تابش دہلوی کے چند اشعار

نوید صادق

محفلین
ربط کیاجسم وجاں سے اٹھتاہے
پردہ اک درمیاں سے اٹھتا ہے

تو ہی رہتا ہے دیر تک موجود
بزم میں تو جہاں سے اٹھتا ہے
٭
اک ہیولا ہے گھر خرابی کا
ورنہ کیاخاک گھرمیں رکھا ہے

رات دن دھوپ چھاؤں کا عالم
کیا تماشا نظر میں رکھا ہے
٭
اپنی شادابئ غم کامجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
٭
محرومیوں میں خوب پناہیں تلاش کیں
میں تھک گیا جہاں اسے منزل کہا گیا
٭
گزرا اسی پہ سہل یہ طوفانِ رنگ و بو
جو موسم بہار میں دیوانہ بن گیا
٭
ہم تو ذریعہ جانتے ہیں مقصد کو حصولِ مقصد کا
اہل جنوں کے مسلک میں تو منزل بھی اک رستہ ہے
٭
عشق بھی تابش نہیں وجہ نشاط
اب یہ رسمِ درد بھی دل سے اٹھی
٭
یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے
سکوں کی ایک نظر، درد کے بہت پہلو
٭
آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں تیرے طالبِ دیدار کہاں تک
پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابش
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک
٭
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ نوید۔۔ کیا اشعار ہیں
اپنی شادابئ غم کامجھے اندازہ ہے
روح کا زخم پرانا ہے مگر تازہ ہے
 
Top