"تبدیلی" پر کچھ خیالات

سلام قارئین۔ تبدیلی کے موضوع پر میرے کچھ رینڈم خیالات۔ آپ سے استدعا ہے کہ اگر ہو سکے تو بہتری کی راہ سجائیں۔ خدا جانے محفل پر کتنا وقت رہنا ہے، کوشش ہے کہ جب تک رہوں؛ آپ کے پند و نصائح کے جتنے موتی مل سکیں، سمیٹ کر لیے چلوں۔شکریہ۔
’تبدیلی‘ پر کچھ خیالات
’تبدیلی‘ وہ اصطلاح ہے، جو آج کل وطنِ عزیز میں زباں زدِ عام ہے۔ کسی شے کے حالات و واقعات میں فرق کا نام تبدیلی ہے۔ یہ مثبت بھی ہو سکتی ہے، اور منفی بھی۔ حال ہی میں ہماری youth نے پاکستان میں تبدیلی کی ٹھانی، اک ’نئے پاکستان‘ کا خواب دیکھا۔بدقسمتی سے اس نیک خواب کو اور ’تبدیلی‘ کے اس concept کو ایک سیاسی جماعت اور اس کے سربراہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا۔بہت مہینوں ایسا چلتا رہا اور آج جب الیکشن2013 کے نتائج سامنے آ رہے ہیں، تومیرے ہم وطن کہتے ہیں کہ پاکستان ویسا کا ویسا ہی ہے، جاہل، intellectually stagnant ، تبدیلی سے عاری! لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہی گتھم گتھا ہیں۔ تبدیلی والے شرمسار اور باقی ماندہ سرفراز!ملک تقسیم ہو گیا۔Physically نہ سہی، Meta-physically ہی سہی۔ تو آخر خرابی ہوئی کہاں؟ اتنا نادر اور موتی خواب، سچ پرمبنی،جس کی بنیاد نیک ارادوں پر رکھی گئی ہو، کیا اس کی تقدیر میں ٹوٹنا ہی لکھا تھا؟ کیا خدا کے ہم سے کیے سب وعدے جھوٹے ہیں؟ کیا ہر وہ چیز، جس کی بنیاد خلوص دل اور نیک خیالات پر رکھی جائے گی، اس کی آزمائش ضروری ہے؟ کیا اب وطنِ عزیز میں کبھی تبدیلی اور ترقی نہیں آئے گی؟ مستقبل میں کیا ہو گا؟ کیا سب جمود کا شکار ہو جائے گا؟ آخر تبدیلی والے تو شرمسار ہو ہی گئے۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے!
تبدیلی کا تعلق، کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق تو بندے کے اپنے من سے، اس کے دل سے ہوتا ہے۔کایا تو تب پلٹتی ہے نا جی، جب بندے کا دل بدل جائے۔ جب اس میں رب آ سمائے۔نیک خیالات آنے لگیں، اچھائی کی امنگ کروٹیں لینے لگے۔ کرنا نہ سہی، خیال تو آئے نا۔۔۔آخریہی تو رب کے بلاوے کا اشارہ ہے۔ کبھی بھی سیاسی جماعتیں اقوام کی تقادیر نہیں بدلتیں۔ لوگ ہوتے ہیں، جو تاریخ رقم کرتے ہیں۔ دل نرم ہوں، تو ان کی کایا پلٹ جانا آسان؛ دل ہی پتھر ہو جائیں، تو پھر تبدیلی کیسی؟تاریخ کو اٹھا کر دیکھئے، یہ تو لوگوں کے دل تھے جو بدل گئے اور اسی تبدیلی نے ان کے باہر کے حالات بھی بدل ڈالے۔اسلام کا ماخذ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل تھا۔ وہیں سے تبدیلی شروع ہوئی، اور پھر باہر کی طرف پھیلی؛ اور ایسی پھیلی کہ دنیا کا اور دنیا میں رہنے والوں کا نقشہ ہی بدل ڈالا؛ سب حالات بدل کر رکھ دئیے۔ تو کہنے کی بات یہ ہوئی کہ ایک تو تبدیلی اپنے دل کی پاکیزگی کا نام ہے، اس کی کایا پلٹ جانے کا نام ہے۔ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ تبدیلی آنا ایک outward phenomenon ہے، نہ کہ inward ۔ہمیں غلط فہمی یہ ہوئی کہ شاید یہ ایک inward phenomenon ہے، کہ کوئی ایک خاص سیاسی جماعت آئے گی، اور ہمارے دلوں کو بدل دے گی۔ نہ! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ خود کو بدل لیا، تو سمجھئے باہر کی سب دنیا کو بدل لیا۔ کیا سیاسی جماعت اور کیا معاشرہ!
توبندہ پوچھتا ہے کہ اب کیا کرے؟اللہ لوک! سیاسی جماعت کو چھوڑ، اوروں کو برا بھلا مت کہہ، کسی کا تمسخر مت بنا، اپنے من پر توجہ کر۔ رب تو وہاں ہے، تبدیلی وہی کرنے والا ہے اور وہیں سے سب اچھائیوں کی شروعات ہیں۔ توکتنی نعمت ہے ہم پر کہ بابا بلھے شاہ (رحمتہ اللہ علیہ) یہ فارمولابہت خوبصورتی سے بتاگئے۔ کہا کرتے تھے:
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا ۔ کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں​
جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر ۔ کدے من اپنے وچ وڑیا نئیں​
ایویں روز شیطان نال لڑدا ایں۔ کدی نفس اپنے نال لڑیا نئیں​
بلھے شاہ اسمانی اڈدیاں پھڑدا ایں ۔ جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑھیا نئیں​
دل کا کنٹرول ہمارے اور ہمارے رب کے پاس ہے، نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے پاس۔ تو آئیے، irrespective of the political party مل کر، آج ’تبدیلی‘ کے اس خواب کو پورا کرنا شروع کریں، ایک ’نئے پاکستان‘ کی بنیاد رکھیں جو ہمارا ایک بہت معصوم سا، محبت بھرا خواب ہے۔ اقرباءپروری کو چھوڑیں، رشوت ستانی کوdiscourage کریں۔ دوسروں کا تمسخر نہ اڑائیں۔مختصر یہ کہ بھائی بھائی کی عزت اس وجہ سے نہ کرے کہ اس سے خونی رشتہ ہے، بلکہ انصاف اور قابلیت کو معیار بنا کرآگے چلا جائے۔خود کو اور خود کی سوچ کو بدلیں۔دیکھئے، نیک سوچ کا؛ مثبت تبدیلی کا دل میں خیال آنا بھی نعمت ہے۔ تو اس نعمت کو رائیگاں نہ کریں۔ اسے خدا کے فضل میں تبدیل کریں۔ یہ کام ہو گیا، تو ’نیا پاکستان‘ خود بخود معرضِ وجود میں آجائے گا۔ ایک ایسا پاکستان، جہاں محبت کی حکومت ہو گی، نیک تمناﺅں کا راج ہو گا۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ہی نفس کے شر سے محفوظ فرمائے؛ اورہمارے لیے ہماری مشکلات اور آزمائشوں کو آسان فرمائے (آمین)۔

نعمان (میونخ)۔
 
سارے انگریزی الفاظ کو اردو کے قالب میں ڈھالئے زیادہ اچھا لگے گا ۔بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں ۔اردو کے مضمون میں انگریزی الفاظ جان بوجھ کر ڈالنے سے اچھا رہے گا ۔لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔بلکہ صحیح معنوں میں یہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند لگتا ہے ۔
 
سارے انگریزی الفاظ کو اردو کے قالب میں ڈھالئے زیادہ اچھا لگے گا ۔بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں ۔اردو کے مضمون میں انگریزی الفاظ جان بوجھ کر ڈالنے سے اچھا رہے گا ۔لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔
بہت شکریہ علم اللہ صاحب۔ آپ نے بجا فرمایا، یہ بہت سی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی ہے۔ کچھ حاضرات نے پہلے بھی نشاندہی کی ہے۔ انگریزی کے الفاظ مجبوراً ڈالنے پڑتے ہیں، وجہ زبان میں شدید کمزوری ہے۔ میں اسے بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ محفل بہت مدد کر رہی ہے اس سلسلے میں۔ ممنون ہوں کہ آپ نے اس طرف اشارہ کیا۔ :thumbsup:
 

مہ جبین

محفلین
ماشاءاللہ نعمان رفیق مرزا بہت بہترین انداز میں "تبدیلی " کو وضاحت سے بیان کیا ہے اور سچے موتیوں کی بہت خوبصورت مالا بُنی ہے
واقعی تبدیلی تو اپنے اندر سے آتی ہے ، حقیقتاً اصل تبدیلی تو نفس اور شیطان سے مقابلے کے بعد ہی آتی ہے
اللہ تمہاری تحریروں میں مزید نکھار اور روانی عطا فرمائے آمین
 
ماشاءاللہ نعمان رفیق مرزا بہت بہترین انداز میں "تبدیلی " کو وضاحت سے بیان کیا ہے اور سچے موتیوں کی بہت خوبصورت مالا بُنی ہے
واقعی تبدیلی تو اپنے اندر سے آتی ہے ، حقیقتاً اصل تبدیلی تو نفس اور شیطان سے مقابلے کے بعد ہی آتی ہے
اللہ تمہاری تحریروں میں مزید نکھار اور روانی عطا فرمائے آمین
تشکر آنی جان، تشکر۔ آپ نے بجا فرمایا۔ آپ کی دعائیں اور رہنمائی درکار ہے۔
بلیوں کو بھی ٹیگ کر دیتا ہوں۔ ;)
عینی شاہ، @مقدس، عائشہ عزیز، غدیر زھرا ۔
اور صاحبان کو بھی: زبیر مرزا، محسن ، محب علوی ، نایاب، @عسکری، نیرنگ خیال اور باقی دوست بھی۔ :)
 

زبیر مرزا

محفلین
سچ پوچھوتو نعمان میں نے دھاگہ دیکھ تو پہلے لیا تھا تبصرہ اس لیے محفوظ رکھا ہے کہ
سارادھیان ٹی وی کی جانب ہے :) میں تفصیلی تبصرہ کرتا ہوں رات میں ان شاءاللہ
 
سچ پوچھوتو نعمان میں نے دھاگہ دیکھ تو پہلے لیا تھا تبصرہ اس لیے محفوظ رکھا ہے کہ
سارادھیان ٹی وی کی جانب ہے :) میں تفصیلی تبصرہ کرتا ہوں رات میں ان شاءاللہ
شکریہ جناب۔ آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔ آپ وقت لیجیے۔۔رات بہت ہو گئی، میں خود سونے لگا تھا۔ انشاءاللہ صبح ہی آپ سے ملاقات ہو گی۔
شب بخیر اور خدا حافظ۔
 

جہانزیب

محفلین
بہت عمدہ طور پر بیان کیا ہے آپ نے اپنے خیالات کو، ہمیں اچھا بننا ہے تا کہ پاکستان اچھا بن سکے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
ماشاءاللہ نعمان بہت عمدہ تحریراورقابلِ غورنکات پیش کیے ہیں آپ نے- اللہ تعالٰی ہی توفیق عطا فرماتاہے
مثبت تبدیلی کی اور اس کے لیے ذرائع بھی فراہم کرنے والی اس کی ہی ذاتِ اقدس ہے - قلب ، کفییت ،
ماحول ، مزاج اوررویوں کی تبدیلی کے لیے دعا اورکوشش ہونی چاہیے - ہم نے تبدیلی کا نعرہ سنا تو
سب سے پہلے اپنے قلب سے رجوع کرنا ضروری تھا اگروہ تبدیل ہونے کوموم ہونے، دوسرے کے لیے
کچھ کرنے ، ملک کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے اور جی جان سے نبھانے کو تیار ہے تو بات ہے
اللہ تعالٰی ہمیں مثبت سوچ ،تعمیری اوربہترتبدیلی انفرادی اورسماجی سطح پرلانے کی توفیق عنایت فرمائے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
بالکل ٹھیک نعمان بھیا! :thumbsup:
ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور نہ ہی کسی جماعت کے جیتنے یا ہارنے سے دل برداشتہ ہونا چاہیے۔ تبدیلی تو ہم خود لا سکتے ہیں۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حروف چن کر الفاظ کے کیا خوبصورت محل کھڑے کیے ہیں۔ سچی اور کھری بات۔۔۔ کہ اندر کی تبدیلی چاہیے۔۔ مگر وہ کرپشن جو رگ رگ میں رچی ہے۔۔ آپ کو اک بات بتاتا ہوں
پرانے دور میں مغل بادشاہوں کے لیے اک کھانا بنا کرتا تھا۔۔۔ اس کا نام شاید دم پخت تھا۔ یا کچھ اور۔۔ لیکن اس کے نام سے کچھ ایسا خاص لینا دینا نہیں۔ وہ مرغے کو جب انڈے سے نکلتا تو اس کو زعفران، بادام اور پستے کھلائے جاتے۔۔ عرق گلاب میں ڈبو ڈبو کر خوراک دی جاتی۔۔ جب وہ مرغا بڑا ہوتا۔ تو اسکا پیٹ چیرچاول بھر کر ہلکی آنچ پر پکایا جاتا۔ تو عفران اور عرق گلاب کی خوشبو سے وہ چاول مہک اٹھتے اور بادشاہ سلامت اس مرغے کے ذائقہ دار گوشت کے ساتھ تناول فرماتے۔۔
اب آتے ہیں اس بات سے تبدیلی کی طرف۔ بچپن سے اک بچہ کو کرپشن سکھائی جا رہی۔ ماں اسے کہہ رہی کہ ایسا کر لو۔۔ مگر دیکھو تمہارے باپ کو خبر ہوگئی تو بہت پٹو گے۔ باپ گھر پر ہے۔ وہ بچے کو کہہ رہا ہے کہ جاؤ۔۔۔ باہر جو بھی ہے اسے کہو کہ ابا گھر پر نہیں۔ اب وہ بچہ بڑا ہوا۔۔ اس نے دیکھا کہ تھوڑا سا جھوٹ بول کر بڑی مصیبتوں سے بچا جا سکتا ہے۔ استاد کو کہا سر کل پیٹ میں درد تھا۔ کام نہ کرسکا۔۔ معافی مل گئی۔۔ یہ کرپشن، جھوٹ اس کی رگوں میں رچتا بستا چلا گیا۔ بڑا ہوا یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کرپشن۔۔۔ پھر جب ملازمت کے حصول کا وقت آیا تو کرپشن۔۔ اس نہج تک آتے آتے کرپشن، رشوت، جھوٹ اور دیگر بیماریاں اس طرح رگ و پے میں رچ بس گئیں، کہ ذات کا حصہ بن گئی۔ گناہ کا احساس ختم ہوگیا۔ برائی کو حق سمجھنا شروع ہوگیا۔
اب ایسے میں تبدیلی کی بات جب ہوگی تو اس سے مراد دوسروں کی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ خود احتسابی کے عمل سے تو کبھی گزرا نہیں۔ ایمان کیا ہے۔ دین کیا ہے۔ شریعت کیا ہے۔ ان تمام الفاظ کے لغوی معنوں سے بھی ناآشنا۔۔ کجا یہ کہ ان سے وابستہ رمزوں کو سمجھ کر تبدیلی عمل میں لائی جائے۔
ان عوامل کی وجہ سے یہ سمجھ لیا جانا کہ ہاں تبدیلی کا عمل دوسروں سے شروع ہوتا ہے۔ اور کوئی دوسرا ہی آ کر سب سدھار سکتا ہے۔ اک فطری بات ہے۔ جب کوئی رشوت لے کر یہ سوچے کہ فلاں سیاسی سربراہ حکومت میں آئے گا تو یہ سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا۔ یا کوئی رشوت دیتے ہوئے سوچے کہ اگر فلاں کی حکومت ہوتی تو آج مجھے یہ نہ کرنا پڑتا۔ کسی دیوانے کا خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔
اس تبدیلی کے عمل کو مدتیں لگیں گی۔ جذبہ چاہیے۔ پر وہ خطیب وہ جذبہ بیدار نہیں کر سکتا۔۔ جو خود اگر انتخابات کے عمل کا حصہ ہے تو کہہ رہا ہے کہ مجھے کامیاب کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔ گویا دین کا ٹھیکیدار بنا ہے۔۔
باہمن بیٹھا ویکھ ریا واں​
مسجد دے منمبر تے میں​
ترجمہ:​
برہمن بیٹھا دیکھ رہا ہوں​
مسجد کے منمبر پر میں​

پتا نہیں کیا کیا لکھتا جاتا ہوں۔ اوٹ پٹانگ باتیں کیے جا رہا ہوں۔ ذہن میں کیا کہانی ہے۔ آپ لوگوں کو بھی بور کر دیا۔۔ لیکن تبدیلی کا عمل شروع ہوگا۔ جس دن میں نے سوچ لیا کہ ہاں میں بدلوں گا۔ اس دن سے اس ملک میں اک آدمی بدل جائے گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ تبدیلی صرف خود کو نیک کرنے سے نہیں آتی۔ برائی پر خاموش رہنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ بقیہ اس ملک کے لوگوں کے لیے پھر دو اشعار پر بات ختم کروں گا۔

اوہی تاب تے اوہی کھنگاں​
موسم کی سوا بدلے نیں​
لکھاں وریاں تو ایہہ ریت ائے​
ہوکے لوگ تباہ بدلے نیں​
ترجمہ:​
وہی غرور وہی تکبر​
موسم کیا خاک بدلے ہیں​
لاکھوں سالوں سے یہ ہے ریت​
ہو کے لوگ تباہ بدلے ہیں​
 

غدیر زھرا

لائبریرین
بہت عمدہ تحریر بھیا :) یونہی اچھا اچھا لکھتے رہیئے :)

جس دن ہم نے تبدیلی کا عمل اپنی ذات سے شروع کر دیا وہی دن انقلاب کا دن ہو گا ۔۔ ہم دوسروں کی غلطیوں کو گرفت میں لینا تو خوب جانتے ہیں جب کہ اپنے اعمال اور نیتوں کا مراقبہ نہیں کرتے ۔۔ خود گرفتگی ہی انقلاب لاتی ہے ۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شکریہ علم اللہ صاحب۔ آپ نے بجا فرمایا، یہ بہت سی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی ہے۔ کچھ حاضرات نے پہلے بھی نشاندہی کی ہے۔ انگریزی کے الفاظ مجبوراً ڈالنے پڑتے ہیں، وجہ زبان میں شدید کمزوری ہے۔ میں اسے بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ محفل بہت مدد کر رہی ہے اس سلسلے میں۔ ممنون ہوں کہ آپ نے اس طرف اشارہ کیا۔ :thumbsup:
اگر آپ جیسے لوگ بھی الفاظ کی قلت کا شکار ہیں۔ تو پھر ہم جیسوں کا اپنے لیے قلت کی بجائے قحط کا لفظ استعمال کرنا پڑے گا۔ :)
 
ماشاءاللہ نعمان بہت عمدہ تحریراورقابلِ غورنکات پیش کیے ہیں آپ نے- اللہ تعالٰی ہی توفیق عطا فرماتاہے
مثبت تبدیلی کی اور اس کے لیے ذرائع بھی فراہم کرنے والی اس کی ہی ذاتِ اقدس ہے - قلب ، کفییت ،
ماحول ، مزاج اوررویوں کی تبدیلی کے لیے دعا اورکوشش ہونی چاہیے - ہم نے تبدیلی کا نعرہ سنا تو
سب سے پہلے اپنے قلب سے رجوع کرنا ضروری تھا اگروہ تبدیل ہونے کوموم ہونے، دوسرے کے لیے
کچھ کرنے ، ملک کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے اور جی جان سے نبھانے کو تیار ہے تو بات ہے
اللہ تعالٰی ہمیں مثبت سوچ ،تعمیری اوربہترتبدیلی انفرادی اورسماجی سطح پرلانے کی توفیق عنایت فرمائے
آمین۔
خوب کہا آپ نے۔ :thumbsup:
 
بالکل ٹھیک نعمان بھیا! :thumbsup:
ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور نہ ہی کسی جماعت کے جیتنے یا ہارنے سے دل برداشتہ ہونا چاہیے۔ تبدیلی تو ہم خود لا سکتے ہیں۔ :)
انشاءاللہ، تبدیلی تو آئے گی۔ بدلے گا ہمارا دل بھی، اور ہمارا پاکستان بھی۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
بہت عمدہ تحریر بھیا :) یونہی اچھا اچھا لکھتے رہیئے :)

جس دن ہم نے تبدیلی کا عمل اپنی ذات سے شروع کر دیا وہی دن انقلاب کا دن ہو گا -- ہم دوسروں کی غلطیوں کو گرفت میں لینا تو خوب جانتے ہیں جب کہ اپنے اعمال اور نیتوں کا مراقبہ نہیں کرتے -- خود گرفتگی ہی انقلاب لاتی ہے --
آپ نے مجھے سچ بتایا تھا کہ آپ نے ابھی ابھی B.Sc کے امتحانات دیئے ہیں؟ آپ کی تحریروں میں ایسی maturity ہوتی ہے، کہ مجھے اکثر آپ کی بات پر شک گزرتا ہے۔ o_O
:)
 
Top