فی البدیہہ غزل. از قلم رشک براٸے فیس بک
جس کے تھے منتظر سحر نہ ہوئی
شب سے اپنی گذر بسر نہ ہوئی
منزلوں کی طرف سفر نہ ہوئی
وہ ڈگر کیا جو رہگزر نہ ہوئی
کوئی رفعت ہنوز سر نہ ہوئی
زیر سے خلق جو زبر نہ ہوئی
سب ہی گا گی کا گانا گاتے ہیں
آج تک بات آج پر نہ ہوئی
اس کے گھر کے طواف کر کر کے
اُس کی کچھ بھی تمہیں خبر نہ ہوئی
اے خضر اتنی زندگی کا کیا
کیا مزہ موت منتظر نہ ہوئی
ہاں ہمیں کچھ نہیں ہے مختاری
داستاں پھر بھی مختصر نہ ہوئی
نہ میں سمجھا نہ وہ ہی سمجھے ہیں
گرچہ کوئی اگر مگر نہ ہوئی
لوگ سمجھے ہیں مہ جبیں اُن کو
چاندنی ہے کوئی قمر نہ ہوئی
جگ میں جگمگ جگہ جسے دے رشک
جانِ من جان کی جگر نہ ہوئی
رشک
 
Top