بے بسی

عزیر اسرائیل

پنکی اور منکی کی طرح مسکان کی پیدائش پرپھر گھر میں طوفان کھڑا ہوا، سلمہ کو اس بات کا اندیشہ تھا۔ جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے اس کے چہرے کی رنگت بدل رہی تھی۔اسے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں پھرلڑکی کی ولادت نہ ہو۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔لیکن اس میں اس بے چاری سلمہ کا کیا قصور۔ لڑکی یا لڑکے کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں کہاں تھا۔ مگر دین محمد کو کون سمجھا ئے ۔ جب بھی اس کے یہاں لڑکی ہوتی تو وہ سارا غصہ سلمہ پر اتارتا۔ اسے لگتا تھا کہ اس میں ساری خطا سلمہ کی ہی ہے ۔ کچھ دنوں کے ہنگامے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ۔ جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دین محمد کو اپنی بیوی سے بہت پیار تھا۔ وہ اس کو اپنے گھر بڑے ارمانوں سے لایا تھا۔ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود اب بھی وہ جوان لگتی تھی۔ غریبی کی وجہ سے اچھے کھانے اور کپڑے کے بارے میں تو سوچنا ہی گناہ تھا۔ دین محمد کی آمدنی کا واحد ذریعہ ایک بھینس تھی جو اس کا باپ ورثہ میں چھوڑ گیا تھا۔ دودھ میں پانی ملانے کے بعد بھی کل ملاکر چار کلو دودھ ہوتے تھے ۔ سارا دودھ وہ لے جاکر گاوں کے باہر ہوٹل پر دے آتا تھا۔ ادھر کئی دنوں سے بھینس نے بھی دودھ دینا کم کردیا تھا۔ شاید وہ اب بوڑھی ہوگئی تھی۔ جب وہ مرجائے گی تو کیا ہوگا؟

”دوسری لے لیں گے ،“ اس نے سوچا

اس نے اپنے آپ کو تسلی دینی چاہی ۔ مگر پھراس نے سوچا کہ اس کے لئے بھی تو پیسے چاہئے ۔ اور اس کے پاس دودھ بیچنے کے بعد جو پیسے آتے ہیں وہ دال چاول ہی میں ختم ہوجاتے ہیں۔ پچھلی بار اس نے گوشت کب کھایا تھا۔ اس نے ذہن پر زور ڈالا ، اسے یاد آیا پچھلے برسات میں جب شبراتی کی بکری کو کالرا ہوگیا تھا اور وہ مرنے لگی تھی تو اس نے اسے کاٹ کر اس کا گوشت اونے پونے دام پر بیچ دیا تھا۔

شبراتی دین محمد کے پاس بھی آیا تھا :

“ دین محمد ، اچھا موقع ہے ، گھر کی پالتو بکری تھی، تھوڑی بیمار ہوئی تو کیا ہوا ، اس سے گوشت پر کیا فرق پڑتا ہے ۔ تھوڑا سا گوشت تم بھی لے لو۔“

دین محمد نے اپنا عذر بیان کیا تو شبراتی نے اس سے کہا کہ پیسے جب ہونگے دے دینا۔ اسے بھی گوشت بیچنے کی جلدی تھی۔

ادھار پر گوشت مل رہا تھا ، اس وجہ سے اس نے بھی ایک کلو لے لیا تھا۔ خوب جی بھر کر گوشت کھایا تھا۔

گوشت کی یاد آتے ہی اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔ کیا مزے دار گوشت تھا۔

اس نے سوچا کہ اگر اس کی بھینس بھی مرنے لگی تو اس کو کاٹ کر شبراتی کی طرح اس کا گوشت بھی گاوں میں بیچ دے گا۔ پھر اس کو خود اپنے اوپر ہنسی آئی۔ کیا بھلا کوئی بھینس کا گوشت خریدے گا؟ شبراتی کی بکری کی بات الگ ہے ۔ کہاں بکری اور کہاں بھینس ۔ اس نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا دیا۔

تو کیا اسے وہ اسی طرح مرنے دے گا ؟

بھینس کی یاد آتے ہی وہ دوڑ کر بھینس کے پاس گیا۔ وہ صحیح صلامت تھی۔ وہ دیر تک اسے سہلاتے رہا۔ بھینس بھی دین محمد کا ہاتھ چاٹنے لگی۔

پھر ایک دن اس کی بھینس نے دودھ دینا بند کردیا ۔ بیماری کی وجہ سے اس نے جگالی کرنا بھی چھوڑدیا۔ لوگوں نے بتایا کہ اوپری اثر ہے ۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ دین محمد نے مولویوں سے منت سماجت کرکے تعویزیں بنوا بنوا کر اسے پہنایا، پانی میں گھول گھول کر پلایا۔ سارے ٹوٹکے کرکے دیکھ لئے مگر وہ صحیح نہیں ہوئی۔ آس پاس کے سارے ویدوں اور حکیموں کوبھی دکھا دیا مگر کوئی بھی انہونی کو ٹال نہیں سکا۔ شبراتی کی طرح وہ اپنی بھینس کو ذبح بھی نہیں کرسکا کہ اس کے گوشت سے کچھ روپئے نکل آئیں۔ ایک مرتبہ خیال بھی آیا مگرچاہ کر بھی اس کا ہاتھ نہیں اٹھ سکا۔

دین محمد اپنی بھینس کو مرگھٹ پر ڈال کر جب گھر آیا تو بخار سے اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ اس کو آنے والے دنوں کی فکر ستائے جا رہی تھی، اب کیا ہوگا۔ گاوں میں کمائی کا کوئی اور ذریعہ بھی تو نہیں جس سے وہ اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے۔ گھر میں جو راشن تھا وہ ایک ہفتہ بھی چلنا مشکل تھا،کیا ہوگا؟ سوچ سوچ کراس کے دماغ کی نسیں پھٹی جارہی تھیں۔ دوسری طرف بیماری کمبخت پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھی۔

شام کو برکھو اس کی عیادت کو آیا۔ برکھو کے بارے میں مشہور تھا کہ گاوں کے غریب لوگوں کو بہلا پھسلا کر ان کی لڑکیوں کو شہر میں بھیجتا تھا۔اس کا کہنا تو یہی تھاکہ وہ گھروں میں کام کرنے کے لئے انہیں شہر بھیجتا ہے۔ لیکن شہر جانے کے بعد ان لڑکیوں کا کیا ہوتا ہے بہت کم لوگوں کو اس کی خبر ہوتی ہے۔ گاوں میں برکھو کے بارے طرح طرح کے قصے لوگوں میں مشہور ہیں۔ وہ برکھو کی فطرت سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس وجہ سے اس کی آمد کو اس نے اچھا شگون نہیں تصور کیا۔ اس کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اس سے کہہ دے کہ اسی وقت اس کے گھر سے نکل جائے ، اس کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا ۔ اس نے برا سا منہ بنایا۔

“مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے ناپسند کرتے ہو، مگر تمہاری بیماری اور بھینس کے مرنے کی خبر سن کر میں اپنے آپ کو روک نہیں پایا ۔“

” ہاں ، جس طرح مرے ہوئے جانور کو نوچنے کے لئے مردار جانور اپنے آپ کو روک نہیں پاتے “ دین محمد نے اپنی پوری طاقت لگادی ان جملوں کو ادا کرنے میں۔ بیماری کی وجہ سے وہ بستر پر پڑا تھا۔

برکھو نے اسے سہارا دے کر بٹھانا چاہا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔

”تم جیسا سمجھتے ہو میں ویسا نہیں ہوں، میں نے ہمیشہ دوسروں کی مدد کی ہے ۔ میں نے سنا کہ تم بیمار ہو تو تمہاری عیادت کرنے۔۔ ۔ “

”تم میری فکر مت کرو۔۔ میں صحیح ہوجاوں گا“دین محمد نے برکھو کا جملہ پورا ہونے سے پہلے ہی اس کو روک دیا۔

”لیکن برکھو ، اگر تو کسی غلط نیت سے آیا ہے تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے ۔ ہماری بھینس مری ہے تو کیا ہوا،میں ابھی زندہ ہوں ، میرے اندر ابھی بھی طاقت ہے ۔ “

”ابھی تم کو آرام کی ضرورت ہے “ برکھو نے اسے آرام کرنے کی صلاح دی۔

دین محمد کا دھیان اپنی بیٹی پنکی کی طرف گیا۔ وہ جوان ہوگئی تھی۔ سلمہ نے اس سے پنکی کا رشتہ ڈھونڈنے کو کئی بار کہا مگر ایسی حالت میں جہاں کھانے کو لالے پڑرہے ہوں شادی بیاہ کی بات کہاں سوجھتی ہے۔آج برکھو کو دیکھ کر اسے نہ جانے کیوں پنکی کی فکر ہونے لگی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ برکھو بغیر کسی مطلب کے نہیں آیا ہوگا۔ ضرور اس کا کوئی مطلب ہوگا۔

” تم ابھی بیمار ہو، اس وجہ سے سوچنے سمجھنے کے لائق نہیں ہو،پھر بھی جب کبھی میری ضرورت پڑے تو یاد کرلینا“ یہ کہتے ہوئے برکھو نے ایک شاطرانہ نظر دین محمد پر ڈالی اور دین محمد کے پاس سے اٹھتے ہوئے پورے گھر جائزہ لیا گویا کہ وہ اندازہ لگا رہا ہے کہ گاڑی میں کتنا تیل ہے ۔ کتنے دنوں تک یہ گاڑی چل سکتی ہے ۔

دین محمد کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے بستر سے اٹھ سکے ورنہ وہ انجام کی پرواہ کئے بغیربرکھو کا گلا دبادیتا۔ اس نے ایک بھدی سی گالی دی ۔

سلمہ دروازے کے پیچھے ساری بات سن رہی تھی، برکھو کے جاتے ہی وہ باہر آئی۔

” کیا کہہ رہا تھا برکھو“سلمہ نے پوچھا۔

”کچھ نہیں ، اس نے یہ سمجھا کہ ہم مجبورہیں اس وجہ سے ہمیں پھنسانے آیا تھا“

” ہائے اﷲ ، ہماری پنکی پر اس کی بری نظر پڑگئی“ سلمہ نے اپنے دوپٹے کو سرپر رکھتے ہوئے کہا جو بار بار لڑھک کر کندھے پر آجارہا تھا۔

”اے اللہ ہماری عزت تیرے ہاتھ میں ہے ، تو ہی اس کی حفاظت فرما“ سلمہ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیے ۔ وہ دیر تک معلوم نہیں کون کون سی دعائیں مانگتی رہی۔

اس رات دین محمدنے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ کہیں جا رہا ہے ۔ اچانک سامنے کی طرف سے ایک بڑا پتھرلڑھکتا ہوا ان کی طرف بڑھا ۔ اس سے بچنے کے لئے ان لوگوں نے بدحواش ہوکر ایک طرف کو دوڑ لگائی، پتھر کسی خطرناک جانور کی طرح ان کا پیچھا کرتارہا ۔پھر اچانک پنکی کا کپڑا ایک جھاڑی میں پھنس گیا وہ اسے بچانے کے لئے آگے بڑھا مگر اتنے میں وہ بڑا پتھر پنکی کے اوپرآگیا۔ پنکی اس کے نیچے دب گئی۔ مارے خوف سے اس کی چیخ نکل گئی ،وہ خوف سے مسلسل چیخ رہا تھا۔ سلمہ اور بیٹیاں بدحواشی میں بستروں سے کود پڑیں۔

”کیا ہو ا، چلا کیوں رہے ہو؟“اس کی بیوی نے اسے جھنجھوڑ کر خاموش کرانا چاہا۔ وہ بری طرح ہانپ رہا تھا۔ پیاس سے اس کی زبان سوکھی جارہی تھی۔ اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی چاروں طرف اندھیرا تھا۔

”پانی، ایک گلاس پانی “ بیوی کی آواز کی سمت منہ کرکے اس نے آواز لگائی۔

”لاتی ہوں، بابا۔ الٹی سیدھی باتیں دن بھر سوچتے رہتے ہو تو خواب میں بھی وہی دکھتا ہوگا۔“اس کی بیوی نے ہمدردی کے چند جملے کہنے کے بجائے جلی کٹی سنانا شروع کردیا۔ اتنی گہری نیند سے بے وقت اٹھنا اسے ناگوار گذرا تھا۔

اس کی بیماری بڑھتی ہی جارہی تھی۔ اب اسے کھانسی کے دورے بھی پڑنے لگے تھے ۔ بلغم کے ساتھ خون دیکھ کر سلمہ گھبرا گئی۔

” یہ تو ٹی بی کے لچھن ہیں، ہائے اﷲ اب میں کیا کروں“اس کی بیوی پریشان ہوگئی، پریشان ہونے کی بات بھی تھی۔ گھرمیں ایک پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ دوا دارو کہاں سے لائے ۔ اور اگر ایسے ہی چھوڑ دے تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ جب بھی کھانسی کا دورہ پڑتا سارے لوگ سہم سے جاتے ۔ وہ دھیرے دھیرے موت کی طرف قدم بڑھا رہا تھا۔ سبھی اداس تھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں۔

برکھو گھر کی حالت دیکھ چکا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بھینس کے مرنے کے بعد ان کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کی شاطر نگاہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ایک یا دو ہفتے بعد یہ شکار خود ہی ہمارے جال میں آجائے گا ۔ اس کے اندازے کے مطابق اب یہیمناسب وقت تھا۔

دروازے پر برکھو کو دیکھ کر دین محمد کی بیوی نے دروازہ کھول دیا۔ اور دین محمد کی چارپائی کی طرف اشارہ کرکے ایک طرف ہوگئی۔

برکھو نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ دین محمد کو سلام کیا جس کے جواب میں دین محمد نے اس طرح منہ بنایا جیسے کسی بچے کو کڑوی دوا پلا دی گئی ہو۔

”کہو اب طبیعت کیسی ہے ؟ “برکھو نے دریافت کیا ۔ ساتھ ہی ایک ماہر کاروباری کی طرح گردوپیش کا جائزہ لینے لگا۔ اس کو یقین ہوگیا کہ اب دین محمد انکار کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔

”ٹھیک ہی ہے “ دین محمد نے مختصر سا جواب دیا۔

”سنا ہے کہ تم کو ٹی بی ہوگئی ہے “برکھو نے بات بڑھانی چاہی۔ وہ دین محمد کے چہرے کا اتار چڑھا

¶ اور اس کا رد عمل دیکھنا چاہتا تھا۔


دین محمد نے کوئی جواب نہں دیا۔بس آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ بھی ایک جہاں دیدہ آدمی تھا ۔ باتوں کی تہ تک پہنچنا اسے بھی آتا تھا۔

”اگر تم کو بروقت علاج نہ ملاتو کچھ بھی ہوسکتاہے میرا مطلب ہے کہ تم میری بات سمجھ رہے ہوگے ۔ اور علاج کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے ، جو تم کو کوئی بھی مفت میں دینے سے رہا۔ “ برکھو نے بات بڑھائی ۔

”اگر میں مرگیا تو اس سے تمہارا کیا فرق پڑتا ہے“

”مجھے تو نہیں مگر تمہاری بیوی اورتین بچیوں کو ضرور فرق پڑے گا“

وہ سوچ میں پڑگیا، واقعی اگر اس کو کچھ ہوگیا تو اس کی بیوی بچوں کا کیا ہوگا۔ آدمی زندگی بھر بیوی بچوں کی فکر میں رہتا ہے ،اس کے لئے ذلتیں برداشت کرتا ہے۔آج اسے معلوم ہوا کہ اولاد کی فکر موت کا مرحلہ بھی مشکل بنا دیتی ہے ۔

اس کو فکر میں ڈوبا دیکھ کر برکھو سمجھ گیا کہ لوہا گرم ہے بس چوٹ کرنے کی دیر ہے ۔

” دین محمد، ذرا سوچو ایک بیٹی کو اگر تم دے دو تو اس کے بدلے میں تم کو اتنا روپیہ ملے گا کہ اپنا علاج بھی کرا لوگے اور اپنی باقی بیٹیوں کی شادی بھی بڑے دھوم دھام سے کر سکتے ہو ،تم ایک نہیں دو دو بھینسیں خرید سکتے ہو “

”برکھو ، تم غلط جگہ آگئے ہو، میں اپنی بیٹی کو بیچنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا “

برکھو نے سوچا کہ آدمی سخت ہے مگر اس کا نام بھی برکھو ہے وہ لوگوں کو رام کرنے کے فن میں ماہر تھا۔ اس نے اس وقت دین محمد پر کوئی زور زبردستی نہیں کی۔ اب وہ ہر دوسرے دین محمد کے پاس آنے لگا۔ دھیرے دھیرے دین محمد کے روئے میں تبدیلی محسوس کی جانے لگی۔ اب وہ برکھو کی موجودگی اس کے لئے اتنی ناگوار نہیں رہی۔

ایک دن موقع دیکھ کر اس نے دین محمد سے کہا:

” دین محمد، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ تم اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کا ہاتھ پیلا کردو“

”اچھا رشتہ ملنا بہت مشکل کا م ہے۔ اور مجھ جیسے غریب کے لئے تو اور بھی مشکل ہے۔“ دین محمد نے اپنی مجبوری بیان کی۔

”تم کہو تو تمہاری بیٹی پنکی کا بیاہ ہم ایک بڑے گھر میں کرا دیں۔ اوپر سے تمہیں کچھ پیسے بھی ملیں گے۔“

”وہ کیسے “دین محمد نے تعجب سے پوچھا اسے لگا کہ برکھو اسے دھوکا دینا چاہتا ہے ۔اس نے سوچا اگر برکھو اس سے بیٹی کا ہاتھ مانگ رہا ہے تو اس میں برا کیا ہے اوپر سے ایک بڑی رقم بھی اسے مل جائے گی ۔ لیکن اس نے تسلی کرنی چاہی کہ کہیں کوئی دھوکہ تو نہیں۔

” ہمارے پاس بہت سارے لوگ شہر سے ایسے بھی آتے ہیں جن کو دیہات کی بھولی بھالی لڑکی سے شادی کرنی ہوتی ہے وہ اس کے لئے کوئی بھی رقم دینے کے تیار ہوتے ہیں۔ “ برکھو نے دین محمد کو تسلی دی۔

دین محمد نے اتنے اہم معاملہ میں بیوی سے مشورہ کرلینا ضروری سمجھا۔ اس لیے برکھو کو کل آنے کو کہا۔

برکھو نے بھی جلد بازی کرنا مناسب نہیں سمجھا کہ اس سے بھی بات بگڑ سکتی ہے ۔ اور کل ہی کی تو بات ہے ، جیسے اتنے دن ویسے ایک دن اور سہی۔

رات میں برکھو کی تجویز کو لے کر میاں بیوی میں خوب تو تو میں میں ہوئی، لیکن برکھو نے جب اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ پنکی کو برکھو کو دے کر ہی رہے گا تو سلمہ کو خاموش ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ ویسے بھی عورتوں کی سنتا ہی کون ہے ؟ سلمہ نے ہار مانتے ہوئے جب پنکی سے رائے لینے کی بات کہی تو دین محمد نے اسے یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ ہم اس کے باپ ہیں اس کے اچھے برے کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ کیا جانے کہ شادی بیاہ کیا ہوتا ہے ۔

برکھو صبح ہی صبح دین محمد کے گھر پہنچ گیا۔ اسے رات بھر اسی بات کی فکر تھی کہ کہیں کوئی دین محمد کو بہکا پھسلا کر پھیر نہ دے ۔ برکھو کو دیکھ کر اس بار دین محمد نے ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔ بیٹھے کا اشارہ پاتے ہی برکھو دین محمد کے سرہانے بیٹھ گیا۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ شاید ان میں سے کوئی بھی خود سے ابتدا نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ دین محمد کے رویے میں آئی تبدیلی سے برکھو نے بھانپ لیا تھا کہ راستہ صاف ہے ۔ اس وجہ سے ماہر کھلاڑی کی طرح وہ کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آخر تجربہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ اب تک علاقے کی سیکڑوں لڑکیوں کو شہر بھیج چکا تھا۔ اسے پوری خبر ہوتی تھی کس کے یہاں کتنی لڑکیا ں اور کیسی ہیں۔ اس کی گہری نگاہیں آدمی کے دماغ کو بھی پڑھ لیا کرتی تھیں۔ کس کو کس طرح لائن پر لانا ہے اسے اچھی طرح معلوم تھا۔ اس نے اپنے بزنس کے لئے کچھ اصول بنارکھے تھے جن پر وہ سختی سے کاربند تھا ۔ برسوں سے یہی کاربار کررہا ہے اس کے باوجود پولیس اور کچہری کا لفڑا نہیں ہوا۔کہتے ہیں کہ اب تک اس کا نشانہ خطا نہیں گیا۔لڑکیا ں اس کو دیکھ کر سہم جاتی تھیں۔ جب کہ کئی لوگوں کے لئے وہ نجات دہندہ بھی تھا۔

”مجھے منظور ہے ، مگر میر ی بھی ایک شرط ہے ۔ “ آخر دین محمد نے بات کی ابتدا کردی ۔ اس نے بسترسے اٹھنے کی ناکام کوشش کی،بستر پر گرنے ہی والا تھا کہ برکھو نے اسے سہارا دیا۔ میلے کچیلے بستروں میں لپٹا دین محمد کو وہ عام حالتوں میں ہاتھ بھی نہیں لگاتا مگر یہاں تو اس کا اپنا مطلب تھا ۔دل جیتنے کے لئے کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ اسے سہارا دے کر دیوار کے سہارے بٹھادیا۔ اس کوشش میں دین محمد کی حالت غیر ہوگئی۔ دیر تک کھانسی کا سلسلہ چلتا رہا ۔

”بولو ، کیا شرط ہے “ برکھو نے گلا صاف کرتے ہوئے پوچھا۔

”ہم اپنی بیٹی کو بنا نکاح کے کسی کے ساتھ وداع نہیں کریں گے “

”بس ، یہی ایک شرط ؟ کچھ لین دین کی بات نہیں کروگے ؟“

لین دین کی بات پر دین محمد نے گردن جھکادی، حالات نے اس کو اس مقام تک پہنچادیا تھا کہ اس کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ ورنہ اس کی غیرت اس بات کو گوارا نہیں کررہی تھی وہ اپنی بیٹی کا سودا کرے ۔ وہ ہمیشہ ان لوگوں کی پر لعنت ملامت کرتا تھاجو اپنی بیٹیوں کو بیچ کر ان پیسوں پر عیش کرتے تھے ۔ آج وہی خود اپنی بڑی لڑکی کا سودا کرے تو دوسروں کو کیا منہ دکھائے گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ کچھ بولنا چاہا مگر زبان لڑکھڑا کر رہ گئی۔

دین محمد کو روتا دیکھ کر برکھو کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی ، دین محمد کے آنسو دیکھ کر اس کو ویسی ہی خوشی کا احساس ہوا جیسے پرندے کو جال میں پھڑپھڑاتا دیکھ کر ایک شکاری کو ہوتا ہے ۔ لیکن یہاں پر خوشی کا اظہار مصلحت کے خلاف تھا اس وجہ سے اس نے چہرے پر غم کے آثار ظاہر کرتے ہوئے اسے دلاسا دیا۔

” میرا مطلب ایسا کچھ نہیں تھا، مجھے تمہاری شرط منظور ہے ، میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا کہ میں تم سے لڑکی کا ہاتھ مانگتا ہوں۔ وہ ایسے گھر میں بیاہ کرجائے گی جہاں اس کو کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہوگی ۔ لڑکے والے تمہیں اگر اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہیں تو اس میں حرج ہی کیا ہے ؟ تم اپنی پوری زندگی میں اسے جو نہیں دے پاوگے وہ سب کچھ وہاں اسے ملے گا۔ اس سے کیا تمہیں سکون نہیں ملے گا؟ تمہاری بیٹی عیش کرے گی، عیش“ اس نے آخری جملے کو کافی زور دے کر کہا۔

”جیسی تمہاری مرضی“ اس نے نحیف سی آواز میں کہا۔

”ٹھیک ہے ، تمہیں پچاس ہزار روپئے ملیں گے ، جس میں سے آدھے روپئے کل مل جائیں گے ، باقی لڑکی کو وداع کرنے کے دن ، بو لو منظور ہے ؟“

” پچاس ہزار روپئے ؟؟ “اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔

”جی ہاں پورے پچاس ہزار“برکھو نے اپنی مونچھو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ پان کی پچکاری جو کافی دیر سے پریشان کررہی تھی اس کو مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کے بعد اس نے دین محمد کے چہرے کو غور سے دیکھا۔

” بولو رخصتی کب کر رہے ہو، دین محمد؟“

” جب آپ چاہیں“دین محمد ابھی تک پچاس ہزار کے سحر سے آزاد نہیں ہوا تھا۔ وہ تشکر کے جذبہ سے جھکا جا رہا تھا۔ اتنی بڑی رقم اس نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے اسی وقت پلان بنانا شروع کردیا کہ اس رقم سے کیا کرے گا۔ سب سے پہلے ایک بھینس لائے گا۔ اس کے بعد گھر کی مرمت کرائے گا۔ پوال کی چھپر کو بھی تین سال ہوگئے ، جگہ جگہ سے چھپر میں چھید ہوگیا جس سے وہ گھر کے اندر سوتے ہوئے آسمان دیکھا کرتا تھا۔ کئی بار نیا چھپر ڈالنے کو سوچا مگر اس کے لئے بھی بانس اور پوال تو خریدنا پڑتا ، جس کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ اس بار ان پیسوں سے ایسا گھر بنوائے گا کہ لوگ دور سے دیکھیں گے ۔ برجو کی بیوی اس کے گھر آکر بہت شان سے اپنے گھر کی تعریف کیا کرتی تھی ۔اس کے جاتے ہی اس کی بیوی اس سے بغیر کسی وجہ کے دیر تک لڑتی رہتی تھی۔ اب وہ اس سے اونچا مکان بنوا ئے گا ۔ اور ہاں اپنی دو بیٹیوں کی شادی اتنے دھوم دھام سے کرے گا کہ پورا گاوں تماشہ دیکھے گا۔ لیکن نہیں، سب سے پہلے اپنا علاج کرائے گا۔ علاج کی طرف دھیان جاتے ہی اس پر کھانسی کا دورہ پڑگیا۔

برکھو نے آگے بڑھ کر اس کی بیٹھ سہلانا شروع کردیا اور ساتھ ہی منہ پر ایک رومال رکھ لیا کہ کہیں ٹی بی کے جراثیم اس کے اندر نہ چلے جائیں۔

کھانسی کی وجہ سے دین محمداپنے سپنوں کی دنیا سے باہر آیا۔ اس نے نئے سرے سے ایک بار آس پاس کا جائزہ لیا۔ برکھو کے چہرے پر اس نے نظر ڈالی۔ آج وہ اسے ایک مسیحا نظر آرہا تھا۔

” کیا سوچ رہے ہو دین محمد، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ “ برکھو نے ہوشیاری سے بات آگے بڑھانی چاہی۔

”تم اپنی مرضی کے مطابق جو تاریخ رکھنی چاہو رکھ لو، ہم تیار ہیں“اس نے سارا کچھ برکھو کے اوپر چھوڑدیا۔

” آنے والے اتوار کو کیسا رہے گا“

”ٹھیک ہے اسی اتوار کو “

برکھو چلا گیا، دوسرے دن وعدے کے مطابق پچیس ہزار کی رقم دین محمد کے گھر دے گیا۔ دین محمد نے اس پہلے اتنی بڑی رقم نہیں دیکھی تھی۔ وہ بار بار اس کو گنتا۔ اس نے بیوی کو آواز دی،

“ دیکھو ، برکھو ہمیں پچیس ہزار دے گیا ہے ، وہ اسی اتوار کو وہ پچیس ہزار اور دے گا” اس نے خوشی اور جوش بھرے لہجے میں بیوی کومخاطب کیا۔

“ یہ روپئے تمہیں ہی مبارک ہوں، بیٹی کو بیچ کر اس کی قیمت پر خوش ہورہے ہو، شرم نہیں آتی؟” سلمہ نے اپنی نفرت اور بے زاری کا برملا اظہار کردیا۔ ویسے وہ عام طور پر شوہر سے زبان لڑانے والی عورت نہیں تھی۔ مگر یہاں اس کی بیٹی کی زندگی کا سوال تھا، اگر دین محمد اس کا باپ تھا تو وہ بھی ایک ماں کی حیثیت سے اس کے بارے میں فیصلہ لینے کا اختیار نہ سہی تو کم ازکم فیصلے میں شریک ہونے کا حق تو رکھتی ہے ۔

دین محمد بیوی کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔ اس نے وہ ساری پٹی جو برکھو نے اسے پڑھائی تھی اسے پڑھادی۔ لیکن اس کے باوجود وہ راضی نہ ہوئی۔

” جاو، قیامت کے دن میں تمہارا دامن پکڑوں گی، میری بیٹی تمہارا دامن پکڑے گی۔ “وہ رونے لگی۔

“ میرا دل صاف ہے ، اﷲ جانتا ہے ، میں کچھ غلط نہیں کررہا ہوں۔” دین محمد نے صفائی دی۔

جیسے جیسے دن قریب آرہا تھا ، گھر میں میاں بیوی میں تکرار بڑھتی جارہی تھی۔ ایک دن سلمہ نے زہر کھانے کی دھمکی دی ، اس دن دین محمد نے اسے بہت مارا۔ بچیاں سہم گئیں، پڑوس والے اکٹھا ہوگئے ، لوگوں نے دین محمد کو برا بھلا کہا۔ اور دنوں کو سمجھا بجھا کر چلے گئے ۔ اس دن کے بعد سلمہ نے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ دین محمد کی بیماری پچیس ہزار دیکھتے ہی ختم ہوگئی یا اس کو اپنی بیماری کے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں رہ گیا۔ اب وہ تندرست لگ رہاتھا۔ اب بھی اس پر کبھی کبھار کھانسی کا دورہ پڑتا۔ مگر اب ان فضول چیزوں پر دھیان دینے کے لئے وقت ہی کہاں تھا۔ وہ تو بیٹی کی وداعی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔

اس بیچ کسی نے پنکی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی، امی اور ابو کے روز روز کے جھگڑے سے اسے معلوم ہوگیا تھا کہ اس کی شادی کی بات ہورہی ہے ۔ دوسری لڑکیوں کی طرح اس کے بھی کچھ ارمان تھے ، مگر یہاں تو اس کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے سپنوں کا شہزادہ کون ہے ۔ اس کا نام کیا ہے ؟ وہ کہاں کا رہنے والا ہے ۔ اس کی ہمت ہی نہیں پڑتی کہ وہ امی یا ابو سے پوچھے ۔ کیا کہیں گے ، کتنی بے حیا ہے ، اپنی شادی کے بارے میں بات کرتی ہے ۔

آخر وہ دن بھی آگیا جب ایک بڑی سی گاڑی میں کئی لوگ بیٹھ کر آئے ان کے ساتھ برکھو بھی تھا۔ وہ اپنے ساتھ نکاح پڑھوانے کے لئے مولوی بھی ساتھ لائے تھے ۔

برکھو نے آگے بڑھ کر دین محمد کو سلام کیا۔ مہمانوں کو بیٹھنے کے لئے چار پائیاں بچادی گئیں۔ برکھو نے پورے مجمعے پر نظر ڈالی اور کہا :

” اب دیر نہیں کرنا چاہئے انہیں شہر واپس جانا ہے ۔ نکاح کا انتظام کیا جائے ۔“

دین محمد کی نظریں دولہے کو تلاش کررہی تھیں، آخر اس نے پوچھ ہی لیا کہ دولہا کہاں ہے ؟ دین محمد کے اس سوال پر برکھو نے کسی کو آنکھوں سے اشارہ کیا ۔ وہ دین محمد کے پاس آیا اور اسے گاڑی تک لے گیا۔

اس نے گاڑی کی طرف اشارہ انگلی سے اشارہ کیا۔

گاڑی کے اندر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ ایسالگتا تھا کہ وہ سیٹ بیلٹ سے بندھا ہے ، مگر قریب جانے پر معلوم ہوا کہ اس کو رسی سے باندھ کر رکھا ہے ۔ وہ سر نیچے کئے معلوم نہیں کیا دیکھ رہا تھا۔ آہٹ پاتے ہی اس نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔

” میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا ، حرام خورو“

اس کی دہاڑ سن کر سارے لوگ گاڑی کے پاس جمع ہوگئے ۔ وہ بھیڑ دیکھ کو اور بھی بد حواشی میں چلائے جارہا تھا۔ دولہا پاگل ہے یہ بات تیزی سے پورے گاوں میں پھیل گئی، گھر میں بھی لوگوں کو معلوم ہوگیا۔سلمہ کی چیخ نکل گئی ، ”ہائے اﷲ میری بیٹی کا کیا ہوگا؟“

دولہے کی یہ حالت دیکھ کر دین محمد کے اوسان خطا ہوگئے ۔ دین محمد نے قہر آلود نظروں سے دیکھا، آگے بڑھ کر اس نے برکھو کا گریبان پکڑنا چاہا مگر اس سے پہلے برکھو کا ایک زور دارگھونسہ اس کے منہ پر پڑا وہ چکرا کر زمین پر گر پڑا۔اس کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔

” برکھو ، تونے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے ، میں تجھے نہیں چھوڑوں گا“ وہ پوری قوت سے چلا رہا تھا۔

” میں نے کوئی دھوکہ نہیں دیا، تم نے لڑکے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، میں نے کہا تھا کہ تمہاری لڑکی ایک بڑے گھر میں جائے گی جہاں روپیے پیسوں کی ریل پیل ہوگی، بتاو کیا میں نے غلط کہا تھا؟“

دین محمد نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، مگر اس کو احساس ہوا کہ غلطی اسی کی ہے اسے ساری بات پہلے سے واضح کرلینا چاہئے تھا۔ اسے خود پر غصہ آرہا تھا کہ اس نے برکھو پر اتنا بھروسہ کیوں کیا؟ لیکن بات واضح نہ کرنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ برکھو اس کی پھول جیسی پنکی کو ایک پاگل سے بیاہ دے ، غصہ سے اس کی سانسیں اوپر نیچے ہورہی تھیں، اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ مٹھیاں بندھی ہوئی تھی۔ وہ ایک بار پھر برکھو کی طرف بڑھا مگر معلوم نہیں اسے کیا ہوا کہ وہ خود اپنی چہرے پر تھپڑ مارنے لگا۔ وہ بالکل پاگل ہوا جارہا تھا۔ جب تک لوگ اسے پکڑتے اس نے اپنا چہرہ خود سے مار مار کر لال کرلیا۔

”مجھے چھوڑ دو، غلطی میری تھی ، میں نے اپنی بیٹی کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے ، مجھے اس کی سزا ملنی ہی چاہئے “وہ مسلسل چلا رہا تھا۔

گاوں کے بڑے بزرگ بھی جمع ہوگئے ، برکھو نے صفائی دی کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایک بار اس کی شادی ہوجائے پھر اس کی دماغی حالت صحیح ہوجائے گی، یہ ایک بڑے خاندان کا لڑکا ہے ، اگر اس کی دماغی حالت صحیح ہوجائے تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ شادی کے وقت اس کی دماغی حالت کیا تھی۔ اور میں نے اس کے لئے پچیس ہزار روپئے ایڈوانس میں دئے ہیں اس وجہ سے یہ شادی سے انکار نہیں کرسکتا ۔

گاوں کے بڑے بوڑھوں نے بھی برکھو کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ویسے بھی پورے علاقے میں اس کے خلاف بولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی ۔ تھک ہار کر دین محمد نکاح گاہ میں بیٹھنے پر راضی ہوگیا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ نکاح نہیں جنازہ کی نماز پڑھنے کے لئے وہاں پر آیا ہے ۔ وہ پاگلوں کی طرح اپنے بال نوچ رہا تھا۔ اسے یہ احساس ستائے جارہا تھا کہ اپنی بیٹی کو جہنم کی آگ میں ڈھکیلنے کا ذمہ دار وہ خود ہے ۔ احساس ندامت اسے اندر سے پاگل کئے دے رہا تھا۔

نکاح کے بعد برکھو نے دین محمد کے ہاتھ پر باقی کے پچیس ہزار روپئے رکھ دئے ۔ وہ گم صم کھڑا تھا۔ پتھرائی نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ وہ پاگل کوئی اور نہیں وہی پتھر ہے جو اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی بیٹی اسے آواز دے رہی۔ ابو مجھے بچا لو۔ یہ پاگل آدمی مجھے مار ڈالے گا۔ وہ مسلسل آواز دیئے جارہی تھی۔ آواز اس کے کان کے پردوں کو پھاڑے جارہی ہے، اس نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لئے اچانک اس نے ایک چیخ ماری”میری بیٹی“ اور زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ سب نے اس کی طرف دوڑ لگائی ۔ نبض دیکھا گیا، سینے پر کان لگا کر دل کی دھڑکن سننے کی کو شش کی گئی مگر وہ ان سب کو چھوڑ کر کہیں اور جاچکا تھا۔ نوٹوں کی گڈیاں اس کے چاروں طرف بکھری پڑی تھیں۔

٭٭٭٭٭
 

شمشاد

لائبریرین
بے حس معاشرے کی ایک تصویر۔

عزیر صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اپنا تعارف تو دیں۔
 

مہ جبین

محفلین
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کہانی کو کیا ریٹنگ دی جائے؟؟؟ ان آئیکنز میں کوئی " درد بھرا " آپشن بھی ہونا چاہیئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہر حال ہمارے معاشرے کی بے حسی اور بے ضمیری پر ایک بھرپور طمانچہ مارتی بہترین تحریر ہے ساتھ ہی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے گمبھیر مسائل کی احسن انداز میں نشاندہی بھی ہے ۔
بہت ساری داد عزیر اسرائیل کے لئے
 
ایک ایسی کہانی جو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے ،میں سوچ رہا ہوں کیا آج کے اس اکیسویں صدی والے معاشرے میں بھی ایسا ہوتا ہے جسے ترقی یافتہ،بیدار یافتہ اور علم یافتہ کہا جاتا ہے -----ہوتا ہوگا تبھی تو ایک تخلیق کار نے اسے لکھا ہے---جس کے ایک ایک لفظ سے درد و کرب کی آواز صاف سنائی دے رہی ہے ۔۔۔۔بلاشبہ تخیلاتی گھوڑے کو بھی دوڑا کر اس طرح کی چیزیں لکھی جا سکتی ہیں ۔----لیکن پتہ نہیں کیوں میرا دل کہتا ہے کہ یہ ایک سچی کہانی ہوگی----ہمارا معاشرہ جیسا چمکدار دکھتا ہے ویسا ہے نہیں -----بے حسی، عیاری ،مکاری ،جھوٹ ،دھوکہ بازی ،کرپشن رگ و ریشہ میں بیٹھی ہوئی ہے ------اور یہ اس شخص کے اندر جو جتنا زیادہ پڑھا ہوا ہے اور جتنا بڑا ہے اتنا ہی زیادہ اس کے اندر برائی بھی ہے -----اور یہ کہانی اس کا منہ بولتا ثبوت ---- میرے اندر مزید لکھنے کی ہمت نہیں -----بس دعاگو ہوں اللہ آپ کے قلم میں مزید توانائی دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الہم زد فزد ۔۔۔۔۔ایک دو جگہ ٹائپو کی غلطیاں ہیں دیکھ لیجئے گا ۔۔۔۔۔۔(ایک جگہ سلامت کو صلامت لکھا ہے )۔
 
آپ سبھی لوگوں کی ہمت افزائی کے میں مشکور ہوں۔ میں اردو ادب کا ادنی طالب علم ہوں۔ محمد علم اللہ صاحب ، آپ نے جن غلطیوں کی نشاندہی کی ہے میں انشا اللہ اسے درست کرلوں گا۔ دراصل ہمارے ہندوستان میں دو ملک بستے ہیں ایک انڈیا دوسرا بھارت ہے۔ یہ بھارت کی کہانی ہے۔ ایسے کردار اب بھی مل جاتے ہیں۔ بس اس کے لئے گردن جھکاکر زمین دیکھ کر چلنا ہوتا ہے۔
 
اس فورم میں شمولیت کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تحریر پر لوگ کھل کر تبصرہ کریں۔ تاکہ ہمیں اپنی کمیوں کا علم ہوسکے۔
 
Top