بیکل اتساہی "لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی"

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
بیکل اتساہی
لئے کائنات کی وسعتیں ہے دیار دل میں بسی ہوئی
ہےعجیب رنگ کی یہ غزل، نہ لکھی ہوئی نہ پڑھی ہوئی
نہیں تم تو کوئی غزل ہوکیا، کوئی رنگ و بو کا بدل ہو کیا
یہ حیات کیا ہو، اجل ہو کیا، نہ کھلی ہوئی نہ چھپی ہوئی
ہے یہ سچ کہ منظرِخواب ہے میرے سامنے جو کتاب ہے
وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی
وہی ربطِ عکسِ جمال بھی، وہی خبطِ حُسنِ جمال بھی
وہی ضبطِ حُزن وملال بھی شبِ ہجررسمِ خوشی ہوئی
وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خدا جانے کاہے کو ماند ہے
یہ طِلِسْم ہے کسی حُسن کا، یا مری نظر ہے تھکی ہوئی
بیکل اتساہی
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہے یہ سچ کہ منظرِخواب ہے میرے سامنے جو کتاب ہے
وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی
کمال کا انتخاب سر۔ بہت شکریہ​
 

رانا

محفلین
وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خدا جانے کاہے کو ماند ہے
یہ طِلِسْم ہے کسی حُسن کا، یا مری نظر ہے تھکی ہوئی
بہت خوب۔ شکریہ
 

طارق شاہ

محفلین
ہے یہ سچ کہ منظرِخواب ہے میرے سامنے جو کتاب ہے
وہ جبیں کہ جس پہ گلاب کی کوئی پنکھڑی ہے پڑی ہوئی
کمال کا انتخاب سر۔ بہت شکریہ​
جناب نیرنگ خیال صاحب
اظہار خیال کے لئے آپ کا ممنون ہوں
اتسائی صاحب انڈیا میں کئی اعزازات سے نوازے گئے ہیں
ان کی یہ غزل پڑھنے پر ہمیشہ ہی (خواہ جتنی بار بھی پڑھوں)، مجھے لطف اندوز کرتی ہے

خوشی ہوئی کہ یہ آپ کے ذوق خوب پر بھی پوری اتری

بہت تشکّر
 

طارق شاہ

محفلین
وہ محل کی چھت پہ جو چاند ہے، خدا جانے کاہے کو ماند ہے
یہ طِلِسْم ہے کسی حُسن کا، یا مری نظر ہے تھکی ہوئی
بہت خوب۔ شکریہ
جناب رانا صاحب
بہت خوشی ہوئی کہ انتخاب آپ کو پسند آیا
اظہار کے لئے دلی ممنوں ہوں
بہت خوش رہیں
 
Top