بے جان اشیاء بھی احساسات رکھتی ہیں!

باسل احمد

محفلین
اگر کوئی آپ سے کہے کہ بے جان اشیاء بھی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر لیتی ہیں تو یقینی طور پر آپ اس فرد کی ذہنی صحت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہارکریں گے، مگر ایک جاپانی محقق نے ثابت کردیا ہے کہ ڈانٹ ڈپٹ کے علاوہ بے جان چیزوں پر ان کی تعریف کرنے کا عمل بھی اثرانداز ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مسارو ایموٹو محقق اور غیرطبی طریقوں سے علاج کرنے والے ماہر ہیں۔ انھوں نے مادّی چیزوں جیسے پانی اور چاول پر انسان کی مثبت اور منفی سوچ کے اثرات پر تحقیق کی ہے۔ ڈاکٹر ایموٹو 2004ء میں اس وقت عالمی شہرت اختیار کرگئے تھے جب ان پر What the Bleep Do We Know نامی دستاویزی فلم بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں انھوں نے اس بات کا عملی مظاہرہ کیا تھا کہ انسان کی مثبت اور منفی سوچ آبی مالیکیول کی ساخت پر نمایاں طور پر اثرانداز ہوتی ہے۔
ان کی دریافت اس تناظر میں بہت اہم تھی کہ انسانی جسم کا تقریباً 70 فی صد پانی پر مشتمل ہے۔ اب ایموٹو نے یہی تجربہ بھنے ہوئے چاول کے دانوں پر دہرایا ہے۔ انھوں نے دو مرتبانوں کو آدھا آدھا چاول سے بھرا۔ ایک مرتبان پر ’’thank you‘‘ اور دوسرے پر ’’you fool ‘‘ کا لیبل چسپاں کردیا۔ ایموٹو نے دونوں مرتبان اسکول میں رکھے اور طلبا کو ہدایت کی کہ وہ آتے جاتے بلند آواز سے مرتبانوں پر درج فقرے پڑھتے رہیں۔ ایک ماہ کے بعد ایموٹو نے دیکھا کہ جس مرتبان پر thank you درج تھا اس میں موجود چاول کے دانے سلامت رہے جب کہ دوسرے مرتبان کے چاول ٹوٹ گئے۔​
پانی پر کیے گئے تجربے کے لیے بھی ایموٹو نے کچھ ایسا ہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ تجربے کے بعد جب پانی کے منجمد مالیکیول کی ساخت کا مشاہدہ کیا گیا تو حیران کن تصویر سامنے آئی تھی۔ جس نمونے کا شکریہ ادا کیا جاتا رہا تھا، اس کے مالیکیول کی تصویر دل کش ڈیزائن کی حامل تھی جب کہ دوسرے مالیکیول کی ساخت بگڑ چکی تھی۔
ایموٹوکے اس تجربے پر تنقید بھی کی گئی تھی اور مالیکیولوں کی تصاویر کے حقیقی ہونے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر ایموٹو کا کہنا تھا،’’ ہم نے جرمن زبان میں بھی یہ تجربہ دہرایا تھا، اور اس کے وہی نتائج برآمد ہوئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جب بھی منفی زبان استعمال کی جاتی ہے تو پانی کی قلمی ساخت ٹوٹ جاتی ہے۔ جب کہ مثبت زبان کا استعمال پانی کی قلمی ساخت کو مزید مضبوط کردیتا ہے۔‘‘
ایک اور تجربے میں ایموٹو نے بھنے ہوئے چاولوں کے تین مرتبان لیے تھے۔ ایک پر ’’thank you‘‘، دوسرے پر ’’you’re an idiot‘‘ درج تھا، جب کہ تیسرے مرتبان کو نظرانداز کردیا گیا تھا۔ ایک ماہ کے بعد جب مرتبانوں کو کھولا گیا تو پہلے مرتبان کے چاولوں سے خوشبو آرہی تھی۔ جن چاولوں کی ’ ہتک ‘ کی گئی تھی ان کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا، اور نظرانداز کیے گے چاول ٹوٹنا شرو ع ہوگئے تھے۔
 
میرے ایک دوست ہیں جو دینی رجحان رکھتے ہیں انکی کوئی چیز خراب ہوجائے مثلاً موٹر سائیکل وغیرہ تو یہ نہیں کہتے کہ خراب ہوگئی ہے بلکہ کہتے ہیں موٹر سائیکل ناراض ہو گئی ہے۔ :)
میں نے کبھی ان سے اسکی وجہ نہیں پوچھی لیکن اب باسل احمد بھائی کا مراسلہ پڑھ کر وجہ پوچھنے کو جی چاہ رہا ہے۔
 
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا ۔۔۔

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
 
یہ تجربہ تو بظاہر بے جان اشیاء پر کیا گیا تھا لیکن ہم تو دن رات مسلسل جاندار اشیاء (بشمول اپنے آپ کے بھی) کو بھی اسی طرح اپنی نفرت اورمشقِ ستم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔۔۔انکا کیا حال ہوتا ہوگا
 
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا ۔۔۔

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا
اوئے ہوئے اوئے ہوئے :)
 
پیڑوں پودوں کے بارے میں تو سنا تھا۔
آج سے اپنی بائیک کی پٹرول کی ٹنکی سے اظہارِ عشق کرنا شروع کرتا ہوں۔ پھر پتا چلے گا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے۔;)
 
پیڑوں پودوں کے بارے میں تو سنا تھا۔
آج سے اپنی بائیک کی پٹرول کی ٹنکی سے اظہارِ عشق کرنا شروع کرتا ہوں۔ پھر پتا چلے گا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے۔;)
تو پھر آپ ابھی سے بے وفائی پر مبنی اشعار یاد کرنا شروع کر دیجئے ::p
 

فاتح

لائبریرین
اس تجربے کو سائنسی طور پرمسترد کیے جانے میں "کوئی عناں گیر بھی تھا" ؟ :)
What the Bleep ;)
اس نام کی ڈاکومینٹری کی بابت کم از کم وکی پیڈیا پر ہی اکیڈمک ری ایکشن کا حصہ ضرور پڑھ لیں۔۔۔ جس کا آغاز اس سطر سے ہوتا ہے:
جن سائنس دانوں نے واٹ دا بلیپ ڈو وی نو (نامی ڈاکومینٹری) کا جائزہ لیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس فلم میں جو مخصوص دعوے کیے گئے ہیں وہ سوڈو سائنس ہیں۔
یاد رہے کہ سوڈو سائنس ایسی ڈرامے بازی کو کہا جاتا ہے جس میں کسی فراڈ کو سائنسی شکل دے کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہو۔
 
آخری تدوین:
پیڑوں پودوں کے بارے میں تو سنا تھا۔
آج سے اپنی بائیک کی پٹرول کی ٹنکی سے اظہارِ عشق کرنا شروع کرتا ہوں۔ پھر پتا چلے گا کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے۔;)
عشق ایک آگ ہے۔۔۔ذرا دھیان سے پٹرول کی ٹنکی ہے بھئی۔
 
یہ تجربہ تو بظاہر بے جان اشیاء پر کیا گیا تھا لیکن ہم تو دن رات مسلسل جاندار اشیاء (بشمول اپنے آپ کے بھی) کو بھی اسی طرح اپنی نفرت اورمشقِ ستم کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔۔۔ انکا کیا حال ہوتا ہوگا
دراصل پانی پر تجربہ کرنے کا مقصد یہی ثابت کرنا تھا کہ انسانی جسم کا 70 فیصد پانی پر ہی مشتمل ہے اور یہی چیز انسان پر بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر اسے منفی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا رہے تو وہ بھی شکست تو ریخت کا حقیقی معنوں میں شکار ہو تا ہے۔
 
آخری تدوین:
What the Bleep ;)
اس نام کی ڈاکومینٹری کی بابت کم از کم وکی پیڈیا پر ہی اکیڈمک ری ایکشن کا حصہ ضرور پڑھ لیں۔۔۔ جس کا آغاز اس سطر سے ہوتا ہے:

یاد رہے کہ سوڈو سائنس ایسی ڈرامے بازی کو کہا جاتا ہے جس میں کسی فراڈ کو سائنسی شکل دے کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہو۔
میرا خیال ہے شروع میں اس وقت کی انسانی سوچ یا اس کے فطری رویے اور پیٹرن سے ہٹ کر کوئی بھی سائنسی ایجاد، اختراع، دعویٰ یا سائنسی تھیوری سوڈو ہی کہلاتی رہی ہے۔ چاہے وہ زمین کے گول ہونے کی بات ہو، نظامِ شمسی کا قصہ ہو، کششِ ثقل اور نیوٹن کا پاگل پن ہو یا اس جیسی سینکڑوں مثالیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
What the Bleep ;)
اس نام کی ڈاکومینٹری کی بابت کم از کم وکی پیڈیا پر ہی اکیڈمک ری ایکشن کا حصہ ضرور پڑھ لیں۔۔۔ جس کا آغاز اس سطر سے ہوتا ہے:

یاد رہے کہ سوڈو سائنس ایسی ڈرامے بازی کو کہا جاتا ہے جس میں کسی فراڈ کو سائنسی شکل دے کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا ہو۔
یعنی "سئینس دان آغا وقار" جاپان میں بھی ملتے ہیں۔ معلوماتی
 

فاتح

لائبریرین
میرا خیال ہے شروع میں اس وقت کی انسانی سوچ یا اس کے فطری رویے اور پیٹرن سے ہٹ کر کوئی بھی سائنسی ایجاد، اختراع، دعویٰ یا سائنسی تھیوری سوڈو ہی کہلاتی رہی ہے۔ چاہے وہ زمین کے گول ہونے کی بات ہو، نظامِ شمسی کا قصہ ہو، کششِ ثقل اور نیوٹن کا پاگل پن ہو یا اس جیسی سینکڑوں مثالیں۔
نہیں
آپ کا خیال درست نہیں
 
Top