔ ریٹائر ہوگیا۔۔ مسجد میں اللہ اللہ کرنے لگا۔۔ نیک ہوگیا۔۔ ایسے میں ہمسائے سے اک بندہ اٹھا اور کہا کہ چلیے قبلہ میرے بیٹے کے لیے کوئی حوالہ فراہم کیجیے۔۔ اب پھر ادھر چل پڑا۔۔۔ تو وہ جو دو سال کی کمائی تھی۔۔ وہ بھی مٹی میں مل گئی۔۔۔
مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس پورے عمل کے دوران بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس کو خود احتسابی کا لفظ کس کس نصاب میں پڑھایا گیا۔ ملک کا فائدہ کیا ہے نقصان کیا۔۔۔ یہ اسے کہاں سکھایا گیا۔ دین کیا ہے دنیا کیا۔۔۔ فانی کیا ہے باقی کیا۔۔ اس کا درس اس کو کس معلم نے دیا۔۔۔
اک فرد اس طرح نہیں بدلتا جس طرح آپ نے کہہ دیا کہ بدل جائے تو خاندان بدل جائے۔۔ جب یہ ساری چیزیں نصاب کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے جو فطرت کو بدل دیں گے۔۔۔ ۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ تبدیلی اک نسل سے نہیں آتی۔۔۔ اپنی بیویوں کی تربیت کرو۔۔ اولاد کی تربیت کرو۔۔ ان کو اچھا برا بھلا سکھاؤ۔۔ وقتی فائدے پر نیکی کو ذبح کرنے کا ہنر مت سکھاؤ انہیں۔۔ پھر کہیں جا کر اس جوہڑ سے کائی ہٹے گی۔۔۔ یہ دریا جو سست روی میں سوکھ رہا پھر تبدیل ہو کر کسی روشن اور صاف سمندر کا حصہ بنے گا۔۔ اور اک صاف اور اجلی قوم جنم لے گی۔۔۔ ۔


پتا نہیں کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ بس اب تھک گیا ہوں۔۔ دل کر رہا ہے اور بھی لکھنے کو۔۔ پر اب سکت نہیں۔۔ :) پر وعدہ کے مطابق الٹا سیدھا جو بن پڑا جواب حاضر ہے۔ :)
:applause::applause::applause:
 

پردیسی

محفلین
سلام قارئین۔ تبدیلی کے موضوع پر میرے کچھ رینڈم خیالات۔ آپ سے استدعا ہے کہ اگر ہو سکے تو بہتری کی راہ سجائیں۔ خدا جانے محفل پر کتنا وقت رہنا ہے، کوشش ہے کہ جب تک رہوں؛ آپ کے پند و نصائح کے جتنے موتی مل سکیں، سمیٹ کر لیے چلوں۔شکریہ۔
’تبدیلی‘ پر کچھ خیالات
’تبدیلی‘ وہ اصطلاح ہے، جو آج کل وطنِ عزیز میں زباں زدِ عام ہے۔ کسی شے کے حالات و واقعات میں فرق کا نام تبدیلی ہے۔ یہ مثبت بھی ہو سکتی ہے، اور منفی بھی۔ حال ہی میں ہماری youth نے پاکستان میں تبدیلی کی ٹھانی، اک ’نئے پاکستان‘ کا خواب دیکھا۔بدقسمتی سے اس نیک خواب کو اور ’تبدیلی‘ کے اس concept کو ایک سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا۔بہت مہینوں ایسا چلتا رہا اور آج جب الیکشن2013 کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، تومیرے ہم وطن کہتے ہیں کہ پاکستان ویسا کا ویسا ہی ہے، جاہل، intellectually stagnant ، تبدیلی سے عاری! لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہی گتھم گتھا ہیں۔ تبدیلی والے شرمسار اور باقی ماندہ سرفراز!ملک تقسیم ہو گیا۔Physically نہ سہی، Meta-physically ہی سہی۔ تو آخر خرابی ہوئی کہاں؟ اتنا نادر اور موتی خواب، سچ پرمبنی،جس کی بنیاد نیک ارادوں پر رکھی گئی ہو، کیا اس کی تقدیر میں ٹوٹنا ہی لکھا تھا؟ کیا خدا کے ہم سے کیے سب وعدے جھوٹے ہیں؟ کیا ہر وہ چیز، جس کی بنیاد خلوص دل اور نیک خیالات پر رکھی جائے گی، اس کی آزمائش ضروری ہے؟ کیا اب وطنِ عزیز میں کبھی تبدیلی اور ترقی نہیں آئے گی؟ مستقبل میں کیا ہو گا؟ کیا سب جمود کا شکار ہو جائے گا؟ آخر تبدیلی والے تو شرمسار ہو ہی گئے۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے!
تبدیلی کا تعلق، کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق تو بندے کے اپنے من سے، اس کے دل سے ہوتا ہے۔کایا تو تب پلٹتی ہے نا جی، جب بندے کا دل بدل جائے۔ جب اس میں رب آ سمائے۔نیک خیالات آنے لگیں، اچھائی کی امنگ کروٹیں لینے لگے۔ کرنا نہ سہی، خیال تو آئے نا۔۔۔ آخریہی تو رب کے بلاوے کا اشارہ ہے۔ کبھی بھی سیاسی جماعتیں اقوام کی تقادیر نہیں بدلتیں۔ لوگ ہوتے ہیں، جو تاریخ رقم کرتے ہیں۔ دل نرم ہوں، تو ان کی کایا پلٹ جانا آسان؛ دل ہی پتھر ہو جائیں، تو پھر تبدیلی کیسی؟تاریخ کو اٹھا کر دیکھئے، یہ تو لوگوں کے دل تھے جو بدل گئے اور اسی تبدیلی نے ان کے باہر کے حالات بھی بدل ڈالے۔اسلام کا ماخذ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل تھا۔ وہیں سے تبدیلی شروع ہوئی، اور پھر باہر کی طرف پھیلی؛ اور ایسی پھیلی کہ دنیا کا اور دنیا میں رہنے والوں کا نقشہ ہی بدل ڈالا؛ سب حالات بدل کر رکھ دئیے۔ تو کہنے کی بات یہ ہوئی کہ ایک تو تبدیلی اپنے دل کی پاکیزگی کا نام ہے، اس کی کایا پلٹ جانے کا نام ہے۔ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ تبدیلی آنا ایک outward phenomenon ہے، نہ کہ inward ۔ہمیں غلط فہمی یہ ہوئی کہ شاید یہ ایک inward phenomenon ہے، کہ کوئی ایک خاص سیاسی جماعت آئے گی، اور ہمارے دلوں کو بدل دے گی۔ نہ! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ خود کو بدل لیا، تو سمجھئے باہر کی سب دنیا کو بدل لیا۔ کیا سیاسی جماعت اور کیا معاشرہ!
توبندہ پوچھتا ہے کہ اب کیا کرے؟اللہ لوک! سیاسی جماعت کو چھوڑ، اوروں کو برا بھلا مت کہہ، کسی کا تمسخر مت بنا، اپنے من پر توجہ کر۔ رب تو وہاں ہے، تبدیلی وہی کرنے والا ہے اور وہیں سے سب اچھائیوں کی شروعات ہیں۔ توکتنی نعمت ہے ہم پر کہ بابا بلھے شاہ (رحمتہ اللہ علیہ) یہ فارمولابہت خوبصورتی سے بتاگئے۔ کہا کرتے تھے:
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ۔ کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں​
جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر ۔ کدے من اپنے وچ وڑیا نئیں​
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں۔ کدی نفس اپنے نال لڑیا نئیں​
بلھے شاہ اسمانی اڈدیاں پھڑدا ایں ۔ جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑھیا نئیں​
دل کا کنٹرول ہمارے اور ہمارے رب کے پاس ہے، نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس۔ تو آئیے، irrespective of the political party مل کر، آج ’تبدیلی‘ کے اس خواب کو پورا کرنا شروع کریں، ایک ’نئے پاکستان‘ کی بنیاد رکھیں جو ہمارا ایک بہت معصوم سا، محبت بھرا خواب ہے۔ اقرباءپروری کو چھوڑیں، رشوت ستانی کوdiscourage کریں۔ دوسروں کا تمسخر نہ اڑائیں۔مختصر یہ کہ بھائی بھائی کی عزت اس وجہ سے نہ کرے کہ اس سے خونی رشتہ ہے، بلکہ انصاف اور قابلیت کو معیار بنا کرآگے چلا جائے۔خود کو اور خود کی سوچ کو بدلیں۔دیکھئے، نیک سوچ کا؛ مثبت تبدیلی کا دل میں خیال آنا بھی نعمت ہے۔ تو اس نعمت کو رائیگاں نہ کریں۔ اسے خدا کے فضل میں تبدیل کریں۔ یہ کام ہو گیا، تو ’نیا پاکستان‘ خود بخود معرضِ وجود میں آجائے گا۔ ایک ایسا پاکستان، جہاں محبت کی حکومت ہو گی، نیک تمناﺅں کا راج ہو گا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ہی نفس کے شر سے محفوظ فرمائے؛ اورہمارے لیے ہماری مشکلات اور آزمائشوں کو آسان فرمائے (آمین)۔

نعمان (میونخ)۔
حروف چن کر الفاظ کے کیا خوبصورت محل کھڑے کیے ہیں۔ سچی اور کھری بات۔۔۔ کہ اندر کی تبدیلی چاہیے۔۔ مگر وہ کرپشن جو رگ رگ میں رچی ہے۔۔ آپ کو اک بات بتاتا ہوں
پرانے دور میں مغل بادشاہوں کے لیے اک کھانا بنا کرتا تھا۔۔۔ اس کا نام شاید دم پخت تھا۔ یا کچھ اور۔۔ لیکن اس کے نام سے کچھ ایسا خاص لینا دینا نہیں۔ وہ مرغے کو جب انڈے سے نکلتا تو اس کو زعفران، بادام اور پستے کھلائے جاتے۔۔ عرق گلاب میں ڈبو ڈبو کر خوراک دی جاتی۔۔ جب وہ مرغا بڑا ہوتا۔ تو اسکا پیٹ چیرچاول بھر کر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا۔ تو عفران اور عرق گلاب کی خوشبو سے وہ چاول مہک اٹھتے اور بادشاہ سلامت اس مرغے کے ذائقہ دار گوشت کے ساتھ تناول فرماتے۔۔
اب آتے ہیں اس بات سے تبدیلی کی طرف۔ بچپن سے اک بچہ کو کرپشن سکھائی جا رہی۔ ماں اسے کہہ رہی کہ ایسا کر لو۔۔ مگر دیکھو تمہارے باپ کو خبر ہوگئی تو بہت پٹو گے۔ باپ گھر پر ہے۔ وہ بچے کو کہہ رہا ہے کہ جاؤ۔۔۔ باہر جو بھی ہے اسے کہو کہ ابا گھر پر نہیں۔ اب وہ بچہ بڑا ہوا۔۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑا سا جھوٹ بول کر بڑی مصیبتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ استاد کو کہا سر کل پیٹ میں درد تھا۔ کام نہ کرسکا۔۔ معافی مل گئی۔۔ یہ کرپشن، جھوٹ اس کی رگوں میں رچتا بستا چلا گیا۔ بڑا ہوا یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کرپشن۔۔۔ پھر جب ملازمت کے حصول کا وقت آیا تو کرپشن۔۔ اس نہج تک آتے آتے کرپشن، رشوت، جھوٹ اور دیگر بیماریاں اس طرح رگ و پے میں رچ بس گئیں، کہ ذات کا حصہ بن گئی۔ گناہ کا احساس ختم ہوگیا۔ برائی کو حق سمجھنا شروع ہوگیا۔
اب ایسے میں تبدیلی کی بات جب ہوگی تو اس سے مراد دوسروں کی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ خود احتسابی کے عمل سے تو کبھی گزرا نہیں۔ ایمان کیا ہے۔ دین کیا ہے۔ شریعت کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کے لغوی معنوں سے بھی ناآشنا۔۔ کجا یہ کہ ان سے وابستہ رمزوں کو سمجھ کر تبدیلی عمل میں لائی جائے۔
ان عوامل کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جانا کہ ہاں تبدیلی کا عمل دوسروں سے شروع ہوتا ہے۔ اور کوئی دوسرا ہی آ کر سب سدھار سکتا ہے۔ اک فطری بات ہے۔ جب کوئی رشوت لے کر یہ سوچے کہ فلاں سیاسی سربراہ حکومت میں آئے گا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یا کوئی رشوت دیتے ہوئے سوچے کہ اگر فلاں کی حکومت ہوتی تو آج مجھے یہ نہ کرنا پڑتا۔ کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔
اس تبدیلی کے عمل کو مدتیں لگیں گی۔ جذبہ چاہیے۔ پر وہ خطیب وہ جذبہ بیدار نہیں کر سکتا۔۔ جو خود اگر انتخابات کے عمل کا حصہ ہے تو کہہ رہا ہے کہ مجھے کامیاب کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ گویا دین کا ٹھیکیدار بنا ہے۔۔
باہمن بیٹھا ویکھ ریا واں​
مسجد دے منمبر تے میں​
ترجمہ:​
برہمن بیٹھا دیکھ رہا ہوں​
مسجد کے منمبر پر میں​

پتا نہیں کیا کیا لکھتا جاتا ہوں۔ اوٹ پٹانگ باتیں کیے جا رہا ہوں۔ ذہن میں کیا کہانی ہے۔ آپ لوگوں کو بھی بور کر دیا۔۔ لیکن تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔ جس دن میں نے سوچ لیا کہ ہاں میں بدلوں گا۔ اس دن سے اس ملک میں اک آدمی بدل جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تبدیلی صرف خود کو نیک کرنے سے نہیں آتی۔ برائی پر خاموش رہنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ بقیہ اس ملک کے لوگوں کے لیے پھر دو اشعار پر بات ختم کروں گا۔

اوہی تاب تے اوہی کھنگاں​
موسم کی سوا بدلے نیں​
لکھاں وریاں تو ایہہ ریت ائے​
ہوکے لوگ تباہ بدلے نیں​
ترجمہ:​
وہی غرور وہی تکبر​
موسم کیا خاک بدلے ہیں​
لاکھوں سالوں سے یہ ہے ریت​
ہو کے لوگ تباہ بدلے ہیں​

سونا لکھا اور پھر اس کے اوپر سہاگہ لکھ دیا
یعنی ۔۔۔ سونے پہ سہاگہ
بہت خوب برادر نعمان رفیق مرزا اور بہت خوب نیرنگ برادر
اب میں کیا لکھوں یہی کہ ۔۔۔۔۔

چلو جی پھر جنگل میں چلتے ہیں ۔۔
 
خوداحتسابی کا موقع ملنا اور خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کتنی راتیں گزری ہیں زندگی کی جن میں آپ نے سونے سے قبل محاسبہ کیا ہے۔ کہ آج کیا برا کیا۔ کیا اچھا کیا۔ جھوٹ، کو مذاق اور بےایمانی کو بازار میں رائج قانون کا نام دے کر ہم نے کس کس گرہ سے دامن نہیں چھڑا رکھا۔ جہاں موقع ملا وہاں ہم نے کب کسی سے رعایت برتی۔ اور اب آجاتے ہیں فرعون والی بات کی طرف۔ ۔۔
آپ نے تو سب کو ایک ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔ ہر معاشرے میں اچھی بری امثال موجود ہوتی ہیں۔ یہ تو ہم پہ ہیں کہ ہم کس کی تقلید کرتے ہیں۔
خوداحتسابی کا موقع ملنا اور اس عمل سے گزر جانا بہت مختلف اعمال ہیں۔ میں کسی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ خود احتسابی کو اپنائے۔ بس تلقین کی جا سکتی ہے (وہ بھی ایک خاص حد تک) اور دعا بھی کہ مولیٰ اسے ایسا موقع فراہم فرمائے۔ موقع مل جانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے۔ جب خود احتسابی کا موقع ملے، تو بندہ امتحان میں آتا ہے۔ اس پہ عمل کر گیا، تو بیڑا پار، رہ گیا؛ تو ڈوب گیا۔ فرعون کو بھی ملا؛ آزمائش میں آیا، پر فیل ہو گیا۔ پھر رب کا عذاب آن پہنچا، خدا کو مان گیا، پر تب تو وقت گزر چکا تھا۔۔۔۔آزمائش ہو چکی تھی، نعمت کو رائیگاں کر چکا تھا وہ۔ سو مارا گیا۔آپ نے معاشرے والوں کی برائی کا ذکر کر دیا، لیکن سب لوگ ایسے تھوڑی ہوتے ہیں۔ نیکی میں یقین رکھنے والوں کو، اور اس کی چاہ والوں کو یہ ضرور ملتی ہے۔

فرعون اک تھا۔ اس کے پاس طاقت تھی۔ دولت تھی۔ اقتدار تھا۔۔ اس کے باوجود بھی وہ ہدایت پر نہ آیا۔۔ حالانکہ اللہ کا رسول اس کے ہدایت لے کر آیا۔ تو پھر سوچیئے۔۔۔ اک ایسا آدمی جس کے پاس نہ مال ہے، نہ طاقت کی انتہا، اور نہ اقتدار۔۔۔ وہ کس برتے پر یہ سب کر رہا ہے۔۔ جب کہ اس کے پاس سب سے مقرب نبی کی کتاب موجود ہے۔ "الفرقان"۔۔ جس کو وہ بچپن سے پڑھ رہا ہے۔۔۔ لیکن اک لفظ بھی اس کے دل کے اندر آگ نہیں جلا پا رہا۔۔ کیوں کہ جو تاثیر ان الفاظ سے اس کے وجود میں آنی چاہیے تھی۔۔ اس کا سارا رس مسجد کا خطیب چوس گیا۔ اب اس کے لیے وہ اک کتاب،، قسمیں اٹھانے، اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے رہ گئی ہے۔ وہ بھول گیا کہ اس کے اندر فلسفہ حیات ہے۔
درست، تو کیا ہمیں اسی راہ پہ چلتے رہنا چاہیے؟ ہمارے idols جیسے ہوتے ہیں، ویسا ہی ہم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ خود کو کھنگالنے، پرکھنے کا وقت۔

یقین کے بارےتھوڑی سی وضاحت نچلے پیرا گراف میں بھی ہے۔
اور اب ذرا آجائیں۔۔ ہدایت کی طرف۔۔ کہ جی ہدایت کے موقع ملتے ہیں۔ مغرب نے تحقیق کے علم کی بنیاد رکھی۔۔ شک پر۔۔ شک کرو۔۔ پرکھو۔۔ جانچو۔۔۔ سمجھو۔۔ اور پھر اگر سمجھ میں آئے عمل کرو۔۔ دین نے کہا تجسس نہ کرو۔۔ ہم نے دین کی بات نہ مانی۔۔۔ ہم نے تجسس کیا۔۔ ہم نے شک کیا۔۔۔ اور ہر چیز کی تاویل تلاشنے لگے۔۔ یوں رفتہ رفتہ وہ علم ہم سے کھنچتا چلا گیا۔ شعلہ نوائی رہ گئی۔ عمل کی دولت چھن گئی۔ کیوں کہ علم پر اعتبار نہ رہا تو عمل بھی خاک کی چادر تان کر سو گیا۔۔۔
یہاں تھوڑا سا اختلاف کروں گا۔ دین تحقیق سے نہیں روکتا۔ یہ تو تحقیق کی طرف بلاتا ہے، دیکھنے کی، پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ ہاں، جب پرکھ لو، حق آن پہنچے تو پھر اس سے منہ مت پھیرو۔
انسان اکثر باتیں موازنہ سے سیکھتا ہے۔ اسی لیے ہر چیز کے standards ڈیفائن کرتا ہے۔ جیسے، لمبائی کا standard ڈیفائن ہے۔ تو دین کی بہت سی باتوں کو سمجھنے کے لیے موازنہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں تا حیات سائنس اور تحقیق سے منسلک رہا۔ "اللہ اکبر" کی بہت سی سمجھ اس دن آئی، جب کالج میں زمین کا قطر اور کمیت معلوم کرنا سیکھے۔ تو موازنہ کے لیے کسی standard کی ضرورت ہوتی ہے اور standard کے لیے تحقیق! یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ کچھ لوگوں پر خدا کا انعام ہوتا ہے، وہ یقین کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ان پر خدا اپنے آپ کو اور ہی رستوں سے وا کرتا ہے۔ لیکن ایسے لوگ گنتی والے ہوتے ہیں؛ بہت ہی rare. آج کل میرا پورا وطن "یقین" سے بھرا ہے، سب مسلمان ہیں؛ لیکن تحقیق کوئی نہیں کرتا۔ "اللہ اکبر" پہ یقین ہے، معانی جانتے ہیں؛ لیکن پھر بھی لا علم! آخر کیوں؟ (شاید تحقیق کی کمی؟)
اب آجائیں ملک کے معاملات کی طرف۔۔۔ اک ایسا آدمی جو ہمیشہ اعلی نمبروں سے پاس ہوا۔۔۔ لیکن در بدر ٹھوکریں۔۔۔ داخلے کے لیے۔۔۔ آخر باپ نے سفارش ڈھونڈی اور داخلہ کرا دیا۔۔ اب جو تعلیم کا یہ دور شروع ہوا۔۔ جو شاندار عمارت وجود میں آنی تھی۔۔ اس کی بنیاد میں اک اینٹ سفارش کی لگ گئی۔ اس اینٹ نے اب اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تعلیم کے بعد ملازمت کے حصول کی باری آئی۔ وہ ہزاروں اینٹیں بیکار گئی۔۔ کیوں کہ انہوں نے پہلے مطلوبہ نتائج نہ دیے تھے۔ تو اب کی بار بھی سفارش کی اینٹ اٹھا لی گئی۔ عملی زندگی کے دور کا سنگ بنیاد بھی اس اینٹ کی بدولت رکھ دیا۔ یا پھر رشوت دی۔ جب رشوت دے دی تو سوچا کہ یہ جو روپیہ میں نے دیا ہے۔۔ یہ واپس بھی تو لینا ہے۔ وہی دوڑ شروع ہوگئی۔ آخر اک بڑے مرتبے پر جا پہنچا۔۔۔ اب جن لوگوں نے اس وقت سفارش کی تھی۔ ان کے بچے آنا شروع ہوگئے۔ بقیہ زندگی ان کی سفارش کرتے گزر گئی۔ ریٹائر ہوگیا۔۔ مسجد میں اللہ اللہ کرنے لگا۔۔ نیک ہوگیا۔۔ ایسے میں ہمسائے سے اک بندہ اٹھا اور کہا کہ چلیے قبلہ میرے بیٹے کے لیے کوئی حوالہ فراہم کیجیے۔۔ اب پھر ادھر چل پڑا۔۔۔ تو وہ جو دو سال کی کمائی تھی۔۔ وہ بھی مٹی میں مل گئی۔۔۔
مجھے صرف یہ بتائیں کہ اس پورے عمل کے دوران بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اس کو خود احتسابی کا لفظ کس کس نصاب میں پڑھایا گیا۔ ملک کا فائدہ کیا ہے نقصان کیا۔۔۔ یہ اسے کہاں سکھایا گیا۔ دین کیا ہے دنیا کیا۔۔۔ فانی کیا ہے باقی کیا۔۔ اس کا درس اس کو کس معلم نے دیا۔۔۔
درست! لیکن ایسا نصاب جس میں ان سب باتوں کی تلقین ہو، وہ بھی تو ہمارے ہاں ندارد! :) کہاں نہیں پڑھایا گیا کہ سچ بولو، دھوکہ مت دو، جھوٹ نہ بولو؟ میرا ایک دوست ہے، ایک دفعہ ملا تو بہت پریشان! بڑی مشکل میں تھا۔ گھر پر بجلی کے کنکشن کا دوسرا میٹر لگوانا تھا۔ شاید یہ چیز پاکستان میں غیر قانونی ہوتی ہے۔ لیکن اس کے گھر والے اصرار کر رہے تھے۔ گرمی میں ایک اے-سی سے بات نہ بنتی تھی اور بل بھی دشمنِ جاں تھا۔ واپڈا میں بہت نزدیکی دوست تھے، اچھے عہدوں پر۔ گھر والے اسے کہہ رہے تھے کہ انھیں بولو اور لگوا دو۔ اس خدا کے ولی نے اپنے گھر والوں کو ناراض کر لیا۔ وجہ: آپ لوگوں کی درخواست واپڈا کے دفتر میں لائن میں لگی ہو گی۔ میں اپنے دوستوں کو بول کر اس لائن کے ساتھ tempering نہیں کر سکتا۔ یہ اوروں کی حق تلفی ہو گی۔ میں اس کا یہ رویہ دیکھ کے حیران رہ گیا۔ وہ خود بھی پریشاں رہا، کیوں کہ کوئی اس کی بات سمجھ نہ رہا تھا۔۔۔اور گھر والے بھی درد میں۔ لیکن وہ ان سب لوگوں کا درد بھی جانتا تھا، جو اس کی اقرباء پروری کی بھینٹ چڑھنے والے تھے۔ یہی رب پہ یقین کی نشانی ہے۔ بنا دیکھے یقین! اور جن پر یہ یقین حقیقی معنوں میں وا ہو گیا، وہ ایسے ہی معصوم اور حساس ہو جاتے ہیں۔بیڑا پار ہو جاتا ہے ان کا۔ تو کچھ روز گھر والے نہ بولے اس سے، لیکن رفتہ رفتہ سب ٹھیک ہو گیا۔ ایسے حساس لوگ بھی تو معاشرے میں ہیں نا۔ تو جیسے میں نے کہا، بات تو role model کی ہے، آپ زندگی میں کیا تلاش کرتے ہیں۔ جو ڈھونڈیں گے، وہی ملے گا۔
صراطِ مستقیم پر چلنا کٹھن، اور جو چل پڑا، انھی مشکلات کی وجہ سے وہ باعرفان اور بلند درجہ ٹھہرا۔ تکلیف میں سکوں پا گیا، کانٹے بھی پھول ہو گئے اس کے لیے۔

اک فرد اس طرح نہیں بدلتا جس طرح آپ نے کہہ دیا کہ بدل جائے تو خاندان بدل جائے۔۔ جب یہ ساری چیزیں نصاب کا حصہ ہی نہیں تو پھر کیا آسمان سے فرشتے اتریں گے جو فطرت کو بدل دیں گے۔۔۔ ۔ نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔ تبدیلی اک نسل سے نہیں آتی۔۔۔ اپنی بیویوں کی تربیت کرو۔۔ اولاد کی تربیت کرو۔۔ ان کو اچھا برا بھلا سکھاؤ۔۔ وقتی فائدے پر نیکی کو ذبح کرنے کا ہنر مت سکھاؤ انہیں۔۔ پھر کہیں جا کر اس جوہڑ سے کائی ہٹے گی۔۔۔ یہ دریا جو سست روی میں سوکھ رہا پھر تبدیل ہو کر کسی روشن اور صاف سمندر کا حصہ بنے گا۔۔ اور اک صاف اور اجلی قوم جنم لے گی۔۔۔ ۔
ہم معلومات کے دور میں زندہ ہیں۔ اچھی بری معلومات ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ کامیاب وہی جو اچھی معلومات ڈھونڈے اور انھیں اپنا لے۔ اچھائی کی تلاش کا خیال خدا کا انعام ہے۔وہی ہے جو اس نفسا نفسی کے عالم میں، ہمیں سیدھی راہ پہ چلنے کی جستجو دے۔ اس کے لیے ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ورنہ، آپ نے زمانے کی جو تصویر کھینچی، ہر کوئی اسی پہ چل نکلے اور اچھائی کا تصور ہی ختم ہو جائے۔
اکثر بچوں کا پہلا ہیرو کون ہوتا ہے؟ ان کے ڈیڈی! وہ اپنے والد صاحب کو observe کرتے اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو اس لیے، ہم میں اکثر خصائل وہی ہوتے ہیں، جو ہمارے والدین میں ہوتے ہیں۔ تو کوئی اپنی ماں جی پہ جاتا ہے، اور کوئی بابا پہ۔ تو مجھے بتائیے، کیا ایک گھر کا سربراہ، اپنی بیوی کے ساتھ مل کر ایک خاندان نہیں بدل سکتا؟ آپ نے بھی تو کہا کہ اپنے بیوی بچوں کی تربیت کرو۔۔۔۔تو میرا یہ بھی خیا ل ہے کہ بہت سی باتوں کے لیے بیوی بچوں کو "تربیت" نہیں دینا پڑتی۔ یہ لوگ خود ہی آپ کو observe کر کے کافی کچھ سیکھ لیتے ہیں۔ پہلا قدم ایک اچھا role model بننا ہے۔۔۔۔اور وہ خود احتسابی سے ہی بنا جا سکتا ہے۔ خود احتسابی بندہ کیسے کرے؟ کیسے خود کو پرکھے؟ تو اس کے لیے ملک کا قانون ہے، اپنا ضمیرہے، عقل اور شعور جو رب نے انسان کو دیا، وہ بھی ہے۔ ہزاروں اور طرح کے standards ہیں، جو آپ کو صحیح غلط کا بتا سکتے ہیں۔ بس ارادہ کیجیے، انشاءاللہ رب خود ہماری انگلی تھامے گا۔

پتا نہیں کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ بس اب تھک گیا ہوں۔۔ دل کر رہا ہے اور بھی لکھنے کو۔۔ پر اب سکت نہیں۔۔ :) پر وعدہ کے مطابق الٹا سیدھا جو بن پڑا جواب حاضر ہے۔ :)
اتنی انکساری کا اظہار کر کے شرمندہ سا کر دیتے ہیں آپ۔ آپ کی تحاریر میں ایک انرجی ہوتی ہے، آپ کے اندر اک طوفان سا محسوس ہوتاہے۔ آپ نے اسے vent out کرنے کے لیے جو قلم کا راستہ چن رکھا ہے، یہ مثالی ہے۔ اپنے علم اور تجربے کو اسی طرح قلم کے ذریعہ ہم سے شئیر کرتے رہیے، ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے یہ۔ خدا آپ کو اور آپ کی تحاریر کو ہمیشہ ہمارے لیےنیک تمناؤں کا محرک بنائے رکھے (آمین)۔
 
سونا لکھا اور پھر اس کے اوپر سہاگہ لکھ دیا
یعنی ۔۔۔ سونے پہ سہاگہ
بہت خوب برادر نعمان رفیق مرزا اور بہت خوب نیرنگ برادر
اب میں کیا لکھوں یہی کہ ۔۔۔ ۔۔

چلو جی پھر جنگل میں چلتے ہیں ۔۔
بہت شکریہ پردیسی صاحب۔ کیا آپ حقیقتاؐ پردیسی ہیں؟ :)
میں محفل پہ نیا، بہت سے لوگوں سے تعارف نہیں ہے۔ آپ کے بارے بھی جانکارنی کوئی نہ۔ کچھ بتائیے تو۔
 
اسی مکتب کے معلمین مجھے بھی داخلِ مکتب کرنے کے در پہ ہیں -- جہاں آپ جیسے شاگردِرشید اور ذرے کو آفتاب بنانے والے معلمین ہوں وہاں زانوئے تلمیذ تہہ کرتے ہوئے ہزار ہا بار سوچنا پڑتا ہے :)
اسی طرح کا کچھ لکھنا ہے، تو میرے جیسوں کے لیے ساتھ میں ایک تشریح والا Appendix بھی لگا دیجیے گا۔ :biggrin:
 

غدیر زھرا

لائبریرین
اسی طرح کا کچھ لکھنا ہے، تو میرے جیسوں کے لیے ساتھ میں ایک تشریح والا Appendix بھی لگا دیجیے گا۔ :biggrin:

لیکن مجھے تو خود اپنی باتوں کی تشریح کے لیے بعض اوقات اپنی دوستوں کی مدد لینی پڑتی ہے اور پھر وہ جس طرح تشریح کرتی ہیں میں خود سوچ میں پڑجاتی ہوں کہ ہاں نے میں کچھ ایسی ہی بونگی ماری ہو گی :angel:
 

مہ جبین

محفلین
لیکن مجھے تو خود اپنی باتوں کی تشریح کے لیے بعض اوقات اپنی دوستوں کی مدد لینی پڑتی ہے اور پھر وہ جس طرح تشریح کرتی ہیں میں خود سوچ میں پڑجاتی ہوں کہ ہاں نے میں کچھ ایسی ہی بونگی ماری ہو گی :angel:
ہاہاہاہاہا
غدیر زھرا اتنی ییییییییی لمبی لمبی چھوڑنے کی نہیں ہورہی :laugh:
 
سلام آنی جان۔ دیکھا آپ نے۔ مجھے ان کے مراسلہ میں بس کچھ کچھ الفاظ ہی کی سمجھ آئی۔۔۔۔۔ان کی سمجھ بھی آئی گئی ہو گئی ان الفاظ کی وجہ سے، جو میں نے آج تک نہ سنے نہ پڑھے۔۔۔۔:p
اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان کے مراسلہ کی "بہت اچھی" سمجھ آئی۔ :heehee:
 
لیکن مجھے تو خود اپنی باتوں کی تشریح کے لیے بعض اوقات اپنی دوستوں کی مدد لینی پڑتی ہے اور پھر وہ جس طرح تشریح کرتی ہیں میں خود سوچ میں پڑجاتی ہوں کہ ہاں نے میں کچھ ایسی ہی بونگی ماری ہو گی :angel:
تھوڑی تھوڑی حقیقت بھی ہے اس میں۔ مجھے وہ وقت یاد آ رہا جب کوئی میرے سامنے میرے ہاتھ کا لکھا لے آئے۔ اسے میں ایسے دیکھتا ہوں جیسے پرانے زمانوں کی بڑی ہی مہمل زبان کا ٹیکسٹ میرے سامنے آ گیا ہو۔۔۔۔۔۔کاپی کو کبھی سیدھا کروں گا، الٹا کروں گا، ہر زاویے سے دیکھوں گا، پر سمجھ ہے کہ ندارد! اپنے ہی لکھے کی ڈی-کوڈنگ عذاب ہو جاتی ہے۔:D
 

مہ جبین

محفلین
سلام آنی جان۔ دیکھا آپ نے۔ مجھے ان کے مراسلہ میں بس کچھ کچھ الفاظ ہی کی سمجھ آئی۔۔۔ ۔۔ان کی سمجھ بھی آئی گئی ہو گئی ان الفاظ کی وجہ سے، جو میں نے آج تک نہ سنے نہ پڑھے۔۔۔ ۔:p
اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان کے مراسلہ کی "بہت اچھی" سمجھ آئی۔ :heehee:
وعلیکم السلام نعمان
اب زہرا کو اپنے اس مراسلے کی تشریح بھی اپنی سہیلیوں سے کرانی ہوگی :D
اس کو تو خود بھی اس بونگی کی سمجھ نہیں آئی ہے:p
 
"درستگی" کی بھی "درستی" فرما لیجیے۔۔۔ :p
خدارا اب یہ نہ کہیے گا کہ میں شروع ہی ہوگیا ہوں۔۔۔ :censored:
لیکن بھیا تشفی تو ابھی بھی نہیں ہوئی :confused2: اردو لغت کچھ اور کہہ رہی ہے اور اگر آپ گوگل پہ سرچ کریں تو آپ کو ہزار ہا نتائج مل جائیں گے جہاں درستگی کا لفظ استعمال ہوا ہے -- کتب میں بھی یہ لفظ نظر سے گزرا ہے :confused2:
سر کو آواز تو دی تھی۔۔ اب دیکھو۔۔۔ ویسے نوراللغات میں رات کو دیکھوں گا۔۔۔
فیروز الغات میں "درستی" لکھا ہے
صفہ نمبر 623 پر
 
Top