بیوی کا شوہر سے انوکھا مکالمہ

ذوالقرنین

لائبریرین
جزاک اللہ! اچھی تحریر ہے۔
اگر میرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف ایک شادی کی ہے۔ بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ باقی مسلم ائمہ کو دکھانے کے لیے مطلقہ یا بیواؤں سے شادی کی ہے۔ تاکہ ان عورتوں کی بھی حق تلفی نہ ہوں جو بیوہ یا مطلقہ بن جانے کے بعد معاشرے کی نظر میں اضافی بوجھ بن جاتے ہیں۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
تحریر تو اپنی مثال آپ ہے، اور کیوں نہ ہو لکھنے والا بھی دیکھیں ۔۔۔!!!
اور اس تحریر پر صرف انہی لوگوں نے پسند اور تبصرے کی زحمت کی ہے جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ یہ بہترین سوچ والے لوگ ہیں
تحریر اور تحریر پر تبصرے دیکھ کر بہت مزہ آیا، اور اپنے اندازے کا پکا ثبوت ملنے پر بے حد خوشی بھی ہوئی
زلفی، محمود غزنوی، شمشاد، ذوالقرنین اور وغیرہ وغیرہ آپ سب لوگوں کے نام ایک "زندہ باد " کا نعرہ

اور ثانی صاحب آپ نے حد کردی، چراغ تلے اندھیرا والا معاملہ ہے
اول خویش بعد درویش کے شاید آپ قائل نہیں، خواتین کا درد تو آپ کے جگر میں ہے مگر یہ آپ کا یہ چھوٹا بھائی جو ابھی تک اصلی معنوں میں کنوارا یا پھر لنڈورا کہہ لیں
دہائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دہائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
 

یوسف-2

محفلین
<p style=" margin: 12px auto 6px auto; font-family: Helvetica,Arial,Sans-serif; font-style: normal; font-variant: normal; font-weight: normal; font-size: 14px; line-height: normal; font-size-adjust: none; font-stretch: normal; -x-system-font: none; display: block;"> <a title="View Anokhi Biwi on Scribd" href="" style="text-decoration: underline;" >Anokhi Biwi</a> by <a title="View Yousuf Sani's profile on Scribd" href="http://www.scribd.com/yousuf_sani_1" style="text-decoration: underline;" >Yousuf Sani</a></p><iframe class="scribd_iframe_embed" src="http://www.scribd.com/embeds/149479...6opfuq2i0f6mg2lnax8&show_recommendations=true" data-auto-height="false" data-aspect-ratio="0.749792186201164" scrolling="no" id="doc_73639" width="100%" height="600" frameborder="0"></iframe>
 

عمر سیف

محفلین
جزاک اللہ ۔۔
اللہ ایسی سگھڑ عقلمند بیوی سب کو عطا کرے۔ آمین
-------------------------------------------
سب کہیں ثم آمین ۔۔۔۔ :cool:
 

یوسف-2

محفلین
عسکری پا جی! آپ نے وہ مقولہ نہیں سنا کہ اگر (میرے یا آپ جیسا :D ) ایک مرد ”سدھر“ گیا تو ایک گھرانہ سدھر گیا۔ لیکن اگر ایک عورت (بیوی :grin: ) سدھر گئی تو پوری ایک نسل سدھر گئی۔ :)
 
بہت عمدہ تحریر، اور واقعی ایک اہم مسئلہ کے کم از کم ایک حل کی جانب راہ دِکھلاتی جو کہ ہمارے معاشرے میں ناممکنات میں تصور کیا جاتا ہے لیکن عرب ممالک میں بیواؤں کی تعداد انتہائی حد تک کم ہے کیوں کہ وہاں اس کے فوری حل کے لیے معاشرتی ضابطے پہلے سے موجود ہیں، اور اس بات کو برائی نہیں سمجھا جاتا کہ بیوہ عورت شوہر کے انتقال کے بعد پھر سے ایک نئی زندگی شروع کر سکے بلکہ اسے ایک معاشرتی فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا فوری تدارک کیا جاتا ہے۔

ہمارے یہاں کا المیہ یہی ہے کہ ہمارا میڈیا بجائے اس طرح کے رویوں اور تعلقات کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرے وہ صرف اور صرف اس کے منفی پہلو ہی اجاگر کرتا ہے۔ ساس بہو اور نند اور بھابھی اور دو سوتنوں یا سوکنوں کے بیچ اچھے مراسم اور مثالی تعلقات بہت ہی کم دِکھائے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بلا شبہ یہی ہے کہ رشتے نہ آنے، اور بچیوں کے گھروں میں بیٹھے رہنے کے مسئلوں کا ایک انتہائی جائز اور مناسب حل موجود ہونے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں اس کا خوف اور ہراس موجود ہے اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اجتناب کی چاہے بچیاں بوڑھی ہی کیوں نہ ہو جائیں۔

ایک کیس سٹڈی شئیر کرنے کو بہت جی چاہتا ہے لیکن کچھ اندیشے لاحق ہیں کہ ایسا کرنا ٹھیک ہو گا یا نہیں شئیر اس وجہ سے کہ نوجوانوں کو ایک مثبت راہ بھی دکھلائی جا سکے اور اندیشہ یہ کہ کہیں خودنمائی، دکھلاوہ یا کسی ایسے معنوں میں نہ آ جائے بات۔

اور ساتھ ہی ساتھ میرا شمشاد بھائی سے اس تحریر کو طنزومزاح میں رکھنے پر احتجاج بھی، کہ اس کے لیے "ہمارا معاشرہ" ایک موزوں زمرہ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
امجد بھائی آپ احتجاج کرنے سے پہلے مذاکرات کر لیتے تو احتجاج کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔

لیکن کیا ہے کہ پاکستانی قوم کو احتجاج کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ توڑ پھوڑ کی جا سکے۔
 
امجد بھائی آپ احتجاج کرنے سے پہلے مذاکرات کر لیتے تو احتجاج کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔

لیکن کیا ہے کہ پاکستانی قوم کو احتجاج کرنے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ توڑ پھوڑ کی جا سکے۔
صدقے جاؤں شمشاد بھائی، ہمارے بھولے ارباب اختیار اور کالم نگاروں کے جن کو احتجاج سے پہلے کا ایک طویل سلسلہ نظر ہی نہیں آتا اور جب عوام بے بسی کا غصہ نکالنے نکل پڑتی ہے تو کہتے ہیں احتجاج سے پہلے مذاکرات کا مرحلہ ہے، اور احتجاج پر غصہ بھی اپنا پورا غصہ احتجاج کرنے والوں پر ہی نکالتے ہیں اور اس پورے دور کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جب یہ احتجاج کرنے والے پک رہے ہوتے ہیں۔

یہ تو تھا معاشرے کا المیہ اب اس مراسلے میں بھی دیکھ لیں کتنی جگہوں پہ دبی دبی آواز اٹھائی گئی کہ بہت سنجیدگی سے لکھی گئی تحریر طنزومزاح میں ڈال دی گئی، وغیرہ وغیرہ۔:)

لیکن معاشرے کے باقی اربابوں میں اور آپ میں فرق یہی ہے کہ آپ احساس ہونے یا دلانے پہ مان جاتے ہیں اور انہیں خیال اربابیت سے سبکدوش ہونے کا بعد آتا ہے۔ :)

اور احتجاج کے پہلے مرحلے پر ہی عوامی امنگوں کا خیال رکھنے اور ایک ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کا شکریہ، اس لیے توڑ پھوڑ نہیں ہوئی۔
اور معاملات بخیروخوبی انجام پا گئے اللہ سارے ملک میں یہی ریت چلا دے آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
لیکن اب آپ کا ہر مراسلہ ماڈریٹر کی منظوری کے بعد ہی منظر عام پر آیا کرے گا کہ "ہمارا معاشرہ" اسی قابل ہے۔
 

ملائکہ

محفلین
بھئی یہ پتہ نہیں کونسی شاعرانہ دنیا کی کہانی لکھی ہے۔۔۔ ایسی کوئی عورت نہیں ہوگی جو خود اپنے شوہر کو بولے کہ دوسری شادی کرلو اپنی پرسکون زندگی میں مصیبت لے آئے۔۔۔ جہاں مرد 2 شادیاں کرتے ہیں وہاں بہت سے مسئلے اور مسائل ہوتے ہیں۔۔۔ میں ایک عورت ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنے شوہر کو کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتی ۔۔۔ جب مرد شئیر نہیں کرسکتا تو بیوی بھی نہیں کرسکتی ۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
ایک کیس سٹڈی شئیر کرنے کو بہت جی چاہتا ہے لیکن کچھ اندیشے لاحق ہیں کہ ایسا کرنا ٹھیک ہو گا یا نہیں شئیر اس وجہ سے کہ نوجوانوں کو ایک مثبت راہ بھی دکھلائی جا سکے اور اندیشہ یہ کہ کہیں خودنمائی، دکھلاوہ یا کسی ایسے معنوں میں نہ آ جائے بات۔
۔
امجد بھائی! اب ”اندیشہ ہائے دور دراز“ کے سبب ”خمِ کاکل کی آرائش“ تو ترک نہیں کی جاسکتی نا :) آپ کیس اسٹڈی کو ضرور شیئر کیجئے۔ چراغ سے چراغ جلے گا تو روشنی ہوگی ۔ ان شاّ اللہ
 

یوسف-2

محفلین
  1. بھئی یہ پتہ نہیں کونسی شاعرانہ دنیا کی کہانی لکھی ہے۔۔۔
  2. ایسی کوئی عورت نہیں ہوگی جو خود اپنے شوہر کو بولے کہ دوسری شادی کرلو اپنی پرسکون زندگی میں مصیبت لے آئے۔۔۔
  3. جہاں مرد 2 شادیاں کرتے ہیں وہاں بہت سے مسئلے اور مسائل ہوتے ہیں۔۔۔
  4. میں ایک عورت ہوں اور مجھے پتہ ہے کہ کوئی بھی لڑکی اپنے شوہر کو کسی اور کے ساتھ شئیر نہیں کرسکتی ۔۔۔
  5. جب مرد شئیر نہیں کرسکتا تو بیوی بھی نہیں کرسکتی ۔۔۔

سسٹر ملائکہ!
  1. عرب مسلم ورلڈ میں یہ ایک عام سی بات ہے کہ بیویاں اپنے شوہر کی دوسری اور تیسری شادی کراتی ہیں۔ یہ مسلم خواتین برصغیر پاک و ہند کی ایسا نہ کرنے والی بیویوں کو سی طرح حیرت سے دیکھتی ہیں جیسے آپ کو اس کہانی کی بیوی کو دیکھ کر ہوا۔ واضح رہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی ”سوچ“ میں ہندووانہ اور بعد ازں انگریزی کلچر کا بہت بڑا عمل دخل ہے
  2. جواب اوپر موجود ہے۔
  3. مسئلہ اور مسائل تو وہاں بھی کم نہیں جہاں مرد ایک شادی کرے یا ایک بھی نہ کرے اور گرل فرینڈز کے ساتھ باری باری زندگی گذارے :grin:
  4. یہ درست ہے کہ ایک عام دنیا دار لڑکی بخوشی ایسا نہیں کرتی۔ لیکن جسے اپنی دیگر ایسی محروم بہنوں کا خیال ہو جو ”قحط الرجال“ کے سبب شوہروں سے محروم رہ جاتی ہیں تو پھر ایسی مسلم خاتون اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچتی ہے۔ اور اپنے مال و اسباب، گھر بار حتیٰ کہ شوہر میں بھی محروم بہنوں، بیواؤں، مطلقہ کو شریک کر کے جنت میں بلند مرتبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ کیونکہ ہمارے رول ماڈل صحاب کرام اور صحابیات کرام رضی اللہ تعلیٰ عنہما ہیں نہ کہ آج کل کے مرد و زن
  5. نو کمنٹس ۔ (ایک مسلمان مرد اس لئے ”شیئر“ نہیں کرسکتا کہ اُسے ایسا کرنے کا ”اختیار“ اللہ نے نہیں دیا ہے۔ جبکہ اللہ نے مردوں سے زیادہ عورتوں کو تخلیق کرکے صرف مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے کا راستہ دکھلایا ہے، جس پر انبیاء نے عمل کرکے بھی دکھایا۔)
 

یوسف-2

محفلین
جب مسلمان مردوں نے اپنی بیویاں اپنے محروم بھائیوں کو ”بخش“ دیں!

ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے محروم مہاجرین اور مدینہ کے انصار کے مابین مواخات کا عظیم الشان رشتہ قائم کیا تو انصار نے نہ صرف یہ کہ اپنے مال و دولت کا ایک حصہ اپنے مہاجر بھائی کو بخش دیا بلکہ جن انصار کی ایک سے زائد بیویاں تھیں، انہوں نے اپنی کسی ایک بیوی کو طلاق دے دی تاکہ بے گھرمہاجر بھائی اس سے شادی کر سکے۔ اور اس اسلامی بھائی چارہ کو انصار کی بیویوں نے بھی بخوشی قبول کرلیا کہ کسی نے بھی اس پر صدائے احتجاج بلند نہیں کیا۔ ”قربانی“ کی یہ اعلیٰ مثالیں اسلامی تاریخ کا شاندار حصہ ہے، جس سے ہم عموماً بے خبر ہیں۔:)
 

شمشاد

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا ہی ہوا تھا لیکن وہ حالات کچھ اور تھے۔ مہاجر تھے کہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خالی ہاتھ آئے تھے۔

(یہاں تو سب کچھ لوٹ کر بھی مہاجر کے مہاجر ہی ہیں، نہ ہجرت کی نہ قربانی دی، باپ دادا بھی یہیں پیدا ہوئے، پھر بھی مہاجر)
 

ملائکہ

محفلین
سسٹر ملائکہ!
  1. عرب مسلم ورلڈ میں یہ ایک عام سی بات ہے کہ بیویاں اپنے شوہر کی دوسری اور تیسری شادی کراتی ہیں۔ یہ مسلم خواتین برصغیر پاک و ہند کی ایسا نہ کرنے والی بیویوں کو سی طرح حیرت سے دیکھتی ہیں جیسے آپ کو اس کہانی کی بیوی کو دیکھ کر ہوا۔ واضح رہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی ”سوچ“ میں ہندووانہ اور بعد ازں انگریزی کلچر کا بہت بڑا عمل دخل ہے
  2. جواب اوپر موجود ہے۔
  3. مسئلہ اور مسائل تو وہاں بھی کم نہیں جہاں مرد ایک شادی کرے یا ایک بھی نہ کرے اور گرل فرینڈز کے ساتھ باری باری زندگی گذارے :grin:
  4. یہ درست ہے کہ ایک عام دنیا دار لڑکی بخوشی ایسا نہیں کرتی۔ لیکن جسے اپنی دیگر ایسی محروم بہنوں کا خیال ہو جو ”قحط الرجال“ کے سبب شوہروں سے محروم رہ جاتی ہیں تو پھر ایسی مسلم خاتون اپنی ذات سے بلند ہوکر سوچتی ہے۔ اور اپنے مال و اسباب، گھر بار حتیٰ کہ شوہر میں بھی محروم بہنوں، بیواؤں، مطلقہ کو شریک کر کے جنت میں بلند مرتبہ حاصل کرلیتی ہیں۔ کیونکہ ہمارے رول ماڈل صحاب کرام اور صحابیات کرام رضی اللہ تعلیٰ عنہما ہیں نہ کہ آج کل کے مرد و زن
  5. نو کمنٹس ۔ (ایک مسلمان مرد اس لئے ”شیئر“ نہیں کرسکتا کہ اُسے ایسا کرنے کا ”اختیار“ اللہ نے نہیں دیا ہے۔ جبکہ اللہ نے مردوں سے زیادہ عورتوں کو تخلیق کرکے صرف مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے کا راستہ دکھلایا ہے، جس پر انبیاء نے عمل کرکے بھی دکھایا۔)

ویل دنیا میں نیکی کرنے کے اور بھی طریقے ہیں صرف یہی ایک طریقہ نہیں رہ گیا۔۔۔ میں ایگری نہیں کرتی یہ میرا اپنا فیصلہ ہے باقی لوگوں کی مرضی کریں نا کریں۔۔۔
 

یوسف-2

محفلین
شمشاد بھائی! آپ کی بات اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے، لیکن یہاں زیر بحث موضوع مہاجر، ہجرت اور قربانی وغیرہ ہرگزنہیں ہے۔ یہاں بات لائف پارٹنر کی ”شئیرنگ“ کی ہورہی ہے۔ کہا گیا کہ”
جب مرد شئیر نہیں کرسکتا تو بیوی بھی نہیں کرسکتی“
اس کے جواب میں لکھا گیا کہ ایک مسلمان مرد اپنی بیوی کو شیئر کیوں نہیں کرسکتا۔(اسلام میں ایک عورت کا بیک وقت دو شوہر رکھنا حرام ہے۔ جبکہ دین اسلام کی تعلیمات سے دور ”مسلمان خواتین“ اور دیگر مذاہب میں کسی ایک عورت کا کئی مردوں سے بیک وقت تعلق رکھنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ) مسلمان عورتیں تو اللہ کے قرآنی حکم پرابتدا ہی سے ”سوکنوں“ کو برداشت کرتی چلی آئی ہیں۔ البتہ تاریخ اسلام میں اجتماعی طور پر کم از کم ایک مرتبہ (مواخات کے موقع پر) مسلمان مردوں نے بھی تقریباً ایسا ہی کیا تھا اور اپنی ایک بیوی اپنے منہ بولے بھائیوں کو ”بخش“ دی تھیں۔
 
Top