بی ایس پروگرام

جاسمن

لائبریرین
اب یہ رونا دھونا کیوں، دو سال کافی ہوتے ہیں۔
جب بی ایس کا فیصلہ ہوا تھا تب ہی سٹاف اور دیگر سہولیات و ضروریات کا تعین کر کے انتظامات شروع کردینے چاہییں تھے۔
QUOTE="عبدالقیوم چوہدری, post: 2170721, member: 7743"]ڈراپ آؤٹ کی شرح بہت زیادہ بتائی گئی ہے جو مجھے صحیح نہیں لگ رہی۔[/QUOTE]
یہ بات تو درست لگ رہی ہے کہ جامعات کالجز کے مقابلہ میں خود کو فوقیت دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کا تعصب جامعات اور کالجز میں پایا جاتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
جامعات کو بی اے،بی ایس سی پروگرام ختم کرنے کے فیصلے پر تحفظات - Pakistan - Dawn News

لاہور: ملک کی مختلف سرکاری جامعات وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بی اے/بی ایس سی سے متعلق اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کا ارادہ کررہی ہیں، جو لاکھوں طلبا کو بطور پرائیویٹ امیدوار ڈگری کے حصول سے دور کردے گا۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایچ ای سی کی جانب سے تمام سرکاری اور نجی جامعات اور منسلک کالجز کو حتمی ہدایت جاری کی گئی تھی کہ وہ 2 سالہ بی اے/بی ایس سی پروگرام کو ختم کردیں اور آئندہ تعلیمی سال سے ایسوسی ایٹ ڈگری (اے ڈی) پروگرامز شروع کریں۔
ساتھ ہی یہ سرکاری و نجی جامعات کو یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ 2020 کے بعد ایم اے/ایم ایس سی پروگرامز کی آفر نہیں کرسکتیں۔
اس کے علاوہ بی ایس پروگرامز آفر نہ کرنے والے ڈگری کالجز کے لیے ضروری ہے کہ نئے ایسوسی ایٹ ڈگری (اے ڈی) پروگرام کو شروع کرنے کے لیے اپنے موجودہ نظام کو تبدیل کریں لیکن اس کے لیے ابھی طریقہ کار کو حتمی شکل نہیں دی گئی۔
ایسے کالجز میں تجویز کردہ پروگرام شروع کرنے کے لیے مبینہ طور پر مطلوبہ ضروریات اور اسٹاف نہیں ہے اور انہیں اپنی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
تاہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یہ اقدام اسٹیک ہولڈرز میں تشویش کی وجہ بنا ہوا ہے کیونکہ یہ بڑی تعداد میں ان طلبا کو گریجویشن یا ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے سے محروم کردے گا جو بطور پرائیویٹ امیدوار شامل ہوتے ہیں۔
تعلیمی حلقے ایچ ایس سی کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اعتراض کر رہے ہیں کہ تعلیمی اداروں کی صلاحیت کو بڑھائے بغیر نئے انداز پر منتقل ہونے کی ہدایت پر موثر طریقے سے عمل نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے یہ بھی زور دیا کہ جامعات اور کالجز کے پاس یہ صلاحیت بھی نہیں تھی کہ وہ سیمسٹرز سسٹم کی ضروریات کو پورا کرسکیں اور ابھی بھی مختلف تعلیمی ادارے مطلوبہ ضروری صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے سیمسٹر سسٹم پر عملدرآمد کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایسے فیصلے راتوں رات نہیں لیے جاتے اور نہ ہیں بنیادی ضروریات کو پورا کیے بغیر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تمام ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوشن کے وائس چانسلرز نے ایچ ایس سی کے چیئرمین طارق بانوری کے ساتھ ملاقات میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے کچھ شیخ الجامعات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ انہوں نے ایچ ای سی کو بی اے/بی ایس سی اور ایم اے/ایم ایس سی پروگرامز کو مکمل طور پر ختم کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے تحریری طور پر لکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ای سی کے چیئرمین کو بتایا گیا کہ یہ ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرامز کو شروع کریں کیونکہ ان کے پاس اس مقصد کے لیے مطلوب وسائل نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں اس عمل سے سب سے زیادہ پرائیویٹ طلبا متاثر ہوں گے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر لوگ معاشرے کے کم مراعت یافتہ طبقے سے آتے ہیں اور ان کے پاس اچھے اداروں کی سہولت نہیں ہوتی ہے۔
 

آصف اثر

معطل
اس حوالے سے ایک خیال بار بار ذہن میں آتا ہےکہ چوں کہ یہ سب کچھ بیرونی تعلیمی اداروں کے دباؤ پر کیا جارہاہے لہذا کیوں نہ بی ایس سی کو پاکستان کے لیے برقرار رکھا جائے، تاکہ ملازمت اور تعلیمی اخراجات کے مسائل پر قابو پایا جاسکے، جب کہ جو طالب علم بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں اُن کے لیے بی ایس کی شرط رکھی جائے۔
 
یہ بات تو درست لگ رہی ہے کہ جامعات کالجز کے مقابلہ میں خود کو فوقیت دیتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کا تعصب جامعات اور کالجز میں پایا جاتا ہے۔
تعلیی درجات کی ادارہ جاتی تقسیم میں کچھ ترمیم ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں۔۔۔

پلے سے کلاس 4 تک پرائمری
5 سے 8 تک سیکنڈری
9 سے 12 تک کالج
اس سے اوپر یونیورسٹی

بی اے، بی ایس سی و مزید تعلیم یونیورسٹی لیول پر ہونی چاہیے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
IMG-20191020-WA0028.jpg
 
Top