بے وزن شاعری ۳

عبدالمغیث

محفلین
اک روز اک مریض نے طبیب سے کہا
دل میں ہے درد میرے دے مجھ کو کچھ دوا
دل کا کِیا طبیب نے مکمل معائینہ
بے عیب تھا وہ دل جیسے کہ آئینہ
بتایا طبیب نے نہیں دل میں کچھ خرابی
ہاں دھڑکنوں میں اسکی ہے کچھ اضطرابی
پوچھا طبیب نے کہ کیا ہے درد کا بیاں
علامت تیرے مرض کی پوشیدہ ہے کہاں
بتایا مریض نے کہ یہ مرض ہے عجیب
میں دُور ہوں اُسی سے جو ہے مرے قریب
حاصل ہے مجھ کو دولت دنیا میں ہر طرح کی
حاصل ہے مجھ کو طاقت شاہوں کو جس طرح کی
دل کو مرے نہ حاصل پھر بھی کہیں سکوں ہے
غائب قرار دل سے کہ جیسے کوئی فسوں ہے
رکھتا ہوں ماتھا اپنا سجدے میں جب زمیں پر
قطرے ندامتوں کے ہیں آتے مری جبیں پر
کیسا یہ سر جھکانا رب کے حضور میں
گزرے ہیں رات دن جب فسق و فجور میں
زباں پر ہے حمد رب کی میری سجی ہوئی
ہے دل میں جبکہ میرے دنیا بسی ہوئی
زباں پر مری ہے جاری کہ رب مرا عالی ہے
محبت سے اُس کی لیکن دل مرا خالی ہے
اک دن غلام نے مرے مجھ سے یوں کہا
آقا مرے مجھے تُو اک بات تو بتا
گر میں تری اطاعت یکسر ہی چھوڑ دوں
تیرے ہر حکم کو میں اکثر ہی توڑ دوں
رشتہ ترا مرا یہ آقا غلام کا
رہ جائے گا یہ کیا کسی بھی کام کا
میں نے کہا پہچان تری میرا غلام ہے
اسی لیے تو حاصل تجھے میرا انعام ہے
جس دن پہچان تُو نے اپنی یہ دی مٹا
تم پر عنایتیں یہ میں لوں گا سب ہٹا
نوکر اگر نہ آقا کا فرماں بردار ہو
لازم ہے آقا نوکر سے دستبردار ہو
آقا اُس غلام سے رشتہ ہی توڑ لے
پکارے اگر غلام تو منہ ہی موڑ لے
یہ سُن کر غلام بولا تم بھی تو ہو غلام
رب ہے تمہارا آقا جو چلاتا ہے سارے کام
حکموں کو سارے تم نے آقا کے اپنے توڑا
آقا نے پھر بھی تم سے منہ نہیں ہے موڑا
آقا نے تم پہ کی ہیں صد نعمتیں نچھاور
پھر بھی نہیں ہو تم آقا کے اپنے یاور
ہے عمر تمہاری گزری متاع کے غرور میں
گنوا دی ہے زندگی یہ سود و سرور میں
اک دن تم بھی اپنے آقا سے جا ملو گے
کیسے گزاری زیست آقا سے کیا کہو گے
نوکر کی بات سن کر میرے دل نے دی گواہی
مری راہِ زندگی کی ہے منزل فقط تباہی
جس رب نے زندگی بھر کیے ہیں مجھ پہ احساں
بھلائے ہیں زندگی بھر میں نے اُسی کر فرماں
جتنی بھی کی عبادت اُس میں نہ تھا خلوص
نفسانیت کا میرے تھا دل میں کھڑا جلوس
خالق وہ میرا اللہ وہ پرور دگار میرا
محبت وہ کرنے والا وہ پالنہار میرا
محبت نہ میں نے اُس کی دل میں کبھی بسائی
دنیا کے عشق نے تھی چھینی مری بینائی
میں نے کہا غلام سے جا تُو آزاد ہے
ترے دل میں تیرا آقا اللہ آباد ہے
قابل نہیں میں تیرے تُو اللہ کا ہے غلام
بس جاتے جاتے میرا کر دے تُو ایک کام
غریبوں میں بانٹ دے تُو دولت یہ میری ساری
نہیں رب سے اب مجھے ہے چیز کوئی پیاری
اُس دن سے ڈھونڈتا ہوں میں رب جو نُور ہے
شہ رگ سے ہے قریب مگر دل سے دُور ہے
اے حکیم سنبھالوں کیسے میں دل کے اضطرار کو
مناؤں میں کیسے اپنے اُس روٹھے یار کو
یہ سُن کر حکیم نے یہ مریض سے کہا
تری جستجو ہے سچی ملے گی تجھے شفا
دوا نہیں ہے مگر تری کسی دوا خانے میں
شفا ملے گی تجھے عشق کے میخانے میں
کرنا ہے اب سفر تجھے محبت کے دیس میں
جانا ہے تجھ کو واں مجنوں کے بھیس میں
لباسِ شریعت کر لے تُو اپنے زیبِ تن
عشقِ محمدی کو بنا لے تُو اپنا من
منزل تری وہی ہو اصحابِ صُفحا والی
چل نقشِ پا پہ اُس کے کملی تھی جس کی کالی
منزل کو پا لے تُو مٹا کے اپنی ہستی
عشق و سرور کی تُو دل میں بسا لے بستی
ڈوب کر تو من میں اپنے آسماں کو ڈھونڈ لے
حبیب کے خلیل کے تو آستاں کو ڈھونڈ لے
بہہ کر اپنے شوق میں تو خود نہاں ہو جا
پا کے اپنے عشق کو تو جاوداں ہو جا
سُن کر مریض یہ سب پھر چل دیا کہیں پر
پایا نہیں کسی نے پھر اُس کا نشاں زمیں پر
شاید بلاوا اُس کا تھا آ گیا وہاں سے
پیتے ہیں جامِ کوثر عاشق سبھی جہاں سے
عبدالمغیث​
 

عبدالمغیث

محفلین
عروض کی شد بد حاصل کرنے میں کیا اعتراض ہے بھائی؟

اُستادِ محترم
کوئی اعتراض نہیں بشرطیکہ اس علم کے حامل اسے مجھ جیسے کم عقل لوگوں تک پہنچانے کا کوئی طریقہ دریافت کر سکیں۔ میں نے اپنی کج عقلی کے باوجود اس کی شد بد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فورم سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ فورم پر بتائی گئی کتب کا مطالعہ کیا۔ کچھ بڑوں سے بھی مشورے لیے۔ یُوٹیوب سے بھی مدد حاصل کی۔ مگر درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ جب طرح طرح کی دوائیں بدلنے سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو سوچا کہ کیوں نہ مرض ہی بدل لیا جائے۔ لہٰذا بے وزن شاعری کا مرض اختیار کر لیا۔
 
آخری تدوین:
عروض کی شد بد حاصل کرنے میں کیا اعتراض ہے بھائی؟
میں بھی عروض سیکھنے کے بارے میں سوچ رہا تھا مگر مجھے یہ نہیں پتا کہ کونسی چیزیں یاد کرنے والی ہیں اور کونسی صرف دیکھنے والی ہیں۔
اگر آپ یہ بات واضح کر دیں تو نوازش ہوگی۔
 
دل کو مرے نہ حاصل پھر بھی کہیں سکوں ہے
غائب قرار دل سے کہ جیسے کوئی فسوں ہے

رکھتا ہوں ماتھا اپنا سجدے میں جب زمیں پر
قطرے ندامتوں کے ہیں آتے مری جبیں پر

حکموں کو سارے تم نے آقا کے اپنے توڑا
آقا نے پھر بھی تم سے منہ نہیں ہے موڑا

آقا نے تم پہ کی ہیں صد نعمتیں نچھاور
پھر بھی نہیں ہو تم آقا کے اپنے یاور

منزل تری وہی ہو اصحابِ صُفحا والی
چل نقشِ پا پہ اُس کے کملی تھی جس کی کالی

سُن کر مریض یہ سب پھر چل دیا کہیں پر
پایا نہیں کسی نے پھر اُس کا نشاں زمیں پر

شاید بلاوا اُس کا تھا آ گیا وہاں سے
پیتے ہیں جامِ کوثر عاشق سبھی جہاں سے

آخری شعر کے دونوں مصرعے اور باقی ہر شعر کا پہلا مصرع اس وزن کے مطابق درست ہے:
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
 
Top