بی ایس پروگرام

جاسمن

لائبریرین
بی اے/بی ایس سی پروگرام کے خاتمے کیلئے ایچ ای سی کا حتمی نوٹس
عمران گبول

لاہور: کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم (ایچ ای سی) نے ملک کی تمام سرکاری اور نجی جامعات اور ان سے منسلک کالجز کو آئندہ تعلیمی سال سے 2 سالہ گریجویٹ پروگرام (بی /بی ایس سی) ختم اور ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے لیے حتمی نوٹس جاری کردیا۔

اس کے علاوہ ان تعلیمی اداروں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ موجودہ پروگرام کے خاتمے کے بعد سال 2020 میں ایم اے / ایم ایس سی میں داخلے نہیں دے سکیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس اقدام کے بعد بی ایس پروگرام پر عمل نہ کرنے والے ڈگری کالجز کو اپنا موجودہ سیٹ اپ تبدیل کر کے نیا ایسوسی ایٹ ڈگری (اے ڈی) پروگرام شروع کرنا پڑے گا جس کے خدو خال ابھی تک واضح نہیں۔


ان کالجز کے پاس مجوزہ پروگرام کے لیے مطلوبہ صورتحال اور عملہ دستیاب نہیں جس سے اسٹیک ہولڈرز کے مابین ہزاروں طالب علموں کے مستقبل کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

ایچ ای سی کے حکم نامے کے مطابق بی اے اور بی ایس سی پروگرامز میں 31 دسمبر 2018 سے قبل داخلہ لینے والے طلبہ کو 31 دسمبر 2020 تک اپنی ڈگری مکمل کرنے کی اجازت ہوگی۔

تاہم جو طالبعلم اس میں ناکام رہے انہیں ڈگری دینے والے کالجز اور جامعات کی شرائط پر پوا اترنے کے بعد ایسو سی ایٹ ڈگری تفویض کی جائے گی۔

چنانچہ جو طالبعلم ایسوسی ایٹ ڈگری مکمل کریں گے وہ 4 سیمسٹرز کے برابر ہوگی تاہم وہ 4 مزید سیمسٹرز مکمل کر کے بی ایس کی ڈگری حاصل کرسکیں گے۔


علاوہ ازیں ایچ ای سی نے یونیورسٹیز کو ڈگری کی نئی اسکیم میں تبادلے کے حوالے سے معاونت فراہم کرنے کے لیے ایک دفتر قائم کرنے کی بھی ہدایت کردی۔

ایچ ای سی کے مطابق ایسوسی ایٹ ڈگری کا مقصد ہر ڈگری یافتہ طالبعلم کو ملک کے سیاسی، ثقافتی اور سماجی منظر نامے میں بھرپور طریقے سے کردار ادا کرنے کے لیے بنیادی تعلیم کے ساتھ مہارت فراہم کرنا ہے۔
بی اے/بی ایس سی پروگرام کے خاتمے کیلئے ایچ ای سی کا حتمی نوٹس - Pakistan - Dawn News
 

جاسمن

لائبریرین
کیا بی ایس پروگرام چلانا چاہتے ہیں؟
عابد تہامیJULY 25, 2016

آج کل یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب صوبہ بھر کے تمام کالجز میں دو سالہ بی اے ، بی ایس سی پروگرام اور ایم اے ، ایم ایس سی ختم کر کے اس کی جگہ چار سالہ بی ایس پروگرام اس سال سے شروع کر رہے ہیں لیکن شروع کرنے سے پہلے 2010ء میں پنجاب کے 26کالجوں میں شروع کیے گئے بی ایس پروگرام کے تجربے کو ضرور سامنے رکھنا چاہئے ۔اس پروگرام کے دو بیج فارغ ہو چکے ، آج چھ سال بعد بھی نہ تو یہ پروگرام کامیابی سے چلایا گیا اور نہ ہی چلانے کی کوششیں کی گئیں۔ 2010ء کو بادشاہی حکم پر بی ایس پروگرام شروع کیا گیا۔ اس وقت متعلقہ 26کالجوں میں سے کسی ایک کے پاس بیس فیصد بھی سہولتیں نہ تھیں ،آج بھی شعبہ جات میںایک بھی کمپیوٹر نہیں، جبکہ سمسٹر سسٹم میں ہروقت اسکی ضرورت ہوتی ہے۔ بی ایس پروگراموں کا الحاق یونیورسٹی سے کرانے کیلئے جس معیار کا ہونا ضروری تھا وہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا ۔ اسوقت ماہرین تعلیم نےاس پروگرام کی اصولی مخالفت کی اور تجاویز دیں کہ اسے شروع کرنے کیلئے ضروری سہولتیں یعنی لائبریری ، لیبارٹریز ، کمپیوٹرز، کلاس روم اور ٹیچرز کی خصوصی ٹریننگ کروائی جائے۔ ان کالجز میں دیگر جو دوسالہ پروگرام چل رہے ہیں انہیں فی الحال ختم نہ کیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ چلائے جائیں اور بی ایس کے جو جو پروگرام کامیاب ہو جائیں وہ دو سالہ ختم کر دیئے جائیں۔ لیکن شاہی فرمان کے سامنے انکی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ اسطرح ایک طرف غریب لوگوں کو نہ صرف سرکاری تعلیمی اداروں سے دور کر دیا گیا بلکہ ایک سازش کے تحت نجی تعلیمی اداروں کے تیز دھار خنجروں کے سامنے پھینک دیا گیا اور غریب لوگوں کیلئے ان 26کالجوں میں تعلیم کا حصول ناممکن بن گیا ۔ جن والدین نے کوششیں کر کے اپنے بچوں کو داخل کروایا وہ غیر یقینی حالت اور سیاہ مستقبل کی زد میں آ گئے ۔ پہلا بیج جو چار سال میں مکمل ہونا تھا وہ پانچ سال بعد مکمل ہوا اور ڈراپ آئوٹ کی شرح 90,80فیصد سے زائد رہی یہی حال دوسرے بیج کے ساتھ رہا۔ اس پروگرام کے آغاز میں کالجز کے پاس صرف بیس فیصد مارکس تھے جبکہ یونیورسٹی کے پاس 80فیصد اور خود یونیورسٹی یہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ پروگرام کامیاب ہوں ۔ اسی وجہ سے دو سال مکمل ہونے پر ایسوسی ایٹ ڈگری جاری نہ کی گئی۔ اسکے بعد جب محکمہ تعلیم کو کچھ احساس ہواکہ یہ پروگرام تو ختم ہو جائیگا تو اس نے ایسوسی ایٹ ڈگری جاری کرنیکا اعلان کر دیا لیکن اسکے بعد بھی کئی ایسے ڈسپلن تھے جن میں ایک بھی داخلہ نہ ہوا جبکہ اب بھی ڈراپ آئوٹ ریٹ 50سے60فیصد کے درمیان ہے۔ اسکے باوجود حکومت پنجاب خصوصا ًخادم اعلیٰ تمام کالجز میں چار سالہ پروگرام کو لاگو کرنا چاہتے ہیں ۔ ہونا تو وہی ہے جو شاہی فرمان ہوگا لیکن ذرا ٹھنڈے دل سے ان غلطیوں اور کوتاہیوں اور ان عوامل کا جائزہ لینا چاہئے جو اس پروگرام کو فیل کرنے میں کار فرمارہے۔
اس وقت بی ایس میں داخلے کیلئے وہ تمام طالبعلم اہل ہوتے ہیںجنہوں نے انٹرسائنس یا آرٹس کے ساتھ کیا ہو ۔بی ایس کے پہلے چارسمسٹرزمیں اسٹیٹ ، میتھ ، سوشیالوجی ، جینڈر اسٹڈیز ، پاکستان ا سٹڈی ، اسلامیات ، انگلش ، نفسیات ، اکنامکس اور انگلش جیسے مضامین پڑھائے جاتے ہیں اور یہ تمام مضامین انگریزی زبان میںپڑھائے جاتے ہیں ۔ جن دس شعبہ جات میں بی ایس ہو رہا ہے، ان میں سب سے زیادہ طالبعلم سوشیالوجی ، میتھ ،ا سٹیٹ ، نفسیات اور جینڈرا سٹڈیز میں ناکام ہو کر پہلے اور دوسرے سمسٹرمیں ہی چھوڑ جاتے ہیں ۔ کچھ طالبعلم انگریزی میں ناکامی کیوجہ سے چھوڑ جاتے ہیں ۔ صرف وہ طالب علم جنکا بیک گراونڈ ایف ایس سی خصوصاً پری انجینئرنگ کا ہوتا ہے وہ اسکو آگے لیکر چلتے رہتے ہیں۔ اسطرح بعض طالبعلموں کے والدین یہ افورڈ ہی نہیں کرتے کہ وہ چار سے پانچ سال تک بچوں کو تعلیم دلوائیں اور پھر کوئی نوکری نہ ملے وہ اپنے فیملی حالات کیوجہ سے چھوڑ جاتے ہیں، ان میں سے بعض والدین بچوں کو بی اے کی تعلیم دلوا لیتے ہیں ۔ سمسٹر سسٹم میں پڑھانے کیلئے ٹیچرز کی ٹریننگ ہی نہیں۔نیزروزانہ تین سے چار مختلف سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں مثلاً اسلامیات کے بعد میتھ پھر سوشیالوجی ساتھ ہی اسٹیٹ وغیرہ، جنکی وجہ سے طالبعلم کنفیوژ ہو جاتے ہیں۔
یہ چند بڑے بڑے مسائل ہیں ۔اگرحکومت پنجاب واقعتا تمام کالجز میں دو سالہ پروگرام کی جگہ چار سالہ پروگرام لانا چاہتی ہے تو درج ذیل تجاویز کارآمد ہوسکتی ہیں۔
1…تمام کالجزجہاں بی ایس پروگرام چل رہا ہے اور حکومت شروع کرنے جا رہی ہے انکا نصاب اور جن یونیورسٹیوں سے الحاق ہے وہ ایک جیسا ہونا چاہئے ۔

2…کالجز اور یونیورسٹی میں ایک ہی شیڈول کے تحت سمسٹرکا آغاز اور اختتام ہونا چاہئے ۔

3… مڈٹرم اور فائنل امتحانات کیساتھ ساتھ نتائج کا اعلان بھی ایک شیڈول کے مطابق ہونا چاہئے۔

4…یونیورسٹی اور کالجز کا کورس پیک ایک ہی ہونا چاہئے۔ پھر ہر سمسٹر میں پڑھائے جانیوالے مضامین یونیورسٹی اور کالجز میں ایک جیسے ہونے چاہئیں ۔

5…اگر طالبعلم دو یا چار سمسٹر کے بعد دوسرے کالج یا یونیورسٹی میں جانا چاہیںیا اپنے کریڈٹ آورز ٹرانسفر کروانا چاہیں تو انہیں یہ سہولت حاصل ہونی چاہئے اسطرح معیار تعلیم بہت بہتر ہو سکتا ہے ۔

6…بعض سمسٹرز میں پڑھایا جانیوالا کورس دو سال کے برابر ہے ، مثال کے طور پر جینڈرا سٹڈیز ، اسٹیٹ وغیرہ اور بعض سمسٹرز میں صرف کورس یا مضمون کا نام دے دیا گیا ہے ۔ مگر اسکی کوئی تفصیل نہیں ۔ اسلئے ایسے تحفظات کو دور کرنے کیلئے کالجز کیساتھ مشاورتی سیشن مسلسل جاری رہنے چاہئیں ۔

7… پرچوں کی مارکنگ 50 فیصد یونیورسٹی اور 50فیصد کالجز کے پاس ہونی چاہئے۔

8…یونیورسٹیز کے پیپر بنانے میں انٹر نل اور ایکسٹرنل کا کردار ایک جیسا ہونا چاہئے۔

9… بی ایس کو پڑھانیوالے ٹیچرز مخصوص ہونے چاہئیں۔ انکو بی ایس کو پڑھانے کی خصوصی تربیت دی جانی چاہئے ۔ ان کیلئے ہرچھ مہینے بعد ریفریشر کورس اوراور ینٹیشن کا اہتمام ہونا چاہئے۔

10…ایسے ٹیچرز جو بی ایس کو پڑھا رہے ہیں انکے اسکیل یونیورسٹی اسکیل کے مطابق ہونے چاہئیں ۔ یعنی یونیورسٹی میں ایک لیکچرار کو 18واں گریڈ دیا جاتا ہے وہ سارے کام کالجز کا لیکچرار بھی کرتا ہے مگر اسے گریڈ 17دیا جاتا ہے ۔

11… پنجاب کے جن 26 کالجوں میں 2010ء سے بی ایس پروگرام شروع ہے ، ان سب میں انٹرتک کی تعلیم کو ختم کر دینا چاہئے انکا اسٹیٹس یونیورسٹی کے برابر ڈیکلیئر کرنا چاہئے ۔ اور مزید وہاں ایم ایس یا ایم فل پروگرام شروع کرنے چاہئیں۔

12لیکن اس سے پہلے ان تمام کالجز میں جن سہولتوں کا فقدان ہے وہ دور کرنا چاہئے ۔ لیبارٹریز نہ صرف قائم کرنی چاہئیں بلکہ جہاں یہ موجود ہیں انہیں اپ ڈیٹ کرنا چاہئے۔

13…کالجز میں جن ٹیچرز کی کمی ہے وہ دور کی جائے ۔ اسی طرح سی ٹی آئی بھرتی کرنیکی بجائے ٹیچر کی مستقل بنیادوں پر بھرتی ہونی چاہئے اور بعض کالجز میں ٹیچرز موجود ہیں مگر سبجیکٹ میں ایک بھی طالبعلم نہیں اور یہ اسٹاف مفت تنخواہیں لے رہا ہے ۔اسلئے حکومت کومالی نقصان سے بچانا چاہئے ۔

14…اسی طرح آرٹس کے مضامین میں بی ایس شروع کرنا چاہئے مثلاًاردو، اسلامیات ، پاکستان اسٹیڈیز وغیرہ تاکہ جو طالبعلم مشکل مضامین نہیں پڑھ سکتے وہ ان میں داخلہ لے سکیں۔ اسطرح ہی سرکاری کالجوں کی افادیت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ورنہ نجی تعلیمی اداروں کی چاندی ہوگی۔

15…دوسال کی تعلیم مکمل کرنیوالے طالبعلم کو exit کی سہولت فراہم کی جائے ، انہیں ایسوسی ایٹ ڈگری جاری کی جائے اور آخری بات یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارو ں اور نجی تعلیمی اداروں کی فیس میں 25فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہونا چاہئے۔ اسطرح یہ چار سالہ پروگرام کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
کیا بی ایس پروگرام چلانا چاہتے ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
صرف خبریں ہی گردش نہیں کر رہیں بلکہ عملی قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ امسال بی اے/بی ایس سی میں داخلے نہیں ہوں گے۔ کالجز میں بی ایس شروع ہوگا۔
اور خبریں ہیں کہ ایف اے/ایف ایس سی کی تعلیم سکولوں میں دی جائے گی۔
 

میم الف

محفلین
صرف خبریں ہی گردش نہیں کر رہیں بلکہ عملی قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ امسال بی اے/بی ایس سی میں داخلے نہیں ہوں گے۔ کالجز میں بی ایس شروع ہوگا۔
اور خبریں ہیں کہ ایف اے/ایف ایس سی کی تعلیم سکولوں میں دی جائے گی۔
بی اے کریں یا بی ایس کریں
پڑھنا تو پڑے گا نا :(
 
آخری تدوین:

میم الف

محفلین
صرف خبریں ہی گردش نہیں کر رہیں بلکہ عملی قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ امسال بی اے/بی ایس سی میں داخلے نہیں ہوں گے۔ کالجز میں بی ایس شروع ہوگا۔
اور خبریں ہیں کہ ایف اے/ایف ایس سی کی تعلیم سکولوں میں دی جائے گی۔
مبارک ہو اب کوئی بی اے فیل نہیں ہو گا
بی ایس F ہی ہو گا
 
آخری تدوین:

میم الف

محفلین
ویسے پچھلے کچھ دنوں سے محفل پہ active ہوں
دو ہی لوگوں سے خبریں سننے کا موقع ملا ہے
ایک جاسمن صاحبہ
اور اگر جاسمن کا نون نکال دیں
تو دوسرے جاسم صاحب
جاسم و جاسمن اور روزنامہ خبروں میں کیا قدر مشترک ہے
یہ جاننے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اردو محفل کے سینئر نمائندے فرقان احمد سے۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
ویسے پچھلے کچھ دنوں سے محفل پہ active ہوں
دو ہی لوگوں سے خبریں سننے کا موقع ملا ہے
ایک جاسمن صاحبہ
اور اگر جاسمن کا نون نکال دیں
تو دوسرے جاسم صاحب
جاسم و جاسمن اور روزنامہ خبروں میں کیا قدر مشترک ہے
یہ جاننے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اردو محفل کے سینئر نمائندے فرقان احمد سے۔۔
جاسم محمد صاحب کی نون سے نہیں بنتی، اس لیے۔ :)
 

جاسمن

لائبریرین
ویسے پچھلے کچھ دنوں سے محفل پہ active ہوں
دو ہی لوگوں سے خبریں سننے کا موقع ملا ہے
ایک جاسمن صاحبہ
اور اگر جاسمن کا نون نکال دیں
تو دوسرے جاسم صاحب
جاسم و جاسمن اور روزنامہ خبروں میں کیا قدر مشترک ہے
یہ جاننے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اردو محفل کے سینئر نمائندے فرقان احمد سے۔۔

کیا آپ نے محمد عدنان اکبری نقیبی کے مراسلے نہیں دیکھے؟ وہ بھی اکثر خبریں شریک کرتے ہیں۔ میں تو نسبتاً کم ہی کرتی ہوں۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
یقینا، لیکن کالجز کے بجائے جامعات کا انتخاب بہتر ہونے کی وجہ سے کالجز خسارے میں ہی رہیں گے۔
اب تک ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ لیکن اب جبکہ مکمل طور پہ بی اے/ بی ایس سی ختم ہو چکے ہیں تو اب کیا صورت ہوگی۔۔۔میرا کچھ اندازہ یہ ہے کہ وسائل والے لوگ بہرطور جامعات کا رخ کریں گے اور ایسے طلباء جن کے پاس وسائل نہیں اور طالبات وسائل اور اجازت نہ ہونے کے سبب کالجز میں داخل ہوں گے۔
لیکن تعلیم کا معیار۔۔۔۔کیا ہوگا؟
ابھی سٹاف کی شدید کمی ہے۔
نیز سکولوں میں بھی ایف اے/ایف ایس سی کا کیا معیار ہوگا؟
بہت سے سوالیہ نشانات ہمارے ساتھ ہیں۔
ہم نجانے کب تعلیم کے شعبہ میں تجربات کرنا بند کریں گے؟
 

فرقان احمد

محفلین
دراصل، فی الوقت اردو فورم کی جو صورت حال ہے، اس میں ہر طرح کا مواد شریک کیا جا سکتا ہے اور یہ صورت حال تب تک برقرار رہے گی جب تک ہر اہم زمرے کے لیے الگ فورم تشکیل نہیں دیا جاتا ہے جس کی جانب ایک مرتبہ نبیل بھیا نے اشارہ کیا تھا۔ اگر ادباء اور شعراء زیادہ متحرک ہو جائیں تو ان کی شکایت کا ازالہ ہو سکتا ہے یا ادب اور علوم و فنون سے دلچسپی رکھنے والے محفلین مخصوص زمروں یا حتیٰ کہ اُن محفلین کو بھی نظرانداز کر دیں جو اُن کی نظر میں غیر متعلقہ مواد شریک کرتے ہیں۔ ہمیں کوئی مواد کم کم ہی غیر متعلقہ محسوس ہوتا ہے ویسے۔ اردو محفل فورم تو دراصل اسی کا عکس ہے جو کہ معاشرے میں ہمیں دکھائی دیتا ہے۔ ان دنوں سیاست کا بازار گرم ہے تو لا محالہ اردو فورم پر اسی طرح کے موضوعات سامنے آئیں گے۔ :)
اس وقت سرورق پر جو لڑیاں موجود ہیں، اُن کے موضوعات یہ رہے: دعائیہ کلمات،تعلیم و تدریس، اردو ادب، پابند بحور شاعری، پنجابی فورم، تصاویر، اصلاحِ سخن اور کھیل ہی کھیل؛ یعنی کہ ہمہ جہت موضوعات ہیں اور قریب قریب ہر کسی کی دلچسپی کا کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے۔ اور کیا چاہیے؟ :)
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
آئیڈیا صحیح ہے جو پاکستانی نظام کو باقی دنیا سے ملا دے گا۔ لیکن اس کے لئے کافی تیاری کی ضرورت ہے اور مجھے علم نہیں کہ اس سلسلے میں کیا کام کیا جا چکا ہے
 
آخری تدوین:
دو سال قبل بی ایس پروگرام کے سلسلے میں ایچ ای سی کی انتباہی چٹھی نظر سے گزری تھی۔ اب یہ رونا دھونا کیوں، دو سال کافی ہوتے ہیں۔

میرے گھر کے بالکل سامنے موجود واہ یونیورسٹی، کامسیٹس، کچھ دور واہ انجئینرنگ کالج، سویڈیش انسٹیٹیوٹ، ہائی ٹیک یونیورسٹی اور یو ای ٹی ٹیکسلا کامیابی سے بی ایس پروگرام شروع کر چکے ہیں۔ پتا نہیں کون لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
جبکہ اب بھی ڈراپ آئوٹ ریٹ 50سے60فیصد کے درمیان ہے۔
ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ بتائی گئی ہے جو مجھے صحیح نہیں لگ رہی۔
 

آصف اثر

معطل
میرے گھر کے بالکل سامنے موجود واہ یونیورسٹی، کامسیٹس، کچھ دور واہ انجئینرنگ کالج، سویڈیش انسٹیٹیوٹ، ہائی ٹیک یونیورسٹی اور یو ای ٹی ٹیکسلا کامیابی سے بی ایس پروگرام شروع کر چکے ہیں۔ پتا نہیں کون لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یہ تو آپ اشرافیہ کی بات کررہے ہیں،:) ہم ”متوسط اور غریب“ کالجز اور جامعات کی بات کررہے ہیں، جن کی بہتات ہے۔
 
Top