بیٹی کی ہڈیاں تک نہ مل سکیں!

سین خے

محفلین
آپ اپنی دو ماہ پرانی لڑی کو رو رہے ہیں۔ یہاں تو آپ کی محفل پر پہلی پیدائش سے پہلے کی بھی اس موضوع پر لڑیاں ہیں۔

میرا مشورہ تو یہی ہے کہ اس موضوع کو نہ چھیڑا جائے
کہ اس سے کچھ محفلین کا خونی پن کچھ زیادہ ہی کھل کر سامنے آتا ہے

آپ کا مشورہ بھی بھلا معلوم ہوتا ہے۔

عرفان بھائی پھر رہنے ہی دیں۔ قاتل ہٹلر ہیرو بنا رہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
اوپن ہائمر کا تاریخی جملہ
زاہدہ حنا اتوار 11 اگست 2019

سانحہ کتناہی بڑا کیوں نہ ہو، اس پر وقت کی گرد پڑتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ لوگوں کی یاد میں پسِ پشت چلا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں دوسری جنگ عظیم جاپان کے دو جیتے جاگتے شہروں کی بھینٹ لے کر بند ہوئی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا قتال عظیم تھا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی، ان 2 شہروں کو نوالہ بنائے بغیر بھی جاپان ہتھیار ڈالنے والا تھا۔کچھ لوگ یہ نقطہ نظر رکھتے ہیںکہ امریکا اپنے اس نئے ہتھیارکو آزمانا چاہتا تھا اور اس کے ساتھ ہی دنیا پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتا تھا ، اس لیے اس نے یہ شرم ناک حرکت کی۔ وجہ کچھ بھی ہو، حقیقت یہی ہے کہ اگست 1945 میں ہیرو شیمااور ناگا ساکی کے لاکھوں لوگ بھاپ بن کر اڑ گئے۔ان کے سائے راکھ بن کر دونوں شہروں کے درودیوار پر بچھ گئے۔

اب ہرسال ان کی یاد میں جلسے ہوتے ہیں۔ تقریریں ہوتی ہیں ، بچے شمعیں اورکاغذ کی قندیلیں جلاتے ہیں اور یہی کہا جاتا ہے کہ آیندہ ہم کبھی ایٹمی ہتھیاروں کی طرف نہیں دیکھیں گے، لیکن جیسے ہی دو ایسے ملکوں کے درمیان تنا تنی ہوتی ہے جو ایٹم بم رکھتے ہوں تو دونوں ایک دوسرے کو دھمکانے لگتے ہیں۔ان جلسوں کی روداد پڑھ کر اور تصویریں دیکھ کر مجھے 1818 میں شائع ہونے والا میری شیلے کا ناول ’’فرنکنسٹائین‘‘ یاد آتا ہے۔

اس ناول کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک سائنس دان کوکچھ بہت پرانی ہڈیاں ملتی ہیں جنھیں یکجا کرکے وہ انھیں زندگی دیتا ہے، اس سائنسی تجربے کے نتیجے میں ایک عفریت جنم لیتا ہے۔اس عفریت کو وہ پلوٹارک کی ’’تاریخ مشاہیر یونان وروما‘‘ ، گوئٹے کا ’’فاؤسٹ‘‘، ملٹن کی ’’فردوس گم شدہ‘‘ اور دوسرا کلاسیکی ادب پڑھاتا ہے۔ وہ عفریت سوچ سکتا ہے، محسوس کرسکتا ہے، اس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش جاری رہتی ہے، طیش کی حالت میں وہ اپنے خالق، اس کی دلہن اور اس کے دوست کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے، اس کے بعد اس کے اندر پچھتاوا جاگتا ہے۔ وہ خود کو انسان اور تہذیب انسانی کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے اسی لیے خودکشی کا راستہ اختیارکرتا ہے اور قطب شمالی کے برفانی طوفان میں نکل جاتا ہے، جہاں کچھ لوگوں کو اس کے نقش قدم نظر آتے ہیں لیکن اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔

میری شیلے کی یہ کہانی مجھے اس لیے یاد آئی کہ انسان نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کی صورت میں جس عفریت کو زندہ کیا، اس نے نہ ’’پیرا ڈائز لاسٹ‘‘ پڑھی ہے اور نہ ’’فاؤسٹ‘‘، وہ عفریت نہ سوچ سکتاہے اور نہ محسوس کرسکتا ہے، اس کے اندر نیکی اور بدی کی کشمکش بھی نہیں ہوتی، اسے ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں کو تہس نہس کر دینے کا پچھتاوا بھی نہیں ہے۔ اس کی نسل تیزی سے بڑھ رہی ہے، وہ عفریت جس نے امریکا کے ایک صحرا میں جنم لیا تھا، اس کی نسل اب ہمارے برصغیر کے صحرا اور پہاڑوں تک آپہنچی ہے۔ یہ عفریت ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے بے تاب ہے اور ہم ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کے اس دشمن کی پیدائش پر بھنگڑا ڈالتے ہیں، مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور چراغاں کرتے ہیں۔

ایک جاپانی دانشور ڈاکٹرکٹیانو اس وقت لاہور میں تھیں جب انھوںنے لوگوں کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا ’’آپ نے ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی کو دیکھنا تو دورکی بات ہے شاید اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہ ہوگا۔ میں نے ایٹم بم کے اثرات دیکھے ہیں۔ انھیں اپنے بدن پر محسوس کیا ہے۔ ناگاساکی پر اترنے والی قیامت کا شکار ہونے والی عورتوں میں سے ایک میری نانی بھی تھیں۔ مجھے اپنے مسخ شدہ چہرے پر اپنی نانی اور ان جیسی سیکڑوں عورتوں کے زخموں کی جلن محسوس ہوتی ہے۔ میری ایک آنکھ بصارت سے محروم ہے اور میرا بایاں ہاتھ مردہ ہے۔ میں نے اسی مسخ شدہ بدن کے ساتھ جنم لیا۔ انسانیت نے مجھے ورثے میں یہی کچھ دیا۔ میری ماں بھی معذور تھی کیونکہ اسے ناگاساکی میں ایٹمی تابکاری کا شکار ہونے والی عورت نے جنم دیا تھا۔ یہ سب کچھ اسی ایٹمی ’’معجزے‘‘ کی مہربانی ہے جس پر آپ جشن منا رہے ہیں ۔ کیا ہر لمحہ ایٹمی جنگ کے دہانے پرکھڑے رہنے کا مطلب ملکی تحفظ ہے؟ میری دعا ہے کہ ایسا وقت کبھی نہ آئے کہ کوئی پاکستانی یا ہندوستانی اپنے نومولود بچے کو پہلی مرتبہ گود میں اٹھائے اور دیکھے کہ جہاں اس کی آنکھیں ہونا چاہیے تھیں وہاں صرف دو سوراخ ہیں۔ خدا نہ کرے کہ آپ کے بچے بے نور آنکھوں، مردہ ہاتھوں اور مسخ چہروں کے ساتھ اس دنیا میں آئیں۔‘‘

ڈاکٹرکٹیانوکے اس خط کا حوالہ میں اپنی کئی تحریروں میں پہلے بھی دے چکی ہوں، اس لیے کہ یہ ایک ایسی عورت کاخط ہے جس نے اور جس کی نسل نے ایٹمی تباہی کو خود بھوگا ہے۔

یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے ایک فلم Planet of the Apes بھی یاد آئی۔آپ میں سے اکثر نے یہ فلم دیکھی ہوگی،اس کا اختتام رونگٹے کھڑے کردیتا ہے۔ ستاروں پرکمند ڈالنے والے کن پستیوں میں اترتے ہیں، ارتقا کے سفر سے گزر کر دنیا کی عظیم تہذیبوں کے خالق اور وارث جو ہزاروں برس بندروں اور بن مانسوں کو پنجروں میں قید کرتے رہے،اور ان کی ہنسی اڑاتے رہے، پھر کس طرح ان کے قیدی اور ان کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا توہین آمیز سلوک برداشت کرتے ہیں، یہ ایک تخیلاتی فلم کے منظر سہی لیکن یہ سوچنے والے ذہنوں میں بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔

انسان، اپنی نسل کا کیسا دشمن اور اپنی ہی تہذیب کا کیسا اندھا شکاری ہے، انیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک اس موضوع پر ان گنت کہانیاں لکھی گئیں، فلمیں بنیں، تحقیق ہوئی، وقت نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو دنیا بھرکے لیے عبرت کے نشان کے طور پر ہمارے سامنے رکھ دیا۔

امن کی تحریک نے انیسویں صدی میں جنم لیا تھا، بیسویں صدی میں عالمی سطح پر ہونے والی دو بڑی جنگوں اور بے شمار خونیں جنگوں، لڑائیوں اور مسلح تصادم نے عالمی امن تحریک کو دنیا کے تمام خطوں تک پھیلادیا۔ یہ تحریک عالمی امن کے حق میں لاکھوں افراد کے جلسے اور جلوس منظم کرنے تک ہی محدود نہیں رہی ہے۔ یہ مہلک ہتھیاروں میں تخفیف اور جوہری ہتھیاروں میں مرحلہ وارکمی کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کی بات کرتی ہے۔

میں ذاتی طور پر International Pacifist Movement کے اسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ دنیا کے تمام امن دوست افراد کو اس کرئہ ارض سے جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا چاہیے۔ امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس کی حکومتوں پر بیرونی امن تحریکوں اور خود ان ملکوں کی Pacifistتنظیموں کو اس بارے میں دباؤ بنانا چاہیے تاکہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ملکوں سے اس عفریت کا خاتمہ ہوسکے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے برصغیرکی فکر کرنی چاہیے جہاں دونوں طرف شعلہ بیانی اور دشمنی میں حد سے گزر جانے والوں کی کمی نہیں۔ دونوں ملکوں میں غربت اور بھک مری اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ بیروزگاری اور جہالت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن برصغیر کے عوام کو زیادہ دردناک اجتماعی موت کی طرف دھکیلنے کا کھیل اب بھی جاری ہے، اس ہولناک کھیل کو دونوں ملکوں کے عوام مل کر ہی روک سکتے ہیں۔

آئن اسٹائن نے نازی جرمنی کے جنگی جنون سے گھبرا کر امریکی صدرکو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر اکسایا تھا، لیکن اسے جب ان ہتھیاروں کی ہولناک تباہ کاریوں کا اندازہ ہوا تو وہ فوراً ہی اس کے خلاف متحرک اور فعال ہوگیا تھا، ناگاساکی اور ہیرو شیما کی تباہی کے بعد اس کی پشیمانی اور احساسِ جرم انتہا کو پہنچا اور اس نے اپنی باقی تمام زندگی امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے لڑتے ہوئے گزاردی ۔اسی حوالے سے اس نے لکھا:’’ ہمارے سامنے دو راستے ہیں، یا تو ہم جوہری اسلحے سے نجات حاصل کرلیں یا نسل انسانی کی مکمل تباہی اور اس کے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار ہوجائیں۔‘‘

وقت کا کیسا الم ناک مذاق ہے کہ وہ شخص جو ہیروشیما اور ناگاساکی پرگرائے جانے والے بموں کا باپ کہا جاتا ہے اور جس کا نام جے آر اوپن ہائمر تھا، آخرکار وہ اس جوہری عفریت کے بارے میں یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہوا تھا کہ:

’’(ان ہتھیاروں کے خلاف) تمام دنیا کے عوام کو ہر قیمت پر متحد ہونا پڑے گا، ورنہ ہم سب کے سب صفحۂ ہستی سے نیست و نابود ہوجائیں گے۔‘‘
 

عرفان سعید

محفلین
کافی متنازعہ سا موضوع ہے جس میں جذباتی عوامل زیادہ کار فرما ہو جاتے ہیں۔

ایک مثالی (یا خیالی یوٹوپین دنیا) میں کسی انسان کو دوسرے انسان کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہیئے، کوئی جنگ نہیں ہونی چاہیئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں 'مائٹ از رائٹ'، جس کی لاٹھی اسکی بھینس اور جنگل کا قانون رائج ہے۔ ایٹم بم کا استعمال بھی اس قسم کی کڑی ہے، جس کی کچھ وجوہات یہ ہو سکتی ہیں:

ہتھیاروں کا عملی مظاہرہ اور کارکردگی
دنیا میں کوئی ہتھیار میوزیم میں سجانے کے لیے نہیں بنتا بلکہ دشمنوں کے خلاف استعمال ہونے کے لیے بنتا ہے۔ ایٹم بم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہر جنگ میں نئے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں، ان کی کارکردگی جانچی جاتی ہے۔ ہزاروں سالوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے۔ عراق اور افغانستان میں کتنے ہی نئے ہتھیار جانچے گئے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں نئے سے نئے ہتھیار بنائے اور استعمال کیے گئے سو ایٹم بم بھی استعمال کیا گیا۔ دور کیوں جائیں، ابھی اسی سال فروری میں انڈیا پاکستان کی ایک معمولی سی جھڑپ میں جے ایف 17 تھنڈر کی عملی کارکردگی جانچی گئی، نتیجے کے طور پر اسکی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی۔

جنگ میں برتری
نیا اور مہلک ہتھیار جنگوں میں فتح دلاتا ہے۔ آرینز جب گھوڑوں کی پشت پر سوار ہو کر حملہ آور ہوتے تھے تو وہ گھوڑے صرف انکی سواریاں نہیں تھے بلکہ جنگی ہتھیار بھی تھے۔ دراوڑوں نے اس وقت گھوڑے دیکھے بھی نہیں تھے۔ سو ان سواروں کے مقابلے میں پیادے فوجی مٹ گئے۔ لوہے کے ہتھیاروں کا اولین استعمال، یا توپوں کا اولین استعمال یا دور تک مار کرنے والی بندوقوں کا اولین استعمال، یا ہوائی جہازوں کا اولین جنگی استعمال، جنگ میں برتری اور فتح حاصل کرنے اور دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے ہی تھا۔ ایٹم بم کا استعمال بھی اسی سلسلے میں آتا ہے۔ اس کے استعمال نے امریکہ کو نہ صرف جاپان کے خلاف بلکہ پوری دنیا میں ایک ناقابلِ شکست سی برتری دلا دی۔ دوسری طرف جنگ میں "پہل" یا "سرپرائز" بھی ایک انتہائی اہم ایڈوانٹج ہوتا ہے۔ اس زمانے میں امریکہ کے ساتھ ساتھ سوویت یونین اور نازی جرمنی بھی ایٹمی ہتھیار کے چکر میں تھے۔ امریکہ نے پہل کر کے ایک اہم جنگی برتری حاصل کر لی۔

ایمپیرئیل جاپان کو شکست دینا
آج جاپان ایک مظلوم ملک ہے جس کے لاکھوں شہری مار دیئے گئے لیکن دوسری جنگ عظیم اور اس سے پہلے جاپان ایک خطرناک اور خوفناک عالمی طاقت تھا۔ یورپ میں جنگ ختم ہونے کے بعد بھی جاپان جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب ایک آدھ خود کش حملہ آور سے دنیا لرزتی ہے لیکن جاپان کا ہر سپاہی ایک خود کش حملہ آور تھا۔ ایمپیریئل جاپان کی تاریخ پڑھیے، زیادتیوں اور وار کرائمز سے بھری پڑی ہے۔ چین، کوریا اور دوسرے مشرقِ بعید کے ملکوں میں جاپانی ایمپیرئیل فوج نے کچھ اندازوں کے مطابق تیس لاکھ سے لے کر ایک کروڑ چالیس لاکھ تک عام شہری مار دیئے تھے۔ یہ پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے، جس پر دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جاپانی حکام بار بار معافی مانگتے رہے ہیں اور اب تک مانگتے ہیں۔ خاص طور پر چین میں کئے جانے والی جاپانی 'وار کرائمز' ناقابل یقین حد تک خوفناک ہیں جو کہ جاپان پر ایٹم بم کے استعمال کے بعد سے پس منظر میں جا چکے ہیں لیکن جاپانیوں ہی کی طرح کبھی ان (چینیوں) سے پوچھیں جن پر جاپان نے یہ ظلم کئے تھے اور جن کے زخم بھی آج تک تازہ ہیں۔

اوپر درج کیے گئے کچھ عوامل "غیر انسانی" سے لگتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی حقیقت ہے اور جب تک دنیا میں "مائٹ از رائٹ" کا قانون ہے تب تک یہ ہوتا رہے گا۔ باقی رہا ایٹم بم کے استعمال کو امریکہ کا ایک "وار کرائم" سمجھنا تو عرض ہے کہ وار کرائمز صرف مفتوح پر لاگو ہوتے ہیں۔ فاتح اس سے بری الذمہ ہوتا ہے۔ ابھی تک بڑے بڑے مجرموں میں سے نازی جرمنی اور ایمپیرئیل جاپان ہی وار کرائمز کے کٹہرے میں کھڑے کیے گئے ہیں کیونکہ وہ فتح کر لیے گئے تھے۔

یہ غیر جذباتی سے عوامل میں نے آپ کے کہنے پر لکھ دیئے، جہاں تک جذبات کی بات ہے، تو میرا ایک بہت پرانا شعر ہے:

اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نے کسی کی مات ہو
اس لڑی کو دیکھتے ہوئے یہ وقیع تبصرہ ایک بار پھر نظر سے گزرا۔
آہ!
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
 

سیما علی

لائبریرین
امریکہ صاحب بہادر کی طرف سے
بس چلے تو اب بھی دنیا کونیست و نابود کریں
ویت نام جنگ کے دوران امریکہ نے ویت نام پر70لاکھ بم برسائے۔ یہ تعداد دوسری جنگِ عظیم کے دوران گرائے جانے والے امریکی بموں سے دوگنا تھی،لیکن تمام تر جنگی مظالم و جرائم کے با وجود امریکی یہ جنگ نہ جیت سکے۔بلکہ ویت نام جنگ اب تک امریکی فوج،حکومت اور عوام سب کے لئے ایک بھیانک خواب ہے ۔جنرل جیاپ کی قدیم چینی جنگی حکمت عملی ”سین زُو” کے طریقوں اور گوریلا جنگ کے طریقوں نے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں جیتی جا سکتیں۔انہیں جیتنے کے لئے عزم ،حوصلہ، دلیری اور استقامت ہی اصل بنیاد ہے۔
 
Top